Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 11
شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم !
شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم!


کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس بارے میں کہ:
بی بلاک شاہ رکن عالم کالونی ملتان میں عرصہ بارہ‘ تیرہ سال سے ایک شخص آیا ہے جس کا نام شیخ امین عبد الرحمن ہے‘ پیری‘ مریدی کا سلسلہ جاری کئے ہوئے ہے۔ احباب کا ایک حلقہ رکھتا ہے‘ عقائد اور نظریات کے حوالے سے مبہم ہے‘ آج تک موثق اور بااعتماد ذرائع کے ساتھ جو باتیں سامنے آئی ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں:
۱:۔ اس کے بال خلاف سنت پیٹ تک ہیں۔
۲:۔کہتا ہے کہ میں براہ راست رسول پاک علیہ السلام سے فیض حاصل کرتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ سرکار علیہ السلام کو دے رکھا ہے، میں ان سے لے کر مخلوق کو دیتا ہوں‘ اس لئے مجھے صحابیت کا شرف حاصل ہے۔
۳:۔ کبھی یہ بھی کہتا ہے بعض صحابہ کامل ہیں اور بعض صحابہ ناقص ہیں…(نعوذ باللہ من ذالک)
۴:۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ ساتویں صدی میں ادریس نامی بزرگ گزرے ہیں، میں اس سے فیض لے کر مخلوق کو پہنچاتاہوں‘ اس لئے اپنے آپ کو ادریسیہ سلسلہ کی طرف منسوب کرتا ہے۔
۵:۔رمضان شریف میں دس رکعت تراویح پڑھتا ہے‘ یہ دس رکعت بھی صرف سورہٴ طارق اور سورہٴ اعلیٰ میں دو‘ دو‘ تین تین آیات کرکے پوری کرتا ہے۔
۶:۔ رمضان میں وتر جماعت سے نہیں پڑھتا۔
۷:۔ سنن اور نوافل کے شیخ اور اس کے مریدین تارک ہیں (نیا آنے والا کوئی پڑھ لیتا ہے) بعض احباب (مثلاً مولانا عبد الماجد صاحب جو شاہ رکن عالم کالونی کے رہائشی ہیں، ایک سال تک شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے ہیں ) نے جب یہ سوال کیا کہ شیخ امین اور اس کے مریدین سنن اور نوافل کیوں نہیں پڑھتے‘ تو اس کے مرید خاص احتشام صاحب نے جواب دیا کہ اللہ جل شانہ نے ان کو معاف کردیں ہیں‘ مولانا نے کہا: کہ شریعت نے یہ چیز تو کسی کو معاف نہیں کی‘ حتی کہ صحابہ کرام  تک کو یہ چیز معاف نہ ہوئی، آپ کو کیسے معاف ہوگئی‘ تو احتشام صاحب نے کہا: کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ہے‘ اللہ جل شانہ نے شیخ کو الہام کیا ہے اور ان کو یہ سب چیزیں معاف کردیں ہیں۔
۸:۔ اس کے اخص الخواص مریدین رمضان میں فجر کی اذان کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں۔
۹:۔ اپنی تقاریر میں علماء سے متنفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دین علماء اور کتابوں سے نہیں آئے گا‘ بلکہ میری صحبت میں بیٹھنے سے آئے گا۔
۱۰:۔کبھی کہتا ہے کہ سارے فرقے حق ہیں‘ شیعہ‘ سنی ،بھائی بھائی ہیں‘ اور کبھی سب کو گالیاں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث یہ بڑے خبیث ہیں‘ ان سے بچ کر رہنا‘ کبھی کہتا ہے کہ فلمیں دیکھو‘ گانے سنو‘ جو کچھ بھی کرتے ہو‘ کرتے رہو‘ سب جنتی ہیں‘ کسی کو کچھ نہ کہا کرو۔
۱۱:۔ نعت خوانی کے دوران کبھی کھڑے ہوکر جھومتا ہے اور تالیاں بجاتا ہے‘ اور نعت خوانی کے دوران نعت خواں ”صلی اللّٰہ علیکم یا رسول اللّٰہ‘ وسلم علیکم یا حبیب اللّٰہ“ پڑھتے ہیں۔
۱۲:۔ لوگوں کی کوشش کے باوجود عقائد اور سلسلہ تصوف کے بارے میں وضاحت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ کس کا مرید ہے۔
۱۳:۔ سب سے بڑی کرامت یہ بتلاتا ہے کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا اس کا کاروبار چمکے گا۔
۱۴:۔ کبھی مغرب کی نماز اتنی لیٹ کردیتا ہے کہ عشاء کے وقت میں پڑھتا ہے اور کبھی عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ہی پڑھ لیتا ہے‘ ایک مرتبہ عشاء کی نماز مغرب کے وقت میں ادا کی اور تین رکعت ادا کی‘جب بعض احباب نے ایک مرید سے سوال کیا کہ یہ تو عشاء کی نماز تھی‘ تین رکعت کیوں ادا کی؟ تو مرید صاحب کہنے لگے کہ ہم سب سے تو غلطی ہوسکتی ہے‘ لیکن شیخ صاحب سے غلطی نہیں ہوسکتی‘ اس لئے انہوں نے چار ہی پڑھائیں ہیں اگر چہ ہمیں تین کا پتہ چلا۔
۱۵:۔ نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام نہیں کرتا‘ ایک مرتبہ ایک صاحب ان کے مرید کے ساتھ شیخ امین کی مجلس میں گئے‘ عصر کا وقت تھا، سب مریدین شیخ کے آنے کا انتظار کرتے رہے‘ جب آخر وقت تک نہ آئے تو مریدین نے اپنی اپنی نماز پڑھ لی‘ مغرب کے وقت میں اعلان ہوا کہ عصر کی نماز شیخ مدینہ منورہ میں پڑھانے گئے تھے‘ اب واپس تشریف لے آئے ہیں۔ لہذا مغرب کی نماز خود پڑھائیں گے۔
۱۶:۔گذشتہ دنوں کچھ عرصہ پہلے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے یہودی کے جل کر مرجانے کی خوشی میں شیخ نے تین دن کے جشن کا اعلان کیا‘ اور مریدین کو شرکت کی دعوت دی‘ یہ جشن محلے کے پلاٹ میں منعقد ہوا۔ جس میں ڈھول ڈھمکا‘ جھانجر‘ آتش بازی‘ نمائش کے لئے پنجرے میں شیر‘ ناچنے کے لئے گھوڑے منگوائے گئے۔ مریدین نے اس جشن میں تین دن ڈانس کرکے (حتی کہ بعض مریدین نے تو گھونگر و بھی پہن رکھے تھے) خوب خوشی کا اظہار کیا۔
۱۷:۔چوتھے دن شیخ نے ایک دن کی مزید اجازت دی‘ جس میں مریدین کو شیخ امین صاحب کے کتے بنکربھونکنے کے لئے کہا گیا‘ چنانچہ چوتھے دن شیخ امین کے مریدین نے مائیک ہاتھ میں لے کر صرف یہی کہتے رہے‘ شیخ امین کے کتے بھاؤں‘ بھاؤں ‘ (یعنی کتے کی آواز)۔
۱۸:۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیخ امین ایک عرصہ مدینہ منورہ میں رہے ہیں، بعض بدعات کی بناء پر حکومت نے ان کا خروج کردیا۔
یہ وہ معلومات ہیں جو ان علماء سے لی گئی ہیں‘ جو معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخ امین کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے ‘ عوامی باتوں پر اعتماد نہیں کیا گیا‘ یہ سب احوال گذارش کرنے کے بعد حضرات علماء سے دریافت یہ کرنا ہے کہ:
۱:۔ شیخ کی صفات کیا ہیں کہ شیخ کیسا ہونا چاہئے؟
۲:۔کیا مذکورہ احوال کی روشنی میں امین عبد الرحمن میں شیخ بننے کی اہلیت ہے؟
۳:۔ اور شیخ امین عبد الرحمن کی بیعت کرنے کا کیا حکم ہے؟
از روئے شرع وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔السائل: خرم سعید‘سمیجہ آباد‘ ملتان
الجواب حامداً ومصلیاً
واضح رہے کہ انسان کو عقائدِ حقہ‘ اخلاقِ فاضلہ‘ اعمالِ صالحہ کا اختیار کرنا ضروری ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ عقائدِ باطلہ‘ اخلاقِ رذیلہ‘ اعمالِ سیئہ سے پرہیز کرے۔ تجربہ ومشاہدہ یہ ہے کہ یہ چیزیں بغیر مربی کے حاصل نہیں ہوتیں، جس مربی کی تربیت سے یہ چیزیں حاصل ہو سکیں وہ پیر بنانے کے قابل ہے۔ استعدادیں ناقص ہونے کی وجہ سے عموماً خود کتابیں دیکھ کر ان کی تکمیل نہیں ہوتی ‘اسی تربیت کے لئے تعلق وارادت قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے امراضِ بدنیہ کے علاج کے لئے حکیم یا ڈاکٹرکی ضرورت پیش آتی ہے‘ اس طریق کو اختیار کرکے بے شمار مخلوق نے حسبِ استعداد کمالات حاصل کئے اور اپنی زندگیوں کو سنت کے مطابق بناتے ہوئے ولی وعارف ہوکر خلق کی خدمت انجام دی‘ کھرے کھوٹے کی تمیز ہرلائن میں ضروری ہے۔جیساکہ ”اعلاء السنن“ میں ہے:
”قال العبد الضعیف: تزکیة الاخلاق من اہم الامور عند القوم … ولایتیسر ذلک الا بالمجاہدة علی ید شیخ اکمل قد جاہد نفسہ: وخالف ہواہ‘ وتحلی عن الاخلاق الذمیمة‘ وتحلی بالاخلاق الحمیدة‘ ومن ظن من نفسہ انہ یظفر بذلک بمجرد العلم درس الکتب فقد ضل ضلالاً بعیداً‘ فکما ان العلم بالتعلم من العلماء کذلک الخلق بالتخلق علی ید العرفاء فالخلق الحسن صفة سید المرسلین الخ“ (کتاب الادب‘ ج:۱۸ ص:۴۳۔۴۴۲‘ط ادارة القرآن کراچی)
کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے اعمالِ صالحہ کرنے کا زیادہ شوق وجذبہ پیدا ہوجاتا ہے‘ صحابہ کرام  بھی آپ ا کے ہاتھ پر مختلف اعمالِ صالحہ پر عمل پیراہونے کے عزم کے لئے بیعت کیا کرتے تھے‘ چنانچہ حضرت جریر  ارشاد فرماتے ہیں :
”بایعت رسول الله ا علی اقام الصلوٰة وایتاء الزکوة والنصح لکل مسلم“
(صحیح مسلم‘ باب بیان الدین النصیحة‘ ج:۱‘ص:۵۵ ط‘قدیمی)
ترجمہ:…”میں نے آپ ا کے ہاتھ پر نماز قائم کرنے‘ زکوٰة ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر بیعت کی“۔
حضرت جریر  کی زندگی میں اس بیعت نے اتنا اثر دکھایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خریدنے کے لئے بازار بھیجا تو غلام بازار سے ایک گھوڑا تین سو درہم کا خریدکر لائے اور صاحب فرس کو اس گھوڑے کی رقم دلوانے کے لئے حضرت جریر  کے پاس لائے۔ حضرت جریر نے مالک سے فرمایا کہ آپ کا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے اچھا ہے‘ اگر آپ چاہو تو چار سو درہم کا مجھے بیچ دو‘ مالک نے کہا ٹھیک ہے پھر حضرت جریر نے مالک سے فرمایا آپ کا گھوڑا تو اس سے بھی زیادہ قیمتی ہے ،آپ چاہو تو پانچ سو درہم کا مجھے بیچ دو‘ مالک راضی ہوگیا پھر یکے بعد دیگرے سو‘ سو درہم کا اضافہ فرماتے رہے یہاں تک کہ مالک سے آٹھ سو درہم کے عوض خرید لیا۔ جب حضرت جریر سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ  نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ا کے ہاتھ اس بات پر بیعت کی ہے کہ ہرمسلم کے ساتھ بھلائی اور اچھا برتاؤ کروں گا مذکورہ واقعہ عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت اہم ہے۔
شیخ ِ کامل کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ‘ صالح الاعمال‘ صادق الاقوال ہو‘ بقدر ضرورت علم دین سے واقف‘ متبع شریعت‘ پابند سنت ہو‘ عقائد ِ حقہ‘ اخلاقِ فاضلہ‘ اعمالِ صالحہ کے ساتھ متصف ہو‘ عدالت وتقویٰ میں پختہ ہو‘ طاعاتِ مؤکدہ واذکار منقولہ ومرویہ کا پابند ہو‘ دنیا کی چکا چوند‘ چمک دھمک‘ جاہ وحشمت سے بیزار ‘ آخرت کی طرف مائل ہو‘ الغرض تمام صفاتِ حسنہ اس میں پائی جائیں اور اخلاقِ رذیلہ‘ جھوٹ‘ غیبت‘ حسد ‘ کینہ‘ تکبر وغیرہ تمام صغیرہ وکبیرہ سے اجتناب کرنے والا ہو‘ اور کسی کامل شیخ متبع شریعت کی صحبت سے فیض یافتہ ہو اور اس شیخ کی طرف سے خلافت مل چکی ہو‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کاربند ہو یعنی خود بھی نیک کام کرتے ہوئے دوسروں (مریدین) کو نیکی کا حکم کرتا ہو‘ ایسا شخص شیخ بننے کے لائق ہے۔ جس میں مذکورہ صفات وشرائط نہ پائی جائیں ،اس سے بیعت کرنا جائز نہیں۔
سائل نے جو تفصیل مسمی شیخ امین عبد الرحمن سے متعلق واضح کی ہے، اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ اس تفصیل کے مطابق شیخ امین غیر شرعی افعال واقوال وعقائد کا حامل ہے‘ شیخ امین عبد الرحمن کی بیعت کرنا درست نہیں ہے‘ جیساکہ ”القول الجمیل“ میں ہے:
”فشرط من یأخذ البیعة امور: احدہا:علم الکتاب والسنة‘ والشرط الثانی: العدالة والتقوی‘ والشرط الثالث: ان یکون زاہداً فی الدنیا راغباً فی الآخرة‘ والشرط الرابع: ان یکون آمراً بالمعروف ناہیاً عن المنکر‘ والشرط الخامس: ان یکون صحب المشایخ وتأدب بہم دہراًطویلاً واخذ منہم النور الباطن والسکینة“۔ (القول الجمیل للشاہ ولی اللہ ص:۲۶‘مکتبہ تھانوی)
نیز ”فتاویٰ عزیزیہ“ میں ہے:
”مرید شدن از آں کس درست است کہ درآں پنج شرط متحقق باشد‘ شرط اول: علم کتاب وسنت رسول داشتہ باشد‘ خواہ خواندہ باشد‘ خواہ از عالم یاد داشتہ باشد‘ شرط دوم: آنکہ موصوف بعد الت وتقویٰ باشد‘ واجتناب از کبائر وعدمِ اصرار صغائر نماید‘ شرط سوم :آنکہ بے رغبت از دنیا وراغب در آخرت باشد‘ وبر طاعتِ مؤکدہ واذکار منقولہ کہ دراحادیث صحیحہ آمدہ اند مداومت نماید‘ شرط چہارم: امر معروف ونہی از منکر کردہ باشد‘ شرط پنجم: آنکہ از مشایخ ایں امر گرفتہ باشد وصحبت معتد بہا ایشان نمودہ باشد‘ پس ہرگاہ این شروط در شخصے متحقق شوند‘ مرید شدن از آں درست است اھ“۔ (فتاویٰ عزیزیہ ج:۱‘ ص:۱۰۲ ‘ط رحیمیہ دیوبند)
اب ہرہر شق کا جواب نمبر وار دیا جاتا ہے۔
۱:۔ بال رکھنے کے مسنون تین طریقے ہیں:۱۔ کانوں کی لو تک‘ ۲۔ کانوں کی لو اور کندھوں کے درمیان تک‘ ۳۔ کندھوں تک۔ ان کو عربی میں وفرہ‘ لمہ اور جمہ کہتے ہیں اور پھر آپ ا سے حج وعمرہ کے موقع پرسر کے بال مبارک منڈوانا بھی ثابت ہے‘ بال رکھنے کے یہی تین طریقے آپ ا سے ثابت ہیں۔ پیٹ تک بال رکھنے کا کہیں ثبوت نہیں ہے‘ جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”عن انس بن مالک  قال: کان شعر رسول الله ا ای واصلا او منتہیا الی نصف اذنیہ… وکان لہ ای لرأسہ الشریف شعر: ای نازل فوق الجمة‘ بضم الجیم وتشدید المیم ما سقط علی المنکبین ودون الوفرة“۔
(جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘ باب شعر رسول علیہ السلام‘ ص:۹۰۔۹۲ ادارہٴ تالیفات)
اور پیٹ تک سر کے بال رکھنا (مرد کے لئے) خلافِ سنت ہے۔ نیز پیٹ تک بال رکھنے سے عورتوں کی مشابہت لازم آتی ہے اور ایسی مشابہت اختیار کرنے پر احادیث ِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: قانونِ توہین رسالت کی منسوخی کی سازش !
Flag Counter