Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

5 - 8
خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار !
خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار

س… آپ نے ۱۲/اگست ۱۹۹۴ء کے اسلامی صفحہ اقرأ میں لکھا تھا کہ خلع کے لئے زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری دے دی تو خلع نہیں ہوگا اور عورت کے لئے دُوسری جگہ نکاح کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
۲/ستمبر ۱۹۹۴ء کے روزنامہ ”جنگ“ میں ایک خاتون حلیمہ اسحاق صاحبہ نے آپ کے مسئلے کی مدلل تردید کرتے ہوئے لکھا کہ عورت خود خلع لے سکتی ہے اور عدالت بھی شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع دے سکتی ہے، تین ہفتے بعد ۲۳/ستمبر کے اسلامی صفحہ میں آپ نے دوبارہ وہی مسئلہ لکھا لیکن اس مضمون کا کوئی جواب نہیں دیا۔
مولانا صاحب! اس مضمون سے بہت سے لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ حلیمہ اسحاق نے قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مسئلہ لکھا تھا، مگر آپ اس کے دلائل کا کوئی توڑ نہیں کرسکے، از راہ کرم دلائل کی روشنی میں مسئلے کی وضاحت کیجئے اور بے شمار لوگوں کے ذہن کی اُلجھن دُور ہو۔
ج… محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کا مضمون شائع ہونے پر بہت سے لوگوں نے خطوط اور ٹیلیفون کے ذریعہ اس ناکارہ سے وضاحت طلب کی، اس ناکارہ نے ان کو تو جواب دے دیا اور مسئلے کی وضاحت بھی دوبارہ شائع کردی، لیکن محترمہ حلیمہ کے مضمون سے تعرض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ ایک نامحرَم خاتون کا نام لیتے ہوئے بھی طبعی طور پر شرم و حیا مانع آتی ہے، چہ جائیکہ ایک خاتون کی تردید میں قلم اُٹھایا جائے۔ اگر محترمہ نے یہ مضمون اپنے والد، بھائی یا شوہر کے نام سے شائع کردیا ہوتا تو اس کی تردید میں یہ طبعی حجاب مانع نہ ہوتا، بہرحال چونکہ اس مضمون سے بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں، اس لئے یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ محترمہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ان کی انفرادی رائے اور ان کا اپنا اجتہاد ہے، کیونکہ تمام فقہائے اُمت اس مسئلے پر متفق ہیں کہ خلع ایک ایسا معاملہ (عقد) ہے جو فریقین (میاں بیوی) کی رضامندی پر موقوف ہے، حوالے کے لئے دیکھئے:
فقہِ حنفی:… السرخسی: مبسوط ج:۶ ص:۱۷۳۔ الکاسانی: بدائع الصنائع ج:۳ ص:۱۴۵، ابنِ عابدین شامی: حاشیہ در مختار ج:۳ ص:۴۴۱۔ عالمگیری ج:۱ ص:۴۸۸۔
فقہِ شافعی:… اِمام شافعی: کتاب الاُم ج:۵ ص:۲۱۴، ایضاً ج:۵ ص:۲۱۳، ایضاً ج:۵ ص:۲۱۲، ایضاً ج:۵ ص:۲۰۸۔ نووی: شرح مہذب ج:۱۷ ص:۳۔
فقہِ مالکی:… ابنِ رُشد: بدایة المجتہد ج:۲ ص:۵۱۔ قرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۲۵۔
فقہِ حنبلی:… ابنِ قیم: زاد المعاد ج:۵ ص:۱۹۶۔ ابنِ قدامہ: المغنی ج:۳ ص:۱۷۴۔
فقہِ ظاہری:… ابنِ حزم: المحلّٰی ج:۱۰ ص:۲۳۵ و ص:۸۸۔
لہٰذا شرعاً خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کا رضامند ہونا لازم ہے، نہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر اس کو خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے، اور نہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عورت خلع حاصل کرسکتی ہے، اسی طرح عدالت بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے ساتھ تو خلع کا حکم کرسکتی ہے، لیکن اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو کوئی عدالت بھی خلع کا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں۔
اس شرعی مسئلے کے خلاف محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کا یہ کہنا بالکل غلط اور قطعاً بے جا ہے کہ : ”قرآن و سنت کی روشنی میں خلع کے لئے خاوند کی اجازت یا مرضی ضروری نہیں۔“
اہلِ عقل و فہم کے نزدیک محترمہ کی اس رائے کی غلطی تو اسی سے واضح ہے کہ یہ رائے تمام اکابر اَئمہ مجتہدین کے خلاف ہے، لہٰذا اس رائے کو صحیح ماننے سے پہلے ہمیں یہ فرض کرلینا پڑے گا کہ گزشتہ صدیوں کے تمام اَئمہ دِین، مجتہدین اور اکابر اہلِ فتویٰ نہ قرآن کو سمجھ سکے اور نہ سنت کو۔ قرآن و سنت کو پہلی مرتبہ محترمہ حلیمہ اسحاق نے صحیح سمجھا ہے۔ کسی شخص کی ایسی انفرادی رائے جو اِجماعِ اُمت کے خلاف ہو، اس کے غلط اور باطل ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں، اس رائے کا خلافِ اِجماع ہونا ہی اس کے باطل ہونے کی کافی دلیل ہے۔
مگر دورِ حاضر کے اہلِ قلم شاید اپنے آپ کو اِمام ابوحنیفہ و اِمام شافعی سے کم نہیں سمجھتے، اس لئے ضروری ہوا کہ محترمہ کے دلائل پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ محترمہ نے اپنے مدعا کے ثبوت میں سورة البقرة کی آیت: ۲۲۹ کا حوالہ دیا ہے، مگر چونکہ یہ آیت شریفہ، محترمہ کے خلاف جاتی تھی اس لئے انہوں نے نہ تو آیت شریفہ کا پورا متن یا ترجمہ نقل کرنے کی زحمت فرمائی، اور نہ اس اَمر کی وضاحت فرمائی کہ انہوں نے اس آیت شریفہ سے یہ ہولناک دعویٰ کیسے کشید کرلیا کہ: ”خلع کے لئے خاوند کی اجازت یا مرضی ضروری نہیں۔“
مناسب ہوگا کہ محترمہ کی غلط فہمی کی اصلاح کے لئے آیت شریفہ کا مستند ترجمہ نقل کردیا جائے، اس کے بعد قارئینِ کرام کو آیت کے مضمون پر غور و فکر کی دعوت دی جائے، تاکہ قارئین معلوم کرسکیں کہ آیا یہ آیت شریفہ، محترمہ حلیمہ اسحاق صاحبہ کے مدعا کی تائید کرتی ہے یا اس کی نفی کرتی ہے؟
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر ”بیان القرآن“ میں آیت شریفہ کا تشریحی ترجمہ حسبِ ذیل دیا گیا ہے:
”اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (بیبیوں کو چھوڑتے وقت ان سے) کچھ بھی لو (گو وہ لیا ہوا) اس (مال) میں سے (کیوں نہ ہو) جو تم (ہی) نے ان کو (مہر میں) دیا تھا، مگر (ایک صورت میں البتہ حلال ہے وہ) یہ کہ (کوئی) میاں بی بی (ایسے ہوں کہ) دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو (جو دربارہٴ ادائے حقوقِ زوجیت ہیں) قائم نہ کرسکیں گے، سو اگر تم لوگوں کو (یعنی میاں بی بی کو) یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔“ (حضرت تھانوی: بیان القرآن ج:۱ص:۱۳۳ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
اس آیت شریفہ کے مضمون کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
۱:… اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہے تو بیوی سے کچھ مال لینا اس کے لئے حلال نہیں، خواہ وہ مال خود شوہر ہی کا دیا ہو کیوں نہ ہو۔
۲:… صرف ایک ہی صورت ایسی ہے جس میں شوہر کے لئے بیوی سے معاوضہ لینا حلال ہے، وہ یہ کہ میاں بیوی دونوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے مقرّر کردہ ضابطوں کو قائم نہیں کرسکیں گے۔
۳:… پس اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے کہ میاں بیوی دونوں یہ محسوس کرتے ہوں کہ اب وہ میاں بیوی کی حیثیت سے حدودِ خداوندی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں کو خلع کا معاملہ کرلینے میں کوئی گناہ نہیں، اور اس صورت میں بیوی سے بدل خلع کا وصول کرنا شوہر کے لئے حلال ہوگا۔
۴:… اور خلع کی صورت یہ ہے کہ عورت شوہر کی قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرنے کے لئے کچھ مال بطور ”فدیہ“ پیش کرے، اور شوہر اس کی پیشکش کو قبول کرکے اسے قیدِ نکاح سے آزاد کردے۔
آیت شریفہ کا یہ مضمون (جو میں نے چار نمبروں میں ذکر کیا ہے) اتنا صاف اور ”دو اور دو چار“ کی طرح ایسا واضح ہے کہ جو شخص سخن فہمی کا ذرا بھی سلیقہ رکھتا ہو وہ اس کے سوا کوئی دُوسرا نتیجہ اخذ ہی نہیں کرسکتا۔
ہر شخص کھلی آنکھوں دیکھ رہا ہے کہ قرآنِ کریم کی اس آیتِ مقدسہ نے (جس کو ”آیتِ خلع“ کہا جاتا ہے) خلع کے معاملے میں اوّل سے آخر تک میاں بیوی دونوں کو برابر کے شریک قرار دیا ہے، مثلاً:
Y:…”اِلَّآ اَنْ یَخَافَا“ (اِلَّا یہ کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو)۔
Y:…”اَلَّا یُقِیْمَا“ (کہ وہ دونوں قائم نہیں کرسکیں گے اللہ تعالیٰ کی حدود کو)۔
Y:…”فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا“ (پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی حدود کو قائم نہیں کرسکیں گے)۔
Y:…”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا“ (تب ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں)۔
Y:…”فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“ (اس مال کے لینے اور دینے میں، جس کو دے کر عورت قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرے)۔
فرمائیے! کیا پوری آیت میں ایک لفظ بھی ایسا ہے جس کا مفہوم یہ ہو کہ عورت جب چاہے شوہر کی رضامندی کے بغیر اپنے آپ خلع لے سکتی ہے؟ اس کے لئے شوہر کی رضامندی یا مرضی کی کوئی ضرورت نہیں؟ آیت شریفہ میں اوّل سے آخر تک ”وہ دونوں، وہ دونوں“ کے الفاظ مسلسل استعمال کئے گئے ہیں، جس کا مطلب اناڑی سے اناڑی آدمی بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ: ”خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں برابر کے شریک ہیں، اور ان دونوں کی رضامندی کے بغیر خلع کا تصوّر ہی ناممکن ہے۔“
یاد رہے کہ پوری اُمت کے علماء و فقہاء اور اَئمہ دِین نے آیت شریفہ سے یہی سمجھا ہے کہ خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے، جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا، مگر حلیمہ اسحاق صاحبہ کی ذہانت آیت شریفہ سے یہ نکتہ کشید کر رہی ہے کہ جس طرح طلاق مرد کا انفرادی حق ہے، اسی طرح خلع عورت کا انفرادی حق ہے، جس میں شوہر کی مرضی و نامرضی کا کوئی دخل نہیں۔ فقہائے اُمت کے اجماعی فیصلے کے خلاف اور قرآنِ کریم کے صریح الفاظ کے علی الرغم قرآنِ کریم ہی کے نام سے ایسے نکتے تراشنا ایک ایسی ناروا جسارت ہے جس کی توقع کسی مسلمان سے نہیں کی جانی چاہئے اور جس کو کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ محترمہ حلیمہ اسحاق کی ذہانت نے یہ فتویٰ بھی صادر فرمایا ہے کہ عدالت اگر محسوس کرے کہ زوجین اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو قائم نہیں کرسکتے تو وہ از خود زوجین کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
اُوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ تمام فقہائے اُمت اس اَمر پر متفق ہیں کہ خلع، میاں بیوی دونوں کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر دونوں خلع پر رضامند نہ ہوں یا ان میں سے ایک راضی نہ ہو تو خلع نہیں ہوسکتا، لہٰذا حلیمہ صاحبہ کا یہ فتویٰ بھی اِجماعِ اُمت کے خلاف اور صریحاً غلط ہے، محترمہ نے اپنے غلط دعویٰ پر آیت شریفہ سے جو استدلال کیا ہے وہ انہی کے الفاظ میں یہ ہے:
”اس آیت مبارکہ میں لفظ ”خفتم“ استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے: ”پس اگر تمہیں خوف ہو“ یعنی صرف شوہر اور بیوی کو مخاطب کیا ہوتا تو لفظ ”خفتما“ استعمال ہوتا، جس سے مراد ہے: ”تم دونوں“، مگر لفظ ”خفتم“ کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجتماعی طور پر شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ قاضی یا حاکم کو بھی اختیار دیا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ دونوں یعنی شوہر اور بیوی اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو تمہیں اختیار ہے کہ ان کو الگ کردو۔“ محترمہ کا یہ استدلال چند وجوہ سے غلط در غلط ہے:
اوّل:… محترمہ کے یہ الفاظ کہ: ”تو تمہیں اختیار ہے کہ انہیں الگ کردو“ قرآنِ کریم کے کسی لفظ کا مفہوم نہیں، نہ قرآنِ کریم نے قاضی یا حاکم کو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا کسی جگہ اختیار دیا ہے، اس مفہوم کو خود تصنیف کرکے محترمہ نے بڑی جرأت و جسارت کے ساتھ اس کو قرآنِ کریم سے منسوب کردیا ہے۔
دوم:… آیت شریفہ میں: ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ سے جو جملہ شروع ہوتا ہے وہ جملہ شرطیہ ہے، جو شرط اور جزا پر مشتمل ہے، اس جملے میں شرط تو وہی ہے جس کا ترجمہ محترمہ نے یوں نقل کیا ہے یعنی:
”اگر تم سمجھتے ہو کہ دونوں یعنی شوہر اور بیوی اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو ․․․․․۔“
اس ”تو“ کے بعد شرط کی جزا ہے، لیکن وہ جزا کیا ہے؟ اس میں محترمہ حلیمہ اسحاق کو اللہ تعالیٰ سے شدید اختلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے اس شرط کی جزا یہ ذکر فرمائی ہے:
”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“
ترجمہ:… ”․․․․․ تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے اور دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی) لیکن محترمہ فرماتی ہیں کہ نہیں! اس شرط کی جزا یہ نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائی ہے، بلکہ اس شرط کی جزا یہ ہے کہ: ”تو (اے حکام!) تم کو اختیار ہے کہ تم ان دونوں میاں بیوی کو الگ کردو۔“
گویا حلیمہ اسحاق صاحبہ ․․․نعوذ باللہ․․․ اللہ تعالیٰ کی غلطی نکال رہی ہیں کہ ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کی جو جزا اللہ تعالیٰ نے ”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“ کے بلیغ الفاظ میں ذکر فرمائی ہے، یہ غلط ہے، اس کی جزا یہ ہونی چاہئے تھی:”فلکم ان تفرقوا بینھما۔“(تو تم کو اختیار ہے کہ تم ان دونوں کے درمیان از خود علیحدگی کردو)
کیسا غضب ہے کہ پورا ایک فقرہ تصنیف کرکے اسے قرآن کے پیٹ میں بھرا جاتا ہے، اور اس پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں کہہ رہی ہیں، انا لله وانا الیہ راجعون!
سوم:… محترمہ فرماتی ہیں کہ:
”اللہ تعالیٰ نے اجتماعی طور پر شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ قاضی یا حاکم کو بھی اختیار دیا ہے ․․․․․۔“
”شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ“ کے الفاظ سے واضح ہے کہ محترمہ کے نزدیک بھی ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا اصل خطاب تو میاں بیوی ہی سے ہے، البتہ ”ان کے ساتھ ساتھ“ یہ خطاب دُوسروں کو بھی شامل ہے، اب دیکھے کہ قرآنِ حکیم کی رُو سے صورتِ مسئلہ یہ ہوئی کہ:
Y:…خلع میاں بیوی کا شخصی اور نجی معاملہ ہے۔
Y:…خلع کے ضمن میں قرآنِ کریم بار بار میاں بیوی دونوں کا ذکر کرتا ہے (جیسا کہ اُوپر معلوم ہوچکا ہے)۔
Y:…اور ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ میں بھی اصل خطاب انہی دونوں سے ہے (اگرچہ ”ان دونوں کے ساتھ ساتھ“ قاضی یا حاکم بھی شریک ہیں)۔
ان تمام حقائق کے باوجود جب خلع کے فیصلے کی نوبت آتی ہے تو محترمہ فرماتی ہیں کہ میاں بیوی دونوں سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ آیا وہ خلع کے لئے تیار ہیں یا نہیں؟ بلکہ عدالت اپنی صوابدید پر علیحدگی کا یک طرفہ فیصلہ کرسکتی ہے، خواہ میاں بیوی ہزار خلع سے انکار کریں، مگر عدالت یہی کہے گی:
”ما بدولت قطعی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ دونوں حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکتے، لہٰذا مابدولت ان دونوں سے پوچھے بغیر دونوں کی علیحدگی کا فیصلہ صادر فرماتے ہیں، کیونکہ حلیمہ اسحاق کے بقول قرآن نے ہمیں اس کے اختیارات دئیے ہیں۔“
کیا محترمہ کا یہ نکتہ عجیب و غریب نہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں علیحدگی کا فیصلہ صادر کیا جارہا ہے ان سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں، بس عدالت کا ”سکھا شاہی فیصلہ“ بیوی کو حلال و حرام کرنے کے لئے کافی ہے؟ کیا قرآنِ کریم میں دُور دُور بھی کہیں یہ مضمون نظر آتا ہے؟
چہارم:… ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں مفسرین کے تین قول ہیں، ایک یہ کہ یہ خطاب بھی میاں بیوی سے ہے، نہ کہ حکام سے، جیسا کہ حضرت تھانوی کی تشریح اُوپر گزرچکی ہے۔
دُوسرا قول یہ ہے کہ یہ خطاب میاں بیوی کے علاوہ حکام کو بھی شامل ہے، اب اگر یہی فرض کرلیا جائے کہ یہ خطاب حکام سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ خلع کے قضیہ میں بسااوقات حکام سے مرافعہ کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لئے حکام کو اس خطاب میں اس لئے شریک کیا گیا کہ اگر خلع کا معاملہ حکام تک پہنچ جائے تو ان کے لئے لازم ہوگا کہ فریقین کو مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کریں، اور اگر فریقین خلع ہی پر مصر ہوں تو خلع کا معاملہ خوش اُسلوبی سے طے کرادیں، جیسا کہ صاحبِ کشاف، بیضاوی اور دیگر مفسرین نے اس کی تقریر کی ہے۔ بہرحال ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا خطاب اگر حکام سے بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے کسی طرح یہ لازم نہیں آتا کہ عدالتوں اور قاضیوں کو خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، اور یہ کہ انہیں زوجین کی رضامندی معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ: ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کا خطاب میاں بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں خاندانوں کے سربر آوردہ اور سنجیدہ افراد اور حکام و ولاة سب کو عام ہے، جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کی تصریح فرمائی ہے، اس قول کے مطابق اس تعبیر کے اختیار کرنے میں ایک بلیغ نکتہ ملحوظ ہے۔
شرح اس کی یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کا معاملہ نہایت سنگین ہے، شیطان کو جتنی خوشی میاں بیوی کی علیحدگی سے ہوتی ہے اتنی خوشی لوگوں کو چوری اور شراب نوشی جیسے بدترین گناہوں میں ملوّث کرنے سے بھی نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے، پھر اپنے لشکروں کو لوگوں کو بہکانے کے لئے بھیجتا ہے، ان شیطانی لشکروں میں شیطان کا سب سے زیادہ مقرّب اس کا وہ چیلا ہوتا ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ گمراہ کرے، ان میں سے ایک شخص آتا ہے اور شیطان کو بتاتا ہے کہ آج میں نے فلاں فلاں گناہ کرائے ہیں (مثلاً: کسی کو شراب نوشی میں اور کسی کو چوری کے گناہ میں مبتلا کیا ہے)، تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں (میاں بیوی کے پیچھے پڑا رہا، ایک دُوسرے کے خلاف ان کو بھڑکاتا رہا اور میں) نے آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہاں تک آج اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کراکے آیا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شیطان اس سے کہتا ہے کہ: ہاں! تو نے کارنامہ انجام دیا ہے، یہ کہہ کر شیطان اس سے بغل گیر ہوتا ہے۔ (مشکوٰة ص:۱۸ بروایت صحیح مسلم)
شیطان کی اس خوشی کا سبب یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی سے بے شمار مفاسد جنم لیتے ہیں، پہلے تو یہ گھر اُجڑتا ہے، پھر ان کے بچوں کا مستقبل بگڑتا ہے، پھر دونوں خاندانوں کے درمیان بغض و عداوت اور نفرت و حقارت کی مستقل خلیج حائل ہوجاتی ہے اور ایک دُوسرے کے خلاف جھوٹ طوفان، طعن و تشنیع اور غیبت و چغل خوری تو معمولی بات ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک دُوسرے کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں، اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شیطان کو زوجین کی تفریق سے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ کسی اور گناہ سے نہیں ہوتی، اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مباح چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا ہے:
”أبغض الحلال الی الله الطّلاق۔“ (مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت ابوداوٴد)
ترجمہ:۔ ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔“
اور یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے عورت کے مطالبہٴ طلاق کا لائقِ نفرت قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے:
”جس عورت نے اپنے شوہر سے شدید ضرورت کے بغیر طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔“(مشکوٰة ص:۲۸۳ بروایت مسندِ احمد، ترمذی، ابوداوٴد، دارمی، ابنِ ماجہ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
”اپنے کو قیدِ نکاح سے نکالنے والی اور خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں۔“
(مشکوٰة ص:۲۸۴ )
عورت بے چاری جذباتی ہوتی ہے، گھر میں ذرا سی نرمی، گرمی یا تلخ کلامی ہوئی، آٹھ بچوں کی ماں ہونے کے باوجود فوراً کہہ دے گی کہ:”مجھے طلاق دے دو“، شوہر کہتا ہے کہ: ”اچھا دے دیں گے!“ تو کہتی ہے کہ: ”نہیں اسی وقت دو، فوراً دو“ بعض اوقات مرد بھی (اپنی مردانگی، حوصلہ مندی اور صبر و تحمل کی صفات کو چھوڑ کر) عورت کی ان جذباتی لہروں کے سیلاب میں بہہ کر طلاق دے ڈالتا ہے، اور اس کا نتیجہ، معمولی بات پر خانہ ویرانی نکلتا ہے، بعد میں دونوں اس خانہ ویرانی پر ماتم کرتے ہیں، اس قسم کے سیکڑوں نہیں، ہزاروں خطوط اس ناکارہ کو موصول ہوچکے ہیں۔
”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں میاں بیوی کے علاوہ دونوں خاندانوں کے معزّز افراد کے ساتھ حکام کو شریک کرنے سے ․․․ واللہ اعلم․․․ مدعا یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کسی وقتی جوش کی بنا پر خلع کے لئے آمادہ ہو بھی جائیں تو دونوں خاندانوں کے بزرگ اور نیک اور خدا ترس حکام ان کو خانہ ویرانی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں، اور اگر معاملہ کسی طرح بھی سلجھنے نہ پائے تو پھر اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ دونوں کی خواہش و رضامندی کے مطابق ان کو خلع ہی کا مشورہ دیا جائے، ایسی صورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:
”اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مقرّر کردہ حدوں کو قائم نہیں رکھ سکتے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس مال کے لینے اور دینے میں، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑائے۔“
اس تقریر سے معلوم ہو اکہ ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں حکام کو شریک کرنے کا مطلب وہ نہیں جو محترمہ حلیمہ صاحبہ نے سمجھا ہے کہ حکام کو خلع کی یک طرفہ ڈگری دینے کا اختیار ہے، بلکہ اس سے مدعا یہ ہے کہ خلع کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کی جائے، اور دونوں کے درمیان مصالحت کرانے اور گھر اُجڑنے سے بچانے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے، جیسا کہ دُوسری جگہ ارشاد ہے:
”اور اگر تم کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکشی کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو، اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔“
(النساء:۳۵، ترجمہ حضرت تھانوی) الغرض اس خطاب کو عام کرنے سے مدعا یہ ہے کہ حتی الامکان میاں بیوی کی علیحدگی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے، دونوں خاندانوں کے معزّز افراد بھی اور خدا ترس حکام بھی کوشش کریں کہ کسی طرح ان کے درمیان مصالحت کرادی جائے۔ ہاں! اگر دونوں خلع ہی پر مصر ہیں تو دونوں کے درمیان خوش اُسلوبی سے خلع کرادیا جائے۔ بہرحال محترمہ حلیمہ صاحبہ کا ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ سے یہ نکتہ پیدا کرنا کہ عدالت کو زوجین کی رضامندی کے بغیر بھی خلع کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، منشائے الٰہی اور فقہائے اُمت کے اجماعی فیصلے کے قطعاً خلاف ہے۔
محترمہ مزید لکھتی ہیں:
”حضرت ابوعبیدہ بھی اس آیت کی تفسیر یونہی فرماتے ہیں کہ لفظ ”خِفْتُمْ“ کا استعمال زوجین کے ساتھ ساتھ حَکَم اور قاضی سے بھی متعلق ہے، بلکہ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر بیوی شوہر سے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی تو خلع واقع ہوجاتا ہے۔“
یہاں چند اُمور لائقِ توجہ ہیں:
اوّل:… یہ ”حضرت ابوعبیدہ“ کون بزرگ ہیں؟ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا لفظ سن کر ذہن فوراً منتقل ہوتا ہے کہ اسلام کی مایہ ناز ہستی امین الاُمت حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی طرف، جن کا شمار عشرہٴ مبشرہ میں ہوتا ہے، لیکن محترمہ کی مراد غالباً ان سے نہیں، کیونکہ تفسیر کی کتاب میں حضرت ابوعبیدہ سے یہ تفسیر منقول نہیں۔
خیال ہوا کہ شاید محترمہ کی مراد مشہور اِمامِ لغت ابوعبیدہ معمر بن مثنیٰ (المتوفی ۲۱۰ھ قریباً) ہوں، لیکن ان سے بھی ایسا کوئی قول کتابوں میں نظر نہیں آیا۔
البتہ اِمام قرطبی نے تفسیر میں اور حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابوعبید القاسم بن سلام (المتوفی ۲۲۴ھ) کا یہ تفسیری قول نقل کیا ہے، خیال ہوا کہ محترمہ کی مراد شاید یہی بزرگ ہوں، اور ان کی ”ذہانت“ نے ابوعبید کو ”حضرت ابوعبیدہ“ بنادیا ہو، اور ان کے نام پر ”رضی اللہ عنہ“ کی علامت بھی لکھوادی ہو، کاش! کہ محترمہ نے وضاحت کردی ہوتی، اور اسی کے ساتھ کتاب کا حوالہ لکھنے کی بھی زحمت فرمائی ہوتی تو ان کے قارئین کو خیال آرائی کی ضرورت نہ رہتی۔
دوم:… اِمام قرطبی اور حافظ ابنِ حجر نے ابوعبید کا یہ تفسیری قول نقل کرکے اس کی پُرزور تردید فرمائی ہے۔
اِمام قرطبی لکھتے ہیں کہ: ابوعبید نے ”الا ان یخافا“ میں حمزہ کی قرائة (بصیغہ مجہول) کو اختیار کیا ہے اور اس کی توجیہ کے لئے مندرجہ بالا تفسیر اختیار کی۔
قرطبی، ابوعبید کے قول کو نقل کرکے اس پر درج ذیل تبصرہ فرماتے ہیں:
”ابوعبید کے اس اختیار کردہ قول کو منکر اور مردود قرار دیا گیا ہے، اور مجھے معلوم نہیں کہ ابوعبید کے اختیار کردہ حروف میں کوئی حرف اس سے زیادہ بعد از عقل ہوگا، اس لئے کہ یہ نہ تو اِعراب کے لحاظ سے صحیح ہے، نہ لفظ کے اعتبار سے، اور نہ معنی کی رُو سے۔“ (القرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۳۸)
اور حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
”ابوعبید نے ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کی اس تفسیر کی تائید کے لئے حمزہ کی قرأة ”الا ان یخافا“ (بصیغہ مجہول) کو پیش کرکے کہا ہے کہ مراد اس سے حکام کا خوف ہے، اور اِمامِ لغت نحاس نے ان کے اس قول کو یہ کہہ کر مردود قرار دیا ہے کہ: ”یہ ایسا قول ہے کہ نہ اِعراب اس کی موافقت کرتے ہیں، نہ لفظ اور نہ معنی“ اور اِمام طحاوی نے اس کو یہ کہہ کر رَدّ کیا ہے کہ یہ قول شاذ اور منکر ہے، کیونکہ یہ قول اُمت کے جم غفیر کے مذہب کے خلاف ہے۔ نیز از رُوئے عقل و نظر بھی غلط ہے، کیونکہ طلاق، عدالت کے بغیر ہوسکتی ہے تو اسی طرح خلع بھی ہوسکتا ہے۔“
(فتح الباری ج:۹ ص:۳۹۷)
محترمہ حلیمہ صاحبہ نے یہ تو دیکھ لیا کہ ابوعبید نے بھی ”فَاِنْ خِفْتُمْ“ کے خطاب میں غیرزوجین کو شامل قرار دیا ہے، مگر نہ تو یہ سوچا کہ ابوعبید کا موقف نقل کرکے قرطبی اور ابنِ حجر نے اس کا منکر اور باطل و مردود ہونا بھی نقل کیا ہے۔ چونکہ محترمہ کا نظریہ خود بھی باطل و مردود تھا، لامحالہ اس کی تائید میں بھی ایک منکر اور باطل و مردود قول ہی پیش کیا جاسکتا تھا، اقبال کے پیر رُومی کے بقول:”زانکہ باطل باطلاں را می کشد“
سوم:… اِمام ابوعبید کے اس تفسیری قول کو اختیار کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سلف میں اس مسئلے میں اختلاف ہوا کہ آیا خلع، زوجین کی باہمی رضامندی سے بھی ہوسکتا ہے یا اس کے لئے عدالت میں جانا ضروری ہے؟ جمہور سلف و خلف کا قول ہے کہ اس کے لئے عدالت میں جانا کوئی ضروری نہیں، دونوں باہمی رضامندی سے اس کا تصفیہ کرسکتے ہیں، لیکن بعض تابعین یعنی سعید بن جبیر، اِمام حسن بصری اور اِمام محمد بن سیرین قائل تھے کہ اس کے لئے عدالت میں جانا ضروری ہے، اِمام ابوعبید نے بھی اسی قول کو اختیار کیا، اِمام قتادہ اور نحاس فرماتے تھے کہ ان حضرات نے یہ مسلک زیاد بن ابیہ سے لیا ہے، حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں:
”اِمام قتادہ اس مسئلے میں حسن بصری پر نکیر فرماتے تھے کہ: ”حسن نے یہ مسئلہ صرف زیاد سے لیا ہے“ یعنی جب زیاد حضرت معاویہ کی جانب سے عراق کا امیر تھا، میں (یعنی حافظ ابنِ حجر) کہتا ہوں کہ زیاد اس کا اہل نہیں کہ اس کی اقتدا کی جائے۔“ (فتح الباری صفحہ مذکورہ)
اور اِمام قرطبی اس قول کو رَدّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”یہ قول بے معنی ہے، کیونکہ مرد جب اپنی بیوی سے خلع کرے گا تو یہ خلع اسی مال پر ہوگا جس پر دونوں میاں بیوی راضی ہوجائیں، حاکم، مرد کو خلع پر مجبور نہیں کرسکتا، لہٰذا جو لوگ خلع کے لئے عدالت میں جانا ضروری قرار دیتے ہیں، ان کا قول قطعاً مہمل اور لایعنی ہے۔“ (قرطبی: الجامع لاحکام القرآن ج:۳ ص:۱۳۸)
چہارم:… اُوپر جو مسئلہ ذکر کیا گیا کہ آیا خلع کا معاملہ عدالت ہی میں طے ہونا ضروری ہے، یا عدالت کے بغیر بھی اس کا تصفیہ ہوسکتا ہے؟ اس میں تو ذرا سا اختلاف ہوا، کہ جمہورِ اُمت اس کے لئے عدالت کی ضرورت کے قائل نہیں تھے، اور چند بزرگ اس کو ضروری سمجھتے تھے (بعد میں یہ اختلاف بھی ختم ہوگیا، اور بعد کے تمام اہلِ علم اس پر متفق ہوگئے کہ عدالت میں جانے کی شرط غلط اور مہمل ہے، جیسا کہ آپ ابھی سن چکے ہیں)۔
لیکن محترمہ حلیمہ صاحبہ نے جو فتویٰ صادر فرمایا ہے کہ عدالت، زوجین کی رضامندی کے بغیر بھی خلع کا فیصلہ کرسکتی ہے، یقین کیجئے کہ اہلِ علم میں ایک فرد بھی اس کا قائل نہیں، نہ اِمام ابوعبید، نہ حسن بصری نہ کوئی اور۔ لہٰذا زوجین کی رضامندی کے بغیر عدالت کا یک طرفہ فیصلہ باجماعِ اُمت باطل ہے، اور یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص، دُوسرے کی بیوی کو اس کی اجازت کے بغیر طلاق دے ڈالے۔ ہر معمولی عقل و فہم کا شخص بھی جانتا ہے کہ ایسی نام نہاد طلاق یکسر لغو اور مہمل ہے، جس کا زوجین کے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ ٹھیک اسی طرح زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کا عدالتی فیصلہ بھی قطعی لغو اور مہمل ہے، جو کسی بھی طرح موٴثر نہیں۔ محترمہ حلیمہ صاحبہ کی ذہانت چونکہ ان دونوں مسئلوں میں فرق کرنے سے قاصر تھی، اس لئے انہوں نے اِمام ابوعبید کے قول کا مطلب یہ سمجھ لیا کہ عدالت خلع کی یک طرفہ ڈگری دے سکتی ہے۔
پنجم:… محترمہ نے ”حضرت ابوعبیدہ“ سے جو یہ نقل کیا ہے کہ:
”اگر بیوی شوہر سے کہہ دے کہ مجھے تم سے نفرت ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی تو خلع واقع ہوجاتا ہے۔“
انہوں نے اس کا حوالہ نہیں دیا کہ انہوں نے یہ فتویٰ کہاں سے نقل کیا ہے، جہاں تک اس ناکارہ کے ناقص مطالعے کا تعلق ہے، ایسا فتویٰ کسی بزرگ سے منقول نہیں، نہ ”حضرت ابوعبیدہ“ سے، اور نہ کسی اور ”حضرت“ سے۔ ممکن ہے کہیں ایسا قول منقول ہو اور میری نظر سے نہ گزرا ہو، لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں اَغلب یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی محترمہ کی عقل و ذہانت کی پیداوار ہے۔ خدا جانے اصل بات کیا ہوگی؟ جس کو محترمہ کی ذہانت نے اپنے مطلب پر ڈھال لیا۔
بہرحال محترمہ کا یہ فقرہ کتنا خطرناک ہے؟ انہوں نے اس کا اندازہ ہی نہیں کیا! یہاں اس کے چند مفاسد کی طرف ہلکا سا اشارہ کردینا کافی ہوگا:
اوّلاً:… مکرّر عرض کرچکا ہوں کہ خلع کے لئے باجماعِ اُمت، فریقین کی رضامندی شرط ہے۔ محترمہ کا یہ فتویٰ اِجماعِ اُمت کے خلاف ہونے کی وجہ سے آیت شریفہ: ”نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی“ کا مصداق ہے، جس میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اہلِ ایمان کے راستے کو چھوڑ کر چلنے والوں کو ہم دوزخ میں داخل کریں گے۔
ثانیاً:… ہر شخص جانتا ہے کہ عورت کی حیثیت ”خلع لینے والی“ کی ہے، خلع دینے والی کی نہیں، خود محترمہ بھی عورت کے لئے ”خلع لینے“ کا لفظ استعمال کر رہی ہیں، لیکن محترمہ کے مندرجہ بالا فتویٰ سے لازم آئے گا کہ عورت جب چاہے شوہر کے خلاف اظہارِ نفرت کرکے، اسے چھٹی کراسکتی ہے، اور اس کو خلع دے سکتی ہے۔
ثالثاً:… محترمہ نے یہ مضمون عدالتی خلع کے جواز کے لئے لکھا ہے، حالانکہ اگر صرف عورت کے اظہارِ نفرت کرنے سے خلع واقع ہوجاتا ہے تو عدالتوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
رابعاً:… اللہ تعالیٰ نے: ”اَلَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ فرماکر نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی ہے، کہ وہی اس کو کھول سکتا ہے، لیکن محترمہ اپنے فتویٰ کے ذریعہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ سے چھین کر عورت کے ہاتھ میں تھما رہی ہیں، کہ وہ جب چاہے مرد کے خلاف اظہارِ نفرت کرکے خلع واقع کردے، اور مرد کو بیک بینی و دوگوش گھر سے نکال دے، تاکہ امریکہ کے ”ورلڈ آرڈر“ کی تکمیل ہوسکے، اور مغربی معاشرے کی طرح مشرقی معاشرے میں بھی طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں نہ ہو، بلکہ عورت کے ہاتھ میں ہو، گویا محترمہ حلیمہ صاحبہ کو فرمودہٴ خداوندی: ”اَلَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَةُ النِّکَاحِ“ سے اختلاف ہے، اور امریکی نظام پر ایمان ہے۔
خامساً:… محترمہ کے اس فتویٰ سے لازم آئے گا کہ ہمارے معاشرے میں ۹۹۹ فی ہزار جوڑے نکاح کے بغیر گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ عورت کی نفسیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ:
”اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ پوری زندگی بھی احسان کرو، پھر کوئی ذرا سی ناگوار بات اس کو تم سے پیش آجائے تو فوراً کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۹)
اب ہر خاتون کو زندگی میں کبھی نہ کبھی شوہر سے ناگواری ضرور پیش آئی ہوگی ․․․ اِلَّا ما شاء اللہ ․․․ اور اس نے اپنی ناگواری کے اظہار کے لئے شوہر کے خلاف نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہوگا۔ محترمہ کے فتویٰ کی رُو سے ایسی تمام عورتوں کا خلع واقع ہوگیا، نکاح فسخ ہوگیا، اور اب وہ بغیر تجدیدِ نکاح میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اور گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ محترمہ کے فتویٰ کے مطابق یا تو ایسی عورتوں کو فوراً گھر چھوڑ کر اپنی راہ لینی چاہئے، یا کم سے کم دوبارہ عقد کی تجدید کرلینی چاہئے، تاکہ وہ گناہ کے وبال سے بچ سکیں، کیا محترمہ حلیمہ صاحبہ قرآن و سنت کی روشنی میں عورتوں کی یہی راہ نمائی کرنے چلی ہیں․․․؟ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: علم الرؤیا - ایک حقیقت !
Flag Counter