Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ -جون ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

11 - 12
حضرت مولانا قاری شریف احمد !
حضرت مولانا قاری شریف احمد 

۲۱ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۷ مارچ ۲۰۱۱ء بروز اتوارحضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  کے مسترشد، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا بدرعالم میرٹھی نوراللہ مراقدہما کے شاگردرشید ، حضرت مولانا حامد میاں  کے خلیفہ مجاز،کراچی سٹی اسٹیشن مسجد کے امام وخطیب اورکتب کثیرہ کے مصنف ،، بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاری شریف احمد دنیا فانی کی ۹۷ بہاریں گزار کر عالم آخرت کوسدھارگئے۔انالله وانا الیہ راجعون ،ان لله مااخذ ولہ مااعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمی۔
حضرت مولانا قاری شریف احمدنے ۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۴ء میں ضلع مظفر نگر کے دین دوست، مخلص انسان ،جناب نیازاحمد صدیقی  کے ہاں آنکھ کھولی۔جب آپ دس سال کے ہوئے تو حفظ قرآن کی سعادت کے حصول کے لئے آپ کے والد ماجدنے آپ کو حافظ رحمت اللہ کیرانوی  کی خدمت میں بھیجا اور آپ نے محض دوسال کے قلیل عرصہ میں حفظ قرآن کی تکمیل کرلی۔
حفظ قرآن کے بعد آپ کے والد ماجد نے آپ کو مفتی اعظم ،ابوحنیفہٴ وقت حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی نوراللہ مرقدہ کی زیر تربیت مدرسہ امینیہ دہلی میں داخل کرادیا،کافیہ تک کتابیں وہاں پڑھیں اور ساتھ ساتھ اس زمانہ میں تجوید کی مشق حضرت مولانا قاری حامد حسین  کی خدمت میں حاضر ہو کر کرتے رہے۔کافیہ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۳ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا،لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آنے کی بناپرواپس دہلی تشریف لائے اور یہاں مدرسہ عالیہ فتحپوی میں داخلہ لے کر تمام کتب یہاں پڑھیں اور دورہ حدیث کے لئے آپ نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین سملک ضلع بلساڑ گجرات کا سفر کیااور وہاں آپ نے صحیح بخاری شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی سے ،صحیح مسلم ،سنن نسائی، سنن ابی داؤد ،بیضاوی ،مؤطا امام مالک اور مؤطا امام محمد حضرت مولانا عبدالرحمن امروہویسے،سنن ترمذی اور شمائل ترمذی کا درس حضرت مولانا سید بدرعالم میرٹھی نوراللہ مرقدہ سے لیا،اور ۱۹۳۹ء میں سند فراغت حاصل کی اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نوراللہ مرقدہ سے ان کی تصنیف فتح الملہم شرح عربی صحیح مسلم کا خصوصی انعام وصول کیا۔اس کے علاوہ آپ نے علم طب بھی پڑھا اور فن خوش نویسی پر آپ نے بھرپور توجہ دی ،یہاں تک کہ کئی کتب کے سرورق آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھے ،انہیں دیکھنے والا کتابت کی کوئی غلطی نہیں نکال سکتا،اتنے خوبصورت اورجاذب نظر آپ نے سرورق لکھے۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان بنا اور حضرت قاری صاحب ۱۵ اگست کو دھلی سے بذریعہ ٹرین براستہ میر پور خاص کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔کراچی سے بحری جہاز میں جدہ روانہ ہوئے ،حج سے واپسی پرجب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے تمام اعزہ ،اقرباء اور احباب کراچی آگئے تو آپ نے کراچی میں قیام کا فیصلہ کرلیا۔آپ نے ۱۹۴۹ء میں دکھنی مسجد پاکستان چوک کراچی میں مدرسہ تعلیم القرآن کی بنیادڈالی ،جہاں ۱۹۸۹ء تک قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا ۔پھر یہ مدرسہ دوسری جگہ فیروز مینشن میں منتقل ہوگیا اور بالآخر ۱۹۹۴ء میں مستقبل کے جامعہ کے لئے مستقل جگہ خریدی گئی۔آپ کا اصلاحی تعلق شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین مدنی نوراللہ مرقدہ سے تھا،حضرت مدنی قدس سرہ کی وفات کے بعدجانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی کے مشورہ سے حضرت مولانا سید حامد میاں سے تعلق قائم فرمایا،جو حضرت مدنی قدس سرہ کے خاص شاگرد اورخلیفہ مجاز تھے۔حضرت مولانا رحمہ اللہ نے حضرت قاری صاحب  کو خلافت سے بھی نوازا۔
حضرت مولانا قاری شریف احمد نے جمعیت علمائے ہند کے نظریہ کی حمایت کی اور جو جمعیت کا نظریہ تھا وہی نظریہ پاکستان کے قیام تک اپنایا،کیونکہ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ نے قیام پاکستان کی اس وقت تک مخالفت کی جب تک پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد آپ کے ایک مخلص معتقد اور کارکن نے آپ سے استفسار کیا کہ اب پاکستان بن گیا ،آپ کا کیا خیال ہے؟حضرت مدنی  قدس سرہ نے فرمایا:
”جب تک مسجدنہیں بنتی اختلاف کیاجاسکتاہے لیکن جب مسجد بن جائے تو فرش سے عرش تک مسجدہوتی ہے ،جب تک پاکستان نہیں بناتھا ،اختلاف تھااوراب بن گیا اللہ تعالی اسے قائم ودائم رکھے“۔ (تذکرة الشریف،ص۵۴)
حضرت قاری شریف احمد  کی شادی ۱۹۴۴ء کے لگ بھگ دہلی میں ہوئی ،آپ کی اولاد میں دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں ،محترم جناب حافظ رشید احمد صاحب حفظہ اللہ کے علاوہ سب عہدطفولیت میں ہی اللہ کوپیارے ہوگئے۔حضرت قاری صاحب  نے چھوٹی بڑی تقریبا اکتالیس کتب تصنیف وتالیف فرمائیں ،آپ کی تمام کتب بنیادی اور اہم مسائل سے متعلق ہیں ،جن کی ہر مسلمان کو ضرورت ہے اور کوئی شخص بھی ان سے مستغنی وبے نیاز نہیں،آپ نے قرآنیات ،حدیثیات ،ارکان اسلام،سیرت وسوانح،فضائل سے متعلق ،حقوق سے متعلق اور عمومی دینیات سے متعلق کتب کا ایک ضخیم ذخیرہ چھوڑاہے۔اللہ تبارک وتعالی حضرت قاری صاحب سے رضا ورضوان کا معاملہ فرماکر جنت الفردوس کا مکین بنائیں ۔آمین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۲ھ -جون: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: حضرت مولانا علی محمد حقانی کی رحلت !
Flag Counter