Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 11
حضرت مولانا سرفرازخان صفدر بحیثیت مفسر قرآن کریم !
حضرت مولانا سرفرازخان صفدر
بحیثیت مفسر قرآن کریم

اس وقت بندہ کے سامنے تاج کمپنی کا مطبوعہ اٹھارہ سطری قرآن کریم کھلا ہوا ہے، جس پر اٹھارہ سال قبل حضرت اقدس کے ہاں ”دورہٴ تفسیر،، پڑھنے کی سعادت ملی تھی۔ مدرسہ نصرة العلوم کی مسجد نور کا وہ ”قرآنی منظر،، اب بھی آنکھوں کے سامنے جگمگارہا ہے اور حضرت اقدس کے روح پرور ارشادات کانوں میں رس گھول رہے ہیں:
”یاد رکھنا! سلف صالحین کا دامن نہ چھوڑنا،،۔
عمل میں تین چیزیں وزن پیدا کرتی ہیں: ۱…ایمان، ۲…اخلاص، ۳…اتباع سنت۔ یہ اور اس قسم کے بیسیوں قیمتی جملے تھے، جنہیں احقر نے دوران درس مصحف مبارک کے حاشیہ پر لکھ لیا تھا، آج جبکہ حضرت دار الفناء سے دار البقاء کا سفر اختیار فرماگئے ہیں تو مناسب معلوم ہوا کہ یہ علمی نوادرات اہل علم حضرات تک پہنچا کر ذکر حبیب سے وصل حبیب کا تصور پیدا کرلوں:
جوڑتا رہتا ہوں، ٹوٹے ہوئے رابطوں کا سلسلہ
وقت کے سرابوں نے مجھے اکیلا کردیا
حضرت اقدس بحیثیت مفسر قرآن کریم انتہائی جامع اور مسحور کن انداز تفسیر کے مخترع تھے،
بحیثیت مترجم
آپ ایک سادہ اور جامع ترجمہ کے عادی تھے، مثلاً سورہٴ کہف کی آیت :۱۹ میں ”ولیتلطف،، کا ترجمہ آپ نے یہ فرمایا تھا ”اور چاہیئے کہ باریک بینی سے کام لیں،،۔
یہی روش آپ کو تفسیر وتشریح میں بھی پسند تھی، چنانچہ ایک روز آپ نے سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۷ میں لفظ ”طاغوت،، کی تفسیری وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”طاغوت کے معنی کسی نے شیطان سے کئے ہیں اور کسی نے اصنام سے کئے ہیں، ہمارے نزدیک سب سے بہتر تعریف وہ ہے جو حضرت امام جعفر صادقنے کی، وہ فرماتے ہیں: ”کل ما یشغلک عن الحق فہو طاغوتک،،۔
سورہٴ دخان کی آیت مبارکہ ”ذق انک انت العزیز الکریم،، کا یہ ترجمہ تو دنیائے تفسیر میں شاہکار رہے گا:” چکھئے صاحب ! آپ تو عزیز وکریم ہیں،،۔
سورہٴ یوسف کی آیت شریفہ: ۲۴ ”لو لا ان راٰ ی برہان ربہ،، میں لفظ ”برہان،، معرکة الآراء اور اہم مباحث علمیہ کے مقام پر واقع ہے اور اہل علم حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں، ہمارے حضرت نے اس سلسلہ میں یہ وضاحتی جملہ ارشاد فرمایا تھا: ”رب سے جو عصمت انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے وہ نہ ہوتی تو…،،
اسی طرح کلام پاک کی سورتوں اور آیات کے مابین ربط بتلاتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے جملہ کتب تفسیر آ پ کے آگے کھلی ہوئی ہیں، وہ ربط انتہائی خصوصیت کے حامل ہوتے جن میں آپ کے وہبی علم یا وجدان کی آمیزش ہوتی، سورہٴ بقرہ کے آغاز میں آپ نے یہ ربط لکھوایا تھا ”پہلی سورة میں طلب ہدایت ہے ( اہدنا الصراط المستقیم) اور اس سورة میں اجابت ہے ( ہدی للمتقین) ،،۔
سورہ مؤمنون کی آیات مبارکہ ”وعلیہا وعلی الفلک تحملون، ولقد ارسلنا نوحاً الی قومہ…الخ،، پر فرمایا ”اوپر گذرا ہے وعلی الفلک تحملون آگے کشتی والے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے،،۔
سورہ مائدہ کی آیت کریمہ واتل علیہم نبأ ابنی اٰدم بالحق کے سلسلہ میں فرمایا:
”یہود کہتے تھے کہ نحن ابناء الله واحبائہ جیسے کہ ابھی گذرا ہے ۔رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ولیوں کے بیٹے ہوگے نا، دور سے ، آؤ! اب ذرا تمہیں حضرت آدم علیہ السلام کے حقیقی بیٹوں کے متعلق بتائیں کہ فرمانبردار اور نافرمانبردار میں کیا فرق ہے،، آپ کتب تفسیر کے حوالہ جات میں نہایت احتیاط سے کام لیتے اور بعض اوقات اپنی آراء بھی پیش کرتے، سورہٴ قیامہ کی آیت مبارکہ یقول الانسان یومئذ این المفر کے تحت ارشاد فرمایا:
” بعض نے مفر کو ظرف قرار دیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں اس لئے کہ ظرف تو مفرد ہونا چاہیئے بلکہ یہ مصدر میمی ہے،،۔
ایک مقام پر یہ قیمتی علمی جملہ ارشاد فرمایا:
” نحاة کوفیین کے نزدیک مطلقاً حروف جارہ ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اہم تاریخی یادداشتوں کو ذکر فرمادیتے، سورہٴ ذاریات کی آیت مبارکہ فما وجدنا فیہا غیر بیت من المسلمین پر فرمایا ،،یہ حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا ،جس کے مختلف کمرے تھے۔
سورہ کہف میں آیت مبارکہ ویسئلونک عن ذی القرنین کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ”پوری دنیا پر چار بادشاہوں نے حکومت کی، دومسلمان اوردو کافر تھے۔ مسلمان حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین ،کافر: نمرود اور بخت نصر،،۔
کبھی کبھی ایک لفظ پر وضاحت کے لئے چند ایسے کلمات ادا فرماتے کہ پوری محفل جھوم جاتی، سورہٴ یونس کی آیت شریفہ: وبشر الذین اٰمنوا ان لہم قدم صدق عند ربہم کے تحت لفظ قدم پر فرمایا: بشر ہیں، انسان ہیں، ہاشمی ہیں، سید ہیں، آدمی ہیں ا۔ ارباب علم پر مخفی نہیں کہ بعض مفسرین نے یہ تفسیر بھی فرمائی ہے، جیساکہ امام جلیل ابومحمد حسین بغوی نے لکھا ہے
” وقال زید بن اسلم ہو شفاعة الرسول ا ،،(تفسیر بغوی ج:۳،ص:۳۴۳)
فرق باطلہ کی تردید
موقع کی مناسبت سے لیکن بہت مختصر فرماتے اور اپنے موضوع کی اہمیت جاننے والا دوسری طرف جا بھی کب سکتا ہے، ایک دفعہ سورہ حجر کی آیت شریفہ” قال یا ابلیس مالک الا تکون مع الساجدین،،۔پر فرمایا:
”یہ پہلی شخصیت ملعونہ ہے جس نے سب سے پہلے ”بشر،، کو حقیر سمجھا۔ اور جس نے سب سے پہلے ”بشر،، کی توقیر کی وہ ملائکہ ہیں، گویا بشر کو حقیر سمجھنے والا ابلیس صفت ہے اور بشر کو معزز سمجھنے والا فرشتہ صفت ہے،،۔
اسی طرح ایک مقام پر آپ ایک گمراہ فرقہ کی مختصر مگر جامع انداز میں تردید فرما کر آگے چلے تو بعض طلبہ کو تعجب ساہوا ،کیونکہ ان دنوں وہ مسئلہ چھڑا ہوا تھا، حضرت معاملہ کو بھانپ گئے، چنانچہ فرمانے لگے :
”ہم تفسیر کے مقام میں دوسرے مسائل پر آستینیں نہیں چڑھاتے، اس کے لئے دوسرے مواقع موجود ہیں،،۔
حضرت اقدس کے اس ارشاد کا تجزیہ آپ کے ہزارہا شاگردوں، سینکڑوں علمی حلقوں، اور ہزارہا صفحات پر مبنی کتب سے کیا جاسکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ آپ نے ہر محاذ پر شاگرد: اور کتاب چھوڑی ہے جو انشاء اللہ العزیز قیامت تک آپ کا بہترین صدقہٴ جاریہ ہے۔ یوں تو آپ کا سارا ورثہ قابل دید وداد ہے لیکن بحیثیت مفسر قرآن مجید آپ کی میراث لائق صد دید وداد اور سزاوار حفظ وعمل بھی ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: قرآن کا مدار عام عربی گفتگو ہے !
Flag Counter