Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ -نومبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 9
۱۸۵۷ء کاانقلابِ حریت اورعلماء اسلام !
۱۸۵۷ء کاانقلابِ حریت اورعلمأ اسلام
(۲)


خوفناک سناٹا
خصوصاً اس وقت جب کہ حضرت سید احمد شہید کی تحریک کے بعد پورے ملک میں بالعموم موت کا سناٹا چھا چکا تھا‘ مشہور مبصر مولانا محمد میاں صاحب کے بقول:
”اس دور کے متعلق یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ لوگوں نے انگریزوں کو پہچاننا چھوڑدیا تھا‘ البتہ یہ درست ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے غافل ہوگئے تھے‘ اور انہوں نے اپنے مستقبل کو پہچاننا چھوڑدیا تھا‘ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انگریزوں کو پہچان لینے کے باوجودوہ نہیں کیا یا نہیں کرسکے جو کر نا چاہئے تھا‘ خود پرستی نے خود غرضی اور ذاتی مفاد کی ہوسنا کی جو قومی عظمت ووقار اور حیات اجتماعی کے لئے سرطان اور پلیگ سے بھی زیادہ مہلک امراض ہیں‘ اور جن کی بنا پر طوائف الملوکی عروج پاتی ہے‘ انہیں امراض نے ارباب اقتدار کی چشم کونا بینا اور گوش سخن نیوش کواصم اور مدہوش بنادیا تھا۔”فانہا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور“ یہ عجیب فلسفہ ہے کہ انسان جتنا زیادہ اپنی پرستش میں مشغول ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ خود فراموش ہوجاتا ہے‘ ذاتی مفاد اور خود پرستی کے شوالے جو دکن‘ بنگال اور اودھ میں تعمیر کئے گئے تھے‘ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے پجاری انگریزوں کو پہچاننے‘ سمجھنے اور بوجھنے کے باوجود اس پر مجبور تھے کہ سنی کو ان سنی اور دیدہ کو نادیدہ بنادیں‘ کیونکہ وہ اغراض جن کے آب وگل سے یہ شوالے تعمیر ہوئے تھے ،ان کا تقاضا ہی یہ تھا ‘ورنہ یہ شوالے مسمار ہورہے تھے:
درد ہے جان کے عوض ہررگ وپے میں ساری
چارہ گرہم نہیں ہونے کے جو درماں ہوگا
یہ حالات تو وہ ہیں جو ایک اجنبی حکومت کے ناجائز امتداد اور ان کے منصوبہ بند پروگراموں نے پیدا کئے تھے‘ ۱۸۵۷ء میں کچھ نئے حالات پیدا ہوئے‘ او ران کی وجہ سے عوامی بے چینی نے جنم لیا‘ امن وامان کی صورت حال بگڑی اور پورے ملک کی فضا خراب ہوگئی‘ اس عہد کی لکھی گئی اکثر کتابوں میں ان حالات ومسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ جن کی بنا پر ۱۸۵۷ء کی مسلح تحریک آزادی رونما ہوئی ‘ ہم منشی ذکاء اللہ کی مشہور کتاب ”تاریخ عروج انگلش“ اور حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی شاہکار کتاب ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ سے اس وقت درپیش بعض اہم حالات پیش کرتے ہیں:
”الحاق کا مسئلہ اس وقت کا انتہائی حساس ترین مسئلہ تھا‘ اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی صوبہ کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے ساتھ الحاق دراصل شہریوں کو عیسائی بنانے کی مہم کا حصہ ہے کہ اس طرح لالچ یا ڈر کے ذریعہ لوگوں کو عیسائی بنانا آسان ہوجاتا۔خراجی زمینیں ضبط کرلی جاتی تھیں‘ ان کی تشریح ملک کے مذہبی اوقاف کے خاتمہ سے کی جاتی تھی۔سرکاری قانون اس طرح کا جاری کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے مذہبی تشخصات فنا ہوجائیں۔جیل خانوں میں تمام قیدیوں کے لئے ایک قسم کا کھانا دیا جانے لگا‘ جو ہندو مذہب کے لحاظ سے انتہائی غلط بات تھی۔
اسی زمانے میں خوارک میں آمیزش کی کہانی بھی بڑی تیزی کے ساتھ مشتہر ہوئی کہ برٹش گورنمنٹ کے حکم سے پسی ہوئی ہڈیاں‘ آٹے اور نمک میں ملادی گئی ہیں‘ اور وہ بازار میں فروخت ہورہی ہیں‘ گھی میں جانوروں کی چربی ملادی گئی ہے‘ شکر کو جلی ہوئی ہڈیوں سے صاف کیا جاتا ہے‘ کنوؤں میں سور اور گائے کا گوشت ڈالوادیا گیا ہے‘ ان افواہوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بازاروں میں آٹا اور اس سے پکی ہوئی روٹیوں کی تقسیم کی گئی‘ یہ روٹیاں خاموشی کے ساتھ گاؤں گاؤں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاتی تھیں‘ اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ روٹیاں کہاں سے آئی ہیں اور ان کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں‘ لوگوں نے اپنے طور پر مختلف قیاس آرائیاں کیں‘ کہ یہ متحدہ بغاوت کی دعوت ہے‘ بیماریوں اور بلاؤں کی تقسیم کی علامت ہے‘ کسی نے اس کی تشریح کی کہ ان کی خوراک کے وسائل چھین لئے جائیں گے‘ ایک خیال یہ تھا کہ ان کے اندر فتنہ انگیز خطوط چھپے رہتے تھے“۔ (تاریخ عروج عہد انگلشیہ:۳۴۲-۳۴۵)
حضرت مولانا محمد میاں صاحب لکھتے ہیں:
”چپاتیاں بٹنے کا واقعہ ہندوستان میں نیا نہیں تھا‘ سنتھالیوں کی بغاوت سے پہلے سال کے درخت کی ٹہنیاں گاؤں گاؤں بھیجی گئی تھیں‘ مرہٹوں نے جب شمالی علاقے پر حملے کئے تو اس سے پہلے روٹی پر جوار کی ٹہنی رکھ کر بانٹی گئی تھی․․ بعض جگہ ان پر بکری کے گوشت کی بوٹیاں بھی رکھ دیتے تھے‘ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے محاورات میں چپاتیاں بٹنا اور کچے گوشت کا اس پر رکھا ہونا‘ قلع قمع کردینے‘ کچا چبا ڈالنے اور کلی طور پر استیصال کی علامت مانی جاتی ہے“۔ ساور کر کا خیال یہی ہے کہ مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے یہ صورت اختیار کی گئی تھی‘ بنگال میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ایک خاص قاصد ہرایک چھاؤنی میں جاتا‘ سب سے بڑے ہندوستانی افسر سے ملتا اور اسے سرخ کنول کا پھول دکھاتا‘ افسر پھول پاس کے سپاہی کو دے دیتا‘ اوراسی طرح ایک ایک سپاہی کے ہاتھ میں پہنچتا‘ یہ پھول نشان تھا صفائی‘ پاکیزگی‘ فتح اور شادابی کا۔ (علماء ہند کا شاندار ماضی:۸۱-۸۲)
ایک بڑی شکایت فوجیوں میں یہ پیدا ہوئی کہ ان فیلڈرائفلوں کے لئے جو کار توس بنائے جاتے ہیں‘ ان میں گائے اور سور کی چربی ہے‘ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی۔جب کسی قوم سے نفرت پیدا ہوتی ہے تو کسی بھی غلط بات پر لوگ یقین کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں جن کا ذکر اوپر کیا گیاسب کی سب من وعن درست نہیں تھیں‘ ان میں کچھ افواہوں کا عنصر بھی ضرور شامل تھا‘ مگر برٹش حکومت کی طرف سے ہندوستانیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر جو بدترین مظالم کا سلسلہ جاری تھا‘ ان کے پیش ان افواہ آمیز خبروں کو حقیقت سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا‘ بالخصوص انگریزوں کے غرور آمیز لب ولہجہ اور ہندوستانیوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک نے‘ لوگوں کو ایسا متنفر کردیا تھا کہ وہ اس طرح کی ہربات کو قرین قیاس سمجھنے میں حق بجانب تھے۔ دوسری طرف انگریزوں کو اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ وہ اس طرح کی شکایات کو سننے کے لئے تیار نہ تھے‘ انفرادی طور پر مختلف حلقوں سے حکومت کو اس قسم کے مظالم اور شکایات سے بارہا آگاہ کیا گیا‘ مگر قوت کے جنون میں انہوں نے ان کو نظر انداز کیا۔
انگریز کے خلاف بے چینی کا آغاز
بالآخر وہی ہوا جو اس قسم کے حالات میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ عوامی بے چینی پیدا ہوئی اور پورے ملک میں ایک زلزلہ برپا ہوگیا۔کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس بے چینی نے ۲۲/جنوری ۱۸۵۷ء کو دم دم (کلکتہ) میں عملی شکل اختیار کی‘ دم دم میں مقیم دیسی سپاہیوں نے اپنے انگریز سے کار توس کے قصے کی شکایت کی‘ مگر حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ کارتوسوں میں کوئی ناجائز چیز استعمال نہیں کی جارہی ہے‘ حکومت مطمئن تھی کہ بے چینی ختم ہوگئی‘ مگر ایسا نہیں ہوا‘ کلکتہ سے ۱۶/ میل دور بارک پور کے فوجیوں کے بہرام پور (بارک پور سے ۱۰۰/ میل دور) کی انیسویں رجمنٹ میں بے چینی کا بیج بودیا‘ ۱۹/فروری کی رات اس رجمنٹ نے مظاہرہ شروع کردیا‘ کرنل مجل نے فوجیوں سے اس مظاہرہ کا سبب دریافت کیا تو فوجیوں نے کہا کہ:
”سرکار ہمارا دین بگاڑ رہی ہے‘ کرنل نے فوجیوں کے سامنے تقریر کی اور سمجھ لیا کہ بات ختم ہوگئی‘ مگر یہ سلسلہ اندر اندر چلتا رہا‘ ایک دن بارک پور کی چونتیسویں رجمنٹ کے ایک فوجی نے پریڈ کے وقت ”دین دین“ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو فرنگیوں کے خلاف جنگ پر اکسایا‘ سارجنٹ میجر موقع پر پہنچ گیا‘ اس فوجی نے اس پر گولی چلا دی‘ وہ بال بال بچ گیا‘ بغاوت کے آثار پاکر جنرل ہرسی موقع پر پہنچ گیا‘ حالات پر قالو پالیا گیا۔“
”یہ دین دین“ کا نعرہ لگانے والا ایک برہمن تھا‘ ”منگل پانڈے“ ۶/اپریل کو منگل پانڈے پر مقدمہ شروع ہوا‘ ۷/ کو پھانسی کی سزا تجویز کی گئی اور ۸/کو اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘ ۲۱/ اپریل کو اس کے ایک ساتھی ایشوری پانڈے کو پھانسی دے دی گئی‘ اس کا جرم یہ تھا کہ منگل پانڈے جب فائر کی تیاری کررہا تھا اور ایشوری سے کہا گیا تھا کہ منگل پانڈے کو گرفتار کرلے تو ایشوری نے تعمیل میں لاپرواہی برتی تھی‘جب دوبارہ اس کو حکم دیا گیا تو کہہ دیا‘ منگل پانڈے تو پاگل ہوگیا ہے۔
بارک پور کی خبریں کسی قدر مبالغہ کے ساتھ شمال ہند تک پہنچیں‘ اپریل ۱۸۵۷ء کے آخری ہفتہ میں میرٹھ میں ہندوستانی سپاہیوں نے بے چینی کا مظاہرہ کیا‘ میرٹھ میں انگریزی سپاہیوں کی ایک پوری رجمنٹ موجود تھی‘ اور یہاں کا توپ خانہ پورے ملک میں سب سے بہتر توپ خانہ تھا‘ اس لئے یہاں کے فوجی حکام مطمئن تھے‘ کہ یہاں کسی کو پر مارنے کی مجال نہ ہوگی‘ ۲۳/اپریل کو پریڈ کا حکم نافذ کیا گیا‘ ۲۴/کودیسی فوج نے پریڈ کی‘ پریڈ کے بعد حوالدار میجر اور اس کے اردی نے ان کار توسوں کو چلایا جن کے متعلق خیال تھا کہ ان کے چلاتے وقت دانتوں سے کاٹنا پڑتا ہے‘ پریڈ ختم ہوئی‘ دیسی سپاہی اپنی بارکوں میں چلے گئے‘ اسی رات اردی کے خیمہ کو آگ لگادی گئی‘ اگلے دن دیسی سپاہیوں نے کارتوس لینے سے انکار کردیا‘ مگر انگریز افسروں کی طرف سے فہمائش کے بعد بظاہر بات دب گئی مگر اندر سلگتی رہی‘ ۶/مئی کو میرٹھ چھاؤنی میں پریڈ کرائی گئی‘ ہرایک فوج سے پندرہ پندرہ آدمی منتخب کئے گئے‘ کل نوے آدمی پریڈ میں موجود تھے‘ کارتوسوں کی تقسیم کا حکم دیا گیا‘ پانچ کے سوا سب نے انکار کردیا‘ جن میں انچاس ۴۹/ مسلمان تھے‘ اور ۳۶/ غیر مسلم․․․ ۹/مئی کو ان باغیوں کے خلاف بلند آواز سے دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور پھر فوراً ہی فوجی نشان چھین لئے گئے‘ ان کی وردیاں پشت کی طرف سے پھاڑدی گئیں‘ اور ان کو ہتھکڑیوں میں جکڑ دیا گیا‘ اور ان پچاسی جوانوں کو پاپیادہ شہر کے جیل خانہ میں پہنچادیا گیا‘ مظلوموں کے اس جلوس نے بغاوت کے شعلوں کو ہوادی‘ اور اس کی چنگاری دور دور تک پہنچ گئی اور اس طرح دیکھتے دیکھتے ملک کے مختلف حصوں میں بالخصوص شمالی ہندوستان میں ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے‘ قصہ طویل ہے‘ خلاصہ یہ ہے کہ ہرطرف سے ایک آواز آئی تھی کہ دہلی چلو‘ اور ”خاندان تیموریہ“ کے ظل ہمایونی میں ایک منظم تحریک بنانے کا آغاز کرو‘ تاکہ غیر ملکی سامراج سے ملک وملت کو آزادی دلائی جاسکے۔ ۳۱/ مئی کی تاریخ متحدہ بغاوت کے لئے مقرر کی گئی‘ مگر کوئی مضبوط اور تجربہ کار سرپرست نہ ہونے کے سبب وقت سے قبل ہی مختلف علاقوں میں الگ الگ بغاوت کی آگ بھڑکنے لگی‘ اس طرح جو کام ایک وقت میں مکمل اجتماعی قوت کے ساتھ کرنے کا تھا وہ الگ الگ اور غیر مربوط طور پر سامنے آنے لگا‘ اور یہی سبب بنا تحریک آزادی کی ناکامی کا‘ انگریزوں کو سنبھلنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی اپنی پوری فوجی طاقت اس بغاوت کو فرو کرنے کے لئے جھونک دی۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: اسلامی تہذیبی ورثے سےآؤٹ کرنے کا بالواسطہ آسان طریقہ !
Flag Counter