Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 11
حرمین شریفین کی پکار !
حرمین شریفین کی پکار!!


کسی نے اللہ والے سے پوچھا کہ حضرت میں اتنا اتنا ذکر الٰہی کرتا ہوں مگر معلوم نہیں کہ عند اللہ مقبول بھی ہے یا نہیں ۔اللہ والے نے فرمایا :اگر تمہارا ایک بار کا سبحان اللہ کہنا کسی بھی درجہ میں قبول نہ ہو تو تم دوسری دفعہ اسے ادا ہی نہیں کرسکتے اور اگر ایک دفعہ سبحان اللہ کہنے کے بعد تم نے سبحان اللہ ،الحمد للہ کہہ دیاتو سمجھ لو کہ کریم آقا کی طرف سے اجر کے ساتھ ساتھ تمہیں انعام سے بھی نواز دیا گیا ہے۔ اسی طرح جتنی عبادات اور نیکیوں کی توفیق بڑھتی جائے، سمجھ لو کہ رحیم وکریم آقا کی طرف سے انعام واکرام کی بارش برس رہی ہے، اس وقت سراپا شکر بن جاؤ اور اگر کمی محسوس کرو تو فوراً توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور شیطان اور اپنے نفس سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ کاش ہمیں اس کا ادراک ہو جائے اور ساتھ ہی اپنی اصلاح کی فکر بھی دامن گیر ہوجائے ‘ آمین۔
الحمد للہ! کچھ ایسا ہی فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سیاہ کار کو بھی عطا ہوا۔مخصوص حالات کے زیر اثر دل میں عمرہ اور زیارت رسول اللہ ا کا شدت سے داعیہ پیدا ہوا، ۲/اپریل ۲۰۰۹ء کو سفر شروع ہوا، کئی سال بعد بیت اللہ کی حاضری نصیب ہوئی،اس وقت مطاف اتنا وسیع نہیں تھا بعد میں ضرورت کے مطابق اس میں توسیع ہوتی رہی اور اب اس کی حد آخر تک یعنی مسحد حرام تک بڑھائی جاچکی ہے۔ پہلے مطاف کی جگہ کم تھی مگر طواف کرنے والوں کی اکثریت اس حقیقت سے آگاہ ہوتی تھی کہ اصل کعبہ زمین کعبہ ہے اور عمارت کعبہ شکل کعبہ ہے جو کعبہ کا ظاہر ہے، اس کا باطن حقیقت کعبہ ہے یعنی یہ تجلی گاہ ربانی ہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے ”بیتی“ یعنی میرا گھر قراردیا، اس لئے طواف کا مقصود خانہ کعبہ نہیں، بلکہ صاحب خانہ ہے۔ خانہ تو محض درمیان میں ایک بہانہ ہے ،اسی لئے بحالت طواف اگرچہ گھومتے کعبہ کے گرد ہیں مگر کعبہ کی طرف رخ کرنا منع ہے ۔اس وقت طواف کا لطف ہی کچھ اور تھا پھر وقت کے ساتھ طواف کرنے والوں کا ہجوم تو بڑھتا گیا مگر ہمارے شعور میں کمی آتی گئی، چنانچہ اب موبائل فون پر باتیں بھی ہورہی ہیں اور طواف بھی جاری ہے، اپنے جاننے والوں کو اطلاع دی جارہی ہے کہ میں اس وقت طواف کررہا ہوں اور تمہارے لئے دعا بھی کررہا ہوں۔ یادو چارآدمی مل کر دنیوی باتیں بھی کرتے جارہے ہیں اور موبائل فون سے طواف کے دوران فلم بھی بن رہی ہے، بڑے بڑے گروپ جن میں جوان عورتیں بھی شامل ہیں ریوڑ کی شکل میں مردوں کو چیرتی ہوئی حجر اسود کو بوسہ دینے یا حطیم میں نوافل ادا کرنے ایک قطار کی شکل میں اس طرح گذرتے ہیں کہ طواف میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے، بے پردہ بلکہ نامناسب لباس میں ملبوس صرف ہمارے ہی ملک کے ایک خطہ کی عورتیں زیادہ نظر آتی ہیں، بعض کے آگے تو ہاتھ جوڑ کر کہنا پڑا کہ ہزاروں روپے خرچ کرکے یہاں پہنچی ہو تو کچھ پیسے خرچ کرکے برقع بھی خرید لو ۔ غرض یہ بے حسی اور بدنظمی جو ہماری زندگیوں میں رچ بس چکی ہے ‘ بیت اللہ کے سامنے بھی بکثرت نظر آنے لگی ہے، حجر اسود بزبان حال ہمیں تنبیہ کر رہا ہوتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا کمپیوٹر سمجھو روز محشر جب مجھے لایا جائے گا تو میرے دو ہونٹ اور ایک زبان ہوگی اور میں اپنا استلام کرنے والوں کی صحیح صحیح گواہی دوں گا، جبل ابی قبیس خطہ ارضی پر نمودار ہونے والا سب سے پہلا پہاڑ ہے، ایک قول کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام وحضرت حوا علیہا السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کی قبریں اسی پر ہیں،یہی وہ پہاڑ ہے جس نے طوفانِ نوح علیہ السلام سے لے کر دور ابراہیمی تک حجر اسود کی امانت کو سینے سے لگا ئے رکھا تھا جس کی وجہ سے اسے جبل امین بھی کہا گیا، اس کے بارے میں آپ اکا ارشاد ہے کہ اس پر جو دعا مانگی جاتی ہے قبول ہوتی ہے، چند برس قبل تک صدیوں سے قائم اس پر ایک مسجد ہوا کرتی تھی جسے مسجد ابراہیم ‘ مسجد بلال‘ یا مسجد ہلال کہا جاتا تھا، یوں سمجھئے کہ صفا سے مروہ جاتے ہوئے مروہ سے پہلے داہنے ہاتھ پر بلند وبالا عمارتوں کا سلسلہ نظر آئے گا اور ان کے نیچے بلند وبالا فصیل ہے… جبل ابی قبیس اسی میں محبوس ہے۔
رکن یمانی سے رکن حجر اسود کے درمیان ہزاروں ملائکہ جو صرف اس لئے مقرر ہیں کہ ہر دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہیں وہ ہمیں خبردار کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہاں رب کعبہ سے تعلق جوڑ رکھا ہے اپنے مقام پر بھی اس تعلق کو قائم رکھنا۔ مخلوق سے پھر ایسا تعلق قائم نہ کرلینا، مال ودولت کو اپنا رب نہ بنا لینا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے یوں محسوس جیسے مقام ابراہیم ہم سے کہہ رہا ہے کہ تمہارے دادا حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی یہیں قبول ہوئی تھی اور جبل رحمت پر انہیں حضرت حوا علیہ السلام سے ملوا دیا گیا تھا، تمہاری توبہ بھی انشاء اللہ رد نہ کی جائے گی، مگر یہ عہد کرکے جانا کہ توبہ قبول کرنے والے کی نافرمانی پھر کبھی نہ کروگے اور اس عہد کی پاسداری کرنے سے تم انشاء اللہ فلاح پاجاؤ گے۔
پھر ملتزم پر دعا مانگتے ہوئے گویا وہ ہمیں شرمندہ کرتا نظر آتا ہے کہ اللہ کے بعد کائنات کی سب سے برگزیدہ ہستی جس کے امتی ہونے کے تم دعوے دار ہو وہ اپنا سینہ اور رخسار مجھ سے چمٹائے اور رو رو کر دعائیں مانگتے مگر اپنے لئے نہیں ‘ بلکہ تمہارے لئے، اپنی امت کے لئے۔
پھر زم زم پیتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ فخریہ کہہ رہا ہو کہ میں صرف وہ پانی نہیں ہوں جسے رب کائنات نے اپنے خاص مہمانوں یعنی حضرت ہاجرہ  اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے جاری فرمایا تھا بلکہ مجھ سے شق صدر کے موقع پر حضور سرور کائنات ا کے قلب اطہر کو دھویا گیا تھا پھر مجھ میں آپ ا کا لعاب ِ دہن بھی شامل ہے، اس لئے مجھے محبت اور عقیدت سے پیو اور خوب پیو پھر میں ہر اس مقصد کے لئے ہوں جس کے لئے مجھے پیا جائے۔ پہلے سیڑھیوں سے نیچے اتر کے کنویں کو شیشے کی دیوار کے پیچھے سے دیکھا جاسکتا تھا جسے اب بند کردیا گیا ہے اور زم زم پینے کے لئے باب کعبہ کے سامنے مسجد حرام کے قریب ٹھنڈے زم زم کی متعدد ٹوٹیاں لگا دی گئی ہیں جس سے طواف میں آسانی ہوگئی ہے۔ مگر یہاں بھی جذباتی لوگ خود کو نہانے کے انداز میں خوب بھگوتے ہیں۔
پھر صفا پہاڑ جس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ پہلے جبل ابی قبیس کا ہی نچلا حصہ تھا اور اب تو اس کا نشان بھی باقی نہ رہا، ہمیں شرم دلاتا محسوس ہوتا ہے کہ رسول اللہ ا نے جہالت میں ڈوبے انسان نما درندوں کو اسلام کی دعوت مجھ پر ہی کھڑے ہوکر دی تھی جس پر ان کی قوم اور رشتہ داروں نے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے تھے مگر آپ ا کے عزم واستقلال میں ذرہ برابر کمی نہ آئی تھی آپ ا اور صحابہ کرام نے اشاعت دین کا کام انتہائی نامساعد حالات میں ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جاری رکھا جس کے نتیجہ میں آج تم یہاں کھڑے ہو ، جبکہ آج دنیا سے دین مٹ رہا ہے تمہیں اس کی بھی کوئی فکرہے؟ اگر کل محشر کے روز آپ ا نے تم سے سوال کرلیا کہ جس درخت کی آبیاری میں نے اور میرے صحابہ کرام نے اپنے خون سے کی تھی اور تم اس کے امین تھے تو تم نے اسے اتنی لاپرواہی سے کیوں مرجھانے دیا تو بتاؤ تم کیا جواب دوگے؟ تمہاری نجات صرف اسی وقت ممکن ہے کہ تم اپنے پیٹ اور جیب کی بجائے اس مرجھاتے درخت کی طرف توجہ دو، چاہے اس کے لئے تمہیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ صفا مروہ کے درمیان سعی کے راستے کو بہت چوڑا کردیا گیا ہے جس سے سعی میں بہت آسانی ہوگئی ہے۔
اسی طرح بیت اللہ کے اطراف اٹکھیلیاں کرتی ابابیلیں گویا ہمیں غیرت دلاتی محسوس ہوتی ہیں کہ ہمارے جثہ کو دیکھو اور ہماری ہمت کو دیکھو ہم ہی تھے جو اللہ کی فوج بن کر ہاتھیوں کی فوج سے جا ٹکرائے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان ہاتھیوں کو بمع ان کے سواروں کے بھس بناکر رکھ دیا تھا، تم اللہ کے حبیب ا کے امتی ہوکر یہود ونصاریٰ سے اتنے خوفزدہ کیوں ہو؟کیا تمہارا یقین رب کعبہ سے اٹھ چکا ہے؟ پھر یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ کیا تم یہود ونصاریٰ کے مقابلے میں اس سے زیادہ کمزور ہو جتنے ہم ہاتھیوں کی فوج کے مقابلہ میں تھے؟ دل اگر بالکل مردہ نہ ہوچکا ہو تو انسان شرم سے پانی ہوجائے…
ادھرگردن اکڑا اکڑاکردانہ چگتے کبوتر گویا ہمارے اوپر بھپتیاں کستے نظر آتے ہیں کہ اے عشق رسول ا کے جھوٹے دعویٰ دارو ہم ہیں سچے عاشق رسول اور ان کے ناموس کی حفاظت کرنے والے۔ ہم سے سبق سیکھو۔ ہجرت کے موقع پر ہم نے بھی ناموس رسالت کی حفاظت کی تھی، ورنہ اتنے بلند پہاڑ کی چوٹی پر گھونسلہ بنانے اور انڈے دینے کا اور کیا مقصد تھا اور ایک تم ہو‘ آج دنیا بھر کی کفریہ طاقتیں ناموسِ رسالت ا پر مسلسل وار کررہی ہیں۔ذرا اس پر اپنا رد عمل تو بتلاؤ، اگر اتنے ہی بزدل ہوچکے ہو کہ ہاتھ سے انہیں نہیں روک سکتے یا روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تو ان کی مصنوعات استعمال کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا کیا مطلب لیا جائے؟ یعنی تم دل میں بھی ان کے فعل سے نفرت نہیں کرتے، ورنہ یہ تو تمہارے اختیار میں تھا کہ ان کی مصنوعات استعمال نہ کرتے پھر بھی تم رسول اللہ ا کی شفاعت کے طلب گار ہو، اب کس منہ سے روضہ ٴ رسول ا پر حاضری دوگے؟ اگر آپ ا نے سوال کرلیا کہ جب میرے دشمن مجھ پر رقیق حملے کررہے تھے تو تمہارا رد عمل کیا تھا تو تم کیا جواب دوگے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے، ویسے تو یہاں کا ہر مقام اور ہرچیز گویا ہمیں جگانے کی بھر پور کوششیں کرتی محسوس ہوتی ہے، مگر طوالت کے ڈر سے اسے یہیں ختم کرکے مدینہ منورہ کی جانب ورانہ ہوتے ہیں۔
لے سانس بھی آہستہ ! یہ دربار نبی  ہے
خطرہ ہے بہت سخت! یہاں بے ادبی کا
اور اس بدو کا واقعہ ذہن میں آتا ہے جو حضور ا کی تدفین کے تین دن کے بعد قبر شریف کے پاس آکر گر گیا اور زار وقطار روتے ہوئے قرآن شریف کی آیت تلاوت کی جس کا مفہوم ہے:
”ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاء ؤک فاستغفروا اللّٰہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیماً،،۔ (النساء:۶۴)
ترجمہ:…”اور اگر گناہ گار لوگ (اے نبی) آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں سے مغفرت چاہتے اور آپ ا بھی ان کے لئے مغفرت چاہتے تو وہ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرلینے والا مہربان پاتے،،۔
اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گناہ گار رسول ا کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول ا اس کے لئے دعائے مغفرت کر دیں تو اس کی مغفرت ہوجائے گی، اس لئے میں آپ ا کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ ا میرے لئے مغفرت کی دعا کریں، اس کے جواب میں روضہٴ اقدس کے اندر سے آواز آئی۔ ”تیری مغفرت کردی گئی،،۔ اس بدو کی صحیح ترجمانی اس کے دل اور آنکھوں نے کی جس سے وہ کامیاب ہوگیا، زبان نے تو انتہائی مختصر الفاظ ادا کئے تھے۔ ذہن میں بس یہی بات رہتی ہے کہ کہیں کوئی ایسی حرکت نہ ہوجائے جو حضورا پر گراں گزر جائے، اگر ایسا کوئی فعل نادانستگی میں بھی سرزد ہوگیا تو پوری زندگی کے نیک اعمال پر پانی پھر جائے گا، بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام آپ ا کی مجالس میں یوں ہی تھوڑی بیٹھے نظر آتے تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو اور چڑیاں ان پر آکر بیٹھ جاتی ہوں، اب ایسی ہی مجلس میں ہماری بھی حاضری ہے، آپ ا کو ہماری آمد کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے، آپ ا ہمارے صلوٰة وسلام کو سنیں گے بھی ہمیں دیکھیں گے بھی اور جواب بھی مرحمت فرمائیں گے آپ کسی بھی زبان اور سرگوشی کے انداز میں پیش کئے جانے والے سلام کو بھی بہ کمال سماعت فرمالیتے ہیں، اس لئے ادب کا تقاضہ یہی ہے کہ آواز بلند نہ ہونے پائے ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیدھے سادے طریقہ سے سلام عرض کردیا جائے۔
روضہٴ اقدس ا کے سامنے بہت سے لوگ موبائل فون سے فلم بناتے نظر آئے، معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ سلام عرض کرنے آئے ہیں یا فلم بنانے۔ مسجد میں تو بہت بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا نظر آئی۔دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھائے تصویریں بنواتے تو اکثر نظر آئے، یہاں تک کے مسجد نبوی ا کے باہر صحن میں ان گناہ گار آنکھوں نے بے پردہ جوان عورت اور مرد کو جو میرے گمان کے مطابق میاں بیوی تھے، اس حال میں فوٹو بنواتے دیکھا کہ مرد نے عورت کی کمر میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے جیسے کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی ہو، مجھے فوراً خیال آیا کہ اس وقت رسول اللہ ا کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی، مسجد کے اندر جابجا چند لوگوں کے گروپ خوش گپیاں کرتے ایسے لگے جیسے پارک میں بیٹھے ہوں، نوعمر لڑکے اپنے باپ کی موجودگی میں یا علیحدہ خوب شور شرابہ مچاتے دکھائی دئے جیسے پکنک منانے آئے ہوں، یہ مناظر دیکھ کر احساس ہوا کہ یہاں آنے والوں کو کم از کم مسجد کے تقدس کے بارے میں تو معلوم کرکے آنا ہی چاہئے تھا۔ پھر یہ تو وہ مسجد ہے جہاں صحابہ کرام تک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لئے کنکریوں سے کام لیتے تھے، اب انہیں کون سمجھائے کہ یہ سب کرکے تم رسول اللہ ا کو جو اذیت پہنچارہے ہو یہ تمہارے حق میں ناقابل معافی جرم بن جائے گا، تمہاری ساری نیکیاں برباد ہوجائیں گی۔
حرم نبوی ا کی ایک ایک چیز گویا ہمیں نصیحت اور تنبیہ کرتی محسوس ہوتی ہے، مسجد نبوی ا میں داخل ہونے سے پہلے اس کے بلند وبالا مینار ہم سے سوال کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ یہاں پہنچنے تک تونے کتنی دفعہ درود شریف پڑھا، اگر ہرنماز کے لئے آتے جاتے ہوئے ہی مستقل درود شریف پڑھا کرو تو دن بھر میں کتنی تعداد ہوجائے اور ہر درود پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں تم پر نازل فرمائے تو کتنی رحمتیں ہوئیں پھر مدینہ منورہ میں یہ کتنی بڑھا دی جاتی ہیں، کوئی حساب بھی ہے مگر افسوس کہ اپنے مقام کی طرح یہاں بھی تو غافل ہے۔
دروازے سے داخل ہوتے ہوئے وہ دروازہ گویا ہمیں کہہ رہا ہے کہ کیا منہ لے کر رسول اللہ ا کے سامنے حاضر ہوگے۔ انہیں تمہاری غفلتوں کا سب علم ہے کہ قادیانی فتنے کی سرکوبی میں تمہارا کیا حصہ ہے، دنیا بھر کے کفار ومشرکین آج جو ان کی ناموس پر مسلسل حملے کررہے ہیں، تمہارا رد عمل بھی انہیں سب معلوم ہے۔ مسجد کے صحن میں جھانکتا گنبد خضراء گویا ہمیں سرگوشیوں میں سمجھاتا محسوس ہوتا ہے کہ منالو… اپنے روٹھے نبی کو منالو۔ وہ تم سے ناراض ہیں اور جب تک انہیں منانہیں لیتے تمہاری کوئی دعا رب کائنات کے بارگاہ میں قبول نہ ہوگی اور تم دنیا میں اسی طرح ذلیل وخوار ہوتے رہوگے جیسے اب ہو رہے ہو، تصور میں پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لو اور انہیں یقین دلادو کہ آپ ہمیں ہمارے ماں باپ، بیوی بچے، مال ومتاع بلکہ ہماری جانوں سے بھی زیادہ ہمیں محبوب ہیں اور واپس جاکر ہم اس کا ثبوت بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے، سنتوں پر عمل کرکے۔
یہاں کا ہر اسطوانہ ہمیں خبردار کرتا لگتا ہے کہ دیکھو تم اللہ کے حبیب کے سامنے پیش ہونے جارہے ہو، یہ وہ عظیم ہستی ہیں کہ حشر کے ہولناک دن سارے نبی نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اس دن یہی لولاک دستار اٹھے گا اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرے گا اور جن کی شفاعت قبول کی جائے گی بلکہ درحقیقت:
فقط اتنا سبب ہے انعقاد روز محشر کا
تمہاری شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے
وہ اللہ تعالیٰ کو اتنے محبوب ہیں کہ ذرا سی بھی افسردگی کی حالت میں رب کائنات جبرئیل امین کو ان کی دلجوئی کے لئے بھیجتا تھا اس لئے حد ادب ملحوظ رکھنا اگر تمہاری کوئی بات انہیں ناگوار گزرگئی تو پھر اللہ کی پکڑ سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔دنیا کی زندگی میں جن کے چہرہ انور پر بڑے بڑوں کی نظر نہ ٹھہرتی ہو نہ معلوم ہم مواجہ شریف کے بڑے سوراخ سے جھانک جھانک کر کیا دیکھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
ریاض الجنة بھی جیسے فخر سے ہمیں یاد دلاتا محسوس ہوتا ہے کہ اے بے خبر! میں جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوں، اب جبکہ تو اس میں داخل کردیا گیا ہے تو پھر رب ذو الجلال والاکرام کا وعدہ بھی یاد کرلے کہ وہ جس کو ایک بار جنت میں داخل فرمائے گا پھر اس کو دوبارہ نکال کر جہنم میں داخل نہیں فرمائے گا، اس حوالے کے ساتھ تو بھی دعا مانگ لے۔یہاں اگر تو جنتیوں والے اعمال سے بے خبر ہے تو چپ چاپ درود شریف پڑھنے اور ذکر اذکار اور نوافل میں مشغول رہ ، فضول خیالات یا اعمال کو نزدیک مت آنے دے واقعات تو ویسے بہت ہیں مگر یہاں ایک واقع یاد آگیا جو چونکہ دلچسپ بھی ہے اس لئے نقل کردیتا ہوں عصر کی نماز کے بعد عموماً ریاض الجنة کے پیچھے جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا اور جب بھی اگلی صف میں کوئی جگہ خالی ہوتی آگے بڑھ جاتا، اس طرح مغرب سے پہلے اللہ تعالیٰ ریاض الجنة پہنچا دیتے پھر مغرب کے بعد نوافل ادا کرکے فوراً نکل جاتا مغرب سے تھوڑی دیر پہلے وہاں کافی رش ہوجاتا اور بہت سے لوگ جگہ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ایک دفعہ ایک پاکستانی جوان بھی جگہ کی تلاش میں بے قرار نظر آیا تو اللہ تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی اور ذراسی جگہ میں کھسک کر اسے بٹھا لیا اس نے بیٹھتے ہی فون نکالا اور غالباً اپنے کسی گھروالے کو مطلع کرنے لگا کہ میں اس وقت ریاض الجنة میں جالیوں کے نزدیک بیٹھا ہوں۔اس وقت تو مجھے اس شخص پر بہت غصہ آیا مگر اب اس کی اس حرکت پر سورة یٰسین میں اس گاؤں والے کا واقعہ یاد آگیا جو خود بھی پیغمبروں کے کہنے پر چلا اور اپنی قوم کو بھی ایسا کرنے کی دعوت دی۔ اسے جنت میں داخل کردیا گیا، وہ چلا اپنی قوم کو خوشخبری سنانے، اس سادہ لوح انسان نے بھی بے انتہاء خوشی میں اپنے لوگوں کو اطلاع دے ہی ڈالی کہ میں اس وقت جنت میں بیٹھا ہوں ۔ اس جگہ بھی کافی لوگ نظم وضبط سے عاری نظر آتے ہیں مگر ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا ہے کہ عین نماز کے وقت لوگ آکر دورکعت نماز پڑھنے کو جگہ مانگتے ہیں اور اگر کوئی آگے پیچھے کھسک کر اسے دورکعت پڑھنے کا موقع دے دیتا ہے تو وہ نماز پڑھ کر وہیں براجمان ہوجاتے ہیں اور پھر جماعت کے وقت دائیں بائیں پانچ چھ آدمی بڑی مشکل سے نماز پڑھ پاتے ہیں۔عبادات تو پوری مسجد میں ادا کئے جاسکتے ہیں مگر مدینہ منورہ کی مٹی یہاں کی مٹی تو اب بھی وہی ہے اور جب ہوا اپنی گود میں اس مٹی کو لئے ٹہلنے نکلتی ہے تو ہمیں کہتی محسوس ہوتی ہے کہ خبردار! ناک منہ بند مت کرنا، اس پاکیزہ مٹی میں شفاء ہی شفاء ہے، اس وقت اور گہری سانس لو اور تو اور یہاں آسمان بھی ہمیں سمجھاتا دکھائی دیتا ہے کہ نادان آخرت میں سب حجرو شجر ، پہاڑ وپتھر، زمین کا ہر ٹکڑا غرض سب بے زبانوں کو زبان عطا کی جائے گی اور وہ اپنے پاس سے ہر گزرنے والے آدمی کے اچھے برے اقوال واعمال کی گواہی بارگاہ الٰہی میں پیش کریں گے، اس موقع کو غنیمت جان اور اس مقدس سرزمین پر زیادہ سے زیادہ کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ گواہ بنالے۔ روز محشر جب یہ سب تیرے حق میں گواہی دیں گے تو شاید تیرے رب کو تجھ پر رحم آجائے اور یہ ہی تیری نجات کا سبب بن جائے۔ نصیحتیں توہمیں حرمین شریفین کا چپہ چپہ کرتا محسوس ہوتا ہے مگر اعمال کے معاملہ میں شیطان اور ہمارا نفس ہمارے آڑے آتے رہتے ہیں اور اصل مجاہدہ ان ہی سے نمٹنے کا ہے، فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ کون کس کو پچھاڑتا ہے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: شیخ امین عبد الرحمن کے عقائداوران کاحکم !
Flag Counter