Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 8
علم الرؤیا - ایک حقیقت !
علم الرؤیا - ایک حقیقت

انسانی دماغ آگہی کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم ہے: ۱․․․شعور ،۲․․․ لاشعور اور۳․․․ شعورِ اعلی
۱:․․․شعور:جس کا استعمال ہم جاگتی (شعوری) حالت میں مختلف کام سرانجام دیتے ہوئے کرتے ہیں۔
۲:․․․لاشعور :جو ہمارے سونے کے دوران بھی سرگرمِ عمل رہتا ہے، حالت بیداری میں سرانجام دیئے گئے۔کاموں کا جائزہ لیتا ہے، خواب دکھاتا ہے اور بحکم الٰہی شعور اعلیٰ سے احکام وصول کرتا ہے۔
۳:․․․شعورِ اعلیٰ:اس کا رابطہ خالق کائنات سے ہے، وہ اپنے بھیدوں میں سے جو چاہتا ہے، اپنے بندے پر منکشف کرتا ہے اور یہ معلومات لاشعور کے توسط سے شعور میں منتقل ہوتی ہیں۔
حضور اکرم ا کی حدیث مبارکہ اس ضمن میں ثبوت ہے کہ آپ ا کے بعد مبشرات نیک لوگوں کے لئے مشعل راہ ہونگے اور یہ کہ الله تعالی کی راہنمائی نیک بندوں کے لئے تاقیامت شامل حال رہے گی۔
”حدثنا ابو الیمان ،اخبرنا شعیب عن الزھری، حدثنی سعید بن المسیب انّ ابا ھریرة قال:رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول:لم یبق من النبوة إلاّ المبشرات قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحة ۔“
(البخاری باب ۱۰۵۵ الحدیث ۱۸۸۰ المبشرات)
ترجمہ:۔”ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ،کہا: ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے کہا ،مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابو ہریرة نے کہا: میں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ ا فرما تے تھے :نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوشخبریاں۔ لوگوں نے عرض کیا :یہ خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ ا نے فرمایا: اچھے (نیک) خواب ۔“
سچے خواب حضور اکرم اکے فرمان کے مطابق خوشخبریاں ہیں، الله تعالیٰ کی اپنے نیک بندوں پر عنایت ہیں۔ تحذیر یا تبشیر کے ذریعہ ہمارے اعمالوں کو سنوارنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ الله تعالیٰ کی نعمت ہیں جو وہ اپنے چیدہ چیدہ بندوں کو مرحمت فرماتا ہے، اسی لئے ان کو خوشخبریاں کہا گیا ہے۔ لوگوں کو عموماً خواب یاد نہیں رہتے، لیکن ایسے خواب ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں ، چپک جاتے ہیں ۔
آسمانی کتب اور صحیفوں میں حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام اور ان کے علاوہ درجنوں مشہور لوگوں نے بھی اہم خواب دیکھے، جن کا ان کے مستقبل سے گہرا تعلق تھا، لہٰذا یہ خواب سچ ثابت کرنے والی پیشن گوئیاں تھیں، یعنی اپنی فطرت میں پیغمبرانہ خواب تھے۔
اس کے علاوہ کبھی ہم کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں اور ظاہراً کوئی حل سمجھ میں نہیں آتا، لیکن اچانک سوتے میں خواب دیکھتے ہیں کہ ایسے کیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا اور پھر ویسے ہی ہوجاتا ہے۔ روئے زمین پر شاید ایسا کوئی شخص موجود ہو، جس نے کبھی کوئی خواب نہ دیکھا ہو اور اس اہم اور واضح خواب نے اسے( یعنی اس کی فکر یا تصور کو )متاثر نہ کیا ہو۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ خواب مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور ہماری مشکلات میں مددکرتے ہیں۔
یہ پیشین گوئیاں خالقِ حقیقی کی طرف سے ہوتی ہیں اور مشکلات کا حل بھی الله تعالیٰ کی کرم نوازی ہوتی ہے۔الله تعالیٰ اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے ،وہ ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے،ورنہ کیسے ممکن تھا کہ ہم التجا کریں اور تکلیف رفع ہوجائے ؟ یہ مضبوط رابطہ، شعورِ اعلیٰ کے توسط سے رہتا ہے۔ سب اشخاص کا شعور اور لاشعور انفرادی طور پر عمل کا ذمہ دار ہے، جبکہ سب انسانوں کے شعور اعلیٰ کا منبع وہ ذات وحدہ لاشریک ہے جو سب کو نوازتا ہے ،یہ نہیں دیکھتا کہ کون فرماں بردار ہے یا نافرمان، البتہ اپنے محبوب بندوں کواپنے بہت ہی قریب رکھتا ہے۔
الله تعالیٰ العلیم(ہر بات کا جاننے والا)ہے ، اس کے علم کا احاطہ ممکن نہیں، ارشاد ہے: وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم (یوسف :۷۶)ٌ․․․․تمام علم والوں سے بڑھ کر ایک بڑا علم والاہے۔
اُسی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس کائنات کا علم دیا اور اس علم کے بارے میں فرمایا:ومَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمٍ اِلاَّقَلِیلاً ( بنی اسرائیل : ۸۵)․․․․ اور (اے انسان) تم کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ اور اس قلیل علم کی حشر سامانیاں ہم دیکھ رہے ہیں، انسان نے کیانہیں پایا؟یہ برق رفتار گاڑیاں ، ہوائی جہاز،اونچے محلات ، میلوں لمبے پل، پانی نیچے دوڑتی آبدوزیں، زمیں دوز ٹرینیں اور بے انتہا لبھانے والی اور تباہ کرنے والی ایجادات اس علم قلیل کا سبب ہیں جو مالک حقیقی نے انسان کوعنایت فرمایا
جب الله جل جلالہ  نے چاہا کہ وہ اپنے علم ، طاقت اور عظمت کے لئے پہچانا جائے تو اس نے یہ کائنات پیدا کی، حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا اور ان کو شعور عطا فرمایا۔ الله تعالیٰ کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہ تھی، اُس نے فرمایا ”کُنْ“ اور سب کچھ پلک جھپکتے ہوگیا۔ تب الله تعالیٰ کے علم اور قدرت سے کائنات کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ پر ظاہر ہوگیا ۔جب کوئی اپنے آپ کو پہچاننا چاہتا ہے تو وہ شعور اعلیٰ میں اپنا عکس دیکھتا ہے اور وہاں پراُسے دنیا کا مقصد اور اپنی حقیقت دکھائی دے جاتی ہے۔ لوح محفوظ کے لکھے کو سمجھنے اور اس پر عمل کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کی زبان آتی ہو۔
چونکہ ہمارا شعور اعلیٰ، لوح محفوظ کاعکس ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسے سمجھ لیں اور شعور اعلیٰ سے ربط بڑھائیں۔ کوئی بھی مادی شئے جو اس دنیا میں موجود ہے، اس کا عکس لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ لوح محفوظ کا علم کئی مختلف مراحل سے گذرنے کے بعد اس دنیا میں نافذ ہوتا ہے، مثلاً: بچے کی نشودونما میں ۹ ماہ کا عرصہ مختلف مراحل میں درکار ہوتا ہے، پھر نومولود اس دنیا میں آتا ہے، جو درحقیقت اس کی دوسری تخلیق ہے۔ اگر ہم بچے کی پیدائش کی حقیقت جاننے کے لئے گہرائی میں جائیں ،تو معلوم ہوتا ہے کہ بچہ خود بخود پیدا نہیں ہوجاتا، بلکہ الله تعالیٰ کئی مراحل میں اس کی تکمیل کرتا ہے ۔
انسان کی ایک دنیا یہ عالمِ زمان و مکان ہے اور دوسری اس کے قلب (دل و دماغ) کی دنیا ہے۔ اس کو ان دونوں عالموں میں رہنا پڑتا ہے ۔ وہ نہ تو داخلی دنیا سے باہر نکل سکتا ہے اور نہ ہی خارجی دنیا سے ۔جب یہ دونوں جہاں اس کے ہیں اور وہ ان میں رہنے پر مجبور ہے تو پھر اپنے جمالیاتی تقاضوں کی تشفی کے لئے اسے ان دونوں جہانوں کو خوبصورت بنانا ناگزیر ہوا ۔ انسان کی یہ سچی آرزو ہے، جس کے پورا کرنے میں اس کی اپنی ذات کی تکمیل مسلسل کا راز مضمر ہے۔
الله تعالی نے ہر انسان کو شعور عطا فرمایا ہے لیکن قلب کی دنیا کو خوبصورت بنانے کے لئے کے اس کاقرب اور اس کے علم سے مزید کچھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مزید علم کو حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کا عمل کیا جاتا ہے۔بعثت سے قبل رسول مقبول ا کا معمول تھا کہ آپ غار حرا تشریف لے جاتے تھے اور مسلسل کئی کئی روز مراقبہ فرماتے تھے۔جتنا الله تعالی کے علم سے آگاہی ہوتی جاتی تھی ، اتنے ہی زیادہ آپ کے معمولات طویل تر ہوتے جاتے تھے حتیٰ کہ الله تعالیٰ نے آپ کو بعثت سے سرفراز فرمایا۔
مراقبہ ،ہمارے بزرگوں اور مشائخ اسلام کا بھی معمول رہا ہے۔ نماز اور روزے سے بھی الله تعالی کا قرب حاصل ہوتا ہے لیکن جو ارتکاز (Concentration) مراقبہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ عرش کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور الله کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے۔
مراقبہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص مراقبہ میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کی لگن اور شوق اور بڑھ جاتا ہے اور وہ خود ہی اس کا دورانیہ بڑھاتاچلا جاتا ہے اور الله تعالی کے قرب اور اسرار سے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ مراقبہ وجدانی صلاحیت کو فروغ دینے کے قابل بناتا ہے، مراقبے کے دوران ظاہر ہوتا ہے کہ کیا حاصل ہو رہا ہے اور کیاچیز آپ کی نشودونما میں مدد دے رہی ہے ۔ مراقبہ کے ذریعہ شعور اعلی سے آگاہی ہوتی ہے۔ عام طور پر جو باتیں یا علم ہمیں بہت تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے ، وہ مراقبے سے معمولی جہد سے مختصر مدت میں حاصل ہوجاتا ہے۔
خوابوں کے ذریعہ ہم اپنے لاشعور سے ہم کلام ہوتے ہیں اور شعور اعلیٰ سے اچھی خوشخبریوں کی توقع کرتے ہیں۔ اورشعور اعلیٰ تک رسائی کاذریعہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ خوابوں پر اس طرح اثرانداز ہوتا ہے کہ پیش گوئیوں والے (سچے ) خواب کثرت سے آنے لگتے ہیں ۔ الله نے اپنے بندوں کو شعور عطا فرمایا ہے ،لیکن کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہاں پر بھی وہ جس کو چاہتا ہے خوب عنایت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم رکھتا ہے ۔ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پیشتر اس کام کے بارے میں الله تعالی سے مشورہ کرنا ، اس کی رائے معلوم کرنا بھی سنت عمل ہے اوراستخارہ کہلاتاہے ۔ نبی کریم ا نے استخارے کے لئے خاص دعا تعلیم فرمائی ہے اور ساتھ ہی تاکیدکی ہے کہ کوئی بھی اہم کام کرنے سے پیشتر استخارہ کیا جائے۔ جب یہ کہا جائے کہ میں نے استخارہ کیا ۔تو اس سے مراد الله تعالیٰ کے اُن آداب کا لحاظ رکھنا ہے، جن کا حکم اس نے اپنے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم اور ان کے اتباع کرنے والوں کو دیا ہے۔ ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے الله کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ”استعاذت “ شیطان سے الله کی پناہ مانگنا اور” استخارت “ الله سے بھلائی طلب کرنا اور”استعانت “ ہر معاملے میں الله تعالیٰ کی مدد چاہناہے ۔ان سب سے مراد یہی ہے کہ تمام امور میں الله تعالیٰ ہی سے مدد طلب کی جائے۔ اپنے تمام کاموں کو الله کے ہی سپرد کیا جائے اور طرح طرح کی مصیبتوں سے نجات حاصل کی جائے۔ اس طرح وہ نفس امارہ کی شرارتوں اور سرکشی سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔
استخارہ کی اہمیت کا اندازہ صحابہ کرام سے روایت ِ احادیث سے ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے، اسی طرح استخارے کی بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔
پس جب انسان اس حقیقت سے روشناس ہوجائے کہ کسی کام میں اس کی کامیابی، اس کی محنت اور تدبیر پر موقوف نہیں تو اس کے لئے الله کے فیصلوں پر راضی ہونے اور اس سے مدد مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا، اس طرح وہ نفس امارہ کی شرارتوں اور اور سرکشی سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اسکی اصلاح اور بہتری کی نعمت حاصل کرلیتا ہے۔
” مبشرات“ شیطانی یا پھر نفسانی۔ اسی لئے ہم اپنے مسئلے کے حل کے لئے جب خوابوں کا سہارا لیتے ہیں تو ہم رسول الله ا کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ سنت پر عمل کریں اور بے مراد رہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ خوابوں کی اہمیت اور اسلام میں ان کے مقام کے بارے میں ارشاد نبوی ہے کہ مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس اجزا میں سے ایک جزیعنی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
نیز جب نبوت نہ ہوگی تو مؤمنین کا الله تعالی سے تعلق مبشرات (یعنی رؤیائے صادقہ ) سے ہوگا، جو الله تعالی کی طرف سے الہام ربانی اور کشف روحانی و باطنی سے عبارت ہوتے ہیں۔ اور یہ اسی صورت میں حاصل ہوتے ہیں جب بندے کا باطن پاک ہو اور اس کا قلب تمام رذائل سے خالی ہو۔ (سورة بقرة ۲:۳)
تب یہ رؤیائے صالحہ اس کے لئے نور و روشنی کا باعث بن جاتے ہیں ، اس دنیا میں راہِ ہدایت دکھاتے ہیں اور ایسے مخفی امور اس پر منکشف ہوجاتے ہیں جن کا علم اس کے لئے نفع و خیر کا باعث ہوتا ہے۔
اسی لئے رؤیائے صالحہ نیک بندوں کی ہدایت کے لئے سبیل اور معرفت الٰہی کی دلیل ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ بہت کم جانتے ہیں کہ مصائب و شدائد کے وقت انسان کے لئے مددگار اور نا امیدی کے وقت تمکین و قوت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
کچھ خواب سچے ہوتے ہیں تو کچھ جھوٹے بھی ہوتے ہیں ، جس طرح ایک شخص کبھی سچ بولتا ہے تو اس کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں اور کبھی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے خواب بھی جھوٹے ہوتے ہیں، لیکن اگریہ جھوٹا شخص دوسرے کا جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا ہے تو پھراس کے خواب سچے ہونگے۔سچے خواب جن کو رویائے صادقہ کہتے ہیں ، دو قسم کے ہوتے ہیں:
۱:۔ وہ جو بالکل واضح ہوتے ہیں، نہ تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی تفسیر کی حاجت،
جو کچھ دیکھا ،ہوبہو ویسا ہی سامنے آجاتا ہے۔
۲:۔ وہ جن کی تفسیر مضمر اور پوشیدہ ہوتی ہے، جس کے اندر حکمتیں اورخبریں موجود ہوتی ہیں۔
تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء الله رحمة الله علیہ نے فرمایاکہ :
”خواب یہ ہے کہ نفسِ انسانی جس وقت نیند یا بیہوشی کے سبب ظاہر بدن کی تدبیر سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کی قوتِ خیالیہ کی راہ سے کچھ صورتیں دکھائی دیتیں ہیں ، اسی کا نام خواب ہے۔“ (مفتی محمد شفیع ، معارف القرآن ، جلد ۵ ص۱۸ )
خواب میں انسان مختلف صورتیں اور واقعات دیکھتا ہے، کبھی توایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں جو صورتیں دیکھتا ہے وہی خواب میں متشکل ہوکر آجاتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شیطان کچھ صورتیں اور واقعات اس کے ذہن میں ڈالتا ہے۔
کبھی خوش کرنے والے اور کبھی ڈرانے والے۔یہ دونوں قسمیں باطل ہیں، جن کی نہ کوئی حقیقت و اصلیت ہے ،نہ اس کی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے۔ان میں پہلی قسم کو حدیث النفس اور دوسری کو تسویل شیطانی کہا جاتا ہے۔ تیسری قسم جو صحیح اور حق ہے ،وہ الله تعالی کی طرف سے ایک قسم کا الہام ہے جو اپنے بندے کو متنبہ کرنے یا خوشخبری دینے کے لئے کیا جاتا ہے ،۔
الله تعالی اپنے خزانہ غیب سے بعض چیزیں اس کے قلب و دماغ میں ڈال دیتے ہیں۔یہ قسم جو حق اور صحیح ہے ،صحیح احادیث نبویہ میں نبوت کا چھیالیسواں جز قرار دی گئی ہے۔بعض میں چالیسواں جز بھی بتلایا گیا ہے اور بعض روایات میں انچاس ، پچاس اور سترواں جز ہونا بھی منقول ہے۔ یہ سب روایتیں تفسیر قرطبی میں جمع کرکے ابن عبدالبر کی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ ان میں کوئی تضاد و تخلف نہیں، بلکہ ہر روایت اپنی جگہ صحیح و درست ہے اور تعداد اجزا کا یہ اختلاف خواب دیکھنے والوں کے مختلف حالات کی بناء پر ہے۔جو شخص سچائی ، امانت ، دیانت اور کمالِ ایمان کے ساتھ متصف ہے ،اس کا خواب نبوت کا چالیسواں جز ہوگا اور جو ان اوصاف میں کچھ کم ہے، اس کا چھیالیسواں یا پچاسواں جز ہوگا اور جو اور کم ہے ،اس کا خواب نبوت کا ستر واں جُز ہوگا۔
اب یہ بات غور طلب ہے کہ سچے خواب کے جز نبوت ہونے سے کیا مراد ہے؟تفسیر مظہری میں اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ رسولِ کریم ا پر وحی نبوت کا سلسلہ تئیس سال جاری رہا، ان میں سے پہلی شش ماہی میں یہ وحی خوابوں کی صورت میں آتی رہی ، باقی پینتالیس شش ماہیوں میں جبرئیل امین کی پیغام رسانی کی صورت میں آئی، اس حساب سے سچے خواب وحی نبوت کا چھیالیسواں جز ہوئے۔
ایک حدیث میں ہے، رسول الله ا نے فرمایا: مؤمن کا خواب ایک کلام ہے، جس میں وہ اپنے رب سے شرف گفتگو حاصل کرتا ہے۔یہ حدیث طبرانی نے بسند صحیح روایت کی ہے۔
صرف وہ خواب صحیح طور پر الہام من الله اور حقیقت ثابتہ ہوگی جو الله کی طرف سے ہو اور اس میں کچھ عوارض بھی شامل نہ ہوئے ہوں ،البتہ انبیاء علیہم السلام کے سب خواب ایسے ہی ہوتے ہیں، اس لئے ان کے خواب بھی وحی کادرجہ رکھتے ہیں،جب کہ عام مسلمانوں کے خواب میں ہر طرح کا احتمال رہتا ہے، اس لئے وہ کسی کے لئے حجت اور دلیل نہیں ہوتے۔
ان کے بعض خوابوں میں بعض اوقات طبعی اور نفسانی صورتوں کی آمیزش ہوجاتی ہے اور بعض اوقات گناہوں کی ظلمت و کدورت صحیح خواب پر چھاکر اس کو ناقابل ِ اعتبار بنادیتی ہے۔ جب انسان الله سے لو لگاتا ہے تو اُس کا مقرب خاص بن جاتا ہے ۔وہ اس عالم میں کھلی آنکھوں اور اپنے ہوش و حواس میں اور بسا اوقات عالمِ خواب میں ایسے ایسے مشاہدات کراتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور ان باتوں پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے اور نہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں بنتی۔ رؤیا ایک نہایت افضل علم ہے، اس کی فضیلت دلائل قرآنی سے ثابت ہے:
۱:۔ جس چیز کو الله تعالی اپنے خاص انعامات میں شمار کرے، اسکے افضل ہونے میں کوئی کلام نہیں۔اور علم تعبیر کو الله پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام کے انعامات میں شمار کیا ہے۔جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِیْ الاَرْضِ وَ لِنُعَلِّمَہ مِنْ تَاْوِیْل الاَحَادِیْثِ “(یوسف : ۲۱)
ترجمہ:۔”اسی طرح ہم نے یوسف  کو اس ملک میں جگہ دی اور اس کو علم رؤیا سکھایا۔“
اگر یہ اچھا علم نہ ہوتا تو الله تعالی اس کو اپنے انعامات میں کیوں ذکر کرتا۔انعامِ الہی میں اس کا ذکر ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علم رؤیا ایک نہایت افضل اور اعلیٰ علم ہے۔
۲-رسول اکرم ا نے معراج شریف کے بعد ایک خواب دیکھا، جس کی تصدیق خود الله تعالیٰ نے فرمائی:
”لَقَدْ صَدَقَ الله ُ رَسُوْلَہُ الْرُّءْ یَا بِالْحَقِّ ۔“ ( الفتح : ۲۷)
ترجمہ:۔ ہم نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا
جب باری تعالی نے حضور اکرم ا کے خواب کی خود تصدیق فرمائی تو ثابت ہوا کہ خواب ایک پر اسرارچیز ہے ، جو چیزپیغمبروں کو بطور انعام عطا ہو اور اس کی تصدیق باری تعالی فرمائے تو اس کے افضل ہونے میں کس کو کلام ہوسکتا ہے۔
۳-کسی بیگناہ کو جان بوجھ کر قتل کرنا ، ایک بد ترین فعل اور گناہ کبیرہ ہے ، جس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ تمام پیغمبر گناہوں سے پاک ہوتے ہیں چہ جائیکہ گناہ کبیرہ ہو،لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں تو حضرت ابراہیم حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کی رضامندی سے اس فعل کے لئے بھی تیار ہوگئے۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
” وَ نٰدَیْنٰاہُ أَنْ یَآ إبْرَاھیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَآإنَّا کَذَٰلِکَ نَجْزِی الْمُحسِنِیْن،َإنّ ھٰذآ لَھُوَالبَلٰؤُ المُبِیْنُ،وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍٍ عَظِیْمٍ۔“ ( الصّٰفٰت : ۱۰۴- ۱۰۷)
ترجمہ:۔”اور ہم نے انکو آواز دی کہ اے ابراہیم:بیشک تونے خواب کو سچ کر دکھایا، ہم نیک لوگوں کو اسی طرح اجر دیا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ تھا بھی بڑاامتحان اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دے دیا۔“
پس اگر خواب کوئی اعلیٰ چیز نہ ہوتی تو ابراہیم علیہ السلام محض خواب کی بناء پر اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے اور الله تعالیٰ آپ کو امتحان میں کامیاب ہونے کی یہ بہترین سند عنایت نہ کرتا۔
اس سے خواب کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز میں اعلی و افضل چیز کا تذکرہ ہوتو وہ علم (علمِ تعبیر)بھی اعلیٰ و افضل ہوتا ہے۔
کچھ صاحبان کو ایک عجیب مغالطہ لگا ہے کہ اس جز نبوت (سچے خوابوں کے دنیا میں باقی رہنے اور جاری رہنے) سے نبوت کا باقی اور جاری رہنا سمجھ بیٹھے ، جو قرآن مجید کی نصوصِ قطعیہ اور بے شمار احادیث صحیحہ کے خلاف اور پوری امّت کے اجماعی عقیدہ ختمِ نبوت کے منافی ہے اور یہ نہ سمجھے کہ کسی چیز کا ایک جز موجود ہونے سے اس چیز کا موجود ہونا لازم نہیں آتا۔
اگر کسی شخص کا ایک ناخن یا ایک بال کہیں موجود ہو تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ شخص وہاں موجود ہے۔ مشین کے بہت سے کل پرزوں میں سے کسی کے پاس اگر ایک پرزہ یا ایک اسکرو موجود ہو اور وہ یہ کہنے لگے کہ میرے پاس فلاں مشین ہے تو لوگ اس کو جھوٹا سمجھیں گے یا بیوقوف۔
سچے خواب حسب تصریح ِ حدیث بلاشبہ جز نبوت ہیں، بار نبوت نہیں، نبوت تو خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله ا نے فرمایا : لَمْ یَبْقَ من النبوة إلاّ المبشرات(یعنی نبوت کا کوئی جز بجز مبشرات کے باقی نہ رہے گا)۔
یہ بات قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کہ سچے خواب بعض اوقات فاسق و فاجر کو بھی آسکتے ہیں: سورة یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے جیل کے دو ساتھیوں کے خواب اور ان کا سچا ہونا اور اسی طرح بادشاہ مصر کے خواب کا سچا ہونا قرآن سے ثابت ہے ، حالانکہ یہ تینوں مسلمان نہ تھے۔
حدیث میں کسریٰ کا خواب مذکور ہے جو اس نے رسول ِکریم ا کی بعثت کے متعلق دیکھا تھا، وہ خواب بھی سچ ہوا ،حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھا۔
(قاری محمد ادریس ہوشیارپوری المبشرات ص ۶۱ ،تاریخ ابنِ کثیر ج:۲ ص: ۵۷۳ )
رسول ِ کریم اکی پھوپی عاتکہ نے بحالتِ کفر آپ کے بارے میں خواب دیکھا تھا، وہ خواب بھی سچا تھا۔یہودی بادشاہ بخت نصرکے جس خواب کی تعبیر حضرت دانیال علیہ السلام نے دی تھی ، وہ خواب سچا تھا۔ (غلام رسول سعیدی ، تفسیر تبیان القرآن ج:۷، ص: ۲۰۱ )
اس سے معلوم ہوا کہ سچا خواب نظر آنے اور واقعات کو اس کے مطابق ہونے سے ، اس کے نیک صالح بلکہ مسلمان ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔
البتہ سچے اور نیک لوگوں کو سچے خواب دکھائی دیتے ہیں اور فساق و فجار کے خواب عموماً حدیث النفس یا تسویل شیطانی قسم کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے خلاف بھی ہوجاتا ہے۔ بہرحال سچے خواب عام امت کے لئے حسب تصریح حدیث ایک بشارت یا تنبیہ سے زیادہ کوئی مقام نہیں رکھتے، نہ خود اس کے لئے کسی معاملے میں حجت ہیں، نہ دوسروں کے لئے۔
خواب کی تعبیر، خواب پر موقوف ہونے کا مطلب تفسیر مظہری میں یہ ہے کہ: بعض تقدیری امور، تقدیرِ مبرم یعنی قطعی نہیں ہوتے بلکہ معلق ہوتے ہیں کہ فلاں کام ہوگیا تو یہ مصیبت ٹل جائے گی اور نہ ہوا تو پڑجائے گی، جس کو قضائے معلق کہا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں بُری تعبیر دینے سے معاملہ بُرا اور اچھی تعبیر دینے سے معاملہ اچھا ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ترمذی کی حدیث میں ایسے شخص سے خواب بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے جو عقلمند نہ ہو یا اس کا خیر خواہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ بُری تعبیر سن کر انسان کے دل میں یہی خیال آتا رہتا ہے کہ اب مجھ پر مصیبت آنے والی ہے۔
جب الله تعالی کی طرف سے مصیبت آنے پر یقین کربیٹھا تو عادة الله کے مطابق اس پر مصیبت آنا ضروری ہوگیا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ احتمال ہو کہ ہماری خوشحالی اور نعمت کا ذکر سنے گا تو حسد کرے گااور نقصان پہنچانے کی فکر کرے گا تو اس کے سامنے اپنی نعمت، دولت و عزت وغیرہ کا ذکر نہ کرے۔
رسول اکرم اکا بھی ارشاد ہے " اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لئے ان کو راز میں رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے ۔
دماغ جب فارغ ہوجاتا ہے تو وہ آئینے کی مانند ہوتا ہے ، جس میں روح عالم کو دیکھتی ہے : کبھی بعید، کبھی نزدیک۔ محدثین کہتے ہیں کہ انسان جب جاگتا ہے تو اس کی روح انسانی جسم کے ساتھ مشغول ہوجاتی ہے اور جب انسانی جسم سو جاتا ہے تو روح کوعالم کے اندر سیر کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
روح کا ایک حصّہ انسانی زندگی کے قیام کے لئے موجود رہتا ہے ،جب کہ دوسرا حصّہ فراغت پاکر کہیں مناظر دیکھنے نکل جاتا ہے۔ درست بات تو یہ ہے کہ روح کے راستے میں مسافت یا رکاوٹ نہیں۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش کی رحلت !
Flag Counter