Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

3 - 12
اسرارِ قبلہ !
اسرارِ قبلہ

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند قدس اللہ سرہ نے خاص اس موضوع پر قبلہ نما کے نام سے ایک مستقل تحریر لکھی ہے، جو علم لَدُنّی کے حقائق ومعارف کا گنجینہ اور اسرار ولطائف کا ایک خزینہ ہے، ہم اس مقام پر نہایت اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ مع اضافہٴ شواہد ہدیہٴ ناظرین کرتے ہیں۔ اصل مضمون حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا ہے اور شواہد کا اضافہ حضرت مولانامحمدادریس کاندھلوی کی طرف سے ہے۔افادہ عام کی غرض سے ہدیہ قارئین ہے۔ (ادارہ)
حق جل شانہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا اور عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے معبود کے سامنے اپنے عجز ونیاز کا اظہار کرے اور آدابِ عبودیت بجالائے، اس لئے ضروری ہوا کہ عابد اور معبود میں آمنا سامنا ہو، اور آمنا سامنا ہونے کے لئے بظاہر مکان اور جہت درکار ہے اور اللہ تعالیٰ جہت اور مکان سے پاک اور منزہ ہے، کیونکہ وہ تو خود جہت اور مکان اور زمان کا خالق ہے، اور انسان جسم اور روح سے مرکب ہے، سو عبادتِ روحانی کے لئے تو کسی جہت اور مکان کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ روح مکانی نہیں۔ روح خداوند ذوالجلال کی بے چونی اوربے چگونی کا نمونہ ہے، جیساکہ حدیث میں ہے:” خلق اللّٰہ آدم علی صورتہ“، اس لئے روح کی عبادت کے لئے قلبی اور معنوی توجہ کافی ہے، کسی قبلہ اور جہت کی ضرورت نہیں۔
البتہ عبادتِ جسمانی بدون تقابلِ جہت متصوّر نہیں اور انسان چونکہ مقیّد فی الجہة ہے، اس لئے اس کو یہ حکم دینا کہ جہت سے علیحدہ ہوکر عبادت کیا کرو تو یہ تکلیف مالایطاق ہے اور فقط روحانی عبادت کافی نہیں، بلکہ روح اور جسم دونوں ہی مکلف ہیں۔
روحانی عبادت کی طرح جسمانی عبادت بھی فرض اور لازم ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ روح تو عبادت کی مخاطب ہو اور جسم معطل رہے؟ اور یہ بھی مناسب نہیں کہ ہرشخص جس طرف چاہے سجدہ کرلیا کرے اور ہرایک اپنا قبلہ بنائے، اس لئے خداوند کریم نے ایک جہت مقرر فرمادی، تاکہ ایک سمت متعیّن ہوجائے اور ملت کے انتظام میں فرق نہ آئے، کیونکہ جو جہت اللہ کی طرف سے مقرر ہوگی، اس میں کسی کو ردّ وبدل کی گنجائش نہ ہوگی۔ باقی رہا یہ امر کہ اس خاص سمت کی تعیین کی وجہ کیا ہے؟ سو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اور اگر یہ اجازت ہوتی کہ جس طرف کو جس کاجی چاہے وہ سجدہ کرلیا کرے تو اس میں انتظام اور اتفاق کی کوئی صورت نہ تھی اور ظاہر ہے کہ اتفاق ایک نہایت محمود اور پسندیدہ چیز ہے۔
حق جل شانہ کی ذات چونکہ بے چون وچگون ہے، اس لئے وہ کسی حد میں محدود اور مقید نہیں، البتہ اس کی کوئی تجلی اور کوئی پر تو کسی محدود اور مقیّد پر پڑسکتا ہے، جیسے آفتاب کا عکس اور پرتو آئینہ پر پڑتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آئینہ فقط ایک مظہر اور نمائش گاہ ہے، محل قید نہیں۔ آئینہ کا آفتاب کو اپنے آغوش میں لے لینا قطعاً محال ہے، البتہ آفتاب آئینہ میں جلوہ گرہوسکتا ہے، جیسے آسمان آنکھ کی پتلی میں جلوہ گرہوتا ہے، مگر انعکاس کی ایک شرط تو یہ ہے کہ آئینہ صاف وشفاف ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آئینہ آفتاب کے مقابل ہو، بغیر تقابل کے انعکاس ممکن نہیں۔ اسی طرح حق جل شانہ کی ذاتِ بے چون وچگون کو سمجھو کہ وہ حدود اور قیود سے پاک اور منزّہ ہے، مگر کسی جہت اور مکان اور کسی محدود شئ میں اس کی تجلّی ممکن ہے۔
کتاب وسنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور پانی حق جل شانہ کی اول مخلوقات سے ہے، کما قال تعالیٰ :وَکَانَ عَرشُہ عَلیٰ المَاءِ۔اور اللہ جل شانہ کی سب سے بڑی تجلّی عرش پر ہے اور ”أَلرَّحْمٰنُ عَلیٰ العَرْشِ اسْتَوٰی“ میں اسی تجلّی کی طرف اشارہ ہے۔ عرش کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں اور استواء کے معنی استقرار اور تمکن کے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ آیت میں ظاہری معنی قطعاً مراد نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کوئی جسم نہیں کہ جو تخت پر بیٹھے اور قرار پکڑے، بلکہ استواء علی العرش سے اس کی شان احکم الحاکمینی کو بیان کرنا ہے، جیساکہ تخت نشینی کا لفظ حکومت اور اقتدار کے لئے بطور کنایہ مستعمل ہوتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکم الحاکمینی اور اس کے تسلطِ تام اور تدبیرِ عام کو ”استواء علی العرش“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا کہ اس کی احکم الحاکمینی اور شہنشاہی ایسی راست اور ہموار ہے کہ اس میں کسی قسم کی مزاحمت اور کسی قسم کی گڑ بڑ کا امکان اور واہمہ بھی نہیں۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: کیا زکوٰة کی مقدار متعین نہیں؟ 
Flag Counter