Deobandi Books

کلیات رہبر

7 - 98
	شعر و سخن سے خداداد نسبت تھی، مکتب ہی میں ہلکے پھلکے اشعار کہنے لگے تھے، اردو کی درسی کتاب میں ایک نظم تھی   ؎
یہ ہے دوستو زندگی کی مثال
گلستاں میں جو فصلِ گل کا ہے حال
	اسی بحر میں انہوں نے یہ شعر موزوں کیے   ؎
سنو ایک ہوتی ہے ذات مغل
جو کھاتے ہیں روزینہ جنگل کا پھل
وہ لڑنے لڑائی کو اٹھتے ہیں سب
وہ لڑتے ہیں اور فتح کرتے ہیں سب
	اسی کو ان کی شاعری کی بنیاد سمجھنا چاہیے، جب تعلیم ترک کرکے خاندانی کاروبار میں مصروف ہوگئے تو شعراء کے دیوانوں سے دلچسپی رہی اور اُن کے کلام پر غور و خوض کرتے رہے، اور دوسری طرف مشاعروں میں سامع کی حیثیت سے شرکت بھی جاری رہی، ۱۹۵۰ء سے شعر موزوں کرنے کا شوق پیدا ہوا، پھر اس میں کچھ وقفہ رہا، ۱۹۵۵ء کے سیلاب میں جب مدرسہ فیض العلوم کی عمارت زمیں بوس ہوگئی تو اس کی تعمیر نو کے سلسلے میں چندہ کرنے کے لیے ایک نظم لکھی، جس کا مطلع تھا   ؎
مست ہے ہر بادہ خوارِ مدرسہ فیض العلوم
آگئی شاید بہارِ مدرسہ فیض العلوم
	اس کے بعد مدرسہ اور مسجد کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور قرب وجوار کے مشاعروں اور شعری نشستوں میں شرکت کرکے اپنا کلام پیش کرتے رہے، ۱۹۶۰ء سے پہلے کسی مشاعرے میں آپ کی جو پہلی غزل پیش ہوئی، اس کا مطلع تھا   ؎
بیتابیِٔ فراق کا عالم نہ پوچھیے
کیسے گزار دی ہے شبِ غم نہ پوچھیے

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 کلیات رہبر 2 1
3 پیش لفظ 6 1
4 انتساب 10 1
5 دعاء 11 1
6 نعتیں 12 1
9 غزلیں 41 1
10 متفرق نظمیں 79 1
11 میں کوئی شاعر نہیں 80 1
12 اردو زباں 81 1
13 رباعیات 89 1
14 قطعات 93 1
15 رہبرؔ صاحب کے اپنے پسندیدہ اشعار 98 1
Flag Counter