Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 11
فرضیت زکوٰة اور اس کی قطعیت !
فرضیت زکوٰة اور اس کی قطعیت

کون نہیں جانتا کہ زکوٰة بھی عبادت ہے جس طرح نماز روزہ اور حج عبادات ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ یہ چاروں اسلام کے بنیادی ارکان ہیں، کلمہ شہادت کے ساتھ مل کر یہ پانچ ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے اور ان کی فرضیت کا عقیدہ دین اسلام کا متوارث اور متو اتر عقیدہ ہے، جو عہد نبوت سے آج تک مسلسل چلاآرہا ہے، جس کی تصدیق میں قرآن عظیم کی صدہا آیات اور سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی متواتر احادیث موجود ہیں، غرض کتاب وسنت اور اجماع وتوارث ہر دلیل و بر ہان سے زکوٰة کی فرضیت اور اس کا عبادت ہونا ثابت ہے، مکتب کا بچہ اور دارالعلوم کا استاداس عقیدہ کو یکساں طور پر جانتے اور مانتے ہیں۔
جس طرح نماز کی رکعتیں اور ان کی تحدید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، ٹھیک اسی طرح زکوٰة کی شرح نقودیعنی سونا چاندی ہوں یا جاندار اموال یعنی مویشی ہوں یا زرعی پید اوار ہو، سب کی شرح ادائیگی حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث چلی آرہی ہے ۔زکوٰة وصدقات کے مصارف اور مستحقین، خودحق تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعین فرمادیئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق صرف اور تقسیم کر کے قولاً وعملاً واضح فر مادیا ہے۔ زکوٰة اور س کی شرح ان احکام شرعیہ میں سے ہیں کہ عہد نبوت میں ہی ان کے تحفظ کا اتنا اہتمام کیا گیا کہ نہ صرف خلفاء راشد ین کو بلکہ تحصیل ووصول صدقات کے لئے جو عمال بھی مقرر ہوتے تھے ان کو یہ احکام لکھو اکر حوالہ کر دیئے جاتے ہیں۔
مختصر یہ ہے کہ زکوٰة کی شرح اور مصارف کی تفصیلات کو کسی کے اجتہاد اور قیاس ورائے پر نہیں چھوڑا گیا ،بلکہ خود شارع علیہ الصلوٰة والسلام نے تعین فرما کر ان کی قطعیت پر آخری مہر ثبت کر دی، قیامت تک کے لئے کسی کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ اس شرح میں تر میم وتبدیلی کر سکے۔
عہد صد یقی میں جب عرب کے چند مسلمان قبائل نے یہ خیال کر کے زکوٰة دینے سے انکار کیا کہ زکوٰة کی حیثیت سرکاری ٹیکس کی ہے، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو امیرا مت اورسر براہ مملکت تھے، دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس ٹیکس (زکوة) کی ادائیگی بھی ختم ہو گئی، اب زکوٰة ادا کرنا ضرور ی نہیں ہے۔ تو اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کے مجمع میں فرمایا:
”والله لا قا تلن من فرق بین الصلوٰة والزکوٰة۔“
ترجمہ:۔” خدا کی قسم میں ہر اس شخص سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا“۔
نیز فرمایا:
”والله لو منعونی عقالا کا نوا یوٴدو نھا الی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لقا تلتھم“۔
ترجمہ:۔” خدا کی قسم ! اگر وہ ما نعین زکوٰة ایک زکوٰة کا اونٹ باندھنے کی رسی بھی جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے مجھے دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے ضرور جنگ کرو ں گا۔“
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث کا مضمون بھی یہی ہے جو صحیحین میں موجود ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال :امر ت ان اقاتل الناس حتی یشھدواان لا الہ الا الله وان محمداً رسول الله ویقیمو الصلاة ویؤ توا الزکاة فاذا فعلواذلک عصموامنی دماء ھم وحسا بھم علی اللّٰہ“۔
ترجمہ:۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کر تا رہوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں، جب وہ اس پر عمل کر نے لگیں گے تب وہ مجھ سے (میری دست بر د سے) اپنی جان اور مال کاتحفظ کر سکیں گے (مسلمان ہوجائیں گے اور ان کی جان ومال محفوظ ہوجائے گا، باقی ان کے دلوں کا حساب کہ وہ دل سے مسلمان ہوئے یا نہیں) اللہ کے سپر دہے۔“ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے ان ہر دو فیصلوں کو تمام صحابہ کرام نے متفق الکلمہ قبول کر لیا، امت کا یہ سب سے پہلا اور سب سے قوی اجماع ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد پیش آنے والے حادثہ نا زلہ میں منعقد ہو ااور آج تک امت مسلمہ میں مسلم چلا آرہا ہے ۔پہلا فیصلہ زکوٰة کے عبادت اور رکن اسلام ہونے کی قطعی دلیل ہے اور دوسرا فیصلہ شرح زکوٰة کے محدود متعین ہونے کی قطعی دلیل ہے۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پیش نظر یہی حقیقت تھی کہ جس طرح نماز عبادت ہے اسی طرح زکوٰة بھی عبادت ہے، وہ بدنی عبادت ہے اور یہ مالی عبادت ہے۔ قرآن کریم نے بھی واضح طور پر اعلان کیا ہے:
”فان تا بواواقا مواالصلٰوة وآتوواالز کٰوة فخلواسبیلھم۔“ (التوبة:۵)
ترجمہ:۔” پس اگر وہ (کفر وشرک سے) تو بہ کر لیں اور نماز کو قائم کریں اور زکوة ادا کریں (اسلام قبول کرلیں) تو ان کا راستہ چھوڑ دو، قتل وغارت سے ہاتھ روک لو۔“
ڈائر یکٹر (سر براہ) ادارہ تحقیقات اسلامی ڈاکٹرفضل الرحمن نے ادارے کے ترجمان ما ہنا مہ فکر ونظر بابت ماہ اکتوبر ۱۹۶۴ء میں نصوص قرآن میں قطع وبر ید اور تحریف کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے ”ابدیت قرآن“ کے عنوان سے جو تحقیقی مقالہ سپر دقلم کیا ہے، اس میں تصریح فرماتے ہیں کہ:
” معاشرہ کی ضروریات کے لئے موجودہ شرح زکوٰة کافی نہیں، حکومت کواس میں اضافہ کاحق حاصل ہے۔“
اور اسی رسالہ کے ایک اورمحقق اور قلمی معاون ڈاکٹر رفیع اللہ نے ڈاکٹر صاحب موصوف کی تائید میں فکر ونظر بابت ماہ نو مبر ۶۵ ۱۹ء میں اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ سپر دقلم کیا، اس میں وہ فرماتے ہیں:
”معیشت کی تبدیلیوں کی وجہ سے اس نصاب (زکوٰة) میں کچھ خامیاں پیداہوگئی ہیں ،اس لئے اس پر ایک تحقیقی نظر ڈالنا ضروری ہے۔“ پھر اپنی خانہ سا زتحقیق وتفصیل کے بعد فرماتے ہیں:
” اب اوسط نصاب زکوٰة۲۹۳۹روپے ہونا چاہیے اور آج کل کے ما ہرین معاشیات کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ اس سے کم آمدنی والے لوگ ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنی ہوں۔“
یہ تو ادارہ تحقیقات اسلامیہ کی اندرون خانہ تحقیقات سے متعلق چند سطریں ہیں، اب ۲ مئی ۱۹۶۶ء کو راولپنڈی میں اسلامی مشاورتی کو نسل کا اجلاس شروع ہونے سے دودن پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف پی پی اے کے نمائندے کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہیں کہ:
۱:- قرآن مقدس میں مسلمانوں پر مملکت کو صرف ایک ہی ٹیکس لگانے کا اختیار دیا گیا ہے اور وہ زکوٰة ہے۔
۲:- یہ ٹیکس بنیادی طور پر اس لئے وضع کیاگیا تھا کہ اسے مملکت کی مختلف ضروریات پوری کرتے ہوئے نہ صر ف مسلم معاشرہ کی سماجی تر قی پر صرف کیا جائے بلکہ مملکت کی دفاعی اور دیگر ضروریات بھی پوری کی جائیں، انہوں نے کہا: زمانہ قدیم میں مسلم مملکت کی ضروریات اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں جتنی آج کے زمانہ میں ہیں، جدید مملکت کے لئے معمولی شرح پر زکوٰة کا حصول بالکل بیکار ہے اور حاصل شدہ رقم سے اس کی مالی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں، اس لئے ڈاکٹر فضل الرحمن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں پر شرح میں اضافہ کے ساتھ زکوٰة عائد کرنے کی ضرورت ہے۔“
اسلامی مشاورتی کو نسل کا اجلاس منعقد ہونے سے صرف دو دن پہلے ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے رکن کونسل کے اس انٹر ویو سے صاف ظا ہر ہوتا ہے کہ کو نسل کے ایجنڈے پر یہ مسئلہ موجود ہے، ورنہ خود ڈاکٹر صاحب کو نسل کے اجلاس میں یہ تجو یز پیش کر نے والے ہیں، چنانچہ پی پی اے کا نمائندہ اس عنوان سے یہ خبر دیتا ہے:
”اسلامی مشاورتی کو نسل کے آئندہ اجلاس راولپنڈی میں تجو یز پیش کی جائے گی کہ ملک کے بھاری تر قیاقی اخراجات پورے کر نے کے لئے زکوٰة کی مقرر شرعی شرح میں اضافہ کر کے وصول کی جائے۔“
پی پی اے کی اس خبر اور ڈاکٹر فضل الرحمن کے اس انٹر ویوسے ملک میں سخت اضطراب کی لہر دوڑ گئی اور ایک ہلچل مچ گئی، ملک کے ہر طبقہ کی جانب سے شد ید مخالفت، برہمی اور غیظ وغضب کا اظہار ہونے لگا توڈاکٹر صاحب کو تو یہ کہتے بنی کہ:
”یہ میرے ذاتی نظر یات ہیں، اسلامی مشاورتی کو نسل اور اس کے ہونے والے اجلاس کی کار روائی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔“
اور اسلامی نظر یات کی مشاورتی کو نسل کے چیئر مین علامہ علاء الدین صدیقی کو یہ تر وید ی بیان دینا پڑاکہ:
” کو نسل میں زیر بحث مسائل سے متعلق امور پر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذاتی نظر یات کو مشاورتی کو نسل کی کا رروائیوں سے خلط ملط کر نا غیر ضروری، نا جائز اور نامناسب ہے۔“
یہ خلط ملط کرنے کا موقع خود ڈاکٹر فضل الرحمن نے عمد اً کو نسل کے اجلاس شروع ہونے سے صرف دو دن پہلے انٹر ویودے کر پیدا کیا ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے غیر اسلامی نظریات کا نہ صرف حامل بلکہ ان کا پر چار کرنے والا شخص اسلامی مشاورتی کو نسل کا رکن کیسے نا مز د کیا گیا اور ایسے غیر ذمہ دار، غیر محتاط اور غیر اسلامی نظر یات کا اعلان کر نے والے شخص کو کو نسل کی رکنیت سے کیوں نہیں الگ کیا جاتا ؟
ڈاکٹر فضل الرحمن کے متضا دبیا نات یا قلا بازیاں
پھر ایک طرف اندرون ملک ان کی سر ما یہ دارانہ نظام معیشت کی حمایت و سرپرستی کا یہ عالم ہے کہ اسی انٹر ویو میں وہ فرماتے ہیں :
”تر قیاتی مقاصدکے لئے سر مایہ پر سود لگا نا مذہب کی اسپرٹ کے منافی نہیں اور اس کا جواز موجود ہے۔“
نہ صرف یہ بلکہ وہ تین سال سے ما ہنامہ فکرو نظر میں پورا زور قلم تجارتی سود کے جو از پر صرف کر رہے ہیں اور سر مایہ دارانہ نظام معیشت کی حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں اور دوسری طرف وہ بیرون ملک امریکی پر نسٹن یو نیورسٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی مذاہب کا نفر نس میں پاکستانی مندوب کی حیثیت سے کس جسارت کے ساتھ کمیو نزم کی پر زور تائید کرتے ہیں ،ارشاد ہے:
” بعض خصوصی سماجی حالات میں بیسوی صدی کا کامیاب مذہب کمیو نزم ہے، اس کی تر دید نہیں کی جاسکتی۔“
دیکھئے کس قدر شاندار تضا د ہے۔ طفل مکتب بھی جانتا ہے کہ کمیو نزم ،کیپیٹل ازم (سر مایہ داری) کا سخت ترین مخالف اور سخت دشمن ہے، مگر ڈاکٹر صاحب ہیں کہ ساری عمر سرمایہ داری کی علمبر داری کر نے اور اسی کے زیر سایہ پر ورش پانے کے باوجود نہایت شدومد کے ساتھ کمیو نزم کو بیسویں صدی کا کا میاب مذہب قرار دے رہے ہیں۔
۱۔ درحقیقت ڈاکٹر فضل الرحمن عہد حاضر کے نہایت ز یرک محقق ہیں، وہ مشاورتی کو نسل کے اجلاس سے صرف دو دن پہلے یہ انٹر ویو دے کر قوم کی اسلامی حمیت اور غیرت ایمانی کا جائزہ لینا چاہتے تھے کہ مسلسل تین سال سے ماہنامہ فکر و نظر کے ذریعہ وہ جس الحاد کی تخم ریزی کررہے ہیں ،وہ بیج پھولنے پھلنے کے اہل ہوا ہے یا سوخت ہو گیا۔ الحمدللہ! ابھی پاکستان کے مسلمانوں میں اتنی اسلامی حمیت ہے کہ وہ اسلام کی شہ رگوں پر کاروزنی کرنے والوں کی چھری کو کند کرنے کے لئے بہت کافی ہے ۔
ایک اور عجیب تضاد:
پھر ایک طرف تو وہ اندرون ملک بر ابر تین سال سے اسلام کی تعمیر نو میں اپنا زور قلم صرف کررہے ہیں اور اسلام کے منصو ص اور قطعی احکام کو موجود ہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لئے نو بنو تا ویلیں اور تحریفیں کررہے ہیں اور اس مذکورہ بالا انٹر ویو میں ا سی مسئلہ سود پر علماء اسلام کو مذہبی لیڈر کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔“
” انہوں نے کہا کہ اس سوال (مسئلہ سود) پر مذہبی لیڈروں نے غلط تاویل کی ہے“
” کیونکہ قرآن سود چار ج کرنے کے سوال پر خاموش ہے۔“
ڈاکٹر صاحب کے لفظوں میں مذہبی لیڈروں پر وہ جد ید حالات میں اسلام کی تاویل نہ کرنے کے وجہ سے عوام کے ساتھ غداری کرنے کا الزام لگاتے ہیں، ارشاد ہے، انہوں نے کہا کہ :” مذہبی لیڈروں نے جد ید حالات میں اسلام کی تاویل پیش نہ کر کے عوام کے ساتھ غداری کی ہے۔“
دوسری طرف وہ مذکورہ بالا کا نفر نس میں پاکستانی مندوب کی حیثیت سے گو ہر افشانی فرماتے ہیں:
” انہوں نے کہا کہ : موجود ہ زمانہ کی ضروریات کے لئے اسلام کی تاویل سے نفسیاتی نقصان پہنچا ہے، یہ مسلمانوں کے لئے خطرناک صورت حال ہے، کیونکہ اگر وہ اپنی سو سائٹی کو جد ید بنالیں، جیسا کہ آج کل ہورہا ہے تو اسلام بحیثیت ایک سماجی طاقت کے ختم ہوجائے گا، حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ انفرادی زندگی ہی میں نہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں بھی ایک طاقت ہے۔“
اب آپ ہی بتلائیے !غدار کون ہے ؟مذہبی لیڈر یا ہمارے یہ لا مذہبی لیڈر؟ موجود ہ زمانہ کے لئے اسلام کی تاویل نہ کرنے والے یا تاویل کرنے والے ؟ یہ ہیں ہمارے واحد اسلامی تحقیقاتی ادارہ کے سربراہ (ڈائر یکٹر) اور واحد اسلامی نظر یات کی مشاورتی کو نسل کے رکن رکین کے متضاد افکار اور پراگندہ خیالات، نہیں بلکہ منا فقانہ دسیسہ کاریاں اور قلا بازیاں۔
آپ اندرون ملک تجارتی سود اور تر قیاتی قرضوں پر سود لینے دینے کو جائز اور حلال کہہ کر سر مایہ کاری اور سودی کا ر وبار کی یعنی سر مایہ داری کی بنیاد پر قائم نظام معیشت کی تائید اور ہمت افزائی فرماتے ہیں اور بیرون ملک پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے بیسویں صدی کا کا میاب مذہب کمیو نزم کو بتلا تے ہیں جو کیپٹیل ازم(سرمایہ داری )کا شد ید تر ین مخالف اور دشمن ہے۔
ایک ہی سانس میں کمیونزم کو بیسویں صدی کا کا میاب مذہب قرار دے کر کمیو نزم کی حمایت اور حوصلہ افزائی کر نا اور دسری طرف باصرار تمام تجارتی سود کو حلال اور سودی کا روبار کو جائز قرار دے کر سرمایہ داری کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنا ہمارے اسلامی تحقیقات ادارہ کے سربراہ اور اسلامی نظریات کی مشاورتی کو نسل کے رکن رکین کا ایسا شاندار تضاد ہے کہ اس بیسویں صدی میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
اور سنئے ! چین سے خراج تحسین حاصل کرنے کی غرض سے اسی مذاہب کی کا نفر نس میں ہمارے یہ پاکستانی مندو ب فرماتے ہیں (پی پی، اے کا نمائدہ لکھتا ہے، مغربی ممالک اور امر یکہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ عوامی جمہور یہ چین کو سمجھنے کی کوشش کریں، جس کی آبادی ۷۰ کروڑ کے قریب ہے اور جہاں انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو سماجی برائیوں سے نجات دلانے اور نیا سماجی اقتصادی نظام قائم کرنے کی زبردست کوشش کی جارہی ہے، یہ بات ڈاکٹر فضل الرحمن نے بتائی جو پاکستانی مندوب کی حیثیت سے امریکی پر نسٹن یو نیورسٹی کے زیر اہتمام مذاہب کی کا نفر نس میں شریک ہوئے۔
کیا چین کی دوستی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اسلام کو چھوڑ کر کمیو نزم کی ہمنوائی اختیار کرے ؟ آج تو مارکس کے ملک میں بھی ما رکیز م (کمیو نزم) ختم ہورہاہے، کمیو نزم تو درحقیقت ایک سیاسی حربہ ہے جو سرمایہ پرست قوموں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، بلکہ سر مایہ پر ست قوموں کے سود خوری کی بنیاد پر قائم شدہ نظام معیشت کار دعمل ہے جو دنیا کی دوسری خصوصاً ایشیائی اقوام کا خون چو س رہا ہے، کیا ہمارے یہ لا مذہبی لیڈر․․․ڈاکٹر فضل الرحمن․․․اسلام کے نظام معیشت کو نا قص قرار دے کر مذہبی لیڈ روں یعنی علماء اسلام کو اس پر غداری کا طعنہ دیتے ہیں کہ وہ اسلام کو کمیو نزم کی صورت میں پیش کیوں نہیں کرتے۔ فانا اللہ۔
گو یا ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کی روشنی میں اسلامی علماء اسلام اور حکومت پاکستان سب ہی عوام سے غداری کے مجرم ہیں کہ نہ وقت کے تقاضا کو سمجھ رہے ہیں اور نہ پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ما نا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے ذاتی نظر یات ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے متضاد اور غیر اسلامی نظریات کے نہ صرف مالک بلکہ ببانگ دہل اندرون ملک اوربیرون ملک اعلان واشاعت کرنے والے شخص کو ایک لمحہ کے لئے بھی اسلامی تحقیقاتی ادارہ کا سر براہ اور اسلامی نظر یات کی مشتاورتی کو نسل کا رکن باقی رکھا جاسکتا ہے؟ اور کیا اگر کسی دوسرے ادارہ کا سر براہ ملک کے باہر منعقد ہونے والی کسی کا نفر نس میں اس طرح کا رسواکن اور خود حکومت اور قوم کو مجرم گر داننے والا بیان دیتا تو کیا حکومت فوراً اس کو معزول نہ کر دیتی اور اس مجر مانہ بیان پر اس کو سزا نہ دیتی ؟
ہم نہیں سمجھتے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن ایسے نادان ہیں کہ وہ ایسے متضا دبیانات دیں جن کے تضاد کو ایک طفل مکتب بھی محسوس کر سکتا ہے وہ تو نہ صرف میکگل یونیورسٹی کے فاضل ہیں ،بلکہ بر سوں میکگل یونیورسٹی اور دوسری یو نیو رسٹیوں میں پر وفیسر بھی رہے ہیں اور اپنے شفیق استاد مشہور مستشرقی ڈاکٹرا سمتھ کے شاگردرشید ہیں، وہ درحقیقت طے شدہ منصوبہ کے تحت اسلامی تحقیقاتی ادارہ پاکستان کے سربراہ بنا کر بھیجے گئے ہیں، تاکہ اپنے استاد ڈاکٹر رسمتی اور دوسرے مستشر قین کی نیابت کریں، حکومت پاکستان غیر شعوری طورپر اس دسیسہ کاری کا شکار ہو گئی ہے، لیکن اب تو ڈاکٹرصاحب کی حقیقت پاکستان کے ہر مسلمان پر عیاں ہو چکی ہے، اب تو حکومت کا فرض ہے کہ ان کو نہ صرف ان کے غیر اسلامی نظر یات کی بنا پر بلکہ غیر ممالک میں ان رسوا کن بیانات کی بنا پر فوراً ان عہدوں سے معزول کر کے ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کرے، اس لئے کہ ان کے یہ بیانات اسلام ،علماء اسلام اور دستور پاکستان کے ساتھ غداری کے مرادف ہیں۔ اس وقت پوری قوم کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اسلامی تحقیقاتی ادارہ پر جو ملک کا لاکھوں روپے سالا نہ سرمایہ صرف ہورہا ہے وہ نہ صرف ضائع جارہا ہے، بلکہ اسلام کی بیخ کنی پر صرف ہورہا ہے اور متفقہ مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریات کی مشاورتی کو نسل اورا سلامی تحقیقاتی ادارہ کو جلد ازجلد ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے ہمنوا قلمی معاونین سے پاک کر دیا جائے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارا یہ بیان صرف اپنی مملکت خدا داد پاکستان کے مفاد کے پیش نظر ہے اور محض دینی ذمہ داری کے احساس پر مبنی ہے۔ خداشاہد ہے، کہ ڈاکٹر صاحب سے ہمیں کوئی ذاتی عداوت نہیں بلکہ ہم نے تو ایک ڈیڑھ سال تک ان سے بر ادرانہ تعلقات بھی محض دین کی خاطر قائم رکھے اور ڈاکٹر صاحب کو کافی موقع دیا کہ وہ ملک وملت کی صحیح خدمات انجام دیں تو ہم بھی ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہیں اور خود ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر ادارہ تحقیقات اسلامیہ میں جا کر تقر یر اور تبادلہ خیالات بھی کیا اور اپنے بے لوث جذبات کے اظہار میں کوئی کو تاہی نہیں کی، لیکن جب بالکل مایوسی ہو گئی تو اظہار حق کا فریضہ تو ہر چیز پر مقدم ہے، اس لئے آج تین سال بعد یہ آواز اٹھانی پڑی ہے۔ واللہ علی ما نقول وکیل۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب !
Flag Counter