Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 12
کیا زکوٰة کی مقدار متعین نہیں؟
کیا زکوٰة کی مقدار متعین نہیں؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ایک شخص کا یہ کہنا ہے کہ ”زکوٰة“ کی مقدار ڈھائی فیصد متعین نہیں ہے، بلکہ یہ حاکم کی صوابدید پر ہے کہ حاکم اس مقدار میں جس طرح چاہے کمی بیشی کرسکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس شخص کا یہ قول شرعاً درست ہے یا نہیں؟ جبکہ آج تک ہم زکوٰة ڈھائی فیصد کے اعتبار سے ہی ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ براہ کرم مفصل اور مدلل جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔ جزاکم اللہ ۔ فقط

ایک سائلہ کراچی

الجواب حامداً ومصلیاً
جواب سے قبل چند امور ملاحظہ فرمایئے:جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے نبی اکرم ا کی رسالت پر ایمان رکھنا ضروری اور جو شخص قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتا ہو اس کے لئے ضروری بلکہ مجبوری ہے کہ وہ حضوا کے فرمودات کو قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کے لئے ضروری جانے، ورنہ بے ایمانی اور بے دینی لازم آئے گی۔ اسی لئے اسلام میں جس طرح قرآن کریم پر عمل ضروری قرار دیاگیا ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ پر بھی عمل ضروری قرار دیاگیا ہے۔ احادیث مبارکہ در حقیقت قرآنی آیات واحکام کی تفسیر اور تشریح ہیں۔ احادیث پر عمل کئے بغیر قرآن پر عمل ممکن نہیں۔ قرآن کریم میں مطلق نماز کی ادائیگی کا حکم ہے، تعداد رکعات، اس کی ہیئت اور اس کی دیگر شرائط کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے، بلکہ احادیث مبارکہ میں ہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں مطلق اداء زکوٰة کی فرضیت کا حکم تو موجود ہے، لیکن اب کونسی چیز قابل زکوٰة اور کونسی نہیں اور کتنے مال پر کتنی مقدار زکوٰة واجب ہے؟ اس کی وضاحت اور تشریح پورے قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں، بلکہ رسول اللہا نے اپنے قول کے ذریعہ زکوٰة کے تمام احکام ومسائل بیان فرمائے۔ مسلمانوں کے لئے جس طرح قرآن کریم حجت ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ بھی حجت ہیں، آپ ا اور صحابہ کرام  کے اقوال وتشریح کو سامنے رکھے بغیر قرآن کریم پر عمل قطعاً ممکن نہیں اور جو لوگ اپنے الحاد کی بناء پر احادیث مبارکہ کو علیحدہ سمجھتے ہیں، ایسے لوگ گویا دینِ اسلام کے منکر ہیں۔
یہ اصول ذہن میں رہے کہ شریعت کے جو مسائل واحکام منصوص یعنی قرآن کریم یا احادیث مبارکہ سے ثابت شدہ ہیں اور ان کا کوئی حکم ”مطلق“ حیثیت میں بغیر کسی قید کے بیان کیا گیا ہو، کسی خاص زمانہ یا مکان کے ساتھ نہ بتایا کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں اس منصوص حکم میں اپنی طرف سے کوئی قید لگانے،حدبندی کرنے یا اس میں تغیر وتبدل کا حق واختیار نہیں، خواہ کوئی حاکم ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس مطلق حکم کو اپنے اطلاق پر باقی رکھا جاتا ہے اور بغیر کسی قید کے اس حکم پر عمل کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔مقدار ِ زکوٰة کا مسئلہ بھی اسی قبیل ہے جس کی پوری صراحت اور وضاحت حضورا کے فرامین میں موجود ہے۔ذیل میں وہ احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں جن میں رسول اللہا نے اموال زکوٰة میں سے سونا، چاندی کے لئے ”مقدار نصاب“ اور ”مقدار زکوٰة“ کی بڑی صراحت کے ساتھ تعیین فرمادی ہے اور یہ احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ مقدار نصاب کی طرح مقدار زکوٰة بھی منصوص اور ثابت شدہ ہے:سنن ابی داؤد میں ہے:
۱…عن عاصم بن ضمرة عن الحارث الاعور، عن علی …عن النبی ا انہ قال ہاتوا ربع العشور من کل اربعین درہما درہم ولیس علیکم شئ حتی تتم مائتی درہم فاذا کانت مائتی درہم ففیہا خمسة دراہم، الخ
(باب فی زکوٰة السائمة، ص:۲۲۷،ج:۱)
۲․․․․عن علی  عن النبیا ببعض أول الحدیث…قال فاذا کانت لک مائتا درہم وحال علیہا الحول ففیہا خمسة دراہم ولیس علیک شئ یعنی فی الذہب حتی یکون لک عشرون دیناراً فاذا کانت لک عشرون دیناراً وحال علیہا الحول ففیہا نصف دینار… (سنن ابی داؤد، ص:۲۲۸،ج:۱)
ترجمہ:․․․حضرت علی آپ ا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا: جب کسی کے پاس دوسو دراہم ہوں اور ان پر ایک سال گذر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوة واجب ہوگی اور سونے میں کچھ واجب نہیں، یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس بیس دینار تک نہ ہو جائے، پس جب بیس دینار ہوجائیں اور ان پر سال گذر جائے تو ان میں آدھادینار(بطور زکوة ) دینا ہوگا۔
۲…قال الحافظ: لم یخالف فی أن نصاب الزکوة مائتا درہم یبلغ مائة وأربعین مثقالاً من الفضة الخاصة إلا ابن حبیب الاندلسی، فانہ انفرد بقولہ: ان کل أہل بلد یتعاملون بدراہمہم وذکر ابن عبد البر اختلافاً فی الوزن بالنسبة إلی دراہم لأندلس وغیرہا من دراہم البلاد وکذا خرق المریسی الإجماع فاعتبر النصاب بالعدد لا الوزن ۔ (فتح الباری ۴/۳۹۶-۳۹۷ )
۳…”وقال الموفق:إن نصاب الفضة مائتا درہم لاخلاف فی ذلک بین علماء الإسلام وقد بینہ السنة وہی ما فی البخاری وغیرہ فی کتاب أنس۔ ”وفی الرقة ربع العشر فإن لم یکن إلا تسعین ومائة فلیس فیہا شئ إلا أن یشاء ربہا… وأجمع أہل العلم علی أن فی مائتی درہم خمسة دراہم… قال ابن رشد فی البدایة المقدار الذی تجب فیہ الزکوة من الفضة فإنہم اتفقوا علی أنہ خمسة أواق“۔ (أوجز المسالک،کتاب الزکاة ۵/۴۹۳-۴۹۴ ط:بیروت)
دار قطنی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے :
”عن عبد الله بن مسعود قال: قلت للنبی علیہ السلام ان لإمرأ تی حلیا من ذہب عشرین مثقالاً قال فأد زکاتہ نصف مثقال“۔ (نصب الرایة،ص:۳۷۳،ج:۲)
مذکورہ بالا صریح روایات واحادیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ اموال زکوٰة کا نصاب اور اس کی مقدارشریعت کی طرف سے منصوص اور مقرر ہے جس پر امت مسلمہ کا متواتر اجماع چلا آرہا ہے۔
اگر کوئی شخص اس کے خلاف نظریہ رکھے اور یہ سمجھے کہ ”مقدار زکوٰة“ میں حاکم کو کمی بیشی کا حق حاصل ہے اور اس کی صوابدید پر منحصر ہے تو یہ نظریہ دین اسلام کے مقررہ احکام کے خلاف ہے ایسا عقیدہ رکھنے والا بیک وقت احادیث مبارکہ اور اجماع امت کا منکر کہلائے گا جس پر کفر کا اندیشہ ہے۔
”فی شرح المنار ان مقادیرالزکوٰةثبتت بالتواترکنقل القرآن واعدادالرکعات وھذایقتضی کفر جاحد المقدار فی الزکوٰة“ (البحرالرائق،ج:۲،ص۳۹۳)
حاصل یہ کہ مذکورہ شخص کا قول شریعت کی رو سے بالکل غلط اور درجہٴ کفر کو پہنچانے والاہے۔ لہذا عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے بدعقیدہ اورفتنہ پرور شخص سے دور رہیں، کسی قسم کا تعلق قائم نہ کریں، اس کی مجالس میں جانااور اس کے بیانات وغیرہ کو سننا ایک مسلمان شخص کے لئے سخت مضر اور نقصان دہ ہے، اپنے آپ کو اس فتنہ سے محفوظ رکھتے ہوئے اہل حق علماء سے اپنا تعلق مضبوطی سے جوڑے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین

الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری ابوبکر سعید الرحمن

کتبہ

محمد داؤد

دار الافتاء

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں مدارس دینیہ کا کردار !
Flag Counter