Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

3 - 10
قومیت وتعصب اسلام کی نظر میں
قومیت وتعصب اسلام کی نظر میں


عصبیت ومفاخرہ کی شرعی حیثیت جاننے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے معنی ومفہوم کو ذہن نشین کرلیا جائے۔
عصبیت کی تعریف
عصبیت کا اطلاق اپنے مذہب وقوم کی ناروا تائید وحمایت اور دوسروں پر ظلم وتعدی پر ہوتا ہے‘ چنانچہ حضور ا سے مروی ہے:
”عن واثلة ابن الاسقع قال: قلت یا رسول اللہ! ما العصبیة؟ قال: ان تعین قومک علی الظلم“۔ (ابوداؤد‘ مشکوٰة‘ ص:۴۱۸)
ترجمہ:․․․”حضرت واثلہ بن اسقع  سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ا! عصبیت کیا چیز ہے؟ آپ ا نے فرمایا: ظلم پر تو اپنی قوم کی مدد کرے“۔
مفاخرہ کی تعریف
مفاخرہ کے معنی ہیں: اپنی قوم ‘ مذہب اور رنگ ونسب پر نازاں ہونا اور اترانا۔
قومیت کا تصور
ابتدائی زمانہ میں جب کہ انسانی آبادی زیادہ نہ تھی‘ دنیا میں چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں‘ ۱․․․ مشرقی‘ ۲․․․․ مغربی‘ ۳․․․․ شمالی‘ ۴․․․ جنوبی اور ہر سمت والے خود کو دوسری سمت والوں سے الگ قوم سمجھنے لگے‘ مگر پھر جو نہی آبادی بڑھتی گئی‘ نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت کا تصور جڑ پکڑتا گیا‘ حتی کہ عرب کے تمام معاملات کا دار ومدار انہیں نسبی اور قبائلی بنیادوں پر تھا اور انہیں بنیادوں پر ہی لڑائیاں لڑی جاتی تھیں اور یورپی اقوام نے چونکہ اپنا نسب ہی کھودیا تووہ وطنی ‘ صوبائی اور لسانی بنیادوں پر قوموں میں تقسیم ہوگئے اور آج بھی اسی کا دور دورہ ہے۔
قومیت کا اسلامی تصور
دنیا کے تمام مذاہب میں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے ہرکام میں نہایت اعتدال قائم رکھا ہے‘ قبل از اسلام دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جارحانہ اصول‘ ذات پات کی اونچ نیچ اور رنگ ونسل ‘ کالے وگورے کا امتیاز رائج تھا‘ جرائم کی سزا بھی شخصیات وخاندان کو دیکھ کر دی جاتی‘ پھر جب خدا تعالیٰ کی رحمت کاملہ اسلام کی صورت میں اہل عالم کی طرف متوجہ ہوئی تو اس نے ان گم گشتہ راہ انسانوں کو یہ باور کرایا کہ تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو‘ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
”خلقکم من نفس واحدة“ (نساء:۱)
یعنی”تمہیں ایک ہی ذات سے پیدا کیا“۔ اسی کی تشریح کرتے ہوئے حضور ا نے حجة الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
”یایہا الناس! الا ان ربکم واحد‘ وان اباکم واحد الا! لافضل لعربی علی عجمی‘ ولا لعجمی علی عربی‘ ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی“۔ (قرطبی ج:۱۶‘ ص:۲۹۳)
ترجمہ:۔”اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے‘ خبر دار! کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے“۔
یہی مضمون قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا:
”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“۔ ( حجرات:۱۳)
ترجمہ:․․․”یقیناً تم میں سب سے زیادہ صاحب عزت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے“۔ غرض یہ کہ اسلام نے ”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ کے قاعدہ سے ذات پات کی اونچ نیچ‘ نسلی اور لسانی امتیازات کو یکسر مٹاکر‘ شرافت ورذالت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ اور اطاعت الٰہیہ کو قرار دیا اور ”انما المؤمنون اخوة“ کا اصول وضع کرکے کالے حبشیوں‘ سرخ وگورے ترکیوں ورومیوں‘ نچلی ذات کے عجمیوں اور عرب کے قریشیوں اور ہاشمیوں کو بھائی بھائی بنادیا۔اور ”خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن“ کے ضابطہ سے قومیت اس بنیاد پر قائم کی کہ ایمان والے ایک قوم اور بے ایمان دوسری قوم‘ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ابو جہل اور ابو لہب کے خونی رشتوں کو توڑ کر بلال حبشی‘ صہیب رومی‘ سلمان فارسی کا رشتہ حضور ا سے جوڑدیا۔
حسن ز بصرہ بلال ز حبش صہیب از روم
زخاک مکہ ابو جہل ایں چہ بو العجبی است
اسی اسلامی دو قومی نظریہ کی رو سے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ قومیت کی بنیاد صرف ایمان وکفر ہی ہوسکتی ہے‘ رنگ ونسل‘ زبان ووطن ایسی چیزیں ہیں ہی نہیں جو انسان کو مختلف گروہوں میں بانٹ سکیں‘ چنانچہ اسلام نے زمانہٴ جاہلیت کی نسبی ووطنی بنیاد گراکر ایمانی وکفری بنیاد قائم کرکے پھر ”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ کے ذریعہ یہ بھی وضاحت کردی کہ فضیلت کا معیار صرف مسلمان ہوکر کسی خاص برادری میں سے ہونا نہیں ہے‘ بلکہ پھر فضیلت کا معیار وکسوٹی تقویٰ ہے‘ مرد کو عورت پر ‘ عرب کو عجم پر‘ سادات کو غیر سادات پر اگر کچھ فضیلت ہے بھی تو وہ تقویٰ ہی کی بنیاد پر ہے۔
نسبی تقسیم کا مقصد
باقی رہی خاندانی ونسبی تقسیم تو وہ عصبیت وفخر کے لئے نہیں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو جگہ احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے ‘ چنانچہ ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
”وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا“ ۔(حجرات:۱۳)
ترجمہ:․․․”اور تمہیں ہم نے بنایا ذاتیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو“۔ دوسری جگہ فرمایا:
”فجعلہ نسباً وصہراً“۔ (فرقان:۵۴)
یعنی” پھر اس انسان کا نسب اور سسرالی رشتہ بنایا“۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ دونوں آیتوں میں نسبی وخاندانی تقسیم کی حکمت بیان فرمائی کہ یہ تقسیم اس لئے ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘ اپنا پورا پتہ اور نشان معلوم کرسکو اور اسی کے ذریعہ ہی صلہٴ رحمی کے حقوق ادا ہوسکتے ہیں‘ چنانچہ اس نعمت کا حق تو یہ تھا کہ اس پر شکر ادا کیا جاتا‘ لیکن اس غفلت کیش انسان نے اس میں طرح طرح کی بے اعتدالیاں کیں‘ اپنے نسب پر بے جا فخر وتکبر اور تعصب سے کام لیا اور دوسروں کی تحقیر شروع کردی اور حقیقی کمالات سے صرف نظر کرکے اس پر مطمئن ہوکر بیٹھ گئے کہ ہم فلاں ابن فلاں ہیں۔
ملاجامی نے کیا خوب فرمایا ہے
بندہٴ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
صد حیف! کہ اب مسلمان بھی اس لعنت میں گرفتار ہو کر صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو گئے ہیں اور مہاجر‘ بنگالی‘ سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی‘ سرائیکی اور پٹھان مختلف قوموں میں بٹ گئے ہیں‘ حتی کہ یہ لسانی اور صوبائی عصبیت ان کی رگ وپئے میں اس قدر سرایت کرگئی کہ حکومتی مناصب وعہدے بھی اسی بنیاد پر دیئے جانے لگے اور آئے دن اسی بنیاد پر قتل وخون کا بازار گرم کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر دوسری قوموں کی عزتوں پر حملہ کیا جاتاہے‘ اسی پر تحریکوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور ان تحریکوں کے سرخیل وہی انسان ہیں جو انصاف وحقوق اور اتحاد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے اور مظلوموں کے ہمدرد ووفادار ہونے کے علمبردار اور ٹھیکے دار بنے پھرتے ہیں‘
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا اٹھتا ہے
جنہوں نے اختلاف وتعصب کو جلاء دے کر لسانی اور صوبائی بنیادوں پر خون کی ہولیاں کھیلیں‘ آج وہی قوم کوبے وقوف بنائے ہمدردی کا دعویٰ کرکے لیڈر اور قائد بنے ہوئے ہیں اور آج بھی وہی تعصبی نعرے لگ رہے ہیں۔حیرت ہوتی ہے ان متعصب لیڈروں پر جو” کڑوا کر یلا وہ بھی نیم چڑھا“ کے مصداق بن کر فرقہ واریت اور اختلاف کا ذمہ دار علماء کرام کو ٹھہراتے ہیں یعنی ”الٹا چور کو توال کو ڈانٹے“ یہی لوگ ہیں جو تعصبی لعنت کی نحوست میں گرفتار ہوکر شریعت اورعلماء کرام کی مخالفت اور استہزاء سے رطب اللسان ہیں اور داڑھی اور پردہ جیسے اسلامی احکام کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ خود رہبر ملت اور پیر طریقت جیسے مقدس نام اپنے لئے الاٹ کررہے ہیں‘ اور یہی رہبران قوم اس بات کے مدعی ہیں کہ پاکستان کی ترقی نہ کرنے کے ذمہ دار علماء کرام ہیں۔ عوام ان کرم فرماؤں سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر آپ نے ملک کے لئے کیا کیا؟ آپ کا ملکی ترقی میں کیا کردار ہے؟ آپ نے ملک کو سوائے اختلاف وتعصب کے کیا دیا؟ کیا یہی کارنامے ملک کی ترقی کا ذریعہ ہیں؟خدارا ہوش کے ناخن لیجئے! ہم بھی مسلمان اور آپ بھی مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اور ہم اس نبی کریم اکو ماننے والے ہیں‘ جنہوں نے ”انما المؤمنون اخوة“ کا علم بلند کرکے خون کے پیاسوں‘ جانی دشمنوں اور کٹر متعصبین کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ جوڑ دیا اور فرمایا کہ:
”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“۔(مشکوٰة:۱۲)
ترجمہ:․․․” سچا مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“۔ حضور ا نے تمام مسلمانوں کو ایک شخص کے مانند قرار دیا ہے‘ فرمایا:
”المؤمنون کرجل واحد ان اشتکیٰ عینہ اشتکیٰ کلہ وان اشتکیٰ راسہ اشتکیٰ کلہ“۔ (مشکوٰة شریف ص:۴۲۲)
ترجمہ:․․․”تمام مؤمنین فرد واحد کی طرح ہیں‘ اگراس کی ایک آنکھ میں تکلیف ہو تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے‘ اگراس کے سر میں تکلیف ہو تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے“۔
فرقہ پرستی اور تعصب کے درخت پر حضور ا یوں تیشہ چلا تے ہیں:
”لیس منا من دعا الی عصبیة ولیس منا من قاتل عصبیة ولیس منا من مات علی عصبیة“۔ (رواہ ابوداؤد‘ مشکوٰة:۴۱۸)
ترجمہ:․․․”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی طرف بلائے‘ تعصب کے طور پر لڑے اور تعصب پر مرے“۔ نبی کریم انے کٹر دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی ایسی تربیت واصلاح کی جن کی اخوت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ‘ ایک واقعہ عرض ہے کہ: عہد فاروقی میں یرموک کا میدان کار زار گرم ہے‘ زخمی پانی پانی پکار رہے ہیں‘ جب ایک زخمی کو پانی دیا جاتاہے تو دوسرا زخمی مجاہد تکنے لگتا ہے وہ بھی زخموں سے چور چور ہے اور پیاس سے تڑپ رہا ہے‘ یہ پہلا زخمی دوسرے مجاہد کو پانی پلانے کا اشارہ کرتا ہے‘ جوں ہی پیالہ دوسرے مجاہد کو ملتا ہے تیسرا مجاہد طالبانہ نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے‘ یہ بھی اپنے پیشرو کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے تیسرے مجاہد کو پانی پلانے کا اشارہ کرتاہے‘ پلانے والا تیسرے کے پاس پہنچتا ہے لیکن وہ دم توڑ چکا ہوتا ہے‘ دوسرے کے پاس لوٹتا ہے وہ بھی شہید ہوچکے ہوتے ہیں اور پہلے کے پاس آتا ہے تو وہ بھی جاں بحق ہوچکے ہوتے ہیں۔ دیکھئے! جانکنی کا عالم ہے‘ موت وحیات کی کشمکش ہے‘ مگر پھر بھی اخوت اسلامی کا مظاہرہ بلاشبہ نبی امی ا کی تربیت کا اثر ہے اور اسلامی اخوت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
بناکر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
تاریخ اسلامی کے اس روشن باب کوہم بھی دیکھیں اور اپنے گربیانوں میں جھانکیں! اسلاف کی اس اخوت اور بھائی چارے کو ہم نے ورثہ میں پایا یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پر شاعر کا یہ فقرہ چسپاں ہورہا ہو: تھے آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
محترم قارئین ! ہمیں اپنے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرنے اورگروہی عصیبتوں کو فنا کر دینے کی ضرورت ہے‘ تب ہمیں کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی:
بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی
مسلمانو! سوچو! کیا ہم نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا چھوڑ نہیں دیا؟ کیا ہم نے غیروں کی وضع قطع نہیں اپنا لی؟ کیاغیروں کا تمدن ‘ ان کے طور وطریقے نہیں اپنالئے؟ انہیں کی طرح تعصب وگروہوں میں بٹ نہیں گئے‘ بتایئے! کیا ان حالات میں ہم آگے بڑھ سکتے ہیں؟ ترقی کرسکتے ہیں؟ کیا اتفاق واتحاد کی دولت کے بغیر کوئی قوم کامیاب ہوسکی ہے؟:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
صحابہٴ کرام  کا تو یہ حال تھا کہ اسلام لانے کے بعد انہوں نے پشتوں کا جھگڑا منٹوں میں ختم کردیا اور ہم ہیں کہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے‘ انہیں میں پلے بڑھے پھر بھی ہماری عداوتیں ختم نہیں ہوتیں‘ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے اختلافات بھلا کر شیر وشکر ہوجائیں‘ ورنہ ہماری داستان نہ ہوگی داستانوں میں۔
آخر میں چند اشعار پر اس موضوع کا اختتام کرتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی‘ دین بھی‘ ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ‘ اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: خاندانی منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں نامی کتا بچے پر ایک نظر
Flag Counter