Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 8
مولانا عبد الرحمن اشرفی کی رحلت !
مولانا عبد الرحمن اشرفی کی رحلت

۱۷/صفر المظفر ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۲/جنوری ۲۰۱۱ء بروز ہفتہ بعد از نماز مغرب جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث ونائب مہتمم، ممتاز عالم دین، مبلغ، واعظ اور ہردلعزیز شخصیت حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی اپنی حیات مستعار کی ۷۷ بہاریں دیکھ کر رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون ۔ ان لله ما اخذ و لہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت رحمہ اللہ نے حفظ سے لے کر دورہ حدیث تک کی تعلیم اپنے والد صاحب کی نگرانی میں رہ کرپائی، آپ ہمہ وقت والد صاحب کی خدمت میں رہتے تھے، حضرت مفتی صاحب کی اصلاحی مجلس اور آپ سے ملاقات کے لئے آنے والے طالبینِ ہدایت ومسترشدین کی خدمت وراہنمائی آپ ہی کے حصہ میں تھی۔ حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی نے اپنی زندگی خدمت خلق، درس وتدریس وعظ ونصیحت، اصلاح وارشاد اور اتحاد امت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ایک حدیث میں ہے:
”عن مرداس الاسلمی قال: قال النبی ا یذہب الصالحون الاول فالاول، وتبقی حفالة کحفالة الشعیر او التمر لایبالیہم الله بالة“۔(صحیح بخاری،ج:۲، ص:۹۵۲)
ترجمہ:…”حضرت مرداس اسلمی سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا:نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے جیسے چھٹائی کے بعد ردی جو یا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں، ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا“۔
یوں لگتاہے کہ حضور ا نے چودہ سو سال پہلے جو بات فرمائی تھی وہ آج پوری ہورہی ہے۔ اس لئے کہ یہ زمین حق گو علماء اور مستجاب الدعوات بزرگوں سے آہستہ آہستہ خالی ہورہی ہے، کتنے ہمارے اکابر ہیں جو ان چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ہیں، اور یہ وہ حضرات تھے جو ایک طرف دن کو قال اللہ وقال الرسول کی صداؤں سے اس دنیا کو روحانی غذا دلانے اور اس کی بقا کا ذریعہ تھے تو دوسری طرف راتوں کو اٹھ کر روٹھے رب کو منانے اور دنیا والوں کے لئے اللہ کی رحمت کے نزول کا باعث تھے۔ انہیں حضرات کے دم قدم سے موجودہ دور کے فتنوں کا دروازہ بند تھا، اور یہ وہ حضرات تھے جن سے انسان نما شیطان ہمیشہ خائف رہتے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہے کہ کہ یہاں وافر مقدار میں فتنوں کی کاشت اور آبیاری ہوتی ہے، ایک فتنہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا فتنہ سر اٹھا کھڑا ہوجاتا ہے۔ قادیانیت، مرزائیت، بہائیت، مہدویت، پرویزیت، نیچریت،ذکری، گوہرشاہی، انکار حدیث، یوسف کذاب کے علاوہ زید زماں عرف زید حامد یہ سب فتنے اور فتنہ پرور اسی ملک میں درآمد ہوکر شاہانہ سرپرستی میں پروان چڑھتے اور پھلتے پھولتے رہے ہیں۔
زید زماں عرف زید حامدبدنام زمانہ مدعی نبوت یوسف کذاب کا نام نہاد صحابی اور خلیفہ اول ہے، یوسف کذاب کے جیل میں مرداراور واصل جہنم ہونے کے بعد اس نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی تھی، کئی سالوں کے بعدجب لوگ ملعون یوسف کذاب اور اس کے ایمان کش فتنہ کو قریب قریب بھول گئے تواس نے زید حامد کے نام سے اپنے آپ کو منوانے اور متعارف کرانے کے لئے میڈیا کے ذریعے اسلام، مسلمانوں، جہاد، مجاہدین اور طالبان کا ترجمان باور کراکر درپردہ یوسف کذاب کے مشن کو آگے بڑھانے کا ناپاک سلسلہ شروع کیا تو حضرت اقدس مولانا سعید احمد جلال پوری شہید نے ”راہبر کے روپ میں راہزن“ رسالہ لکھ کر اس کا مکمل تعارف ، اس کے خفیہ پلان اور سازش کو بے نقاب کیااور بتلایا کہ کل کا زید زماں آج کا زید حامد ہے جو میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہمدرد او رہم نوا بناکر درپردہ یوسف کذاب کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کی خفیہ اور پر اسرار اسکیم ہرجگہ جب طشت ازبام ہوئی تو اس نے ایک ویڈیو کیسٹ میں ایک گھنٹے کا پروگرام کرکے جہاں یوسف کذاب کی صفائی میں دوسری باتیں کیں، وہاں اس نے یہ بھی کہا کہ حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی جو بہت بڑے بزرگ اور بڑے ٹاپ کے اسکالر ہیں، وہ ابھی تک زندہ ہیں، جب تک یوسف کذاب مرا نہیں، تب تک وہ اس کا دفاع کرتے رہے اور انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کو بلاکر ڈانٹا کہ تم یوسف علی کے خلاف مدعی نبوت ہونے کا مقدمہ کرکے ظلم کررہے ہو، کیونکہ یوسف علی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔ زید زماں کی یہ تمام باتیں جب حضرت مولاناعبد الرحمن اشرفی رحمہ اللہ کے علم میں لائی گئیں تو حضرت نے زید حامد کی تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے درج ذیل مضمون تحریر فرماکر انٹرنیٹ اور جامعہ اشرفیہ کے ترجمان ماہنامہ الحسن کو جاری کیا اور اس کی ایک کاپی حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید کو بھیجی۔زید حامد کے متعلق حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی کے موقف کی وضاحت ملاحظہ ہو:
”گزشتہ کچھ دنوں سے مجھے کئی ایک احباب نے فون کئے اور متعدد حضرات نے تشریف لاکر بتلایا کہ ٹی وی پر زید حامدصاحب جن کا مبینہ طور پر یوسف علی مدعی نبوت سے خلافت وصحابیت کا تعلق ہے، وہ اپنے بیانات میں میرے بارہ میں یہ تاثر دے رہا ہے کہ میں نے یوسف علی کے بارہ میں کہا ہے کہ وہ اچھا آدمی تھا اور وہ میرا بہترین دوست تھا، اس نے میرے ساتھ حج کیا تھا، نیز اس نے کارکنانِ ختم نبوت اسلام آباد کی ایک پریس کانفرنس کے جواب میں اپنی تردیدی تقریر اور ویڈیو کیسٹ میں کہا ہے کہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا عبد الرحمن اشرفی جو بہت بڑے بزرگ اور بڑے ٹاپ کے اسکالر ہیں اور وہ ابھی تک زندہ ہیں، جب تک یوسف مرا نہیں، تب تک وہ اس کا دفاع کرتے رہے اور انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کو بلا کر ڈانٹا کہ تم ظلم کررہے ہو، کیونکہ یوسف علی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا، وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک میرے بارے میں یوسف علی سے دوستی وغیرہ کا حوالہ دیا جاتا ہے تو میں مولانا عبد الرحمن اشرفی اس کی وضاحت کرتا ہوں کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یوسف علی میرے پاس ایک دو مرتبہ ملنے کے لئے آیا اور اسی دوران میں میں اور مرحوم مولانا اجمل خان صاحب حج کو گئے تو منیٰ میں جہاں مولانا اجمل خان مرحوم کا درس تھا۔ وہیں یوسف علی بھی درس دے رہا تھا۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے یوسف علی کے ساتھ حج کیا اور میری اس سے دوستی رہی ہے اور میرا زید حامد سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی میں نے اس سلسلہ میں یوسف علی کے حق میں کوئی اخباری بیان جاری کیا اور نہ ہی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے متعلقین کو اس سلسلہ میں کوئی سرزنش کی۔ میرا مؤقف بھی یوسف علی کے بارہ میں وہی ہے جو دیگر علماء ، اربابِ فتویٰ اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت والوں کا ہے اور اس سلسلے میں میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں، لہذا یہ تمام باتیں جو مجھ سے منسوب کی گئی ہیں، یہ سراسر جھوٹ اور خلافِ واقعہ ہیں۔ میں زید حامد صاحب پر یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ آئندہ ان باتوں کی نسبت میری جانب نہ کی جائے۔
میں رسول کریم ا کے بعد کسی مدعی نبوت کو مرتد اور زندیق سمجھتا ہوں اور اسی عقیدے پر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر رسول کریم ا کے لوائے حمد کے نیچے ذاتِ نبوت کی شفاعت کا طلبگار ہوں۔
میری اس تحریر کو انٹرنیٹ اور جامعہ اشرفیہ کے ترجمان ماہنامہ ”الحسن“ میں شائع کردیاجائے تاکہ ہرخواص وعام اس سے آگاہ ہو جائیں اور آئندہ کے لئے کسی کو میرے بارے میں غلط فہمی پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ زید حامد اور اس جیسے دیگر لوگ جو یوسف علی کی باتوں اور سحر میں گرفتار ہیں، ان کو ان باتوں سے نجات دے اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔“
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی رحمہ اللہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی تمنا اور خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ انہیں رسول اکرم ا کی شفاعت اور لوائے حمد کے نیچے جگہ عطا فرمائے۔
واقعی یہی وہ مخلص حضرات تھے جن کے اخلاص کی برکت سے امت مسلمہ دین دشمنوں اور فتنہ پروروں کے فتنوں سے محفوظ تھی، اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات کا بدل نصیب فرمائیں اور امت مسلمہ کو ہرقسم کی آفات وبلیات اور شرور وفتن سے محفوظ فرمائیں۔
حضرت مولانا مفتی شمس الدین کا سانحہ ارتحال!
۱۹/ ربیع الاول ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۳/فروری ۲۰۱۱ء صبح نو بجے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد رشیدفاضل دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی  اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی کے رفیق کار، جامعہ مفتاح العلوم حیدر آباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی شمس الدین دنیائے فانی کی بانوے (۹۲) بہاریں دیکھ کر راہی عالم آخرت ہوگئے۔انا لله وانا الیہ راجعون، ان لله ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت مفتی صاحب نے ۱۹۱۹ء میں ضلع ہری پور ہزارہ کی ایک بستی انورہ کے دین دار گھرانہ کے ایک نیک صفت انسان رحمت اللہ صاحب کے ہاں آنکھ کھولی، ابھی تین سال کے تھے کہ آپ کے والد صاحب داغ مفارقت دے گئے، ابتدائی تعلیم علاقائی مدارس میں ہوئی، اعلیٰ تعلیم کے لئے حضرت مفتی صاحب نے محنت مزدوری کرکے کچھ رقم جمع کی اور ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔جہاں آپ نے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ،مولانا اعزاز علی دیوبندی، مولانا قاری محمد طیب ، مولانا فخر الحسن مراد آبادی اور دوسرے جبال العلم والعمل اساتذہ سے حدیث کے دوسرے اسباق پڑھ کر ۱۹۴۷ء میں فاتحہ فراغ پڑھا۔
حضرت مفتی صاحب نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعداپنی تدریسی زندگی کا باقاعدہ آغاز بھیرہ ضلع سرگودھا سے کیا اور ۱۳۶۸ھ میں حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانامحمد عبد اللہ درخواستی کے حکم پر جامع الشریعت والطریقت حضرت مولانا محمدعبد اللہ بہلوی رحمہ اللہ کے مدرسے میں تدریس کے لئے تشریف لے گئے، اس کے بعد جامعہ مخزن العلوم خان پور میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ کی معیت میں عرصہ چھ سال تک پڑھایا۔ ۱۹۵۸ء میں جامعہ مفتاح العلوم حیدر آباد میں تشریف لائے، کچھ عرصہ آپ اس ادارہ کے نائب مہتمم رہے، ۱۹۹۵ء میں آپ کواس ادارہ کامہتمم بنایاگیا ۔ مولانا منظور احمد نعمانی ظاہر پیر ،مولانا عبد الغفور حیدری جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اسلام ،مولانا عبد القادر آزاد سابق خطیب بادشاہی مسجد لاہوراور مولانا عبد الشکور دین پوریجیسی شخصیات نے آپ سے شرف تلمذ کا اعزاز پایا۔
محترم جناب قاری عبد الرشید مد ظلہ استاذ جامعہ مفتاح العلوم حیدر آباد کا کہنا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کی طبیعت میں انتہائی سادگی تھی، آپ کپڑوں پر استری کو ناپسند فرماتے تھے، اگر کوئی کپڑوں پر استری کردیتا تو آپ اسے توڑ مروڑ کر پھر پہنتے، وقت کے انتہائی پابند تھے، اسباق میں وقت پر حاضری آپ کا معمول تھا۔
حضرت مفتی صاحب کچھ عرصہ سے بیمار رہنے لگے تھے، آپ کو علاج کی غرض سے میمن ہسپتال نزد نعیم کلاتھ مارکیٹ میں داخل کیا گیا، جہاں صبح نو بجے آپ کا وقت موعود آپہنچا۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے عزیز برادر نسبتی حضرت مولانا محمد طیب مدنی صاحب فاضل مدینہ یونیورسٹی نے پڑھائی۔جس میں مفتیان کرام، مشائخ عظام، دینی مدارس کے طلباء، مذہبی، سیاسی وسماجی شخصیات سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آپ کے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، آپ کی اہلیہ کا کچھ ہی عرصہ پہلے انتقال ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مفتی شمس الدین کی زندگی بھر کی حسنات کو قبول فرماکر انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ ادارہ ہر دوشخصیات کے لئے قارئین بینات سے ایصال ثواب کا خواستگار ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: انسانیت کے امراض اور ان کا علاج !
Flag Counter