Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

3 - 8
دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش کی رحلت !
دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش کی رحلت

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کے لئے
شوال ۱۳۹۵ھ کے اوائل اور اکتوبر ۱۹۷۵ء کے اواخر کی بات ہے، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں مشہور ۸۵ سالہ جشنِ تعلیمی منعقد ہوا، جس میں دارالعلوم دیوبند کے اہم ارکانِ شوریٰ کے ساتھ، حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ نے بھی شرکت کی۔ سہ روزہ تقریب کے پہلے دن فجر کی نماز کے معاً بعد امیرِ شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمة اللہ علیہ (۱۳۳۲ھ/۱۹۱۳ء-۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء) کے ساتھ دارالعلوم ندوة العلماء کی مسجد کے صدر گیٹ پر، حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ سے پہلی بار اس طرح ملاقات ہوئی کہ جب راقم نے بڑھ کے دونوں حضرات سے سلام کے بعد مصافحہ کیا، تو حضرت امیر شریعت نے حضرت مرحوم سے میرا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ یہ مولانا نور عالم قاسمی امینی ہیں، یہاں عربی زبان وادب کے ہر دل عزیز استاذ ہیں، مولانا علی میاں ان کی بہت قدر کرتے ہیں۔ پھر امیر شریعت نے اس راقم سے فرمایا: آپ انہیں جانتے ہیں؟ عرض کیا: حضرت! بدقسمتی سے نہیں جانتا۔ فرمایا: یہ دارالعلوم دیوبند کے موقر رکنِ شوریٰ حضرت مولانا مرغوب الرحمن ہیں۔ راقم نے عرض کیا: نام تو حضرت کا بار بار سنا ہے، لیکن دیدشنید کی سعادت پہلی بار حاصل ہورہی ہے۔ امیر شریعت نے فرمایا: اور میرا ان کا خصوصی تعلق خاطر کا رشتہ ہے، یہ میرے رفیقِ درس بھی رہے تھے، میں ان کے ہاں بجنور آم کی دعوت کھانے اور دیگر مواقع سے بھی وقتاً فوقتاً مہمانی کرنے جاتا رہتا ہوں۔
حضرت مرحوم سے یہ پہلی ملاقات تھی: چہرے پر معصومیت، دانائی بھری خاموشی، باوقار شخصیت، بھرپوربدن، کشیدہ قامت، آنکھوں میں انسیت ومحبت، سلوک وادا سے پھوٹتی ہوئی شرافت، انگ انگ سے رستی ہوئی خاک ساری وبے نفسی، چال میں متانت، پیشانی پر خاندانی رفعت کی نمایاں لکیریں، ہونٹوں پر پر سکون تبسم۔ چنانچہ حضرت امیر شریعت کی ساری گفتگو کے دوران حضرت مرحوم نے صرف معنی ریز مسکراہٹ ہی پر اکتفا فرمایا۔
اس واقعے کے سات سال بعد ۱۵/شوال ۱۴۰۲ھ=۶/اگست ۱۹۸۲ء کو راقم الحروف دارالعلوم میں نئی انتظامیہ کی عمل داری کے بعد، اس کی مجلس شوریٰ کے حکم کے بہ موجب عربی زبان وادب کے استاذ اور اس کے عربی ترجمان ”الداعی“ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے دارلعلوم وارد ہوا، تو حضرت مرحوم ہی دارالعلوم کے باقاعدہ مہتمم اور اس کے سیاہ سفید کے مالک کی حیثیت سے برسرِعمل تھے۔(۱) دارالعلوم آمد کے بعد ہی راقم کو سب سے پہلے ”الداعی“ کے اجرائے نو اور اس کے پہلے شمارے کی ترتیب وتیاری اور اشاعت کے لئے ، دارالعلوم کے انتظامی عدم ٹھہراؤ اور بندو بستی انتشار کے اس عہد پریشاں میں حضرت مرحوم سے دن میں کئی کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ اُس صورت حال میں جس میں دارالعلوم کا ان سے نیچے کا ہر اہل کار آشفتہ سا محسوس ہوتا تھا، راقم نے حضرت مرحوم میں سمندر کی گہرائی اور صحرا کا سکون محسوس کیا۔ دارالعلوم میں اس کے بعد بھی آشفتگی کے کئی دور آئے، جس میں اس کے بہت سے خدام تحیر کا شکار نظر آئے؛ لیکن انصرام وانتظام کے اصل مرکز ہونے کے باوجود، ان پر پریشاں خاطری کا کوئی عالَم کبھی طاری نہ ہوا۔ انسان کی عظمت، فکری رفعت، حاضر دماغی اور بیدار مغزی کا اصل جو ہر، نازک حالات اور کٹھن وقت میں ہی آشکارا ہوتا ہے۔ سطحی انسان جو فکری بلندی سے بے مایہ اور حوصلے سے تہی دامن ہوتا ہے، ایسے وقت میں بسااوقات حواس کھوبیٹھتا ہے اور پیش آمدہ مسئلے سے عہدہ برآہونے کی کوئی کار آمد تدبیر کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
حضرت مولانا مرغوب الرحمن، ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۰ء (۱۴۰۱ھ سے ۱۴۳۱ھ) تک کم وبیش ۲۹ سال دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے (۲) ان کی بے پایاں حصول یابیاں اور کارہائے اہتمام ہیں، ان کی بے حساب کامرانیوں کاسرچشمہ ان کی نیکی وسادگی، اخلاص وبے لوثی، دیانتداری وپرہیزگاری، شب بیداری وخوش اوقاتی ، جذبہٴ احتساب اور دارالعلوم کی خدمت کو ذریعہ ٴ نجات سمجھنے کے ساتھ ان کا یہ عظیم وصف تھا کہ ان کے اندر کا انسان بڑا جوصلہ مند، غیر معمولی معنوی طاقتوں (Morale)اور آہنی ارادوں کا حامل تھا۔
راقم کو یاد ہے کہ حکیم الاسلام (حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء=۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء) جیسے عظیم المرتبہ، عالمی شہرت کے حامل، علم وعمل کی جامعیت میں ممتاز اور انسانی خوبیوں کے سراپا کی جگہ، حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ کو مہتمم مقرر کئے جانے کو اس وقت دارالعلوم دیوبند کے اکثر فضلاء اور عام پڑھے لکھے لوگ ایک بے جوڑ سی بات محسوس کرتے تھے۔ عام طور پر لوگ کہتے تھے کہ دارالعلوم کی یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ علمی وعملی پہلو سے غیر معمولی انسان کے بعد اب اس کی کشتی کا ناخدا ایک ایسا انسان بنایاگیا ہے جو اس کے حوالے سے انتہائی ”معمولی“ ہی کہا جائے گا۔ گویا دارالعلوم آسمان سے گرا تو کھجور میں بھی نہیں اٹکا، بلکہ زمین پر آرہا۔
انسان عموماً کوتاہ بیں اور ظاہر پرست ہوتا ہے۔ وہ عالم الغیب بھی نہیں ہوتا، اس پر انسان کی عظمتوں اور کمالات کے پرت، فکر وعمل کی اس کی آئندہ زندگی میں ہی کھلتے ہیں، اس لئے وہ اس کے ماضی اور حال کے اکتسابات کی روشنی ہی میں اس پر اچھے برے ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ حضرت مرحوم نہ صرف یہ کہ تقریر وتحریر کے آدمی نہ تھے، بلکہ انتہائی خاموش طبع واقع ہوئے تھے، ضرورت کے مطابق اور انتہائی ضرورت کے وقت ہی لب کشا ہوتے تھے۔ درس وتدریس کا بھی کوئی مشغلہ نہیں رہا تھا، جس سے تلامذہ اور مستفیدین کی ایک جماعت بنتی اور حسبِ افادہ حسنِ تذکرہ کا ذریعہ ہوتی ہے۔ تقریر تو کجا عام مجلس میں ”مشاق مقرروں“ کی طرح دعائیں بھی روانی سے اور اثر انگیز انداز میں نہیں کراپاتے تھے اس لئے شروع کے دو تین برسوں میں تو اور بھی لوگ انہیں ”بے زبان“ بلکہ ”بے علم“ اور” غیر سودمند مہتمم“ تصور کرتے تھے۔
لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمتوں کے پرت کھلنے لگے اور لوگوں کو ماننا پڑا کہ دارالعلوم کے حوالے سے وہ ”وقت کے مطلوبہ آدمی“ ہیں، جسے عربی میں ”رجل الساعة“ کہا جاتا ہے۔ بالخصوص انتظام وانصرام کے باب میں وہ ایسے ”بے نظیر“ ثابت ہوئے کہ ان کی وفات کے بعد لوگوں کی زبان پر عام طور پر یہ بات ہے کہ پتہ نہیں اب ایسا ”مردِ دانا“ (رجل رشید) دار العلوم کو ملے گا کہ نہیں؟
یہاں یہ ریکارڈ کرنا ضروری ہے کہ دارالعلوم دیوبند صلحائے امت کے مطابق الہامی تعلیم وتربیت گاہ ہے۔ اس کی بنیاد واقعتاً تقویٰ پر استوار ہوئی ہے، اسی لئے اس کو ہرخاص وعام میں عجیب سی محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ خدائے کریم نے ہمیشہ اس کی حفاظت کی ہے۔ بڑے سے بڑے طوفان میں اس کی کشتی گرداب میں نہیں پھنسی۔ نازک سے نازک وقت میں (جو اگر کسی اور عام ادارے اور تعلیم گاہ پر آتا تو بالیقین اس کا وجود ختم ہوجاتا) صاف طور پر محسوس ہوا کہ غیبی ہاتھ نے اس کو ہرطرح کے خطرے سے نکال اور ہر قسم کے ضرر سے بچالیا ہے۔ عروج وزوال کی سنت اللہ فرد، جماعت اور ادارے کے ساتھ اپنا اثر دکھاتی رہی ہے اور دکھاتی رہے گی۔ ماضی کے ایسے اصحابِ یقین وعزیمت افراد اب دارالعلوم کو میسر ہیں نہ امت مسلمہ کو لیکن اس وقت تک دارالعلوم کا ہر طوفان سے بہ خیر وخوبی نکل آنا، یہ بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت کو ابھی بھی دارالعلوم کا کردار ادا کرتا رہنا منظور ہے اور نمود ونمائش کی پرستاری کے اس دور میں اور مادیت کے سیلِ بلاخیز کی اس دنیا میں وہ اس کو حسبِ سابق محوِ عمل رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ یہ ثابت کرے کہ عمل اور کردار سے ہی وہ کسی فرد یا جماعت کو سرخ روئی عطا کرتا ہے نہ کہ بات بنانے، شورمچانے اور پروپیگنڈہ کرنے سے۔ اول الذکر فرد یا جماعت کو وہ اسی طرح کی ساحرانہ محبوبیت عطا کرتا ہے، جیسی دارالعلوم دیوبند کو اور ثانی الذکر فرد یا جماعت کو سخنِ بسیار اور ساری کوششوں کے باوجود، خلقِ خدا کے نزدیک کسی لائقِ تذکرہ مقبولیت سے ہم کنار نہیں کرتا۔
اسی لئے ہمیں یقین ہے کہ دارالعلوم کی خدمت بالخصوص اس کے اعلیٰ انتظامی منصب (اہتمام) کے لئے کسی شخصیت کے انتخاب میں رب کریم کی توفیقِ خاص کار فرما رہتی ہے اور یہ توفیقِ ربانی اس کو ہمیشہ صحیح سمت میں چلنے اور غلط سمتوں میں قدم بڑھانے سے بچے رہنے کے لئے راہ نمائی کرتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ بہ ظاہر وہ شخصیت ”معمولی“ ہوتی ہے، لیکن اللہ پاک اپنی قدرت سے اس سے بڑے بڑے کام لیتا ہے اور دارالعلوم کو اپنا کردار ادا کرتے رہنے کے لئے جن دیدہ ونادیدہ اور مادی ومعنوی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کے ذریعے اسے میسر کراتا رہتا ہے اور” وَلِلّٰہِ جُنُودُ السَّمٰوٰتِ وَ الأرضِ“ (الفتح:۴:۷)کی سچائی کے مظاہر سامنے لاتا رہتا ہے۔ انسان اگر بہت باصلاحیت بھی ہو تو خدا کی توفیق کے بغیر بالکل بے صلاحیت ہوتا ہے اور بے صلاحیت بھی ہو تو خدا کی توفیق سے بہت باصلاحیت ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انسان میں علمی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شہرت وعزت ونیک نامی نہیں ہوتی، لیکن کسی ذمے داری کے بادل ناخواستہ قبول کر لینے کے بعد، اس میں بے پناہ خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور انتظامی سطح پر اس سے ایسے کارنامے ظہور میں آتے ہیں کہ لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ اسباب کے ذریعے مسببات کے ظہور میں آنے کا یقین رکھنے والا ظاہر پرست انسان اس وقت انگشت بدنداں رہ جاتا ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ بہ ظاہر ”بے ہنر“ نے ہنر مندی کے اتنے کام کیوں کر انجام دے لئے لیکن خدائے وحدہ لاشریک کی قدرت علی الاطلاق پر یقین رکھنے والے کو اس سلسلے میں کوئی حیرت نہیں ہوتی۔
حضرت مولانا مرغوب الرحمن کو جس وقت حضرت مولانا قاری محمد طیب جیسے آسمانِ علم وکمال کے تعاون کے لئے کارگزار مہتمم اور ان کے مستعفی ہوجانے کے بعد باقاعدہ مہتمم نامزد کیاگیا، اس وقت کی مجلسِ شوریٰ میں بھی خاصے اہلِ علم وکمال کی کوئی کمی نہ تھی لیکن ارکانِ شوریٰ نے بالاتفاق اصرار کے ساتھ حضرت رحمة اللہ علیہ ہی کو اس منصبِ عالی کے لئے مقررکیا۔ کردار وعمل کی زمین پر اللہ نے ان سے جو کام کرائے، ان سے واضح ہوگیا کہ اس بڑی ذمے داری کے اس عہدے کے لئے ان کا انتخاب توفیق ربانی کی دین تھا۔
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نے دارالعلوم کی زمامِ اہتمام ایسے وقت میں سنبھالی جب وہ شدید خلفشار کے طویل دور سے پوری طرح نکل نہیں سکا تھا کیونکہ اس کے منفی اثرات کا تسلسل ہنوز باقی تھا، ایسے حالات میں سارے انتظامی شعبوں کو از سر نو استوار کرکے انہیں سرگرم سفر کرنا، ملازمین ومدرسین کا اعتماد بحال کرنا اور طلبہ کے اپنے مقصد کی راہ پر محوِ عمل رہنے کا حوصلہ پانے کے لئے قدرتی فضا بنانا، جوئے شیر لانے کا عمل تھا۔ انہوں نے اپنی خداترسی وشب بیداری، دارالعلوم کے لئے اپنی دل سوزی، اپنے غیر معمولی تدبر، اپنی عالی حوصلگی، کاروانِ عمل کے ہرفرد کو ساتھ لے کر چلنے کی ہزار خوبیوں کی اپنی جامع خوبی، خاموشی کے ساتھ محض کام کرتے رہنے کی اپنی ہمت اور ہمہ وقت کی فکرمندی کی وجہ سے، نہ صرف حالات کی نزاکتوں پر قابو پالیا، بلکہ سکون واطمینان کی ایسی فضا بروئے کارلانے میں کامیاب رہے کہ ان کے کم وبیش تیس سالہ دور اہتمام میں پھر کبھی کوئی انتشار رونما نہ ہوا، جس کی وجہ سے دارالعلوم نے تعلیمی وتعمیری سطحوں پر لائقِ ذکر ترقی کی۔
تعمیری سطح پر تو کہنا چاہئے کہ دارالعلوم کی پہلے کی بہ نسبت تقریباً تین گنی عمارتیں انہی کے دور میں تعمیر ہوئیں، دارالعلوم کی مشہور وپرشکوہ ولمبی چوڑی جامع رشید جو فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے، انہی کے خلوصِ بے کراں کی دین ہے۔ اعظمی منزل کی سہ منزلہ عمارت ، مدرسہ ثانویہ کی عمارت، شیخ الاسلام منزل کے نام سے سہ منزلہ ہاسٹل، حکیم الامت منزل کے عنوان سے پرشکوہ درجہٴ حفظ کی عمارت جس میں درجہٴ حفظ کے طلبہ کی تدریس ورہائش کا بھی انتظام ہے، اساتذہ کے لئے متعدد فیملی کوارٹر، حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی (سابق مددگار مہتمم وناظم تعلیمات واستاذ ادب وحدیث ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء=۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء) کے ذریعے دار الاہتمام کا دوسرا ہال اور دائیں بائیں دارالاہتمام میں جانے کے زینے، کتب خانے کے نیچے سے احاطہٴ دفاتر سے احاطہٴ کتب خانہ سے ہوکر دار جدید کی طرف جانے کا کشادہ راستہ، کتب خانہٴ دارالعلوم کی توسیع نیز کتب خانے کے لئے دارِ جدید کی جانب ِ غرب میں مستقل مضبوط اور متعدد منزلہ کشادہ عمارت کی تعمیر (جواب قریب التکمیل ہے) اور دار جدید نام کی سب سے بڑی طویل الذیل طلبہ کی رہائش گاہ کی تعمیر نو (جس کا بڑا حصہ مکمل ہوچکا ہے اور باقی زیر تعمیر ہے) اسی طرح رواقِ خالد کے دائیں اور بائیں دو مزید ہاسٹلوں کی تعمیر، احاطہٴ مطبخ میں دارالقرآن کے نام سے کئی کمروں پر مشتمل ہاسٹل ، دارالعلوم کی ساری اراضی کی مضبوط اور اونچی فصیل بندی، بہت سی اراضی کی خریداری، جن میں سے بعض پر مذکورہ عمارتوں میں سے بعض عمارتیں تعمیر ہوئیں، بالخصوص محلہ خانقاہ میں غیر مسلموں کے مکانات کی خرید، جس سے یہ محلہ ہندومسلم آمیزش کے خطرے سے پاک ہوگیا اور عام مسلمانوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ بھی یہاں آبسیں، پانی کی دو بڑی ٹنکیوں کی تعمیر، مہمان خانہ کی تعمیر نو، ایک بڑے جنریٹر کی خرید، جس سے پانی کی ٹنکیاں بھی بہ وقت ضرورت بھری جاسکیں اور اسی کے ساتھ ایک چھوٹے جنریٹر کا انتظام جو درس گاہوں اور دفاتر میں بجلی کے منقطع ہونے کی صورت میں (جو دیوبند میں روز مرہ کا معمول ہے) روشنی اور پنکھوں کے چلتے رہنے کو یقینی بناتا ہے، نیز جس کی وجہ سے دارالعلوم میں رات کے بارہ بجے تک بھی بجلی کے غائب ہونے کی صورت میں روشنی کا معقول انتظام رہتا ہے، یہ سارے کارنامے انہی کے دور مسعود میں اور انہی کی فکر مندی سے روبہ عمل آئے۔
حضرت مرحوم جب تک صحت مند رہے اور چلنے پھرنے کی طاقت رہی، وہ زیر تعمیر عمارتوں کو تقریباً روزانہ ہی کم از کم ایک بار ضرور موقع پر دیکھنے جاتے، وہاں دیر تک کھڑے رہتے، مختلف زاویوں سے اس کا معائنہ کرتے ، موقع پر موجود ٹھیکے داراور اہم معماروں سے تعمیری پیش رفت پر تبادلہٴ خیال کرتے، اپنے طور پر انہیں ضروری مشورے دیتے اور عمارت میں کسی جگہ کوئی مفید ترمیم وتنسیخ سمجھ میں آتی تو انہیں اس کی صلاح دیتے۔ جامع رشید کی تعمیر سے حضرت کو خصوصی دلچسپی تھی، یاد ہے کہ جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تو اس کے تعمیری دورانیے میں جو سال ہا سال پر محیط رہا، دن میں کئی کئی بار جائے تعمیر پر تشریف لے جاتے، کبھی کبھی گھنٹہ، آدھ گھنٹہ وہاں بیٹھ کے تعمیری عمل کا بہ غور مشاہدہ کرتے۔ ان دنوں حضرت کی صحت بہت اچھی تھی، تیز رفتاری سے چلتے تھے، اس لئے دارالعلوم کے احاطے میں جہاں بھی کوئی تعمیری سرگرمی جاری ہوتی، وہاں پہنچ کے مشاہدہ کرتے اور دارالعلوم کے مختلف شعبوں کا بھی اچانک معائنہ فرمانے تشریف لے جاتے۔ سچ یہ ہے کہ وہ دارالعلوم کے سارے کاموں سے اس طرح دلچسپی لیتے تھے کہ بہت سے لوگوں کو اپنے ذاتی کاموں سے بھی اتنی دلچسپی نہیں ہوتی۔
تعلیمی وثقافتی سطح پر بہت سے نئے شعبے ابھرے؛ معین المدرسین کا نظام استوار ہوا، جو اکابر کے زمانے میں کبھی ہوا کرتا تھا، تخصص فی الحدیث اور تکمیل العلوم کے شعبے قائم ہوئے، عالمی ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بعد دارالعلوم میں مستقل شعبہٴ ختم نبوت قائم ہوا، رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے نام سے ہندگیر تنظیم قائم ہوئی، فرق باطلہ کے رد کے لئے محاضرات کا مستقل نظام روبہ عمل آیا، نیز تحفظ سنت شعبہ اور شعبہٴ ردّ عیسائیت قائم ہوئے، شیخ الہند اکیڈمی تازہ دم اور فعال ہوئی، انگریزی زبان وادب کے دوسالہ شعبے کا قیام ہوا، جس کے بعد ہی بہت سے مدارس نے طلبہٴ مدارس عربی کے لئے انگریزی تعلیم کا اسی طرح کا نظام اپنے یہاں قائم کرنا شروع کیا، شعبہٴ کمپیوٹر وانٹرنیٹ قائم ہوا، جس میں طلبہ کی ٹریننگ کا یک سالہ نظام زیر عمل لایا۔ دارالعلوم کے امتحانی نظام میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ سالانہ امتحان کے علاوہ مزید امتحانات: سہ ماہی وشش ماہی ہواکرتے تھے، لیکن ضیاع وقت کے ساتھ ساتھ تقریری ہونے کی وجہ سے ان سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا تھا، لہذا صرف دو امتحانات:شش ماہی اور سالانہ کردیئے گئے اور شش ماہی کو سالانہ ہی کی طرح باقاعدہ تحریری بنادیاگیا، جس سے طلبہ کی صلاحیت سازی کا عمل زیادہ کارگر اور مفید ثابت ہوا۔ طلبہ کی تعداد حضرت حکیم الاسلام کے دور میں صرف اٹھارہ سو (۱۸۰۰) ہوا کرتی تھی، اسے بڑھاکر ساڑھے تین ہزار اور چار ہزار (۳۵۰۰-۴۰۰۰) کے قریب کردی گئی، طلبہ کے وظائف میں معقول اضافہ کیا گیا۔ بہت سے شعبوں کے وظائف لائقِ تذکرہ اور ریکارڈ ہیں، طلبہ کے کھانے میں بھی مہینے میں دوبار پھر تین بار بریانی کا انتظام ہوا۔ امتحانات کے زمانے میں ساری درسگاہوں کے کھلے رہنے کا انتظام ہوا، طلبہ کی سیکٹروں ضلعی وصوبائی انجمنوں کو معنوی مدد دی گئی اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
مالیہ کی فراہمی کا کارگر اور فعال نظام قائم ہوا اور دارالعلوم کا بجٹ تقریباً ۱۴ کروڑ تک پہنچ گیا، جب کہ حضرت حکیم الاسلام کے بعد حضرت مرحوم کو صرف (۶۰) ساٹھ لاکھ کے بجٹ کا دارالعلوم ملاتھا۔ حضرت مرحوم کی یہ خوبی رہی کہ جب تک وہ زیادہ ہوش میں اور زیادہ فعال رہے، دارالعلوم کے حساباتِ آمد وصرف کے ایک ایک پرزے کو بذات خود دیکھتے تھے۔ وہ دارالعلوم کے ملازمین کا بعض دفعہ ایک دو روپے کے ان مصارف پر مؤاخذہ کر لیتے تھے جنہیں وہ غیر ضروری، بے قاعدہ یا ناروا سمجھتے تھے۔ یہ راقم اہتمام میں جاتا تو اکثر وہ محاسبی کے رجسٹروں اور آمد وصرف کے واوچروں کو دیکھتے ہوئے نظر آتے۔ دارالعلوم کے وسیع ترماحول آمد وصرف کو دقتِ نظر سے جانچنے اور مالی شعبے کی شفافیت کو مطلوبہ معیار پر باقی رکھنے کی ذاتی کوشش کرنے کے حوالے سے وہ منفرد شناخت کے حامل مہتمم تھے۔دارالعلوم کے تعلق سے ان کی امانت ودیانت، بلکہ دارالعلوم کے پیسے کے سلسلے میں انتہائی بخالت ضرب المثل بن گئی تھی۔ ہر چند کہ ان کی اس ”بخالت“ سے بعض دفعہ بعض پریشانیاں کھڑی ہوجاتی تھیں، لیکن اس سے دارالعلوم کے تئیں ان کی غیر معمولی اپنائیت اور قوم کے پیسے کی حد درجہ نگہداشت کی ان کی خوبی اجاگر ہوتی ہے، جوہر ایک کے لئے لائق رشک وقابل تقلید تھی۔ دارالعلوم میں آمد وصرف کا نظام بہت بھاری بھرکم ہے، حضرت مرحوم اپنے تئیں سارے چھوٹے بڑے مصارف پرنگاہ رکھنے میں کوئی کسرباقی نہ رہنے دیتے تھے۔ حضرت مرحوم کی طرح حساب کتاب پر براہ راست نگاہ رکھنے والا سربراہِ اعلیٰ کسی ادارے کو شاید ہی نصیب ہوا ہوگا۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: اسراف کی مختلف شکلیں !
Flag Counter