Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ -نومبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 9
علامہ سید محمدانورشاہ کشمیریؒاکابرکی نظرمیں !
علامہ سید محمدانورشاہ کشمیری ٓٓٓٓٓٓ اکابرکی نظرمیں
(۲)
روایت استاذنا حضرت مولانا محمد صادق صاحب:
ابھی قارئین استاذنا حضرت مولانا محمد صادق صاحب کا اسم گرامی پڑھ چکے ہیں، آپ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۵ء تک احمدپور شرقیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، بعد ازاں جامعہ عباسیہ بہاول پور کا قیام عمل میں آیا تو آپ وہاں چلے گئے۔ جامعہ عباسیہ سے پہلے بھی بہاول پور میں ایک عظیم دینی درس گاہ موجود تھی، کبھی حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری یہاں رہ چکے تھے (دیکھئے تذکرة الخلیل)۔ نواب صادق محمد خان عباسی پنجم مرحوم کی تاج پوشی ہوئی تو انہوں نے اس قدیم درس گاہ کو جامعہ اسلامیہ کا نام دے کر علومِ دینیہ کی ایک یونیورسٹی کے تخیل سے شکل نو دینا چاہا، اس کا ابتدائی مسودہ حضرت الاستاذ ہی نے ترتیب دیا تھا، پھر آپ کی خدمات بھی جامعہ عباسیہ کو منتقل ہوگئیں، آپ علم کے ساتھ نہایت زیرک اور معاملہ فہم تھے، علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں مہارت رکھتے تھے، حضرت مولانا محمد علی جالندھری انہیں فقیہ العصر قرار دیتے تھے، حضرت مولانا افغانی فرماتے تھے: یوں لگتا ہے کہ اصابہ ابن حجر مولانا کو ازبر ہے، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی دورانِ قیامِ بہاول پور کہیں ان کے ہمراہ ہوتے تو انہیں آگے چلنے کو فرماتے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب سے ان کے گہرے روابط تھے۔
حضرت الاستاذ ٹھیٹھ پرانی طرز کے عالم تھے، ۱۹۵۰ء میں آپ جامعہ عباسیہ سے محکمہ امور مذہبیہ کو بطور مفتی چلے گئے، جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ سے جدا ہونے کا وقت آیا تو اشک بار آنکھوں کے ساتھ اُنہیں الوداع کہا۔
ریاست میں محکمہ امور مذہبیہ قائم ہوا تو اس کے پہلے ناظم جناب محمد اکبر خان صاحب، ریٹائرڈ چیف جسٹس عدالت عالیہ بہاول پور، جن کے قلم سے اللہ نے ۱۹۳۵ء میں مقدمہ مرزائیت بہاول پور کا فیصلہ لکھوایا تھا، جبکہ وہ اس وقت ڈسٹرکٹ جج تھے، تعینات ہوئے، تھوڑے ہی عرصہ بعد خان صاحب مرحوم وہاں سے چلے گئے تو ان کی بجائے حضرت الاستاذ کا تقرر ہوا، چند سال بعد آپ بھی وہاں سے بوجہ پیرانہ سالی سبکدوش ہوگئے، اخیر عمر میں آپ ضیاعِ علم پر بڑا افسوس کرتے تھے، ان کی مجلس نہایت پُرلطف اور معلوماتی ہوتی تھی، علما ٴکے تذکروں پر بار بار آنسو بہہ نکلتے تھے، ۱۹۶۵ء میں آپ کا انتقال ہوا، رحمہ الله رحمةً واسعةً! بہاول پور کا شہر ہی آپ کا مولد، مسکن اور مدفن ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہاول پور کے حصے میں گمنامی آئی ہے، بحرالعلوم حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمة اللہ علیہ جیسے فقید المثال اور فحول علما ٴبھی زاویہٴ خمول میں چلے گئے، پسماندگان کا یہی برتاوٴ حضرت الاستاذ کے ساتھ ہوا، اس ناکارہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ان اکابر سے تلمذ کی نسبت رکھتا ہے:
گوچہ خوردیم نسبتیت بزرگ
راقم الحروف کو حضرت الاستاذ سے قریبی تعلق تھا اور حضرت بھی راقم پر بڑی شفقت فرماتے تھے، راقم نے جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ حضرت سے پڑھی تھیں، یہ ۱۹۴۶ء تا ۱۹۴۷ء کا قصہ ہے، آپ کے درس کے محاسن بیان کرنے لگوں تو بات طویل ہوجائے گی، ناچار کہنا پڑتا ہے:
قلم بشکن سیاہی ریز و کاغذ سوز و دم در کش
کہ ایں قصہٴ عشق است در دفتر نے گنجد
نواب صلاح الدین عباسی کے پر نانا مولوی غلام حسین صاحب مرحوم اس وقت وزیر تعلیم تھے، وہ نواب صادق محمد خان مرحوم والیٴ ریاست کے اتالیق رہ چکے تھے، بعد میں مولوی غلام حسین صاحب کے صاحبزادہ میجر شمس الدین صاحب اس منصب پر آئے، میجر صاحب مرحوم شرافت کے مجسمہ اور نہایت خوبرو تھے۔
یہاں پر یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ مقدمہ مرزائیت بہاول پور میں تمام تر جدوجہد حضرت الاستاذ کی رہی (تحریری شہادت آگے آئے گی) امام العصر نے آپ ہی سے فرمایا تھا کہ:
”مولوی صاحب! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا، فیصلہ کے وقت اگر میں زندہ ہوں تو بہتر، ورنہ تو میری قبر پر آکر فیصلہ سنادینا۔“
چنانچہ فیصلہ امام العصر کی وفات کے بعد ہوا تو حضرت الاستاذ نے تعمیل ارشاد میں دیوبند کا سفر فرمایا۔
اب سنئے وہ الفاظ جو حضرت الاستاذ نے امام العصر کے بارے میں ارشاد فرمائے تھے، دورانِ درس فرمایا:
”حضرت شاہ صاحب کا یہ مقام تھا کہ اگر علمِ حدیث کا مسئلہ سامنے آجاتا تو معلوم ہوتا تھا کہ بخاری یا ترمذی بول رہا ہے، اگر فقہ کا کوئی مسئلہ آجاتا تو معلوم ہوتا کہ محمد بن حسن شیبانی یا ابواللیث سمرقندی بول رہا ہے، عربیت کا کوئی سوال آجاتا تو یوں لگتا کہ تفتازانی یا دوانی مسندِ علم پر بیٹھا ہے، صرف و نحو کی کوئی بات ہوتی، تو سیبویہ اور اخفش کو پیچھے چھوڑ جاتے، وہاں نہ زمخشری کی کوئی جگہ تھی، نہ رازی کی، یہ جامعیت امتِ مسلمہ میں شاید ہی کسی کو نصیب ہوئی ہو۔ مصر کے ایک جریدہ (غالباً الفتح نام لیا تھا) نے حضرت کی وفات پر لکھا تھا کہ اگر اس دور کا کوئی آدمی یہ قسم کھالیتا کہ میں نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کو نہ دیکھا تو میری بیوی کو طلاق، تو وہ کون سا عالم ہے جس کو دیکھ لینے سے اس کی قسم پوری ہوجاتی اور اس کی بیوی طلاق سے بچ جاتی، وہ علامہ انور شاہ کشمیری (ہندی) کی ذاتِ گرامی تھی۔“
قارئین اندازہ لگائیں کہ ماضی قریب کے بلند مایہ علما ٴ، امام العصر کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟ قدس الله تعالیٰ اسرارہم ونور مراقدہم، وجعلنا من اتباعہم!
قارئین سے معذرت خواہی کے ساتھ ایک اور بات میں ان اوراق کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ امام العصر نے مقدمہ بہاول پور میں بیان دے کر واپس تشریف لے جانے کے بعد حضرت الاستاذ کو داد و تحسین کا ایک گرامی نامہ تحریر فرمایا تھا، اب اس کا مضمون تو معلوم نہیں ہے، اتنا ہم نے آپ سے سنا تھا کہ میں نے حضرت والا کے اس گرامی نامہ کو زیر و زبر کردیا تھا کہ کل کو میرے پسماندگان اس خط کی بنا پر مجھے غوث الاعظم بناکر میرا مقبرہ نہ تعمیر کر ڈالیں، اب ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ سکتے کہ:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے؟
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے؟
دراصل یہ بھی قدرت کا ایک راز ہے: ”منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک“۔ یہی سنت اللہ اکابرِ امت کے بارے میں کارفرما ہے۔ آج مدارس عربیہ کے کتنے طلبہ ہیں، جو علامہ ابن دقیق العید، شیخ عزالدین بن عبدالسلام اور ابن ہمام کے نام تک سے واقف ہیں؟
یہ وہ بزرگ ہیں، جن کے بارے میں حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی فرماتے ہیں کہ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عہدِ صحابہ سے لے کر ان کے زمانہ تک حدیث کاا تنا بڑا دقیقہ سنج نہیں آیا، حضرت برأبن عازب کی ایک روایت: ”امرنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم بسبعٍ ونھانا عن سبعٍ“ سے چار سو مسائل مستنبط فرمائے ہیں۔ سبحان اللہ! کیا ٹھکانا ہے علم کا؟ (بستان المحدثین ص:۹)
یہ بزرگ ساتویں صدی میں گزرے ہیں، فلسفہ شرعیات کے گویا بانی ہیں، ابن دقیق العید کے استاذ ہیں۔
یہ بزرگ ہدایہ کے شارح ہیں، فتح القدیر کی قدر و منزلت وہی لوگ جانتے ہیں، جنہیں علم سے کوئی تعلق ہوگا۔
اللہ کی بے حد و حساب رحمتیں نازل ہوں، ان اخیارِ امت پر اور ان کے طفیل مغفرت فرمائے ہم گناہ گاروں کی بھی۔
روایت خطیبِ اعظم حضرت سید عطا ٴاللہ شاہ بخاری:
جس طرح امام العصر اپنی بعض صفات میں یگانہٴ روزگار تھے، ایسے ہی حضرت سید عطا ٴاللہ شاہ بخاری، جنہیں اُن کی زندگی میں عموماً شاہ جی کہا جاتا تھا۔ امام العصر نے ۱۹۲۹ء میں اُنہیں امیرِ شریعت منتخب فرمایا تھا، یہ واقعہ انجمن خدام الدین لاہور قائم فرمودہ حضرت اقدس مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ کے جلسہ کے موقع پر پیش آیا۔ امام العصر نے خود حضرت شاہ جی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی تھی، اس کا ذکر بہت سی تاریخی کتب میں موجود ہے، راقم السطور نے یہ واقعہ سب سے پہلے اپنے والد صاحب مرحوم کی زبانی سنا کہ وہ اسی سال حضرت اقدس لاہوری کے ہاں درسِ تفسیر میں شامل تھے۔
حضرت شاہ جی کا علم بظاہر کتابوں کا مرہونِ منت نہیں تھا، لیکن وہ ایک الہامی شخصیت تھی، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں لحنِ داوٴدی عنایت فرمایا تھا، شکل و صورت کے لحاظ سے حسین ہی نہیں، پیکرِ حسن و جمال تھے، اپنے ابا سیدنا علی المرتضیٰ فاتح خیبر کی طرح نانِ شعیر پر گزارہ کرنے والے تھے، اُن کے رہن سہن سے فقرِ بوذر اور اویس قرنی کا عشق جھلکتا تھا، حیرت ہوتی تھی کہ جب اسٹیج پر تشریف لاتے اور بولنا شروع کرتے، تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا تھا، گویا ملائک گوش برآواز ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ہندووٴں اور سکھوں کے ایک اجتماع میں اسلام کی حقانیت، توحید اور بت پرستی کی قباحت پر تقریر فرمائی، حضرت علامہ عثمانی بھی تشریف رکھتے تھے، تقریر کیا تھی؟ جادو تھا کہ حضرت علامہ بھی زار و قطار روئے۔ قارئین معاف فرمائیں، یہ بھی ایک حکایتِ لذیذ تھی، اس لئے چند جملے بے ساختہ نوکِ قلم پر آگئے۔ ہمارا اصل موضوع تو اس وقت امام العصر علامہ انور شاہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آئیے چند ایک روایات خطیبِ اعظم کی زبانی بھی سنتے جائیے، معاف فرمائیے گا، میں شاید اس سلسلہ میں کوئی صحیح ترتیب نہ قائم کرسکوں، قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
۱:…حضرت شاہ جی کی وفات کے بعد اُس وقت کے اخبار روزنامہ امروز میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کا ایک مضمون خطابت کے ائمہ اربعہ کے عنوان سے چھپا تھا، اسی مضمون میں یا اُس پرچہ میں چھپنے والے کسی دوسرے مضمون میں، حضرت بنوری نے لکھا تھا کہ: ایک مرتبہ شاہ صاحب جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لانے والے تھے، ہم لوگ اُنہیں لے جارہے تھے کہ میں نے اُن سے عرض کیا: شاہ جی! آج تو کہیں حضرت شاہ صاحب (حضرت امام العصر) پر تقریر فرمادیجئے، فرمایا:
”بھائی یوسف! کیا کہوں؟ صحابہ کا قافلہ جارہا تھا، انور شاہ پیچھے رہ گئے․․․!“
اس پر میں نے کہا: حَسْبُک الله یا عطاء الله! دیگر رفقا ٴنے یہ جملہ سنا تو سب تڑپ گئے۔ (بعد میں دیکھا تو دونوں حوالے مجھے حضرت بنوری کے مضمون بعنوان خطابت کے ائمہ اربعہ مطبوعہ ماہنامہ نقیبِ ختم نبوت امیر شریعت نمبر میں مل گئے، فللّٰہ الحمد!)۔
سبحان اللہ! کتنا مختصر، مگر جامع اور پُرمغز تبصرہ ہے، اسے کہتے ہیں: ولی را ولی مے شناسد!
۲:…ایک محفل میں شاہ جی نے ارشاد فرمایا: علامہ انور شاہ کے طور طریق کو دیکھ کر سمجھ میں آتا تھا کہ شریعت کا مسئلہ یوں ہوگا، چنانچہ آپ کی نماز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز یوں ادا فرماتے ہوں گے۔ یہ ہے وہ بات جو آپ پیچھے کہیں شیخ الاسلام علامہ عثمانی کے حوالہ سے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت شیخ ابن العربی المعروف شیخ الاکبر سے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (بانی سلسلہٴ سہروردیہ) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”السنة من الرأس الی القدم!“ کہ وہ سر تا پا سنتِ نبوی کا نمونہ ہیں، اور یہ ہیں امتِ مسلمہ کے وہ اساطین جو کل کو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ”اُبَاھی بکم الاُمَم“ کا سرمایہ بنیں گے۔ بات قلم پر آگئی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ حضرت شیخ سہروردی اپنے متعلقین کو حضرت شیخ الاکبر کی مجلس میں جانے سے ممانعت فرماتے تھے، اتفاق کی بات کہ شیخ الاکبر کا انتقال پہلے ہوا، اُن کی وفات کی خبر حضرت شیخ سہروردی کو پہنچی تو فرمایا: ”مَاتَ الیومَ قطبُ الله فی الارض!“ (آج اللہ کا قطب زمین سے اٹھ گیا) مریدوں نے پوچھا: تو حضرت! اب تک آپ ہمیں اُن کے پاس جانے سے کیوں روکتے رہے؟ فرمایا: ”کان بحر الحقائق لا ساحل لہ․․․․“ وہ تو معرفت اور حقیقت کا بحرِ ناپیداکنار تھے، مگر تم اس سمندر کے تیراک نہ تھے۔ یہ روایت میں نے شیخ الاسلام سے سنی: سمعت اذنای ووعاہ قلبی!
۳:…مولانا حافظ سید ابوذر بخاری، فرزندِ اکبر حضرت شاہ جی، نے ایک مرتبہ سنایا کہ:
”ایک مرتبہ ابا مرحوم (حضرت شاہ جی) گاڑی کا سفر کر رہے تھے، گاڑی میں ان کی ملاقات ایک عالم (سید ابوذر نے ان کا نام بھی لیا تھا، مگر راقم قصداً ان کا نام چھپا رہا ہے) سے ہوگئی، وہ ایک بڑے بلند پایہ عالم ہونے کے ساتھ نامور مناظراور کتابوں کے مصنف بھی تھے، وہ اباجی سے کہنے لگے: شاہ جی! کس پھٹے میں ٹانگ اڑالی ہے؟ چھوڑیں سیاست کو، بس دین کا کام کریں، اللہ نے آپ کو قوتِ گویائی دی ہے، اس سے تبلیغِ دین کا کام لیں، انگریز جیسی طاغوتی طاقت سے ٹکر لینا ہم غریب مولویوں کا کام نہیں ہے۔ اباجی مرحوم پر ان باتوں کا کچھ اثر ہوا، آپ دیوبند جارہے تھے، وہاں پہنچ کر سیدھے علامہ انور شاہ کی خدمت میں پہنچے، ملاقات ہوئی تو خیر خیریت دریافت فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا: شاہ جی! کسی کی باتوں میں نہ آئیے، اپنا کام کرتے رہئے اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیجئے، ہمارے ذمہ سعی کرنا ہے، نتائج ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ شاہ جی، حضرت کا یہ ارشاد سن کر دم بخود رہ گئے، حالانکہ انہوں نے حضرت سے ایک لفظ بھی ذکر نہیں کیا تھا، شاہ جی فرماتے تھے: بس پھر میری ڈھارس بندھ گئی اور میں نے تہیہ کرلیا کہ اپنا مشن جاری رکھنا ہے، ہرچہ بادا باد۔ فرماتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گاڑی میں میری جو گفتگو مولانا ․․․․․․ سے ہوتی رہی، حضرت علامہ کے ہاں ریکارڈ ہوتی رہی ہے، اور اُنہیں ایک ایک لفظ کا علم ہے۔“
قارئین کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے، جو علیم و خبیر، مدینہ منورہ میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے رئیس المحدَّثین (بفتح الدال) سیدنا فاروق اعظم سے سینکڑوں میل دور لڑنے والے مسلمان سالار کو یا ساریة! الجبل کی ہدایت دلواسکتا ہے، اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ کسی اور محدَّث اور ملہم شخصیت سے اس نوع کا حکم جاری کرادے۔
۴:…راقم السطور کو سن تو یاد نہیں رہا کہ کب کی بات ہے؟ ایک مرتبہ حضرت شاہ جی ڈیرہ نواب صاحب (نوابانِ بہاول پور کے ذاتی مسکن کا نام ہے) میں تقریر فرما رہے تھے، اتنا بھی بخوبی یاد ہے کہ رات کے گیارہ بجے حضرت کا خطاب شروع ہوا اور دو بجے کے بعد ختم ہوا، اختتامِ تقریر پر شاہ جی نے یہ شعر پڑھا تھا:
شبِ وصال بہت کم ہے، کہو آسماں سے
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا!
دورانِ تقریر شاہ جی نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ:
”جس رات حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کا انتقال ہوا، میں دارالعلوم دیوبند میں تھا، اس رات ایک چیخ غیب سے سنی گئی، اس عظیم سانحہ پر کسی کو یہ سوچنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ یہ چیخ کیسی تھی؟ ہر شخص غم و اندوہ کی تصویر اور رنج و الم کا پیکر بنا ہوا تھا، تھوڑے دنوں بعد میں حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری (جن سے شاہ جی کا بیعت کا تعلق تھا) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے حضرت کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ حضرت شاہ صاحب کی وفات پر اس طرح ایک ہولناک چیخ سنی گئی تھی، یہ چیخ کس کی ہوگی؟ حضرت رائے پوری بھی حضرت شاہ صاحب سے تلمذ کا رشتہ رکھتے تھے (ملاحظہ ہو، پچاس مثالی شخصیات، مضمون حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب)، حضرت سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: بھائی! قرآن نے یہ جو کہا ہے کہ: ”فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ۔“ (سورہٴ دخان:۲۹) تو اللہ کے بندوں میں کچھ تو ایسے بھی ہوں گے، جن پر آسمان اور زمین بھی روئیں گے۔“
اب قارئین ایک حدیث شریف غور سے سنیں، مشکوٰة شریف” باب البکاء علی المیت“ میں ایک روایت بحوالہ ترمذی شریف آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مَا مِنْ مُوٴْمِنٍ اِلَّا وَلَہ بَابَانِ، بَابٌ یَصْعَدُ مِنْہُ عَمَلُہ وَبَابٌ یَنْزِلُ مِنْہُ رِزْقُہ۔ فَاِذَا مَاتَ بَکَیَا عَلَیْہِ، فَذَالِکَ قَوْلُہ تَعَالیٰ: فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ۔“ (ترمذی ج:۲ ص:۱۵۸)
ترجمہ:۔”ہر مسلمان کے لئے دو دروازے ہوتے ہیں، ایک وہ دروازہ جس سے اس کے نیک عمل اوپر کو جاتے ہیں اور ایک وہ دروازہ جس سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے، (پھر اس کی تائید میں) آپ نے یہ آیت پڑھی، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: نہ اُن پر آسمان رویا، نہ زمین۔“
مفسرین حضرات نے طالب علموں کی سمجھ کے مطابق بات کی ہے کہ انہوں نے ”اھل“ کا لفظ السماء والارض سے پہلے محذوف مان لیا، یہی کچھ محدثین نے کہا کہ باب سے پہلے ”اھل“ کا لفظ مقدر مان لیا، جیسا کہ اردو زبان میں کہا جاتا ہے: سارا محلہ اس بات کا گواہ ہے، سارا شہر جانتا ہے، علاقہ بھر کو معلوم ہے، تو ان جملوں میں اہل محلہ، اہل علاقہ اور اہل شہر مراد ہیں، لیکن طلبہ کرام دو شارحینِ حدیث کی رائے بھی سن لیں:
مُلَّا علی قاری شارحِ مشکوٰة (المتوفی ۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ یہ اھل سے تاویل کرنا: مخالف لظاھر الاٰیة والحدیث ولا وجہ للعدول لمجرّد مخالفتہ ظاھر القول۔ اس سے پہلے شارح موصوف ابن الملک سے ایسا ہی قول نقل کرچکے ہیں۔ (دیکھئے مرقاة ج:۴ ص:۹۴)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (متوفی ۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:
”میگریند آں ہر دو بروے، بحقیقت یا مراد گریہ اہل آنہاست از ملائکہ و ظاہر آیت و حدیث در معنی اول ست واللہ اعلم۔“ (اشعة اللمعات ج:۱ ص:۷۰۴)
اگر مزید تحقیق مطلوب ہو تو تفسیر ابن کثیر وغیرہ سورہٴ دخان کا مطالعہ کریں۔ لطف یہ ہے کہ امام فخر الدین رازی نے اپنے تفلسف کے باوجود اپنی تفسیر میں اکثر مفسرین کا قول یہی نقل کیا ہے کہ یہ نسبت (بکاء کی آسمان اور زمین کی طرف) حقیقت پر محمول ہے، حقیقت یہ ہے کہ جو شخص انین اسطوانہ اور اس طرح کے دوسرے معجزات پر ایمان رکھتا ہے، اس اسناد کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہوسکتا۔
۵:…ایک مرتبہ حضرت شاہ جی - سید عطا ٴاللہ شاہ صاحب بخاری - جنوبی پنجاب کے کسی شہر - غالباً مظفرگڑھ - میں تشریف لے گئے، امام العصر بھی وہاں مدعو تھے، شاہ جی کا شباب تھا، بھلا وقت کے امام کے ہوتے ہوئے اُنہیں کیا جرأت ہوتی کہ تقریر فرماتے، مگر حضرت والا نے فرمادیا کہ آپ جائیں تقریر کریں، اب شاہ جی ہچکچانے لگے، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، حضرت والا نے کہلوا بھیجا: میں حکم دیتا ہوں کہ وہ تقریر کریں اور میں بھی سننے کے لئے آرہا ہوں۔ اب تو یک نہ شد، دو شد۔ تعمیل حکم کے بغیر چارہٴ کار نہ تھا، شاہ جی نے تقریر شروع فرمائی، حضرت والا بھی چپکے سے آکر پیچھے بیٹھ گئے، شاہ جی فرماتے تھے کہ خطبہ مسنونہ کے بعد مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، دو تین گھنٹے گزر جانے کے بعد پیچھے سے آواز آئی: جزاک اللہ! میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت والا بیٹھے تھے اور اُنہی کی آواز آئی تھی۔ (بروایت مولانا سید ابوذر بخاری)
قارئین کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے، قادرِ مطلق نے اپنے بندوں میں نعمتیں تقسیم فرمادی ہیں، دو بھائیوں میں سے ایک کو شرفِ ہم کلامی بخشا، ”وکلم الله موسیٰ تکلیما“ً، مگر زبان میں لکنت تھی” ولا ینطلق لسانی“۔ دوسرے کو فصاحت لسانی میں فائق کردیا،” ھو افصح منی لسانا“۔ علی نبینا وعلیہما السلام۔ اس نے شاہ تبریز کو معرفت کا سمندر بنادیا اور مولانا رومی کو ان کی زبان۔ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو شیخ طریقت بنادیا اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کو ان کے لئے زبان و قلم ٹھہرایا، اس قادرِ مطلق نے امام العصر کو علوم کا بحرِ متلاطم بنادیا اور ان کے نامور تلامذہ کو ان کے لئے بمنزلہ لسان و قلم، اب دیکھ لیجئے مولانا مناظر احسن گیلانی ہوں یا مولانا کاندھلوی، حضرت مفتی محمد شفیع یا حضرت بنوری، حضرت افغانی ہوں یا حضرت مولانا بدرعالم، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ہوں یا سید عطا ٴاللہ شاہ بخاری سب اسی خرمنِ علم کے خوشہ چین ہیں:
یک چراغیست دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجا کہ مے نگری، انجمنے ساختہ اند
بحرالعلوم حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی اور امام العصر:
بحرالعلوم حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمہ اللہ پنجاب کے نہایت بلند پایہ علما ٴ میں سے تھے، آپ مدرسہ عالیہ رام پور کے فارغ التحصیل تھے، عقلیات میں مولانا احمد حسن کانپوری کے شاگرد تھے، علوم و فنون متدوالہ میں جامعیت کے لحاظ سے یکتا تھے، سلسلہٴ بیعت حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے تھا، ان کے حالات و واقعات پر مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ ایک عرصہ تک آپ ملتان کے قریب بستی گھوٹہ میں پڑھاتے رہے، ۱۹۲۵ء میں جامعہ عباسیہ بہاول پور کا قیام عمل میں آیا، تو آپ شیخ الجامعہ کے منصب پر تشریف لے آئے، سرکاری ضوابط کے مطابق ۱۹۴۶ء میں ریٹائر ہوئے اور ۱۹۴۸ء میں آسمانِ علم کا یہ آفتاب غروب ہوگیا، فانا لله وانا الیہ راجعون! نور الله مرقدہ وقدس سرہ۔
بہاول پور میں قیام کے دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ انگریزوں نے کلکتہ یا بریلی میں علوم دینیہ کا ایک کالج کھولا جس کی صدارت (Principal Ship) کے لئے انہیں ایک نامور جید عالم کی ضرورت پیش آئی، پہلے نمبر پر ان کے سامنے امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کا نام آیا، مگر وہ تو دیوبند سے تعلق رکھتے تھے، ظاہر ہے کہ انگریزی حکومت انہیں نہیں بلاسکتی تھی، دوسرے نمبر پر حضرت مولانا معین الدین اجمیری جو سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیر قدس اللہ سرہ کے ہم نام تھے، کا نام آیا، مگر انگریز کو معلوم ہوا کہ وہ تو مولانا فضل حق خیرآبادی کے شاگرد ہیں اور مولانا فضل حق وہ بزرگ ہیں، جنہوں نے ۱۸۵۷ء میں انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا، آپ، مولانا فضل امام خیرآبادی کے صاحبزادے تھے، جو کبھی دہلی میں صدر الصدور کے عہدہ پر رہ چکے تھے، مولانا فضل حق بھی مغلیہ سلطنت کے ٹمٹماتے دور میں سرکاری منصب پر رہ گئے تھے، مولانا فضل حق کو حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی سے بھی تلمذ حاصل تھا، حضرت شاہ عبدالعزیز سے بھی انہیں نیاز حاصل تھا، ذہن پر عقلیات کا غلبہ تھا، حضرت شاہ اسماعیل شہید سے مسئلہ ”امتناع النظیر“ وغیرہ پر ان کے مناظرے بھی ہوتے رہے۔ ۱۸۵۷ء کے مقدمہ میں مولانا خیرآبادی کو عمر قید بعبور دریائے شور کی قید ہوئی، ان کے بیٹے مولوی عبدالحق صاحب (شارح ہدایة الحکمہ) نے کوشش کرکے پریوی کونسل لندن سے اپنے والد کی رہائی کا پروانہ حاصل کیا، مگر انڈمان پہنچے، تو مولانا کا جنازہ جیل سے باہر آرہا تھا، انا لله وانا الیہ راجعون! رحمہ الله!
خود مولانا معین الدین نے جہاد آزادی کے موضوع پر ”الثورة الہندیہ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، ظاہر ہے کہ وہ بھی انگریز کے کام کے نہیں تھے۔ تیسرا نام بحرالعلوم حضرت گھوٹوی کا سامنے آیا۔ اُن سے خط و کتابت ہوئی، مگر آپ نے یہ کہہ کر دو ٹوک جواب دے دیا کہ میں تدریسِ علوم دینیہ کے لئے سرکاری ملازمت کا روادار نہیں ہوں، میں نے بہاول پور کی ملازمت بھی صرف اسی وجہ سے منظور کرلی ہے کہ یہ اسلامی ریاست ہے اور اس کے والی خانوادہٴ نبوت (عباسی) کے فرد ہیں۔
حضرت والا” بسطةً فی العلم والجسم“ تھے، دراز قامت (ساڑھے چھے فٹ کے لگ بھگ) نہایت بارعب اور وجیہ، سرکاری تعلق کی وجہ سے لباس بھی نہایت عمدہ زیب تن فرماتے تھے، گرمیوں میں بالاپوش اور سردیوں میں شیروانی، سر پر عمامہ ہوتا تھا اور نہایت خوش نما۔
راقم السطور کے لئے سرمایہٴ افتخار ہے کہ چند روز حضرت گھوٹوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے تھے، حضرت صاحبزادہ سید عبدالحق شاہ صاحب گولڑوی ان دنوں بہاول پور میں حضرت کے ہاں زیر تعلیم تھے، ان کی بدولت راقم کو بھی یہ سعادت میسر آئی، شرح جامی (بحث فعل سے آخر تک) اور اس درجہ کی چند دوسری کتب حضرت سے پڑھنے کا شرف ملا، ان دروس کی لذت آج تک دل و دماغ میں سمائی ہوئی ہے، جامعہ عباسیہ کے طلبہ حضرت کے رعب کی وجہ سے دور دور رہتے تھے، مگر راقم السطور حضرت کا قرب تلاش کرتا تھا، بہرحال ایسے اکابر کی دعائیں ہیں، جن کے نتیجہ میں یہ گنہگار علومِ دینیہ کی شدبد سے واقف ہوا، فللّٰہ الحمد علی ذالک!
جناب صاحبزادہ صاحب دو بھائی تھے ، ان کے بڑے حضرت سید غلام معین الدین شاہ صاحب، جنہیں لالہ جی کہا جاتا تھا، کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ ان کا وصال ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، دوسرے جناب سید عبدالحق شاہ صاحب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، ان سے پھر کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ بہرحال دونوں شرافت اور نجابت کے پتلے تھے، نہایت خوبرو، خوش خصال اور سیدانہ عادت و اطوار کے مالک، الولد سر لابیہ کے مصداق تھے۔
یہاں تھوڑا سا اشارہ اس بات کی طرف بھی کردوں کہ علمائے شریعت ہوں یا بزرگانِ طریقت، ان میں مسائل کا اختلاف ہو اور وہ اختلاف مبنی پر دلیل ہو، اتباعِ ہویٰ پیش نظر نہ ہو تو وہ اختلاف مذموم نہیں ہے، اور کسی کی نہ سنئے، حافظ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید حافظ ابن قیم ایک فقہی مسئلہ میں ائمہ کا اختلاف نقل کرکے فرماتے ہیں: غفر الله لھم کلھم فانھم اجتھدوا فی متابعة السنة۔ خود بحرالعلوم حضرت گھوٹوی کے بارے میں میں بخوبی جانتا ہوں کہ حضرت بعض مسائل میں اکابر دیوبند سے اختلاف رائے رکھتے تھے، لیکن اس بنا پر حضرت کے علمی عملی کمالات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس سلسلہ میں راقم کو حضرت گھوٹوی اور حضرت امیر شریعت کے بھی چند واقعات معلوم ہیں، مگر یہاں ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہے، مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امیر شریعت کی عقیدت مندی میں اخیر تک کوئی فرق نہ آیا۔
مقدمہ مرزائیت بہاول پور جو ۱۹۲۶ء میں چالو ہوا اور فروری ۱۹۳۵ء میں اس کا فیصلہ ہوا، بالعموم مسلمانوں کو یہ تو معلوم ہے کہ یہ ایک تاریخی مقدمہ تھا، لیکن اس کی تفصیلات بہت کم دوستوں کو معلوم ہیں۔ عدالتی کاروائی، تین جلدوں میں میر عبدالماجد صاحب آف بہاول پور کی مساعی سے چھپ چکی ہے، مقدمہ کا فیصلہ اور حضرات علمائے کرام (گواہانِ مدعیہ) کے بیانات بھی کئی مرتبہ طبع ہوچکے ہیں، لیکن چند باتیں اس وقت صدری روایات کی حیثیت سے دو چار افراد ہی کے حافظہ میں رہ گئی ہیں۔ علامہ ارشد مرحوم المعروف سیاست دان، علامہ عبدالرحمن صاحب مرحوم سابق ناظم امور مذہبیہ بہاول پور، علامہ ولی اللہ اوحد مرحوم سابق مدیر کائنات، علامہ منظور احمد رحمت سابق ایڈیٹر مدینہ، وغیرہم کے ساتھ یہ روایات (یہ کوئی واعظانہ ڈھکوسلے نہیں ہیں، حقائق اور واقعات ہیں) بھی زیر زمین چلی گئی ہیں۔ بحرالعلوم علامہ گھوٹوی اور امام العصر کے باہمی تعلق کو بیان کرتے ہوئے، چند روایات سطورِ ذیل میں آجائیں گی، والله الموفق لما نرید!
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: ۱۸۵۷ء کاانقلابِ حریت اورعلماء اسلام !
Flag Counter