Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۳۱ھ -نومبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 9
انسانی زندگی کے چار دور !
انسانی زندگی کے چار دور!

سبحان اللہ! ایسی فصاحت ، ایسی بلاغت، ایسا عجیب زورِ بیان، ایسی شیرینی، ایسا کمال لیکن افسوس کہ : زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم
ہمیں نہ تو قرآن کا اعجازِ حلاوت واندازِفصاحت معلوم ،نہ ترجمے میں اتنی قابلیت کہ میں اس زور بیان کو ادا کرسکوں، اس لئے میں چند اشارات عرض کرتا ہوں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ”اعلموا انما الحیاة الدنیا“ کلام کو ”اعلموا “کے بعد ”انما“سے شروع فرمایا، شیخ عبد القادر جرجانی ”دلائل الاعجاز“ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ” انما“ سے کلام شروع کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ کلام سوفیصد حقیقت ہے ،جس میں کسی ادنیٰ تردد یا شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔
تو ”انما“ سے کلام شروع کرکے حق تعالیٰ شانہ متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ تمہاری دنیوی زندگی کا لہو ولعب اور کھیل تماشا تو ایسی بدیہی حقیقت اور کھلی بات ہے کہ اس میں کسی عاقل کو تردد ہی نہیں ہوسکتا، سبحان اللہ! یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ ایک طرف تو قرآن کے حقائق اتنے گہرے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء وہاں تک رسائی سے عاجز ہیں، چنانچہ ایک لمبی حدیث میں قرآن پاک کے بارے میں فرمایا:
”لایخلق بکثرة الرد ولایمل قاریہ ولایشبع منہ العلماء ولاتنقضی عجائبہ“
ترجمہ:۔”قرآن کثرتِ تلاوت سے کہنہ نہیں ہوتا، اس کا پڑھنے والا اکتاتا نہیں، اس سے علماء کو سیری نہیں ہوتی، اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے“۔
تو ایک طرف تو قرآن کریم ایسا دریائے ناپیدا کنار ہے کہ اس کے حقائق وعجائبات ختم نہیں ہوتے اور دوسری طرف اس کا یہ اعجاز ہے کہ عامی سے عامی آدمی بھی اپنے ظرف کے مطابق اس کا مفہوم سمجھ جائے، چنانچہ ارشاد ہے:
”ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر“۔ (القمر:۱۷)
ترجمہ:…”اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا ،پس ہے کوئی سوچنے والا؟“
سبحان اللہ! یہ رب العالمین ہی کے کلام کی خصوصیت ہوسکتی ہے کہ ایک طرف یہ اس قدر آسان! کہ ایک امی (ان پڑھ) بھی اسے سمجھ جائے اور دوسری طرف ایک بڑے سے بڑا فقیہ، فلسفی، متکلم اور عاقل بھی اس کے حقائق کی گہرائی سے حیران اور ششدررہ جائے ،کیونکہ وہ تو رب العالمین ہے ،اس کی ربوبیت عامہ کا ایک کرشمہ بھی ہے کہ ہرشخص کے دماغ کو اس کی استعداد کے مطابق غذا مہیا کرتا ہے۔ فلسفی کو اس کے خیال کے مطابق، فقیہ کو اس کی گہرائی کے مطابق ، عالم کو اس کی شان کے مطابق، عامی کو اس کے حال کے مناسب، قرآن کے اس خوانِ یغما اور مائدہ ٴ عام سے سب کو فیض ملتا ہے۔
بہرحال قرآن حکیم نے اپنی اعجازی شان سے ہماری دنیوی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے کہ یہ زندگی کل چار دائروں میں سمٹی ہوئی ہے: ۱…لعب ولہو،۲… زینت، ۳…تفاخر،۴… تکاثر۔
بچہ کی ابتدائی پرورش اور اس کا قدرتی نظام
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ نہ وہ بول سکتا ہے نہ کسی چیز کو سمجھ سکتا ہے، ہاتھ، پاؤں، ناک، کان، آنکھ سب کچھ موجود ہے ،مگر بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاسکتا، ہاں قدرت ِ فیاض نے اسے دودھ چوسنے کا ڈھنگ بتلارکھا ہے، اسی خدائی تعلیم سے وہ اپنی خوراک لیتا ہے (یہاں درمیان میں ایک اور بات عرض کرتا ہوں، بچہ کے مزاج کے مطابق حق تعالیٰ نے غذا تیار کی، وہی مادہ جو کبھی پیٹ کی نلکی کے ذریعہ شکم مادر میں اس کی غذا بنتا تھا، جب پیدا ہوا تو اس کو قدرت نے دودھ کی شکل میں تبدیل فرما دیا کہ منہ پاک ہے تو اس کے لئے غذا بھی پاک ہونی چاہیے، پھر یہ غذا بھی ایسی لطیف تجویز فرمائی کہ دنیا کی کوئی لیبارٹری (تجربہ گاہ) ایسی لطیف غذا تیار نہیں کرسکتی، اسی لئے محققین اطباء کا کہنا ہے کہ ماں کے دودھ کا بدل نہیں ہوسکتا، اس کے اس دودھ کے ذریعہ جو افعال، خواص، عادات، ملکات اور مزاجی خصوصیات بچے کی طرف منتقل ہوتی ہیں ،انہیں رہنے دیجیے ،صرف اتنی بات پر غور فرمالیجئے کہ یہ دودھ اگر زیادہ میٹھا ہوتا تو کیڑے پیدا کرتا ، پھیکاہوتا تو بدمزہ ہوتا، زیادہ گرم یا زیادہ سرد ہوتا تو ننھے بچے کے لئے ناقابل ِ برداشت ہوتا، زیادہ غلیظ ہوتا تو قراقر پیدا کرتا اور پتلا ہوتا تو غذائی ضرورت پوری نہ کرتا، اس لئے نہایت معتدل رکھا، پھر اس کے لئے نہایت باریک چھلنی لگادی، تاکہ ذرا ذرا نکلے، سوراخ بڑا ہوتا تو بچے کو گھبراہٹ ہوتی ۔ یہ ہے حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کہ گندے مادے کو صاف ستھرے دودھ کی شکل میں تبدیل کرکے غذا بنادیا کہ اسی سے فلسفی کی بھی پرورش ہوتی ہے اور عاقل کی بھی ، نبی کی بھی اور ولی کی بھی۔ اسی سے اندازہ ہوگا ان لوگوں کی حماقت کا جنہوں نے رزق کو اپنے قبضے میں سمجھ کر شور کردیا کہ بچے بند کرو، ورنہ بھوکوں مرجاؤگے، حالانکہ جو خالق ورازق بے دست وپابچے کے لئے انتظام کرتا ہے، وہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی رزق کے نئے نئے دروازے کھول سکتا ہے، دراصل عقیدہ اور یقین بگڑ گیا، خدا کی رزاقیت پر سے یقین اٹھ گیا۔
انسانی زندگی کے تدریجی مراحل
بہرحال عرض کررہا تھا کہ بچہ جب پیدا ہوا تو کچھ نہیں جانتا، نہ عقل، نہ شعور، نہ ادراک، اب غذا ملی، کچھ نرم نرم چیزیں کھانے لگا اور اعصاب میں ذرا قوت آگئی تو چلنے پھرنے لگا، تو اب صرف دوکام وہ جانتا ہے: اول یہ کہ دنیا کی ہرچیز کھانے کے لئے ہے، گندگی ہو ،اس میں ہاتھ ڈالے گا۔ آگ ہو ،اس کو منہ میں لے جائے گا، کھانے کو کوئی چیز ہو،ا سے کھالے گا۔ الغرض وہ پیٹ جانتا ہے اور کچھ نہیں جانتا۔ یہ چونکہ غیر شعوری دو رہے، اس لئے قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا اور جب چار پانچ سال کا ہوا تو کھیل کود کا دور شروع ہوگیا، اب نہ اسے فیشن کی فکر ہے، نہ جوتے کپڑے کی، نہ ٹوپی کی، نہ ٹائی کی، پہلے غیر شعوری دور میں ”فنا فی الاکل “ تھا تو اب ”فنا فی اللعب“ ہے، اس کے بعد جوانی آئی تو زینت وآرائش کا دور شروع ہوا، ڈاڑھی ایسی ہو، صابن ایسا ہو، بال ایسے ہوں، ٹوپی ایسی ہو، کپڑے ایسے ہوں، الغرض ہروقت آرائش وزیبائش کی فکر، اسے فکر نہیں کہ باپ کہاں سے لائے گا، روپیہ پیسہ کہاں سے آئے گا، ماں باپ کی گذر بسر کیسے ہوگی، یہ ”فنا فی الزینة“ ہے اور بناؤ سنگار میں مستغرق، اب ذرا عقل میں پختگی آئی، کچھ شدبد ہوئی، کوئی ڈگری ملی، کہیں ملازمت اور عہدہ ملا، چارپیسے جیب میں آنے لگے تو تفاخر شروع ہوا، ہم سادات ہیں، ہم قریشی ہیں، ہم پٹھان ہیں، ہم خٹک ہیں، ہم یہ ہیں، ہم وہ ہیں۔، کہیں قومیت، کہیں پارٹی۔ کہیں کچھ، کہیں کچھ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے: ”ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم“ …تم سب میں اللہ کے نزدیک مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو… اب ذرااور آگے بڑھے شادی ہوگئی، اولاد ہوئی، اب مال اور اولاد میں اضافہ کی فکر ستانے لگی، آج پانچ سو تنخواہ ہے، فلاں ڈگری کرلیں تو تنخواہ بڑھ جائے، وہ ڈگری کرلیں تو آٹھ سو ہوجائے، امریکہ جائیں تو اور زیادہ ہوجائے، لندن جائیں تو اتنی ہوجائے،یہ ہے تکاثر فی الاموال والاولاد، لاحول ولاقوة الا بالله، کوئی امریکہ جاتا ہے خواہ ایمان غارت ہوجائے، دین برباد ہوجائے، اخلاق تباہ ہوجائے مگر ڈگری کے لئے لندن ،پیرس اور امریکہ جانا ضروری ہے، خدا کے بندو! رزق محدود، زندگی محدود، ازل سے رزق ناپ تول کر مقرر کردیا گیا ، تعجب ہے کہ ڈگری کے لئے لندن اور امریکہ کی خاک چھانی جائے، دین وایمان کو خطرات میں ڈالا جائے۔
بھائی! ٹھیک ہے کچھ اسباب کرو ،لیکن اتنی حرص بھی کیا جس کے لئے اپنے ایمان کو اتنے شدائد اور اتنے سیلابوں میں ڈالا جائے ۔اگر تم خدا کے فضل سے بچ بھی نکلے لیکن کتنے ہیں جو بچ نکل آتے ہیں۔
مال واولاد پر تفاخر
بہرحال یہ ہیں انسانی زندگی کے چار دور، لہو ولعب سے ابتداء ہوئی، پھر زینت کا دور آیا، پھر تفاخر کا ، پھر تکاثر کا اور یہ مال واولاد پر تفاخر اور تکاثر کا مرض تو ایساہے کہ کم بخت مرتے دم تک چمٹا رہتا ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”الہٰکم التکاثر حتی زرتم المقابر“۔ (التکاثر:۱)
ترجمہ:۔”تمہیں بہتات کی حرص نے اتنا غافل کردیا کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“۔
اور حدیث پاک میں آتا ہے:
”منہومان لایشبعان: منہوم العلم ومنہوم المال“
ترجمہ:۔”دو حریص ایسے ہیں جن کا پیٹ نہیں بھرتا: علم کا حریص اور مال کا حریص“۔
دیکھئے! امریکہ کتنا امیر ترین ملک ہے، مگر اس کا پیٹ ابھی تک نہیں بھرا، وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ فلاں ملک ختم ہو تو میری منڈی چلے، بس وہی حالت ہے جسے حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے:
”لوکان لابن آدم وادیان من ذہب لابتغیٰ ثالثاً ولایملأ جوف ابن آدم الا التراب، ویتوب الله علی من تاب“۔
ترجمہ:۔”اگر انسان کو دووادیاں (یعنی ایک یہ دنیا اور ایک ایسی ہی دوسری دنیا) سونے سے بھری ہوئی مل جائیں تو تیسری کو تلاش کرے گا اور کوئی چیز سوائے قبر کی مٹی کے انسان کا پیٹ نہیں بھرتی اور جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے“۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو توفیق اور سمجھ عطا فرمائی اور وہ قانع ہوگیا، اس کا پیٹ البتہ بھر جاتا ہے، الحمد للہ! ایسے صالحین موجود ہیں۔
انسانی زندگی کی ایک مشاہد مثال
خیر اللہ پاک نے انسان کی زندگی کے یہ چار دور بیان فرمائے، لہو ولعب، زینت وتفاخر، تکاثر، ہم سمجھتے تھے کہ کھیل کود بچوں کا ہی کام ہے، اب معلوم ہوا کہ اس کھلنڈرے زمانے میں صدرِ مملکت اور بادشاہ بھی کھیلتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار دور اس لئے بیان فرمائے کہ بعض ادوار میں ان میں بعض چیزوں کا غلبہ ہوتا ہے، ورنہ کھیل، زینت اور تفاخر ہر دور میں کچھ نہ کچھ پایا جاتا ہے، بہرحال یہ ہے تمہاری دنیا کا خلاصہ، اس کے بعد مثال سے اس کا نقشہ بیان فرماتے ہیں:
”کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یہیج فتراہ مصفراً ثم یکون حطاماً“۔ (الحدید:۲۰)
ترجمہ:۔”جیسے بارش کہ کسانوں کو ان کی کھیتی پسند آتی ہے پھر وہ خشک ہوکر زرد نظر آتی ہے، بالآخر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے“۔
بالکل یہی حال انسانی زندگی کا ہے، آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ،اس سے پہلے کچھ نہیں تھا، پلا پڑھا، پھلا پھولا، جوان ہوا، یہ ہوا وہ ہوا پھر مرگیا، جنازہ پڑھاگیا، دفن کردیا گیا اور کچھ مدت بعد نام ونشان مٹ گیا، پھر انجام کیا ہوگا؟ فرماتے ہیں:
”وفی الآخرة عذاب شدید ومغفرة من الله ورضوان“۔ (الحدید:۲۰)
ترجمہ:۔”اور آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص بخشش اور رضامندی بھی“۔
یہ ہے تمہاری زندگی کا نقشہ! کتنی محدود؟ کتنی ناپائدار؟ اس پر فریفتہ ہونا، مغرور ہونا اسی کو مقصد بنالینا، یہ تمہاری بے وقوفی ہے، کج فہمی ہے، فرماتے ہیں:
”وما الحیاة الدنیا الا متا ع الغرور“ (الحدید:۲۰)
ترجمہ:۔”اور دنیاوی زندگی تو محض دھوکے کا سودا ہے“۔
اس کے بعد ارشاد ہے: یہ سب چھوڑو، اسے وسیلہ سمجھو، گذر گاہ اور راستہ سمجھو، اسے مقصد نہ بناؤ کہ مقصد آنے والی زندگی ہے پس: ”سابقوا الی مغفرة“ لپکو! دوڑو! بخشش ِ خداوندی کی طرف، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔
وجنةعرضہا کعرض السماء والارض اور دوڑو! جنت کی طرف کیسی جنت؟ جس کی صرف چوڑائی آسمان وزمین جتنی ہے، بھائی خدا ہی جانے خیر آج تو زمین کی محدودیت معلوم ہوگئی ہے، ورنہ اس زمانے میں تو معلوم نہ تھی اور آسمان کی وسعت کی تو آج تک بھی کسی ماہر فلکیات کو ہوا تک نہیں لگی، کسی کو کچھ خبر نہیں کہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ دنیا کتنی وسیع ہے؟ میں نے کسی کتاب میں ایک سائنسدان کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ: یہ کیڑے مکوڑے (حشرات الارض) جو دنیا کی رذیل، ذلیل، بیکار اور گندی مخلوق شمار کی جاتی ہے، انہی کی تحقیقات اتنی وسیع ہیں کہ انسان دولاکھ سال تک بھی ان کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا۔
نظامِ قدر کے سامنے انسانی عقل کی حیرانی
میں یہاں ایک لطیفہ آپ کو سناتا ہوں، بعض لوگ آج کل کہا کرتے ہیں کہ مکھی تو گندی چیز ہے، بھنبھناتی ہے، گندگی پر بیٹھتی ہے، خدانے اس کو کیوں پیدا کردیا، میں کہا کرتا ہوں کہ حدیث میں آتا ہے کہ: مکھی اگر کھانے کے برتن میں گرجائے تو اسے غوطہ دے کر نکال دو، کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں اس کی دوا ہے۔
بعض نادانوں نے اس حدیث کا خوب مضحکہ اڑایاہے کہ یہ حدیث تو بالکل خلافِ عقل ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے مکھی پر اپنی تحقیقات اتنی قطعیت کے ساتھ مکمل کرلی ہوتیں کہ ان پر نہ تو اضافہ ممکن ہوتا، نہ کسی تحقیق میں رد وبدل کی گنجائش رہتی، پھر تو آپ کو حق تھا کہ اس حدیث پر اعتراض کرتے، لیکن جب آپ کو اپنے جہل کا خود اقرار ہے، جیساکہ سائنسدان کا مقولہ میں نے ابھی نقل کیا، تو یہ حدیث خلافِ جہل ہوئی، خلافِ عقل تو نہ ہوئی، یہ دوسری بات ہے کہ آپ نے جہالت کا نام عقل رکھ لیا ہے یعنی جس چیز کی حقیقت تک آپ کی رسائی نہیں ہوسکی، آپ نے کم نظری کی بنا پر اسی کو خلافِ عقل کہنا شروع کردیا۔
آخر یہ بات آپ کی عقل میں کیوں نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قدرتی نظام کے تحت ایک حشرہ ایسا پیدا کیا ہے جس کا کام جاروب کشی ہے، اسے اتنی تیز نظر بخشی ہے کہ تمہاری دوربینیں اس کے سامنے ہیچ ہیں اور اس کے معدے میں ایسی حرارت پیدا کی ہے جو اس کی کھائی ہوئی تمام گندگی کو جلا کر تریاق بنادیتی ہے، دیکھئے شہد کی مکھی کس قدر زہریلی ہے، لیکن وہ پھلوں کا رس چوس کر بجائے زہر کے شہد اگلتی ہے تو اس حدیث میں یہ بتلایاگیا ہے کہ مکھی کے ایک بازو میں اس کی غیر منہضم غذا کا خزانہ ہے یہ تو بیماری ہے اور دوسرے بازو میں ہضم شدہ تریاق ہے اور وہ برتن میں گرتے وقت اسی بازو کو آگے رکھتی ہے، جس میں غیرمنہضم غذا جمع کرتی ہے، تم اسے غوطہ دے کر اس کا وہ بازو بھی ڈال دو جس میں دوا ہے تاکہ توازن قائم ہوجائے۔ اب بتلایئے اس میں کون سی بات خلافِ عقل ہے؟ وہاں ہم ان حقائق سے جاہل تھے، وحی نے ہم کو آگاہ کردیا۔
اس کم بینی کی بنا پر چین والوں نے تو یہاں تک مکھی مارمہم چلائی کہ چین سے مکھی کا وجود ہی یکسر ختم کردیا، مگر سنا ہے کہ اب وہ امراض کی رفتار کو بڑھتا ہوا دیکھ کر پھر مکھی کو چین میں لارہے ہیں تو کہاں قدرت کا نظام اور کہاں ہماری عقل؟ واقعی نظام قدرت کے سامنے انسانی عقل حیران اور ششدر ہے۔
دنیا پیدا کرنے کا مقصد اور آخرت کی لامحدود زندگی اور بے شمار نعمتیں
بہرحال میں عرض کررہا تھا کہ دنیاکی بے ثباتی بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے دنیا کو پیدا کرنے کا مقصد ذکر فرمایا اور وہ ہے ”سابقوا الی مغفرة من ربکم وجنة“ آپ ہی بتلایئے کہ اگر کوئی ایسا جہاں ہو جہاں کی زندگی ہو! تو ایسی زندگی کے لئے تیاری کرنا بہترہے؟ یا اس محدود زندگی کے لئے سر کھپانا؟ ظاہر ہے کہ انسان کی حرص غیر محدود ہے تو اس کے لئے زندگی بھی محدود چاہیے، یہ غیر محدود زندگی مرنے کے بعد والی و ہی زندگی ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام نے بتلائی ہے۔ اگر اس محدود زندگی کے لئے رات دن کھپے رہتے ہو، وقت لگاتے ہو، محنتیں کرتے ہو، ڈگریاں حاصل کرتے ہو، تحقیقات کرتے ہو، تجربے کرتے ہو تو اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین ہے تو اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لئے بھی تو وقت دو، محنت کرو، جان کھپاؤ! جب ہم مسلمان ہیں، ہمارا اس پر ایمان ہے کہ مرنے کی بعد کی زندگی کامل، لامحدود اور نہ ختم ہونے والی زندگی ہے تو کتنی عجیب بات ہے کہ اس کے لئے کوئی محنت نہ کی جائے، کوئی فکر نہ کی جائے؟ پھر وہاں کی نعمتیں بھی ایسی جن کے بارے میں ارشاد ہے:
”ولکم فیہا ما تشتہی انفسکم ولکم فیہا ما تدعون“ ۔ (السجدہ:۳۱)
ترجمہ:۔”تم اس (جنت) میں جو چاہوگے وہ ملے گا جو مانگو گے وہ فوراً مہیا کردیا جائے گا“۔
نیز ارشاد ہے:
”فلاتعلم نفس ما اخفی لہم من قرة اعین“۔ (السجدہ:۱۷)
ترجمہ:۔”ان جنتیوں کے لئے جو آنکھوں کی ٹھنڈک راحت وآسائش چھپاکر رکھی گئی ہے اسے تو کوئی جانتا ہی نہیں (تصور سے بالاترہے)
اور ایک حدیث قدسی میں یوں آتا ہے:
”قال اللّٰہ تعالیٰ : ”اعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت، ولااذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر“۔
ترجمہ:۔”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گذرا“۔
ہاں ہاں ان کو کسی بھی آنکھ نے نہیں دیکھا، خواہ وہ کینیڈی کی آنکھ ہو یا چرچل کی، فرعون کی ہو یا شداد کی، اولین کی ہو یا آخرین کی، کسی بڑے بڑے ملک وسلطنت کے بادشاہ کی آنکھوں کو بھی ان کا دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ہم بعض چیزوں کو دیکھتے تو نہیں مگر کانوں سے نعمتیں سنی بھی نہ ہوں گی، پھر احتمال تھا کہ دنیا میں کسی نے دیکھا اور سنا تو نہ ہو لیکن شاید کسی نے اس کا تصور ہی کرلیا ہو، تصور تو ایسی چیز ہے کہ یہاں بیٹھے بیٹھے ہی دور دراز ملکوں اور وہاں کی چیزوں کا تصور کرسکتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی تصور کر سکتے ہیں کہ ہم بادشاد ہوگئے یا آسمان پر چڑھ گئے، اس لئے فرماتے ہیں: کہ نہیں ان نعمتوں کا تو خیال بھی کسی دل میں نہ گذرا ہوگا۔
جنت اور اخروی نعمتوں کا مستحق کون ہے؟
بہرحال یہ جنت اور بخشش کی دولت کس کو ملے گی؟ فرماتے ہیں:
”اعدت للذین آمنوا بالله ورسلہ“۔
ترجمہ:۔”تیار کی گئی ہے ان کے لئے جو یقین لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر“
دنیا کی زندگی میں تو مؤمن وکافر، نیک وبد، دوست اور دشمن سب ہی کو حسبِ ضرورت ومصلحت دیا جاتا ہے، یہ خوانِ یغما ہے، یہاں ایمان وکفر کا سوال نہیں بلکہ کافر اور فاسق کو زیادہ دیا جاتا ہے، اس کی مصلحت ہمیں معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اس زندگی کے بعد جو امتحان ہوگا اس کے نتیجہ میں آخرت کی نعمتیں اپنی محنت میں کامیاب ہونے والوں کو ملیں گی، ہاں تو ادنیٰ جنتی کو تمہاری زمین سے دس گناہ زیادہ جنت کی زمین ملے گی۔
جنت کی وسعت وبلندی
لوگ کہتے ہیں: صاحب اتنی بڑی جنت کہاں سے آگئی؟ میں پوچھتا ہوں یہ جو سیارے فضا میں معلق ہیں، کیا ان کی تعداد اور ان کی وسعت تمہیں معلوم ہے؟ صرف کہکشاں کے بارے میں تمہارے فلکیات کے ماہر کہتے ہیں کہ اس میں تین ارب ستارے ہیں تو گویا اسی فضا کو جس میں سیارے گردش کررہے ہیں، اگر انسانوں پر تقسیم کردیا جائے اور جتنے انسان موجود ہیں ان سے کروڑوں بلکہ اربوں گنا زائد انسان ہوں تب بھی تمہاری زمین سے دس گنا کیا، ہزاروں گنا زیادہ رقبہ ایک آدمی کے حصے میں آسکتا ہے اور پھر جنت تو اس فضائے بسیط سے بھی کہیں بلند وبالا اور وسیع تر ہے، بہرحال اگر آپ کو یقین ہے اس ابدی زندگی پر تو دیکھنایہ ہے کہ آپ اس کے لئے تیاری کیا کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے مناصب حاصل نہ کرو، یہاں کی ترقی سے کنارہ کش ہوجاؤ، اس کے لئے محنتیں نہ کرو، نہیں جو جائز ہے سب کچھ کرو، خوب کرو، محنت سے کرو، لیکن اسے وسیلہ سمجھو، مقصد نہ بناؤ، کیونکہ زندگی میں کھانا بھی ہوگا، پہننا بھی ہوگا، رہنا بھی ہوگا اور جو بھی اس زندگی بسر کرنے کے لوازمات ہیں سب درکار ہوں گے مگر سب بقدر ضرورت اور وقتی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی پشاور سے کراچی کا سفر کرے تو دو تین دن کا سفر ہے، اس کے لئے کھانے، ناشتے کا انتظام، اوڑھنے پہننے کے کپڑے، سونے کے لئے بستر، جگہ (سیٹ) وغیرہ کا انتظام اور خرچ کے لئے جیب میں کچھ پیسے سب ہی ضروری ہیں ،لیکن نہ یہ سفر بذات خود مقصد ہے نہ اس کے لوازمات، نہ کوئی درمیانی ویٹنگ روم (انتظام گاہ) آخری منزل ہے، اب اگر وہ مسافر کسی ویٹنگ روم کی سج دھج کو دیکھ کر وہیں بیٹھا مزے لیتا رہا اور گاڑی نکل جائے تو اس کو آپ احمق اور بے وقوف کہیں گے یا نہیں؟ پس اس سے بھی بڑھ کر بے وقوف وہ شخص ہوگا جو دنیا کے ویٹنگ روم کے تماشا میں کھو کر اسی کو مقصد بنالے اور اس کی لطف اندوزیوں میں منزل مقصود کو بھول جائے۔
حق تعالیٰ نے آپ کو دنیاوی وسائل بھی دیئے اور عقل وشعور بھی دیا ہے، اب اگر آپ آخرت کو مقصد بنالیں تو یہ دنیا اور اس کی تمام نعمتیں بھی آخرت بن جائیں گی، مثلاً جہاد کے لئے تلوار بنائی جائے تو یہ ساری محنت باعثِ اجر ہوگی اور اگر اسی تلوار کو ظلم وتعدی کے لئے بنایا جائے تو موجبِ جرم وعذاب ہوگی ، تو مقصد آخرت کو بناکر اس کی خاطر دنیا میں جو بھی صحیح اور جائز محنت کروگے وہ سب آخرت میں شمارہوگی اور اگر دنیاہی کو مقصد بنالیا تو آخرت کے کام بھی دنیا بن جائیں گے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ذوالقعدہ:۱۴۳۱ھ -نومبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: علامہ سید محمدانورشاہ کشمیریؒاکابرکی نظرمیں !
Flag Counter