Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 8
اسراف کی مختلف شکلیں !
اسراف کی مختلف شکلیں
(۲)
اسراف کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ: کوئی شخص مال تو جمع کرلیتا ہے، لیکن اس کی حفاظت نہیں کرتا، مثلاً: وہ مال اگر غلّہ کی شکل میں ہے توحفاظت نہ کرنے کی بنا پر اس میں تعفّن پیدا ہوجاتا ہے یا رطوبت پہنچنے کی وجہ سے غلہ خراب ہوجاتا ہے یا اس میں گھن اور کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں یا چوہے آکر اس کو خراب کرجاتے ہیں یا چیونٹیاں اس کو اڑالے جاتی ہیں یا کھانا سڑجاتا ہے۔ یہ خرابیاں غلے کے ساتھ ساتھ کھانے کی اشیاء میں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثلاً: روٹی یا گوشت یا شوربے یا پنیر یا آٹاوغیرہ ۔اسی طرح یہ خرابیاں تر پھلوں اور سبزیوں میں پیدا ہوجاتی ہیں اور کبھی خشک میوہ جات میں بھی غفلت اور اسراف سے یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔
کبھی کپڑوں میں اسراف ہوتا ہے کہ ایک یا دو کے بجائے کئی کئی فضول جوڑے رکھے رہتے ہیں یا دسیوں لحاف بسترے اور کمبل فضول ریاکاری کے لئے پڑے رہتے ہیں یا طرح طرح کے گھریلو برتن جمع کئے جاتے ہیں اور بڑی بڑی الماریوں میں سجائے جاتے ہیں یا نمائش کی غرض سے علماء کے ہاں ضرورت سے زیادہ کتابیں خریدی جاتی ہیں اور اس میں اسراف کی حد تک تجاوز کیا جاتا ہے۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھا نا پکایاجاتا ہے اور پھر اس کو ضائع کرکے گرایاجاتا ہے یا بھوسے ٹکڑوں کی صورت میں فروخت کیا جاتا ہے یا دسترخوان پر دس دس قسم کے کھانے رکھے جاتے ہیں اور پھر برتن اور دسترخوان آلودہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور پس خوردہ کھانا کچرادان میں پھینکا جاتا ہے، یہ بدترین اسراف ہے، جس کا جواب قیامت میں دینا ہوگا۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کھانا کھانے کے بعد برتن اور انگلیاں چاٹنے سے پہلے پانی سے دھولیتا ہے اور برتن اور انگلیوں سے لگاہوا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ نیز دسترخوان پر روٹی کے گرے ہوئے تراشے اٹھائے بغیر پھینکنا بھی اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ سنت عمل برتن اور انگلیوں کا چاٹنا اور گراہوا تراشہ صاف کرکے کھانا ہے۔
”عن جابرأن النبیّ ا أمر بلعق الأصابع والصحفة“۔ (مسلم،ج:۲ ص:۱۷۵)
ترجمہ:۔” حضرت جابر  سے روایت ہے کہ رسول اللہابرتن اورانگلیاں چاٹنے کا حکم فرماتے تھے“۔
”عن أنس أن رسول الله ا کان إذا أکل طعاماً لعق أصابعہ الثلاث“۔
(مسلم،ج:۲،ص:۱۷۶)
ترجمہ:۔” حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا جب کھانا تناول فرماتے تو آپ ا اپنی تین انگلیاں چاٹ لیتے تھے۔ “
بہرحال انگلیاں چاٹنے اور گرے ہوئے تراشوں کے اٹھانے میں کئی فوائد ہیں:
۱:… اسراف سے بچنا ۔
۲:… تکبر سے بچنا۔
۳:… ریاکاری سے حفاظت ۔
۴:… حصول برکت ۔
۵:… سید المرسلین ا کی پیروی اور سنت پر عمل ہے۔
اگر گرے ہوئے تراشے اٹھاکر مرغیوں اور بکریوں یا پرندوں اور بلیوں کو کھلا دیئے جائیں تو یہ اسراف نہیں ہوگا۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے جوتے اور پگڑی یا لباس کی حفاظت نہ کرے۔ پگڑی کا شملہ اگر کمر سے نیچے تک لمبا ہو تو یہ بھی اسراف ہے۔ قمیص کی آستین اگر انگلیوں تک پہنچ جائے تو یہ بھی اسراف ہے، نیز پاجامہ یا پتلون یا کرتہ اگر ٹخنوں سے نیچے تک جائے تو یہ اسراف بھی ہے اور حدیث کی ممانعت کی وجہ سے حرام بھی ہے۔
غسل میں صابن کواور اسی طرح چراغ کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا بھی اسراف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زیب وزینت کی دیگر اشیاء میں بھی اگر حد سے تجاوز کیا تو یہ بھی اسراف ہے۔ گھروں میں یا مساجد میں ضرورت سے زائد بجلی استعمال کرنا بھی اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (طریقہٴ محمدیہ)ربیع الاول میں نبی کریم ا کی ولادت کی آڑ میں ملک بھر میں جو چراغاں کیا جاتا ہے، گنبد بنائے جاتے ہیں اور جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، اس سے بڑا اسراف کیا ہوسکتا ہے؟ جو دین کے نام پر کیا جاتا ہے۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ایک شخص کسی مجبوری کے بغیرمحض لاپرواہی کی بناپر ایک عمدہ اور اعلیٰ قیمت چیز کو بہت کم قیمت اور نقصان کے ساتھ فروخت کرتا ہے یا اعلیٰ عمدہ مکان کو بہت کم کرایہ پر چڑھاتا ہے، نہ اس میں صدقہ کی نیت ہے، نہ کسی مسلمان کی ہمدردی کی نیت ہے۔ نیز یہ بھی اسراف کی شکل ہے کہ ایک شخص لاپرواہی کے ساتھ بے کارمال کو بہت زیادہ قیمت پر خرید لیتا ہے یا بے کار مکان کو بہت زیادہ کرایہ پر لیتا ہے۔
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مرد ے کے کفن کا کپڑا بہت اعلیٰ استعمال کیا جائے یا کفن کو مردے کے قدسے زیادہ استعمال کیا جائے۔ اسی طرح وضو بنانے میں پانی کو زیادہ استعمال کیاجائے ،یہ سب اسراف میں داخل ہے۔
مشکوٰة شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ا کا گذر حضرت سعد کے قریب سے ہوا ،وہ وضو کر رہے تھے، آنحضرت ا نے فرمایا: سعد! یہ کیا اسراف کرہے ہو؟حضرت سعد نے فرمایا : یا رسول اللہ! وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ نبی اکرم ا نے فرمایا: ہاں! وضو میں بھی اسراف ہے ، اگر چہ تم ایک جاری نہر سے وضو بنارہے ہو۔
(مشکوٰة،ص:۴۷)
اسراف کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی سیر ہونے کے بعد بھی کھانا کھاتا رہے، ہاں! اگر مہمان کی غرض سے کھائے تو اسراف نہیں یا رمضان میں سحری کے وقت کھائے تو حرج نہیں۔
اسراف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی ایک دن میں بلاضرورت دو مرتبہ کھانا کھائے۔ سنن بیہقی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے، حضرت عائشہفرماتی ہیں کہ مجھے رسول کریم ا نے دیکھا کہ میں نے ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تھا، آپ ا نے فرمایا : اے عائشہ! تم یہ پسند نہیں کروگی کہ تجھے کھانے کے علاوہ (عبادت وغیرہ) کا کوئی شغل ہو؟ اے عائشہ! ایک دن میں دومرتبہ کھانا اسراف میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ (بیہقی)
ابن ابی الدنیا اور بیہقی میں حضرت انس سے ایک روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے فرمایا کہ: یہ بھی اسراف میں آتا ہے کہ تم (بلاروک ٹوک) ہر اس چیز کو کھاؤ جس کی تمہیں تمنا اور چاہت ہوجائے۔
تنبیہ
صاحب کتاب نے ان دونوں حدیثوں کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مناسب ہے کہ ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہ لیا جائے کہ پیٹ بھر کر سیر ہونے کے بعد جو آدمی کھائے، وہ اسراف ہے یا یہ مطلب ہو کہ ان حدیثوں میں کراہت کا بیان ہے، حرمت کا بیان نہیں ہے۔ (ص:۴۲)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی دسترخوان پر کئی قسم کے کھانوں کو جمع کرے، ہاں اگر ایک قسم کے کھانے سے اکتاجائے یا مہمانوں کی وجہ سے مختلف قسم کے کھانے تیا رکئے جائیں (بشرطیکہ کھانے کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو) تو گنجائش ہے۔چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جو چاہو کھاؤ اورجو چاہو پیو، مگر دوچیزوں کا خیال رکھو، ایک اسراف کا، دوسرا تکبر کا۔ (خلاصة الفتاویٰ)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ روٹی کو درمیان سے کھایاجائے اور اس کے کناروں کو ردی ٹکڑوں میں پھینک کرضائع کیا جائے۔ (خلاصة الفتاویٰ)
اسراف میں سے یہ بھی ہے کہ دسترخوان پر ضرورت سے زیادہ کھانا رکھا جائے، تاہم اس میں بھی یہ شرط ہے کہ کھانا ضائع ہوجائے یا شہرت اور دکھاوا مقصود ہو، تو اسراف ہوگا، ورنہ اسراف نہیں ہوگا۔ (کذا فی الاختیار)
بہرحال اگر کوئی شخص نفیس کھانا کھاتا ہے یا نفیس ولطیف لباس استعمال کرتا ہے یا عمدہ مکان تعمیر کرتا ہے اور یہ چیزیں شرعی حدود کے اندر ہوں اور حلال مال سے ہوں تو یہ اسراف میں نہیں آتا ہے، البتہ کراہت سے خالی نہیں ہوگا، کیونکہ ایک مسلمان کی پوری ہمت اور نظر آخرت پر مرکوز رہنی چاہئے۔ (طریقہ محمدیہ)
اسراف میں یہ بھی آتا ہے کہ کوئی شخص اپنا مال گناہ کے کاموں میں استعمال کرے، اس میں ایک گناہ اسراف کا ملے گا اور دوسرا گناہ اس کا ملے گا کہ اس نے معصیت کا ارتکاب کیا۔
حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص جبل ابوقبیس کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں خرچ کرے تو اس میں اسراف نہیں ہے، لیکن اگر ایک درہم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرے تو یہ اسراف میں شمار ہوگا، چنانچہ حاتم طائی سے کسی نے کہا :”لاخیر فی السرف فقال لاسرف فی الخیر“…” اسراف میں کوئی خیراور بھلائی نہیں ہے، تو حاتم طائی نے جواب میں کہا کہ بھلائی میں اسراف نہیں ہے۔بہرحال ایسے صدقہ کرنے میں بھی اسراف ہے کہ آدمی خود مفلس ہوکر دوسروں کا محتاج بن جائے یا اس کے ذمہ پر بھاری قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ اپنا مال صدقہ کررہا ہے، بلکہ مقروض آدمی کے لئے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ روٹی کے ساتھ بطور سالن زیتون یا سرکہ استعمال کرے، اس کو چاہئے کہ پہلے قرض ادا کرے۔ (طریقہ محمدیہ ص:۴۸ج،۲)
میرے خیال میں اسراف کی سب سے بڑی ذمہ داری گھروں کی خواتین پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ گھریلو خرچہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اگر خواتین کفایت شعاری کی عادت ڈالیں تو مسلمانوں کے معاشرے کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
اسراف کا علاج
اسراف کا علاج تین طریقوں سے ہوسکتا ہے۔ پہلا طریقہ ”علمی“ ہے۔ وہ اس طرح کہ آدمی اسراف کے برے انجام کو سمجھنے کی کوشش کرے، یعنی وہ یہ علم حاصل کرے کہ دنیا اور آخرت میں اسراف کے عواقب کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اسراف کے علاج کا دوسرا طریقہ ”عملی“ ہے، وہ اس طرح کہ آدمی تکلف کرکے اپنے آپ کو قابو میں رکھے اور بے جا خرچ نہ کرے، بلکہ اپنے اوپر ایک نگران مقرر کرے جو اس کو اسراف کے خطرات سے ڈراتا رہے۔
اسراف کے علاج کا تیسرا طریقہ ”قلعی“ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اسراف کی جڑوں کو پہلے معلوم کرے اور پھر اپنی زندگی سے اسراف کی ان جڑوں کو کاٹ کررکھ دے، یعنی اسراف کے تمام اسباب کا ازالہ کرے۔
یہ تین علاج تو صاحب کتاب نے بتائے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اسراف کے دنیوی اور اخروی برے اثرات سے بچنے کے لئے عوام اور خواص، علماء اور صلحاء سب پر لازم ہے کہ وہ کثرت سے استغفار کیا کریں، بلکہ استغفارکو اپنے اوپر لازم کریں۔ امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔
بہرحال جب اسراف غیر مسلموں کے حق میں بھی تباہی ہے تو مسلمانوں کے حق میں یہ کتنی بڑی تباہی ہوگی؟! افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسراف اور عیاشی کے میدان میں مسلمان غیر مسلموں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کا ایک طبقہ سوکھی روٹی کے لئے ترستا ہے، تو دوسری طرف ایک طبقہ اپنی عیاشیوں اور مستیوں میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ اسراف وتبذیر کی حدود سے بہت آگے جا چکا ہے۔ اسی طرح دنیا داروں کے شانہ بشانہ دین دار بھی چلے جارہے ہیں،چنانچہ یحی بن معاذ رازی نے عوام الناس اور دنیادار علماء کو خطاب کرکے فرمایا:
”یا اصحاب العلم قصورکم قیصریة وبیوتکم کسرویة واثوابکم طالوتیة واخفافکم جالوتیة واوانیکم فرعونیة ومراکبکم قارونیة وموائدکم جاہلیة فاین المحمدیة؟“۔
ترجمہ:۔”اے دین دار حضرات! تمہارے محلات تو شاہِ روم قیصر کی طرح ہیں اور تمہارے مکانات شاہ فارس کسریٰ کی طرح ہیں، تمہارے لباس طالوت کی طرح ہیں اور جوتے جالوت کی طرح ہیں، تمہارے برتن فرعون کی طرح اور سواریاں قارون کی طرح ہیں، تمہارے دسترخوان دور جاہلیت کی طرح ہیں، تو تم میں محمدیت کہاں سے آئے گی؟“۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: عالم اسلام کے خلاف سازشیں !
Flag Counter