Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

11 - 11
علامہ علی شیر حیدری شہید !
علامہ علی شیر حیدری شہید


۱۷/اگست ۲۰۰۹ء مطابق ۲۵/شعبان ۱۴۳۰ھ اتوار اور پیر کی درمیانی شب تقریباً رات تین بجے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور موجودہ ملت ِ اسلامیہ پاکستان کے قائد اور سرپرست اعلیٰ، جامعہ حیدریہ اعظم کالونی لقمان، خیر پور سندھ کے بانی، مہتمم اور شیخ الحدیث، اہل سنت کے عظیم راہنما، جید عالم دین، شعلہ بار خطیب و مقرر، ماہر علوم دینیہ،فاضل استاذ و مدرس، کامیاب مناظر، بے مثال مصنف، مایہ ناز محقق، نہایت متین و سنجیدہ شخصیت کے حامل اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن حضرت مولانا علی شیر حیدری قدس سرہ کو ایک جلسے سے واپسی پر پیر جو گوٹھ کے قریب دوست محمد ابڑو گاؤں کے پاس گھات لگائے قاتلوں نے پے درپے فائرنگ کے وار کرکے شہید کردیا ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ مااعطی وکل عندہ باجل مسمّٰی۔ مولانا علی شیر حیدری کے ساتھ ان کے ساتھی سندھ کے مشہور نعت خواں ممتاز احمد پھلپھوٹو بھی شہید ہوگئے اور آپ کے محافظوں میں سے فرید عباسی زخمی ہوگئے، اس سلسلہ کی تفصیلات کے لئے روزنامہ اسلام کی خبر ملاحظہ ہو:
”خیر پور (رپورٹ: حاکم علی شیخ، رضوان صدیقی) اہل سنت والجماعت کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری کو لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں گزشتہ روز خیر پور میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ مولانا محمداحمد لدھیانوی نے پڑھائی۔ علامہ علی شیر حیدری اور نعت خوان ممتاز احمد پھلپھوٹو کو اتوار اور پیر کی درمیانی رات پیر جو گوٹھ کے قریب گھات لگائے دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ علامہ حیدری کے محافظوں کی جو ابی فائرنگ سے ایک حملہ آور ہلاک ہوگیا، جسے بعد ازاں اوشاق علی جاگیرانی کے نام سے شناخت کرلیا، ہلاک ہونے والے کا تعلق مخالف فرقے سے ہے۔ مولانا حیدری کے محافظ فرید عباسی اس واقعے میں زخمی ہوئے۔ خیر پور پولیس کے مطابق اوشاق جاگیرانی کے بڑے بھائی قلندر جاگیرانی نے اپریل ۲۰۰۴ء میں علامہ حیدری کے والد حاجی محمد وارث کو جامعہ حیدریہ سے ملے ہوئے پلاٹ کے تنازع پر قتل کردیا تھا، یہ واقعہ بھی اسی کا تسلسل ہے ،جبکہ علامہ حیدری کے بھائی عبدالجبار شیخ کے مطابق ان کے والد اور بھائی کے قتل کو پلاٹ کا تنازع قرار دینا سازش ہے، دونوں قاتل بھائیوں کا تعلق مخالف فرقے سے ہے اوریہی دشمنی کا اصل سبب ہے۔ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت کی اطلاع ملتے ہی ہزاروں عقیدت مند جامعہ حیدریہ پہنچنا شروع ہوگئے اور پیر کو عصر کے بعد نماز جنازہ کے موقع پر یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی، نماز جنازہ کے موقع پررقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت کی اطلاع ملتے ہی ہزاروں افراد جامعہ حیدریہ اعظم کالونی لقمان پہنچ گئے اور ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے۔“ (روزنامہ اسلام ۱۸/اگست ۲۰۰۹ء)
علامہ علی شیر حیدری شہید خیر پور کے مضافاتی گاؤں موسیٰ خان جانوری سے تعلق رکھتے تھے، آپ نے ۱۹۶۶ء میں جناب الحاج محمد وارث کے گھر آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم مقامی اسکول و مدارس میں ہوئی، اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ نے کولاب، جئیل، ٹھیڑی، نوشہرہ اور ٹھٹھہ کا رخ کیا، جبکہ دورئہ حدیث آپ نے سندھ کی مشہور دینی درس گاہ دارالہدیٰ حبیب آباد ٹھیڑی سے کیا، علامہ علی شہر حیدری شہید کی مادر علمی دارالہدیٰ ٹھیڑی چونکہ اہل سنت کی ترجمان درس گاہ رہی ہے اور اس پر بھی روافض نے ایک بار حملہ کرکے وہاں کے متعدد کارکنوں کو جامِ شہادت سے ہمکنار کیا، اسی طرح آپ کے استاذ مولانا عبیداللہ چنجن بھی تردید رفض کا خاصا عمدہ ذوق رکھتے تھے، اس لئے آپ کی شخصیت پر اپنی مادر علمی اور اساتذہ کی فکر و سوچ کی گہری چھاپ تھی، اس کے علاوہ ریاست خیر پور میں چونکہ شروع سے اب تک رفض و تشیع کا زور اور غلبہ رہا ہے، اس لئے فطری طور پر حضرت علامہ علی شیر حیدری شہید پر تحفظ ناموس رسالت کے ساتھ ساتھ حضرات صحابہ کرام کی عزت و ناموس کے تحفظ اور تردید رفض کے ذوق کا غلبہ تھا۔ چنانچہ جب جھنگ میں حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے انجمن سپاہ صحابہ کی داغ بیل ڈالی اور وہ اس کے بانی، امیر اول اور سرپرست اعلیٰ قرار پائے تو انہوں نے صوبہ سندھ کے امیر کے طو رپر حضرت علامہ علی شیر حیدری کو منتخب فرمایا، یوں مولانا علی شیر حیدری عنفوان شباب اور فراغت کے بعد سے ہی اس جماعت سے وابستہ تھے۔
علامہ علی شیر حیدری شہید کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں کمالات سے متصف فرمایا تھا، وہ عام مقررین اور خطباء سے ہٹ کر نہایت ہی متین و سنجیدہ مزاج کے انسان تھے اور بہت ہی متواضع تھے، جوش سے زیادہ ہوش اورجذبات سے زیادہ دلیل کے آدمی تھے ،اُنہیں اپنا مدلل موقف سمجھانے اور کٹر سے کٹر مخالف کو قائل کرنے کاسلیقہ آتا تھا۔ان کی یہی ادا ان کے مخالفین کی آنکھ میں کھٹکتی تھی،جس کی بناپر ان کی دلیل کا جواب گولی سے دیاگیا،اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کردیاگیا۔لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ اب ان کو اور ان کے موقف ،عقائدو نظریات کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا،اس لیے کہ مولاناکاموقف حق اور سچ تھااور حق وسچ کسی فرد اورجماعت کامحتاج نہیں،بلکہ وہ غالب ہوکر رہے گا،ایک علامہ حیدری کی جگہ انشاء اللہ سینکڑوں علامہ علی شیر حیدری پیدا ہوں گے،اوردفاع دین کی خدمت انجام دیں گے۔
راقم الحروف کا ان سے زیادہ تعارف اور قربت نہیں رہی، بلکہ چنداں تعارف بھی نہیں تھا، تاہم گزشتہ سال حج کے موقع پر مسجد نبوی شریف میں ان سے ملاقات ہوئی، جس کی تقریب یہ ہوئی کہ ایک روز بعد نماز عشاء راقم الحروف مسجد نبوی شریف میں پہلی چھتریوں کے نیچے بیٹھا تھا کہ ایک وجیہہ متین اور سنجیدہ شکل کا خوبصورت نوجوان سر پر رومال کی پگڑی باندھے دو زانو ہوکر مصافحہ کے لئے آگے بڑھا تو راقم الحروف نے بھی محبت و الفت کے انداز میں معانقہ کے لئے دونوں ہاتھ کھول دیئے، مصافحہ اور معانقہ ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ”علی شیر حیدری پاکستان سے“ اور پھر اگلے ہی لمحہ انہوں نے نہایت ہی محبت و عقیدت اور لجاجت کے الفاظ میں دعا کی درخواست کی، تو بلاشبہ راقم الحروف ان کی عظمت کا معتقد ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
بہرحال وہ کچھ دیر راقم کے پاس تشریف فرماہوئے اور اجازت لے کر اپنے معمولات پورا کرنے کو تشریف لے گئے، بس یہ میری ان سے اول و آخر ملاقات تھی، اس کے بعد روزانہ ان کو مسجد نبوی شریف کے کسی پلر اور ستون کے پیچھے نوافل و تلاوت اور احباب سے محو گفتگو دیکھتا رہا، اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے درجات بلند فرمائے بہت ہی بااخلاق اور متواضع انسان تھے۔
میرے ایک بہت ہی معزز بزرگ اور استاذ حضرت مولانا محمد اسحق بیٹ کیسری زید مجدہ کابیان ہے کہ شہید مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تقریر و خطابت کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا اور وہ مشکل سے مشکل ابحاث و نکات کو بہت ہی آسان اور عام فہم انداز اور چٹکیوں میں سمجھادیتے تھے۔ ان کاکہنا ہے کہ جس زمانہ میں، میں باب العلوم کہروڑ پکا میں مدرس تھا ،انہیں دنوں ان کا ایک بیان سننے کا موقع ملا تو بہت ہی متاثر ہوا، فرمانے لگے انہوں نے اپنے بیان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شہادت کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”جب بلوائیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا، تو دامادِ رسول اور خلیفہ رابع حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو آپ کی حفاظت پر مامور کرتے ہوئے فرمایا کہ: سیدة نساء اہل الجنہ کے دودھ کی لاج رکھنا، دیکھنا تمہارے ہوتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک کوئی موذی پہنچنے نہ پائے، چنانچہ انہوں نے اپنے باپ کی اس وصیت کا ایسا پاس کیا کہ بلوائیوں نے سر توڑ کوشش کی، مگر سیدا شباب اہل الجنة کے ہوتے ہوئے وہ حضرت عثمان کے گھر میں داخل نہ ہوسکے، یہاں تک کہ بلوائی چھت پر سے کود کر گھر میں داخل ہوئے، مگر جس جگہ حضرات حسنین کریمین پہرہ پر مامور تھے ،وہاں سے وہ داخل نہ ہوسکے۔“
یہ فرماکر فرمایا: ”بلاشبہ حضرات حسنین کریمین سیدا شباب اہل الجنة تھے، ریحانة الرسول تھے، آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، حضرت علی کے لخت جگر اور سیدہ فاطمة الزہرا اور سیدة نساء اہل الجنة کے جگر گوشے تھے، مگر تھے تو حضرت عثمان کے محافظ، جب محافظوں کا یہ مقام ہے تو جن کی حفاظت پر وہ مامور تھے، ان کا کیا مقام ہوگا؟“
انہوں نے اس خوبصورت انداز میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت، مقام و مرتبہ کو بیان فرمایا کہ سارا مجمع عَش عَش کر اٹھا۔
بلاشبہ علامہ شہید تمام علوم عقلیہ و نقلیہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور اپنے ادارہ کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے اور اپنے مدرسہ حیدریہ میں تمام بڑی کتابیں خود پڑھاتے تھے۔انہوں نے آج سے کوئی ۲۳ سال قبل جامعہ حیدریہ قائم فرمایا تھا، جو ترقی کرتے کرتے آج ملک کی عظیم جامعات میں شمار ہوتا ہے، جہاں حفظ و ناظرہ سے لے کر دورئہ حدیث تک درسِ نظامی کی تمام کتب کی تعلیم ہوتی ہے اور اس وقت جامعہ حیدریہ میں سینکڑوں طلبا مختلف درجات میں زیر تعلیم ہیں اور ہر سال ایک معتدبہ علماء یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر سند فراغ حاصل کرتے ہیں اور ہر سال فارغ ہونے والے طلبا کو سند فراغت اور دستارِ فضیلت سے نوازا جاتاہے، اس سال بھی ان کی شہادت سے صرف تین روز قبل ۱۴/اگست کو جامعہ حیدریہ میں ۲۲ ویں سالانہ دفاع صحابہ دستارِ فضیلت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مختلف شعبوں میں فراغت پانے والے ۷۵ سے زائد خوش نصیبوں کو حضرت شہید کے دست مبارک سے دستارِ فضیلت و سند فراغت لینے کا شرف و اعزاز حاصل ہوا۔ افسوس کہ آئندہ کے لئے جامعہ حیدریہ اور اس کے اساتذہ و طلبا اپنے عالی مقام سرپرست، قائد ، مدیر اور شیخ الحدیث کی برکتوں سے محروم ہوگئے اور جامعہ حیدریہ کے درودیوار ان کی قال اللہ وقال الرسول کی مسحور کن آواز اور صدائے بازگشت سے محروم ہوگئے۔ بلاشبہ ان کی جگہ ان کے بھائی مولانا ثناء اللہ کو ان کا جانشین اور جامعہ حیدریہ کا مدیر و مہتمم مقرر کیا گیا، لیکن ان کا خلا صدیوں تک پُر نہیں ہوسکے گا۔
حضرت علامہ علی شیر حیدری کالعدم سپاہ صحابہ اور موجودہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کے پانچویں شہید ہونے والے سرپرست اعلیٰ تھے، جیسا کہ روزنامہ اسلام میں ہے:
”جہانیاں (نمائندہ خصوصی) خیر پور میں مسلح افراد کی فائرنگ سے شہید ہونے والے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری دہشت گردی کی نذر ہونے والے پانچویں بڑے راہنما ہیں، قبل ازیں اس جماعت کے ۴ مرکزی لیڈر دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ تفصیل کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی سنی جماعت سپاہ صحابہ جس کی بنیاد انجمن سپاہ صحابہ پاکستان کے نام سے علامہ حق نواز جھنگوی نے ۱۹۸۵ء میں رکھی۔ بعد میں اس جماعت کا نام بدل کر سپاہ صحابہ پاکستان رکھ دیا گیا، اس جماعت کے مرکزی راہنما مولانا حق نواز جھنگوی کو ۲۲/فروری ۱۹۹۰ء میں شہید کردیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے بعد مولانا ایثار القاسمی اس جماعت کے سربراہ مقرر ہوئے، جنہیں ۱۰/فروری ۱۹۹۱ء میں شہید کردیا گیا، بعد میں مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کی قیادت سنبھالی جو کہ ۱۸/جنوری ۱۹۹۷ء میں ایک دہشت گرد کی واردات میں درجنوں ساتھیوں سمیت شہید کردیئے گئے۔ ان کے بعد مولانا اعظم طارق اس جماعت کے سربراہ مقرر ہوئے، مولانااعظم طارق رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔ مولانا اعظم طارق  کو ۶/اکتوبر ۲۰۰۳ء میں اسلام آباد میں ان کے ڈرائیور کے ہمراہ فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے دیگر مذہبی تنظیموں کے ساتھ سپاہ صحابہ پر بھی پابندی عائد کردی، جس کے بعد سپاہ صحابہ کا نام بدل کر ملتِ اسلامیہ پاکستان رکھ دیا گیا۔ علامہ علی شیر حیدری کالعدم سپاہ صحابہ کے پانچویں بڑے راہنما تھے جو کہ دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں۔“ (روزنامہ اسلام ،۱۸/اگست ۲۰۰۹ء)
ہمارا وجدان کہتا ہے کہ مولانا حیدری شہید کا قتل کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ ہے، کچھ بعید نہیں کہ مولانا کو راستہ سے ہٹانے کا مقصد ملک میں شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑکانا مقصود ہو، چنانچہ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا مرحوم کی شہادت کے بعد ان کے عقیدت مندوں کا غم و غصہ اور احتجاج ایک فطری امر اور ان کا حق تھا، چنانچہ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں اس درندگی کے خلاف احتجاج، جلاؤ، گھیراؤ، ہڑتال، شٹر ڈاؤن وغیرہ ہوئے، جیسا کہ روزنامہ اسلام میں ہے:
”خیر پور، لاہور، ملتان، پشاور، اسلام آباد (نمائندگان +خبر ایجنسیاں)اہل سنت و الجماعت کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری کی المناک شہادت کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی،خیر پور نوابشاہ، ٹنڈوالٰہ یار سمیت سندھ کے بیشتر شہروں میں مکمل شٹر بند ہڑتال رہی، مختلف شہروں میں مشتعل افراد نے گاڑیوں اور پیٹرول پمپوں کو آگ لگادی، پولیس نے جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق خیر پور کے علاقے ٹھیڑی کے قریب قومی شاہراہ پر ہزاروں افراد نے احتجاج کیا اور ٹائر جلاکر دھرنا دیا، جس سے ٹریفک معطل ہوگیا۔ لقمان پھاٹک کے مقام پر احتجاج کرتے ہوئے مشتعل افراد نے ریلوے ٹریک بلاک کردیا، تمام بڑی ٹرینوں کو نوابشاہ، گمبٹ، پڈعیدن کے اسٹیشنوں پر روک دیا گیا، شہر میں پولیس کے ساتھ رینجرز بھی گشت پر مامور کردی گئی ہے، حیدر آباد ،لطیف آبادمیں بھی تجارتی مراکز بند رہے۔ شہر میں پولیس کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے، میرپور خاص، ٹنڈو آدم، کنری، کھپرو، نوابشاہ میں مکمل ہڑتال رہی، ان علاقوں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ سکھر، نوشہرو فیروز، سجاول، پڈعیدن، بھریا روڈ اور ٹنڈوالٰہ یار سمیت کئی شہروں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ جیکب آباد میں دکانیں بند کرانے کی کوشش پر پولیس نے ۸ افراد کو گرفتار کرلیا۔ علامہ علی شیر حیدری کے قتل کے خلاف پنو عاقل میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی سینکڑوں افرادنے احتجاجی ریلی نکالی ا ور دھرنا دیا۔ اہل سنت والجماعت کے قائد علامہ علی شیر حیدری کی خیر پور میں مسلح افراد کی فائرنگ سے شہادت کی خبر میر واہ گورچانی پہنچنے پر شہر کے مختلف علاقوں میں مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے اور کئی مقامات پر ٹائر نذر آتش کئے گئے، جس کے باعث میرواہ گورچانی اور گرد و نواح کے شہروں سمن گوٹھ، بیلا روڈ، کنگورو، بانڈی، کوٹ میرس اور دو میل اسٹاپ کے تمام کاروباری اور تجارتی مراکز دن بھر بند رہے، جبکہ اس موقع پر شہر بھر میں پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا۔ تنظیم اہل سنت والجماعت کے سربراہ مولانا علی شیر حیدری کی شہادت کے خلاف صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور مطالبہ کیا گیا کہ مولانا علی شیر حیدری کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے سرِ عام پھانسی دی جائے۔ گزشتہ روز لاہور پریس کلب کے باہر قاری عبیداللہ، قاری رحمت اللہ اور قاری طیب کی قیادت میں سینکڑوں افراد نے پُرامن احتجاجی مظاہرہ کیا، اس موقع پر مشتعل افراد نے ٹائروں کو آگ لگاکر ٹریفک کو مکمل طور پر بند کردیا۔ اسلام آباد کے علاقہ ملوڈی چوک میں مفتی تنویر عالم کی قیادت میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور کئی گھنٹے تک ٹریفک کو مکمل طور پر بند رکھا، جھنگ میں بھی مولانا علی شیر حیدری کی شہادت کی اطلاع ملتے ہی دن بھر مکمل شٹر بند ہڑتال رہی، جبکہ ہزاروں مظاہرین نے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے ،اطلاعات کے مطابق شیخو پورہ میں مولانا اشرف طاہر، حافظ اشفاق اور عبدالغفار کی قیادت میں سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا، مارکیٹوں میں ہڑتال کی گئی، اسی طرح فیصل آباد میں بھی مولانا عزیز الرحمن صدیقی کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، وہاں بھی متعدد مارکیٹوں میں ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ اٹھارہ ہزاری اور دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ پشاور سے نمائندہ اسلام کے مطابق پشاور میں اہل سنت والجماعت کے کارکنوں نے علامہ علی شیر حیدری کے قتل کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کے مختلف مقامات پر ٹائر جلائے۔ کوہاٹی چوک سے علامہ علی شیر حیدری کے المناک قتل کے حوالے سے احتجاجی مظاہرے کا آغاز کیا گیا اور شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے نمک منڈی، شعبہ بازار اور قصہ خوانی پہنچ کر ٹائر جلائے، انہوں نے اس موقع پر حکومت مخالف نعرے بھی لگائے، مظاہرے سے اہل سنت والجماعت کے راہنماؤں ابراہیم قاسمی، مولانا منظور شاہ اور اسماعیل درویش نے بھی خطاب کیا، اس موقع پر انہوں نے علامہ علی شیر حیدری کے قتل کو حکمرانوں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔ مانسہرہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق مانسہرہ میں بھی گزشتہ روز ختم نبوت چوک پر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرہ مرکزی جامع مسجد سے نکالا گیا اور ختم نبوت چوک پر جلسے کی شکل اختیار کرگیا، مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت والجماعت صوبہ سرحد کے سرپرست مولانا نذیر احمد ہزاروی، ضلعی امیر مفتی عتیق الرحمن، جنرل سیکریٹری مولانا رب نواز طاہر نے مولانا علی شیر حیدری پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ظالموں نے ہماے محبوب قائد کو شہید کرکے اگر یہ سمجھ لیا کہ ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، یہ مشن قیامت تک جاری رہے گا، انہوں نے کہا کہ حکومت ہمارے پُرامن رہنے سے غلط فائدہ نہ اٹھائے، انہوں نے کہا کہ قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔“ (روزنامہ اسلام، ۱۸/اگست ۲۰۰۹ء)
اس موقع پر کراچی ناگن چورنگی کی صدیق اکبر مسجد کا محاصرہ اور مسجد کے امام و خطیب مولانا عبدالغفور ندیم اور ان کے بیٹوں سمیت دس کارکنان کی گرفتاری، ان پر مقدمات کا قیام نہایت ہی ناعاقبت اندیشانہ فعل ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی روزنامہ اسلام کی خبر ملاحظہ ہو:
”کراچی ‘ (کرائم رپورٹر) کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت، کراچی کے مختلف علاقوں میں ہنگامہ آرائی پیر کی علی الصبح کراچی کے مختلف علاقوں میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری کی شہادت پر ہنگامہ آرائی، ہنگاموں کی ابتدأ ناگن چورنگی پر واقع مسجد صدیق اکبر کے سامنے سے ہوئی، جہاں پر مشتعل افراد نے تمام ٹریفک معطل کروادیا اور بعدازاں علاقے کے تمام پیٹرول پمپس اور دکانیں اور ہوٹل بھی بند کرادئیے، اس موقع پر پولیس و رینجرز نے پیٹرول پمپس کھلوانے اور ٹریفک بحال کرنے کی کوشش کی تو پولیس اور کالعدم تنظیم کے کارکنوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں راہگیروں میں سے خاتون شمیم، زوجہ خالد، فراز ولد راج الدین اور اے ایس آئی منظور زخمی ہوگئے، جنہیں عباسی شہید ہسپتال پہنچادیا گیا، جبکہ دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں مزید ۲ افراد رضا احمد اور فرحان بھی زخمی ہوکر ہسپتال پہنچے ، پولیس اور مشتعل افراد کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ دوپہر ۳ بجے تک جاری رہا، اس دوران مشتعل افراد نے ناگن چورنگی پر ایک ہائی روف JK-1543اور کنٹریکٹ بس JA-0843نذر آتش کردی جبکہ پی ایس او کا پیٹرول پمپ بھی نذر آتش کرنے کی کوشش کی جسے رینجرز نے موقع پر پہنچ کر ناکام بنادیا، ۵ گھنٹوں سے زائد مشتعل افراد اور پولیس اور رینجرز کے درمیان جاری فائرنگ کے تبادلے کے بعد پولیس و رینجرز کی بھاری نفری نے مسجد صدیق اکبر کا محاصرہ کرلیا اور وہاں کے امام و خطیب مولانا عبدالغفور ندیم کے علاوہ ان کے ۳ صاحبزادوں سعد معاویہ، راشد معاویہ اور فراز سمیت ۱۶ افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں مسجد کے خادم عبدالمنان، علی، عاطف، ندیم، ظفر، کامران، سہیل دانش مسلم، صہیب، طاہر اسلم، بشیر اور اسد شامل ہیں، تاہم پولیس نے صرف عبدالغفور ندیم سمیت ۱۰ افراد کے خلاف ہنگامہ آرائی، پولیس مقابلہ، سرکاری و نجی املاک کو نقصان، اسلحہ کی برآمدگی اور اشتعال انگیز لٹریچر پھیلانے کے مقدمات نمبر ۳۸۰، اور ۳۷۰ درج کرلئے ہیں، پولیس کے مطابق محاصرے کے دوران مسجد کے اندر سے ایک خودکش جیکٹ، ۶ ٹی ٹی پستول، ایک ایس ایم جی، ایک ریپیٹر، ایک ٹرپل ٹو رائفل اور سینکڑوں راؤنڈز کے علاوہ ۳ موٹر سائیکلیں KBZ7598,KVH6173 اور KAL4023 برآمد کی ہیں۔ دریں اثنا شہر کے مختلف علاقوں سہراب گوٹھ، قائد آباد ، داؤد چورنگی، لانڈھی ، کورنگی، ملیر، نارتھ ناظم آباد، شارع نورجہاں، یو پی موڑ، بنارس اور اورنگی ٹاؤن سمیت کئی علاقوں میں جلاؤ گھراؤ کا سلسلہ جاری رہا جبکہ اس دوران مشتعل افراد اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا جبکہ بنارس کے قریب میٹرو سنیما کے قریب مشتعل افراد نے یو ٹی ایس 13، کی بس نمبر4104نذر آتش کردی۔“ (روزنامہ اسلام ۱۸/اگست ۲۰۰۹ء)
سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل دوسرے فرقے کے افراد نے اپنے قائدین کے قتل پر کبھی کوئی مظاہرہ نہیں کیا؟ کیا انہوں نے کبھی جلاؤ گھیراؤ نہیں کیا؟ کیا انہوں نے ایسے مواقع پر کھلے عام اسلحہ کی نمائش نہیں کی؟ کیا کبھی ہماری چاک و چوبند پولیس اور رینجرز نے ان کا ناطقہ بند کیا؟ یا ان کے مراکزکا گھیراؤ کرکے وہاں سرچ آپریشن کیا؟ کیا ان کے افراد کو گرفتار کرکے ان پر ناجائز اسلحہ یا بارودی جیکٹوں کی برآمدگی کی اطلاع دی؟ یا ان کے مراکز میں کھڑی موٹر سائیکلوں، گاڑیوں کے بارہ میں یہ تاثر دیا کہ وہ غصب شدہ یا چھینی ہوئی تھیں؟ یا ان سے اسلحہ چھین کر یہ اعلان کیا کہ ان کے ہاں سے اسلحہ برآمد ہوا؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ایسے حساس لوگوں کی حفاظت پر مامور گارڈوں کے اسلحہ کو چھین کر غیر قانونی اسلحہ کا عنوان دینا کیا جلتی پر تیل کے مترادف نہیں؟ کیا اس سے جانبداری کا احساس جنم نہیں لے گا؟ کیا اس طرح کے طرزِ عمل سے سنی کارکنوں میں انتقام کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا؟
عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ اگر ایسی کوئی پریشان کن صورت حال تھی تو ملت ِ اسلامیہ کے ذمہ دار افراد کو بلاکر ان کو اپنے کارکنوں کو قابو کرنے کی تلقین کی جاتی اور انہیں باور کرایا جاتا کہ اپنے کارکنوں کو صبرو تحمل کی تلقین کریں اور انہیں قانون کو ہاتھ میں لینے سے باز رکھیں، اگر وہ تعاون نہ کرتے تو چلئے پھر ایسی انتہائی کارروائی اور آخری اقدام کا جواز تھا، جبکہ اس کے برعکس اخباری اطلاعات کے مطابق ملت ِ اسلامیہ کے قائدین اور کارکنان کا کہنا ہے کہ آج تک سپاہ صحابہ اور ملت ِ اسلامیہ کے جتنا کارکن یا قائدین شہید ہوئے ہیں، ان میں سے کسی کے قاتلوں کو نہ صرف یہ کہ گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ قاتلوں کی سرپرستی کی گئی، حتی کہ ان کے نامزد قاتلوں کی گرفتاری کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
چنانچہ آج سے ۵ سال قبل علامہ علی شیر حیدری شہید کے والد جناب حاجی محمد وارث شہید کے نامزد قاتلوں تک کو گرفتار نہیں کیا گیا، تو بتلایا جائے کہ اس صورت حال کا کیانتیجہ نکلنا چاہیے تھا؟ کیا اس سے فرقہ واریت کو ہوا نہیں ملے گی؟ کیا اس سے جانبداری کا تاثر نہیں ابھرے گا؟ کیا اس سے کارکنوں میں جوش و جنون کا جذبہ پیدا نہ ہوگا؟اس کے علاوہ جو لوگ سنی مسلمانوں یا علامہ علی شیر حیدری شہید اور ان کی جماعت کو دہشت گرد باور کراتے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر وہ واقعی قاتل اور دہشت گرد ہوتے، تو کیا وہ اپنے باپ کے نامزد قاتل کو یوں ہی چلتا پھرتا گوارا کرسکتے تھے؟ نہیں! ہرگز نہیں؟
بہرحال اب بھی حکومت و انتظامیہ کو عقل کے ناخن لیتے ہوئے ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہئے اور ایسے تمام کارکنان کو فی الفور رہا کردینا چاہئے اور علامہ علی شیر حیدری شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے متاثرین کی اشک شوئی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان اور کارکنان و عقیدت مندوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
ہم یہاں علامہ علی شیر حیدری شہید کے کارکنان اور عقیدت مندوں سے بھی درخواست کریں گے کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہمارے بزرگوں نے اپنی جان، مال، عزت اور آبرو کا نذرانہ پیش کرکے اس کو حاصل کیا تھا اور خون کے سمندر عبور کرکے وہ پاکستان کی سرزمین پرپہنچے تھے ، اس لئے ملک دوستی اور امن پسندی کا تقاضا ہے کہ وہ جلاوٴ گھیراؤ کی پالیسی نہ اپنائیں اور اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی نہ کریں اور امن و امان کی صورت حال کو خراب نہ کریں، حضرت علامہ علی شیر حیدری شہادت کی خلعت فاخرہ زیب تن کرکے اس دنیا سے جاچکے، اب وہ واپس نہیں آئیں گے، تو کم از کم پیچھے رہ جانے والوں کے لئے زمین تنگ نہیں کرنی چاہئے۔
ہمارا خیال ہے کہ ہمارا یہ جذباتی طرزِ عمل اللہ تعالیٰ جل شانہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ہمارے اکابر کو بھی پسند نہیں آئے گا، لہٰذا صبر و سکون کا دامن تھام کر ملک و قوم کی حفاظت کریں۔ ہمارا ملک پہلے ہی بہت ساری مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اس پر چاروں طرف سے دشمن کی یلغار ہے، کہیں ہماری اس غلطی سے ملک و قوم کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter