Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

9 - 10
بزمِ بنوری کا ایک اور چراغ بجھا
بزمِ بنوری کا ایک اور چراغ بجھا


بقول آغا شورش کاشمیری مرحوم:
”بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اٹھ جانے سے محفل سونی ہوجاتی ہے یا ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخصیت ایسا خلاء پیدا کر جاتی ہے کہ پُر ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو بڑی مشکل سے‘ کاروانِ علم کا زور ان کے اکابر کی موت سے ٹوٹتا چلا جارہا ہے اور ان کا طنطنہ‘ ہمہمہ‘ دبدبہ بھی انہی کے ساتھ رخصت ہوتا دکھائی دے رہا ہے“۔
آغا مرحوم نے آج سے تقریباً ۴۵ برس قبل یہ الفاظ مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی وفات پر چٹان میں کہے تھے‘ فی زماننا مذکورہ شذرہ جامع المعقول والمنقول‘حضرت بنوری علیہ الرحمة کے تلمیذِ رشید‘ جامعہ علوم اسلامیہ کے ناظم تعلیمات‘ استاذنا المکرم حضرت مولانا عبد القیوم چترالی (جنہیں رحمہ اللہ لکھتے دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے) پر بہت اچھی طرح صادق آتا ہے‘ جو اسی کاروانِ علم کے اکابرین میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے‘ جنہوں نے رخت سفر باندھا اور چلے گئے اور ایسا خلاء پیدا کر گئے کہ شاید ہی یہ خلاء پُر ہوسکے‘ جن کی نورانی صورت دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا کہ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا ہے‘ شرافت‘ عظمت‘ بزرگی‘ وقار ‘ سنجیدگی اور متانت جن کی پیشانی سے جھلکتی ‘بلکہ ابلتی تھی‘ جذبہٴ خدمتِ دین ان کی ہر ادا اور دینی ‘ علمی وعملی تڑپ ان کے ہر پہلو سے عیاں تھی۔ اپنے اکابرین رحمہم اللہ اور خصوصاً مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ کے وہ عظیم المرتبت اکابرین جو علم کے ساتھ عمل کے بحر مواج تھے‘ کی وفا شعاری‘ قناعت‘ تقویٰ وپرہیزگاری‘ خدمتِ دین کا جذبہ‘ دیانتداری‘ امانتداری‘ صداقت‘ راست بازی‘ وقت کی قدر وپابندی ‘ طلبہٴ کرام پر شفقت ومہربانی اور ان کی علمی وعملی خیر خواہی‘ علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارتِ تامہ‘ اور ان کی احساس ذمہ داری کا سنتے اور پڑھتے آئے ہیں جو دنیا میں بڑے بڑے عظیم الشان علمی وعملی کارنامے سرانجام دے کر راہی خلد بریں ہو گئے ہیں ‘ جن کی مثال ہمارے لئے اس دور میں ایسی ہے کہ گویا افق پر درخشاں ستارہ: کوئی دور سے دیکھتا تو ہے‘ مگر اس کو پا نہیں سکتا‘ لیکن وہ چمکتا دمکتا ضرور نظر آتا ہے ان اکابر کی زندگی کا روشن باب دیکھ کر سوچ وفکر حیرت میں غلطاں ہوجاتے ہیں‘ جن کی علم دین کے حصول میں مشکلات‘ اور پھر اس کی اشاعت میں مصائب وآلام کی گھاٹیوں میں ”بنیان مرصوص“ بن کر حوادثِ زمانہ کا دلکش مسکراہٹ کے ساتھ جواب دینے کو اپنے لئے زندگی کا سرمانہ اور اعزاز سمجھتے ہیں‘ انہی اکابر میں سے استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القیوم چترالی علیہ الرحمہ ہیں‘ جنہیں دیکھ کر عقل سر تسلیم خم ہوجاتی ہے اور حق الیقین تو کیا عین الیقین ہوجاتا ہے کہ :
وہ دریا کیسے ہوں گے جن کے یہ قطرے سمندر تھے
کیونکہ یہ تمام صفاتِ حسنہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں ودیعت اور ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں اور جن کی ذات اپنے اندر ایک ادارہ اور انجمن تھی۔ محدث العصر حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ نے جب ۱۹۵۴ء میں جامعہ علوم اسلامیہ کی بنیاد رکھی‘ تو حضرت مرحوم ان فضلاء کرام میں سے تھے جو ۱۹۵۷ء میں فارغ التحصیل ہوئے‘ اور اسی وقت سے ہی اپنے شیخ کے گلشن کی آبیاری فرمانی شروع کردی‘ آپ کی خدمات دین وخدمات جامعہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں‘ یہ ”وفا“ ہی تھی کہ تادم آخر اپنے شیخ کے چمن سے وابستہ رہے اور اس کی آبیاری فرماتے فرماتے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی: خدمات جامعہ میں آپ ذرہ بھر پیچھے نہیں رہے‘ بلکہ جس قسم کا مسئلہ در پیش ہوتا مصلحت کو پسِ پشت ڈال کر صفِ اول کے سپاہیوں میں ببانگ دھل یہ کہتے ہوئے موجود ہوتے کہ:
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو!
الزام جو دینا ہے سر عام دیا جائے
جامعہ ہی کی ایک شاخ میں حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید وحضرت مفتی عبد السمیع شہید  کے ساتھ تشریف لے گئے تھے اور واپسی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ رفقاء کار نے تو جانب خلد بریں رختِ سفر باندھا اور حضرت مرحوم کے لمحات حیات ابھی باقی تھے کہ بال بال بچ گئے۔ حضرت مرحوم کا احساسِ ذمہ داری دیکھئے کہ۱۹۹۵ء میں جب شیخ الحدیث وناظم تعلیمات حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ شیرازی کا وصال ہوا تو نظامت تعلیم کا بوجھ آپ کے کندھوں پر آ گیا‘ آپ  نے جس حسن وخوبی اور دیانت داری سے اسے نبھایا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے‘ باوجودیکہ عمر مبارک کا کافی حصہ بیت چکا تھا لیکن اپنی ذمہ داری کو جس طرح ادا فرمایا اس کے سب چشم دید گواہ اور شاہد ہیں‘ اکثر صبح کے اوقات میں خود بنفسِ نفیس جاکر ہر کلاس کا طائرانہ جائزہ لیتے‘ حق تعالیٰ نے ایسا رعب اور دبدبہ عطا فرمایا تھا کہ جیسے ہی کلاسوں کے سامنے نمودار ہوتے اور نظریں گھما کر کلاس کا جائزہ لیتے تو طلبہٴ کرام ”بابا آگئے‘ بابا آگئے“ کہتے ہوئے دبک کر بیٹھ جاتے‘ جس طالبعلم کے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ پڑھائی میں کمزور ہے تو بلاکر بڑی شفقت سے نصیحت اور تسلی دیتے اور جس کی شکایت جاتی کہ غیر حاضری کرتا ہے یا پڑھائی میں سستی کرتا ہے تو بلا کر تادیب فرماتے جو خیر خواہی سے بھر پور ہوتی۔ کبھی کبھار کلاس میں دورانِ سبق تشریف لے آتے اور طالب علم کو کھڑا کر دیتے کہ بتاؤ! استاذ جی نے کیا پڑھا یا ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۹۷ء میں جب درجہ اولیٰ میں حضرت مولانا محمد بنوری  ہمیں ”نماز مدلل“ پڑھا رہے تھے کہ دورانِ سبق حضرت مرحوم تشریف لائے اور چند طلبہٴ کرام سے سبق کے بارے میں استفسار فرمایا : ہم نے دیکھا کہ حضرت کا رخ ہماری طرف ہے تو فوراً حدیث کا فقط ترجمہ دھرالیا‘ جب نزدیک تشریف لائے تو راقم الحروف کو کھڑا کرکے اپنے مخصوص انداز میں کہا: ”لڑکے! کیا پڑھا ہے؟ آپ کے اس سوال پر حدیث کا ترجمہ سنانا شروع کیا‘ ابھی ترجمہ آدھا باقی تھا کہ باہر سے کوئی طالب علم آپ کو بلانے آیا جب کہ حضرت مولانا محمد بنوری جوکہ جامعہ کے نائب رئیس تھے بڑے شوق سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح جب ہم درجہ ثالثہ میں تھے اور اصول الشاشی کا گھنٹہ تھا جو حضرت مولانا محمد نعیم صاحب پڑھاتے تھے‘ اس کے متصل درجہ رابعہ کی کلاس تھی اور درجہ ثالثہ سے گزر کر حضرت علیہ الرحمہ وہاں نور الانوار پڑھاتے تھے کہ ایک دن ثالثہ میں تشریف لے آئے‘ ہم نے کہا ”استاذ جی: یہ درجہ ثالثہ کی کلاس ہے‘ رابعہ آگے ہے“ تو مسند پر بیٹھ کر اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ”لڑکے چھوڑو! رابعہ تو لڑکی کا نام ہے“ اور اصول الشاشی ص:۱۱ پر ”قال ابو حنیفہ“ سے شروع فرمایا اور تھوڑا سا پڑھا کر تشریف لے گئے‘ ان کا سبق میں وہ جملہ ابھی تک یاد ہے کہ” ایسے مواقع پر رضی اللہ عنہ کہنا تبعاً جائز ہے“۔ وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ اگر مدرسہ صبح پونے آٹھ بجے لگتا تو حضرت ساڑھے سات بجے تشریف لے آتے‘ اور باوجودیکہ نظامت تعلیم کا بوجھ آپ کے کندھوں پر تھا لیکن جو کتب برائے تدریس آپ کے سپرد تھیں‘ ان میں کبھی ناغہ نہ فرماتے اور وقت پر کلاس میں پہنچ جاتے‘ حضرت رحمہ اللہ چونکہ قد کے اعتبار سے زیادہ طویل نہ تھے اسی بناء پر اپنے آپ کو ”مختصر آدمی“ کے لقب سے یاد کرتے‘ علالت تک اپنے گھر سے جوکہ پیر کالونی میں واقع ہے‘ سائیکل پر آتے جاتے۔ گدازبدن‘ اس پر صاف ستھرا اجلا لباس‘ سر پر سفید ٹوپی‘ خوبصورت سفید داڑھی‘ پاؤں میں کالے بوٹ‘ ہر ادا سے تہذیب وشائستگی‘ خود اعتمادی اور خود داری نمایاں اور ہر چیز سے نستعلیقی نفاست عیاں‘ جسم نہ بھاری بھرکم اور نہ ہی زیادہ نحیف‘ زندہ دل بلکہ پُر مذاح لیکن پوری لطافت اپنے اندر لئے ہوئے۔ استاذ محترم حضرت اقدس مولانا عبد القیوم چترالی ۱۶/ اپریل ۲۰۰۷ء کواس جہان آب وگل اور اس کی قید سے آزاد ہوکر ان باکمال لوگوں میں جاملے جن کے اس جہان فانی سے سفر کا سلسلہ ابتدائے آفرینش سے جاری وساری ہے‘ بعد نماز عصر حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ رئیس الجامعہ نے نماز جنازہ اسی گلشن کے احاطے میں ادا فرمائی جس کی آبیاری حضرت مرحوم کرتے کرتے راہی ملک عدم ہوئے ۔قبرستان میں معتقدین کی آہوں اور سسکیوں کے ساتھ حضرت استاذ علیہ الرحمہ جو بزم بنوری کے روشن چراغ تھے‘ سپردخاک کردیئے گئے۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلام میں سنت اور حدیث کا مقام
Flag Counter