نقشِ پا سے متصل تھی قیصریت یاد ہے
فخرِ موجودات کی وہ شان و شوکت یاد ہے
مشرکین قہر ساماں کی شرارت یاد ہے
رافت و رحمت کے بدلے بربریت یاد ہے
لائقِ صد آفریں وہ باغِ ہستی کا نظام
غنچہ و گل سب کو ہنسنے کی اجازت یاد ہے
کشت زارِ نوعِ انسانی لہک اُٹھا بیک
گوہر افشانی تری اے ابرِ رحمت یاد ہے
خونِ دل سے گلشنِ اسلام کو سینچا گیا
اس بہارِ جانفزا کی وجہِ رنگت یاد ہے
بدر میں لائی تھی جن کو دینِ حق کی برتری
تین سو تیرہ کی اسلامی جماعت یاد ہے
نذرِ آتش طارقِ اعظم نے کرڈالا جہاز
مردِ میداں کی دلیری استقامت یاد ہے
سندھ پر لہرا گئے جھنڈا عرب صحرا نشیں
دردِ ملت یاد ہے جوشِ حمیت یاد ہے
ناطقہ ہی بند فوراً کردیا بوجہل کا
وہ ابھی صدیقِ اکبر کی صداقت یاد ہے
زیبِ تن تھی جسمِ فاروقی پہ بوسیدہ قبا
بیشتر پیوند دورانِ خلافت یاد ہے
نقش ہے صدہا لدے غلے سے اونٹوں کی قطار
جامعِ قرآں کا وہ جوشِ سخاوت یاد ہے
توڑ پھینکا آہنی دروازہ کو بیساختہ
زورِ بازوئے علی خیبر کی بابت یاد ہے
جاں بحق تسلیم رہبرؔ ہوگئے راہوں میں ہم
دین کی تبلیغ و ترویج و اشاعت یاد ہے
٭
افشائے راز ہو کے رہاکائنات میں
دیرینہ کشمکش تھی حیات و ممات میں
کرتے ہیں جو شریک کسی کو خداکے ساتھ
حرفِ غلط ہیں دفترِ اسلامیات میں
کہتے رہو ضرور ہدایت کو گمرہی
دن کو مگر شمار کیے جاؤ رات میں
اچھا، میاں بزرگ کو بخشا گیا مقام
وہ بھی خدا کی ذاتِ ستودہ صفات میں