Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

4 - 11
یہ ملک ہے یا تماشاگاہ ؟
یہ ملک ہے یا تماشاگاہ ؟


یوں لگتا ہے جیسے یہ ملک ایک تماشاگاہ ہے ،جہاں بندروں کے کرتب، گھوڑوں کی نمائش، لوٹوں کی تجارت، اصولوں کی خرید وفروخت، وفاداریوں کی منڈی، ہوس واقتدار کی رسا کشی کا کھیل، عہدو پیمان توڑنے کے سنہری طریقوں کے سٹال، غلام رہنے کے فوائد پر مبنی لٹریچر، اپنی قربانیوں کے ثمرات ضائع کرنے کے مذبح خانے،ہرچیز وافرمقدار میں موجود ہے، گویا یہ ملک نہیں تماشا گاہ ہے، جہاں پر ہرایک اپنی کمر پر انصاف کی چھری چلارہا ہے۔ ,br> جو ملک بے پناہ قربانیاں دے کر لا الہ الا اللہ کے نام پر بنا تھا، آج وہ دوسروں کے لئے تمسخر کی آماجگاہ بن گیا ، جنہوں نے دوسری اقوام کوبھی تحفظ دیناتھا،آج وہ اپنی ہی قوم کے لٹیرے بن گئے،جنہوں نے تعلیمات نبوی کو فروغ دینا تھا وہ مغربی ثقافت کے خریدار بن گئے ، جنہوں نے دنیا کو باور کرانا تھا کہ مسلمان آزاد ہیں وہ یہودیوں کے غلام بن گئے، جنہوں نے بے حیائی کے اڈے ، نسواں کی تذلیل کے کلب بند کرانے تھے آج وہ پاپ کی دنیا کے علمبردار بن گئے، جو خلافت راشدہ کے اصول وضوابط پر عمل پیرا ہونے والے تھے وہ اقوام متحدہ (یہودیوں) کے اصولوں کو رائج کرنے والے بن گئے، جو ایک مسلم بہن کی (زندانوں میں) پکار پر لبیک کہنے والے تھے، وہ آج خود یہودیوں کے چنگل میں پھنسانے والے بن گئے، جو فاتحین تھے وہ شکست خوردہ بن گئے ، جنہوں نے کتاب اللہ، احادیث نبوی ا پڑھنے پڑھانے کے مدارس قائم کرنے تھے وہ مدارس بند کرنے والے اور یہودیوں کی آکسفورڈ کی طرز پر یونیورسٹیاں بنانے والے بن گئے۔ جو اسلام، مسلم قوم اور پاکستان کے مفاد کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والے تھے، ان کو گھروں میں محصور کرنے والے بن گئے۔ جنہوں نے پردہ کے احکامات پر سب کو پابند کرنا تھا وہ خود ہوٹلوں ، کلبوں میں جسم کی نمائش کے پروگرام دیکھنے والے بن گئے۔ جو موسیقی کے آلات کو ختم کرنے والے تھے، انہوں نے گھر گھر میں موسیقی کی لعنت اور اسلامی فوجی پر یڈ میں یہودیوں کے طرز پر موسیقی کلچر اپنانے والے بن گئے ۔
میں پوچھتاہوں کیا یہ وہی قانون اور اصول ہیں؟ جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی گردنیں کٹوائیں ، اپنے بچے یتیم کرائے ،جن کی عزتیں ہندو بنیا لوٹتے رہے، جنہوں نے اپنا گھر بار لٹاکر اسلامی ملک کی تقسیم میں حصہ لیا ،اس اسلامی مملکت میں شریعت کے قانون کو حقیر سمجھ کر اس کی دھجیاں اڑائیں گئیں، یہیں تک بس نہ کی، بلکہ غیروں کے اشارے پر شریعت کے قانون کو رائج کرنے والوں کے خلاف جنگ کا طبل بجایا، ہنستے بستے گھر اجاڑ دئے، چاروں طرف دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک نہیں، بلکہ ایک تماشاگاہ ہے۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
ہمت فتح کا پہلا دروازہ ہے، جس کے بغیر زندگی بے کار ہے۔عرصہ پہلے ایک جلوس دیکھا کہ اس میں ہزاروں افراد کی شرکت اور مختلف شہروں میں جلوس نکلے ، بی بی سی، وائس آف امریکہ، غرض اکثر چینل، تذکروں کا محور بنے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ حضور ا کے خاکے شائع ہوئے، کہیں پر قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی، یہ سب کرنے والے کون تھے ؟یہودی تھے اور اس سے مسلمانوں کی بہت دل آزاری ہوئی، ہر طبقہ ، ہر مکتب فکر کے لوگ ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے نظر آئے ،یہ یہودیوں کا ایک پیمانہ تھا حضور علیہ السلام سے عشق اور کتاب اللہ سے محبت رکھنے والوں کو جانچنے، پرکھنے کا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن لاریب میں فرمادیا :یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ، لیکن جب اس آیت پرمسلم حکمرانوں نے عمل نہیں کیاتو یہودیوں نے کہا ہم تمہارے دوست ہیں، مسلم حکمرانوں نے ہاتھ آگے بڑھادیا، پھر کیا ہوا دوستی کی آڑ میں شرپسندی کا لیبل لگایا اور پھر وہی ہوا جو ہندوستان میں علمائے حقہ نے تعلیمات نبوی کا درس دیا اور عملاً کرکے دکھلایا تو ہزاروں علماء کی درختوں کے ساتھ لاشیں لٹکتی ہوئی نظر آئیں، اسی طرح یہودیوں کے اشارے پر اسلام آباد کی لال مسجد میں علماء ، طلباء اور بچیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
ہمارے حکمرانوں نے کیوں چھوڑدیا لاریب کتاب کو اور کیوں بن گئے مشرکین اور یہودیوں کے آلہٴ کار؟ کیسا اندھیرا چھا گیا آنکھوں پر ،جو اپنے تھے ،وفادار تھے، وہ غیر نظر آنے لگے، آج وہ دہشت گرد ، انتہاء پسند نظر آنے لگے ،ان کی عزتوں کو پامال کیا ، سوات میں، بونیر میں ،کیوں اپنے ہی لوگوں کو بے گھر کیا جارہا ہے ، زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے یہودیوں نے امدادی سامان میں لیپ ٹاپ ، کمپیوٹر بھیجے، کیا یہ وقت ان چیزوں کا تقاضا کرتا ہے؟ مسلم حکمران ہوش کے ناخن لیں اور یہودیوں کی سازش کو سمجھ پائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: حرمین شریفین کی پکار !
Flag Counter