Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ -نومبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 9
 مولانا انعام اللہ شہید !
مولانا انعام اللہ شہید استاذ:شاخ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

۸/ستمبر۲۰۱۰ء مطابق ۲۷/رمضان ۱۴۳۱ھ بروز منگل رات گیارہ بجے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اور استاذ ، حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ( استاذ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ونگران مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر شاخ جامعہ) کے بھانجے اور امامت وخطابت میں آپ کے نائب حضرت مولانا انعام اللہ صاجب اور ان کے شاگرد وخادم حافظ محمد طاہر جمیل کو سفاک درندوں اور دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے شہید کردیا۔ انا لله وانا الیہ راجعون، ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئ عندہ باجل مسمی۔
حضرت مولانا انعام اللہ شہید کا آبائی تعلق ضلع صوابی کے علاقے گدون گندف سے تھا، موصوف نے ۱۹۷۷ء میں جناب محمد ظہیر اللہ کے گھر آنکھ کھولی، بچپن سے ہی آپ کی تربیت وپرورش حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ نے کی اور آپ کو اپنے بچوں کی طرح پالا اور کفالت کی۔موصوف نے ناظرہ وحفظ قرآن کریم سے درجہ خامسہ تک کی تعلیم ملک کی مشہور علمی اور مایہ ناز درس گاہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر میں پائی اور ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی، درجہ سادسہ سے دورہ حدیث تک اسی شاخ کے مرکزجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں رہ کر علوم نبوت کی تکمیل کرکے ۱۹۹۸ء میں فاتحہ فراغ پڑھا۔
فراغت کے بعد تدریس کے لئے اپنی مادر علمی کی شاخ مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر کو منتخب کیا، جہاں آپ نے درجہ خامسہ تک کی کتب پڑھائیں اورتدریسی دور میں اپنی صلاحتیوں کے جوہر بکھیرے۔
آپ انتہائی قابل، ذہین، ذی استعداد اور محنتی تھے، درسی فنون میں بلا کی مہارت تھی، صرف ونحو آپ کے پسندیدہ مضامین تھے، درسی اوقات کے علاوہ بھی طلبہ کو صرف ونحو کے قواعدیاد کرنے اور اجراء میں مصروف ومشغول رکھتے، یہی وجہ تھی کہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں طلبہ سے صرف ونحو کا امتحان لینااکثر آپ کے حصے میں آتا۔شروع سے آپ کے طبیعت ، ذوق اور مزاج میں شرافت، دیانت، تقویٰ اور تدین کے آثار نمایاں تھے، آپ نہایت خاموش مزاج اور صابر وشاکر انسان تھے۔ مدرسہ، مسجد، تعلیم، تدریس، درس گاہ، کتاب اور مطالعہ کے علاوہ آپ کی کوئی سرگرمیاں نہ تھیں۔آپ خالص علمی اور تحقیقی آدمی تھے، فنون متداولہ کے علاوہ آپ کا صرف ونحو کا درس مشہور تھا۔
آپ طالب علمی ہی سے تہجد کے پابند ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے والے تھے، آپ کو تبلیغ سے بھی گہری وابستگی تھی، ہرماہ سہ روزہ اور سالانہ چلہ کو پابندی سے نبھاتے تھے۔
آپ  کا بیعت کا تعلق صندل باباجی سے تھا، آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا خلیل اللہ استاذ: شاخ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کو صندل باباجی سے خلافت حاصل تھی ، جن کا چالیس روز قبل ایک تبلیغی سفر میں انتقال ہوا۔
مولانا مرحوم جہاں بہترین استاذ ومدرس تھے، وہاں آپ بہترین قاری ، امام وخطیب بھی تھے۔ حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ کی غیر موجودگی میں آپ ہی خطابت ونماز جمعہ کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ حضرت قاری صاحب نے انہیں بلال مسجد فیڈرل بی ایریا بلاک ۲۱ میں امامت وخطابت کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ جب قاری صاحب مدظلہ خود موجود نہ ہوں تو آپ ہی مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر میں جمعہ وعیدین کی خطابت وامامت کے فرائض سرانجام دیں گے، چنانچہ اس عہد کو نبھانے کے ساتھ ساتھ آپ نے بلال مسجد میں دس سال تک امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دیئے ۔
مولانا مرحوم مدرسہ تعلیم الاسلام گلشن عمر کے سامنے بلاک ۲۲ میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے، نماز عشاء کے بعد سودا سلف اور بچے کی دوائی لینے کے بعد گھر تشریف لارہے تھے کہ سہراب گوٹھ نیو کراچی کی طرف مڑنے والی سڑک کے بس اسٹاپ پر نامعلوم دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے آپ کو اپنے طالب علم ساتھی سمیت شہید کردیا۔شہادت کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا ، جیسے مسکرارہے ہوں ۔ بقول شاعر:
نشانِ مرد مؤمن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
مولانا مرحوم نے پسماندگان میں والدین، دوبھائی، بیوہ،دوبیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور یتیم بچوں اور تمام گھروالوں کی کفالت فرمائے، آمین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: انسانی زندگی کے چار دور ! 
Flag Counter