Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ -نومبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 9
اسلامی تہذیبی ورثے سےآؤٹ کرنے کا بالواسطہ آسان طریقہ !
اسلامی تہذیبی ورثے سے آؤٹ کرنے کا بالواسطہ آسان طریقہ

”کتب خانوں کو آگ لگانے کی ضرورت نہیں، صرف رسم الخط بدل دو،،
یہ الفاظ اپنے وقت کے سب سے بڑے فلسفی مورخ آرنلڈ ٹو ائن بی کے ہیں، وہ کہتا ہے: فقط رسم الخط کے بدل جانے سے قوم کا رشتہ اپنے ماضی سے کٹ جائے گا، اس کی پوری تہذیب ا س کے لئے بے معنیٰ ہوکر رہ جائے گی، پھر اسے جس طرف چاہو، لے جاؤ۔ مرحوم اکبر الٰہ آبادی نے بھی فرمایا تھا۔
شیخ مرحوم کا قول اب بھی یاد آتا ہے مجھے
دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے
ایک تاریخی حقیقت، مسلمانوں کی عالمگیر فتوحات اور بے نظیر سیاسی سطوت کا درخشاں دور ۶۶۲ء سے ۷۵۰ء کا دور ہے، جب مسلمان جزیرہ ٴ عرب سے نکلے اور ربع مسکوں پر چھا گئے۔ وہ جہاں گئے، اپنی شاندار اسلامی تہذیب کے علاوہ عربی زبان بھی ساتھ لے گئے۔ رعایا کو عدل ملا، امن ملا اور انہیں اپنی زبان وتہذیب چھوڑ کر عربی زبان اور اسلامی تہذیب اپنانے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ ایشیا کے عراق،شام، فلسطین سے مصر اور مصر سے افریقہ کے آخری کناروں تک کے ممالک آج عرب کہلاتے ہیں۔ ایران اور قدیم ہند کے مشرقی کناروں اور داغستان اور وسطی ایشیا کی ترکستانی ریاستوں تک کو اسلام نے فتح کیا۔ ان علاقوں میں اگرچہ عربی زبان صرف ادبی ودینی زبان رہی۔ علاقائی زبانیں اور سرکاری زبان فارسی قرار پائی، مگر دینی علوم کا بیش قیمت ذخیرہ انہی علاقوں میں مدون ہوا۔ کون نہیں جانتا کہ صحاح ستہ کے تمام مولفین انہی علاقوں کے ہیں۔ ان علاقوں میں شعائر اسلام کا نفاذ ہوا، کسی فرد یا خاندان کو زبردستی اسلام میں داخل نہ کیا گیا، اسلام نے ہرجگہ امن اور خوشحالی کو بحال کیا ۔ عیسائی اقوام نے بسایہ کہا کہ ہمیں اپنے ہم قوم (عیسائی) حکمرانوں سے اہل اسلام نے زیادہ امن اور فلاح دی ہے۔ اسلامی ہند، جنوبی ایشیا کے بہت بڑے علاقے پر مشتمل تھا ،جسے برصغیر بھی کہا گیا، یہاں سرکاری دفتری زبان فارسی ہی تھی اور دینی ذخیرہ عربی اور فارسی میں۔ آستین کے سانپوں نے جب سلطان ٹیپو اور نواب سراج الدولہ کو میسور اور بنگال میں شکست دلوائی تو انگریز نام نہاد تاجر ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلم ہند پر قبضہ کیا، انگریز ایک دور رس نظر رکھنے والی سازشی قوم ہے، اس نے عربی اور فارسی زبانوں کی بجائے اپنی زبان انگریزی کو سرکاری طور پر نافذ کیا، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے قائم کئے، لارڈ میکالے نے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ترتیب دیا، پھر کہا کہ:
”میں نے ایسا نصاب ترتیب دے دیا ہے کہ اس کو پڑھ کر ہندوستان کے باسی رنگ ونسل میں ہندوستانی اور ذہن اور سوچ میں بے دین یورپی انگریزہوں گے“۔
ایک وقت آیا کہ مسلم لیڈروں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چلائی، علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ آزادی ہند کا سرخیل تحریک بنا ۔ بانی پاکستان کے ساتھ بھی چوٹی کے علماء مثلاً :علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ ظفر احمد عثمانی جیسے اعلیٰ درجہ کے سکالر تھے۔ ہندوستان آزاد ہوا، پاکستان وجود میں آیا، عوام کی خواہش اور علماء کی کوششوں سے یہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں عربی اور علوم اسلامیہ (قرآن وحدیث وفقہ) جیسے مضامین متعارف کرائے گئے، اس طرح جدید تعلیم یافتہ لوگ قرآن وحدیث کی روح پرور وسعتوں میں بھی گامزن ہوئے، مگر برا ہوکالے انگریزوں کا جنہوں نے (اسمبلیوں میں اردو ذریعہ تعلیم وسرکاری زبان اردو کے فیصلوں کے باوجود) اردو زبان کو نافذ نہ ہونے دیا۔ اہل اقتدار پر سازشی تھنک ٹینکس کا دباؤ جاری رہا، یہانتک آج یعنی اسی سال پنجاب کے سرکاری سکولوں میں عربی کو واپس نکال دیا گیا، ذریعہ تعلیم اردویاپنجابی کی بجائے انگریزی قرار دیدیا گیا۔ آئندہ تمام سکول انگلش میدیئم کردیئے جائیں گے، مسلم بچے اپنی تہذیب سے کٹ جائیں گے، وہ ذہنی طور پر قرآن وحدیث یا ان کے اردو تراجم سے مکمل طور پر بے بہرہ کالے انگریز بن جائیں گے اور کہا جائے گا کہ: ”مسلمان“ نہیں، یہاں اعتدال پسند، روشن خیال لوگوں کا بسیرا ہے۔ کوئی ہے جو نتائج کی فکر کرلے؟
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: قرآن کریم کی سورتوں کو ترتیب کے خلاف پڑھنا !
Flag Counter