Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

5 - 10
قرآن کریم باری تعالی کے لا متناہی علوم کا خزانہ اور علماء امت کی قرآن کے متعلق کاوشیں
یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن قرآن کریم باری تعالی کے لا متناہی علوم کا خزانہ اور علماء امت کی قرآن کے متعلق کاوشیں


۱-باری تعالی کا فرمان ہے :
﴿أنزلہ بعلمہ﴾ (سورہ نساء)
ترجمہ: قرآن کو بھیجا ہے اپنے کمال علم سے۔
۲-﴿فاعلموا أنما أنزل بعلم اللہ﴾ (سورہ ہود)
ترجمہ :تو تم یہ یقین کر لو کہ یہ قرآن اللہ ہی کے علم سے اترا ہے ۔ ۳-اور اسی طرح ارشاد گرامی ہے :
﴿قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل أن تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مددا﴾ (سورہ کہف)
ترجمہ :آپ کہہ دیجیے کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر کی روشنائی ہو تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے اگرچہ اس سمندر کی مثل ایک اور سمندر ہم لے آئیں۔
۴-ایک اور جگہ فرمایا کہ :
﴿ولو أن ما فی الارض من شجرة أقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعة أبحر ما نفدت کلمات اللہ﴾ (سورہ لقمان)
ترجمہ : اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور یہ جو سمندر ہے اس کے علاوہ سات سمندر اس میں اور شامل ہو جائیں تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں ۔ یہ وہ چار مقامات ہیں جہاں باری جل شانہ نے قرآنی علوم کی شان یوں فرمائی ہے کہ یہ قرآن ایسے علم الہی کا منبع ہے جو کبھی نہیں ختم ہونے والے ، اوراس لا متناہی علم الہی کی مثال باری تعالی اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ اس چار اطراف پھیلی زمین کے تمام درختوں سے قلم تیار کیے جائیں اور کرہٴ ارض کے تمام سمندروں کو سیاہی میں بدل دیا جائے اوراب اس وسعت کے بارے میں ذرا سوچیے اور تصور کیجیے کہ صرف ایک درخت سے ہی کتنے قلم بنائے جاسکتے ہیں اور پھر اس بے پایاں سیاہی کو سوچیے جو سمندروں سے بنے اور اس کے قطرات کی مقدار کا اندازہ لگایے اور غور کیجیے کہ ہر ہر قطرے سے کیا کچھ لکھا جائے گا ، صرف ایک بحرہادی کی مسافت جغرافیائی سائنس دانوں نے ساٹھ ملین مربع میل اندازہ کی ہے ، پھر دوبارہ ذرا اس پر غور کیجیے کہ یہ اتنے ڈھیر سارے قلم اور یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی!چنانچہ باری تعالی کے اس عظیم علم کے مکمل احصا اور احاطہ سے قبل ہی ساری سیاہی ختم ہوجائے گی اور تمام قلم خشک ہوجائیں گے، خدا کی شان دیکھیے!قرآن کے متعلق کیا ہی بہترین مثال خود قرآن میں ذکر فرمائی اور واقعی یہ صرف اسی علیم وخبیر کا کلام ہے کسی شاعر کی سخن گوئی نہیں ، جیسا کہ قرآن میں فرمان عالی شان ہے کہ:
﴿وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ان ہو الا ذکر وقرآن مبین﴾(سورہٴ یٰسین )
ترجمہ:اور ہم نے آپ کو شاعری کا علم نہیں دیا اور وہ آپ کے شایاں بھی نہیں‘ وہ تو محض نصیحت اور آسمانی کتاب ہے ۔ جب اللہ جل شانہ کا علم ایسا بلند اور جلیل القدر ہوا اورپھر قرآن کو اپنے اسی علم سے اتاراتو یہ بات تو مسلم ہی ہے کہ متکلم جب بھی کلام کرتا ہے اپنے علم اور مرتبے کا پاس رکھتے ہوئے کرتا ہے ،اس سے واضح ہوا کہ قرآن جن حقائق اور اشارات ربانیہ کا مجموعہ ہے اس کے علوم کا احاطہ بجز اس کے اتارنے والے کے اور کوئی نہیں کرسکتا، اور یہ خداوند تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ ایسے خصائص وعلوم پر مشتمل قرآن نازل فرمایا اور جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا کہ:
جمیع العلم فی القرآن لکن تقاصر عنہ افہام الرجال
ترجمہ: قرآن کریم میں ہر علم ہے لیکن لوگوں کی عقل وفہم ان کے ادراک سے قاصر ہیں قرآن کریم کے متعلق قرآنی تعبیرات کے بعد اب وہ تعبیرات ملاحظہ ہوں جو کائنات انسانی میں سب بڑھ کر کمال علم رکھنے والے انبیاء کے سرداررسول عربی ہاشمی ا نے اپنی حکیمانہ احادیث اور اپنے مبارک اقوال میں ارشاد فرمائیں ۔ ”جامع ترمذی“ میں حارث اعور حضرت علی سے طویل حدیث میں نقل کرتے ہیں جن کے الفاظ یوں ہیں:
”ولایشبع منہ العلماء ولایخلق علی کثرة الرد ولاتنقضی عجائبہ“
ترجمہ :علماء علوم قرآنی سے کبھی سیر نہ ہوں گے اور نہ ردود وشبہات کی کثرت سے قرآن بوسیدہ ہوگا اور نہ ہی اس کے عجائبات کبھی ختم ہوں گے۔ اور ایک روایت میں ”ولایملّ قاریہ “ بھی ہے (یعنی اس کا پڑھنے والا کبھی تنگ دل نہ ہوگا)یہ حدیث ابن ابی شیبہ‘ اسحاق‘ دارمی اور بزار وغیرہ نے بھی نقل کی ہے جیساکہ علامہ زیلعی نے ” تخریج احادیث الکشاف “ میں جو” تلخیص الحافظ ابن حجر ذیل الکشاف“ کے نام سے طبع ہوچکی ہے ذکر فرمایاہے اور حضرت ابن عباس کی حدیث جو ابن ابی حاتم نے نقل کی ہے جسے علامہ سیوطی نے ”الاتقان “میں ذکر کیا ہے:
”القرآن ذو شجون‘ وظہور وبطون‘ لاتنقضی عجائبہ ولاتبلغ غایتہ“
ان کلمات نبویہ (لاتنقضی عجائبہ ولاتبلغ غایتہ)پر ذرا غور کیجئے کہ علوم قرآنی کے متعلق کتنی کشادگی اور گہرائی ان میں بیان کی گئی ہے ، قرآن کے متعلق اس قسم کی احادیث میں حضرت علی مرتضی بہت نمایاں رہے ہیں ،انہی کے بارے میں رسول اقدس ا نے فرمایا کہ :أنا مدینة العلم وعلی بابہا (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ) حضرت علی کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس کا مرتبہ ہے جو فضل ودانش اور علوم قرآنی کے بحر بے بیکراں ہیں جن کو رسول اللہ ا ان الفاظ کے ساتھ دعا دیتے ہیں کہ:
”اللہم فقّہہ فی الدین وعلّمہ التأویل“
ترجمہ :اے خداوند! ان کو دین کی سمجھ اور قرآنی تاویلات وتشریحات کا علم سکھلا دیجئے ۔ پہلی حدیث کے لئے شاہد قادسیہ کے مفتی اعظم حضرت ابن مسعود کی وہ حدیث بھی ہے جس کو حاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت عبد اللہ  سے نقل کیا کہ رسول اقدس ا نے فرمایا:
ان ہذا القرآن مادبة اللہ فاقبلوا من مادبتہ ما استطعتم ان ہذا القرآن حبل اللہ ونور مبین ‘ والشفاء النافع‘ عصمة لمن تمسک بہ ونجاة لمن تبعہ لایزیغ فیستعتب ولا یعوج فیقوم ولا تنقضی عجائبہ ولایخلق من کثرة الرد اتلوہ فان اللہ یاجرکم علی تلاوتہ کل حرف عشر حسنات‘ اما انی لا اقول ”الم“حرف ولکن الف ولام ومیم “
ترجمہ :یہ قرآن بیشک خداوند کریم کا خوان ہے جتنی استطاعت ہو اس کی جانب بڑھ جاؤ‘ بلاشبہ یہ قرآن خدا کی رسی اورواضح نورہے‘ نفع مند وشافی ہے‘ جو اس کو پکڑے رہے اس کے لئے حفاظت ہے اورجو اس کی اتباع کرے اس کے لئے نجات ہے،اس میں کوئی کجی یا ٹیڑھ پن نہیں کہ جس کو سیدھا کیاجائے ،اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے اور ردود وشبہات کی کثرت سے پرانا نہ ہوگا اوراس کی تلاوت کیا کرو خدا تعالی اس کی تلاوت پر تم کو اجر دیں گے ہر حرف پر دس نیکیاں ملیں گی میں یہ نہیں کہتا کہ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ الف ‘ لام‘ میم (یہ تین حروف ہوئے)۔ حضرت معاذ جومحدث طبرانی کے نزدیک صحابہ کرام میں حلال وحرام سے متعلق سب سے زیادہ احادیث کے جاننے والے تھے ان سے مروی ہے،اس حدیث کو علامہ زیلعی نے ”تخریج احادیث الکشاف“ میں اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کی ملاقات ہوئی تو حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا: تمہارا اور میرا علم خدا کے علم کے سامنے اس چڑیا کی چونچ میں بھرے پانی کے مانند ہے جو اس نے سمندر سے لیا ،علماء کرام اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تو محض ایک مثال ہے ورنہ اللہ کے لا متناہی علم کے سامنے متناہی یعنی سمندر کی کیاحیثیت۔ سہل بن عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قرآن کے ہرہرحرف کے ہزار مفہوم ومعانی بھی معلوم ہوجائیں تب بھی باری تعالیٰ کے قرآن کریم میں ودیعت کردہ اسرار کی انتہاء کو نہیں پہنچا جاسکتا اس لئے کہ یہ اللہ جل شانہ کا کلام ہے جوکہ اس کی صفت ہے،تو جس طرح اللہ رب العزت کی انتہاء نہیں اسی طرح اس کے کلام کے مفاہیم کی بھی کوئی انتہاء نہیں اور ہر شخص اس کواتنا ہی سمجھ سکتا ہے جس قدر اللہ اس پراس کے اسرار ورموز عیاں کرے، اورجبکہ خدا کا کلام مخلوق بھی نہیں ہے تو اس کے لامتناہی مفہوم پر حادث اور مخلوق عقول کیونکر پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد اب قرآنی علوم کے متعلق صحابہ کرام سے منقول اقوال میں سے شہر علم کے دروازے حضرت علی کا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیں کہ صرف سورہ فاتحہ کی تفسیر میں اتنا کچھ لکھا جاسکتا ہے جو ستر اونٹ کا بوجھ ہو، امام سیوطی  نے اس قول کو بروایت محدث عارف ابن ابی جمرہ نقل فرمایا ہے، امام غزالی نے اسی کو احیاء علوم الدین میں ذکر کیا نیز علامہ جلال الدین سیوطی نے تو اس کی قابل فہم شرح بھی فرمائی ہے اور راقم کے نزدیک یہ حدیث تو بالکل بدیہی طور پر واضح ہے اس میں چند اں غور وفکر کی ضرورت نہیں اس لئے کہ فاتحہ تو ام القرآن ہے اور جن باتوں سے قرآن تعرض کرتا ہے ان سب کا اجمالی بیان سورہٴ فاتحہ میں موجود ہے، جیسے کہ ایک بڑے درخت کے تمام اجزاء بیج کے مرہون منت ہوتے ہیں، چنانچہ اسی سورہٴ فاتحہ میں اولاً ذات ، صفات و اسماء باری تعالی اور تمام عالَموں کے متعلق کلام کیا گیا، پھر ہرہر عالَم سے باری تعالیٰ کی ربوبیت کا رشتہ اور ان میں بکھرے عجائب وغرائب کا بیان ہوا اور تمام عالَموں کا اعداد وشمار اور ان میں موجود عجائبات کی تعداد کا جاننا بلکہ ایک ہی عالَم کے متعلق معلومات کا حصول ناممکن اور محال ہے ،اگر دیکھا جائے تو صرف حیوانات ہی کی ہر صنف کے متعلق معلومات کے احاطے کے لئے کئی دفاتر پر مشتمل دائرة المعارف (انسائیکلوپیڈیا )درکار ہیں۔ اس کے بعد روز قیامت اوراس کے عجیب وغریب حالات اور اس کی ہولناکیاں اور ہیبت انگیز احوال کا بیان ہے جس کی طرف باری تعالیٰ کے قول: ﴿مالک یوم الدین﴾میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بعد ازاں شرعی احکامات‘ عبادات اور جن چیزوں کی طرف انسان اپنی زندگی میں محتاج ہوتا ہے ان کا بیان ہوا۔ نیز انبیاء ومقربین اور شہداء وصالحین کا تذکرہ ہوا اور گمراہ قوموں اور باطل فرقوں کے متعلق بتایاگیا۔ اور اگر باری تعالیٰ کسی ایک جزء ہی کے متعلق علوم وحقائق ربانیہ کسی انسان کے لئے کھول دیں تب بھی اس کی ساری زندگی ان ابحاث کے احصاء میں تمام ہوجائے گی۔ ربوبیت باری تعالیٰ کی بعض نازک اور اہم بحثیں نیز آج کے سائنسدانوں کی پیش کردہ ریسرچ کے مطابق ملکیت باری تعالیٰ کی وسعت کے متعلق میں نے دوران درس بھی کچھ وضاحت کی تھی۔ مزید تفصیلات کے لئے امام سیوطی کی کتاب ”الاتقان“ کی قسم نمبر ۶۵ میں جو قرآن سے مستنبط علوم کی بحث سے متعلق ہے دیکھی جاسکتی ہے۔ پھر صحابہ کی جماعت کے بعد سرداران امت کبار تابعین کے ان اقوال کو دیکھئے جو قرآن کی شان کے متعلق انہوں نے ارشاد فرمائے اور ساتھ ہی علماء امت کی بڑی بڑی تالیفات وتصنیفات کو دیکھئے کہ ان حضرات نے قرآنی اسرارورموز کو واضح کیا جن میں سے کچھ میں بھی آئندہ ذکر کروں گا (ان شاء اللہ)۔ اس موضوع پر امام زاہداکوثری نے اپنے مجموعہٴ مضامین ”مقالات الکوثری“صفحہ ۴۰۳میں جو ابحاث ذکر کی ہیں وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ چونکہ اس رسالہ(یتیمة البیان) کی تالیف کے وقت میں امام کوثری سے متعارف نہ تھا اور نہ ان کے مضامین منصہٴ شہود پر آئے تھے اس لئے میں ان کی باتیں اس میں ذکر نہ کر سکا ، ان تمام ابحاث کو میں نے بوقت درس تفصیل سے بیان کردیا تھا اور علوم قرآنی کی وسعت پر دلائل وامثال سے میں ان محاضرات میں بحث کر چکا ہوں۔ اس بارے میں مزید تفصیلات کے لئے امام غزالی کی کتاب” احیاء علوم الدین“ کے چوتھے باب جو قرآن دانی کے بیان میں ہے اس کا پہلا حصہ دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح علامہ زبیدی کی تحریر کردہ احیاء کی شرح ”الاتحاف“ بھی اس کے لئے مفید ہوگی۔باری تعالیٰ کے ارشاد گرامی : ﴿لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم﴾ میں واضح اشارہ ملتاہے کہ قرآنی علوم لا متناہی ہیں‘ چنانچہ قرآن میں ظاہری علوم کے متعلق صرف اصول وکلیات اور باطنی علوم کے متعلق لطیف اشارات و نکات ذکر کیے گئے ہیں جو گرانقدر معارف وحقائق پر دلالت کرتے ہیں ۔ خلاصہٴ بحث یوں ہوا کہ علوم القرآن وہ علوم کہلاتے ہیں جن کا تعلق قرآن کریم کے ان مقاصد سے ہو جو قرآن کے ظاہری مطالب اور اس میں پنہاں حقائق سے وابستہ ہوں اور ان مقاصد ومضامین کا تعلق بندوں کی رہنمائی سے ہو نیز ان کے مبدأومعاد کے متعلق تنبیہ ہو اور دونوں جہاں کی حقیقی سعادت مقصود ہو،یا پھر وہ اہم علوم جو قرآن کریم کے خفیہ محاسن کی نقاب کشائی کرنے والے ہوں ۔ صاحب ”مناہل العرفان “ نے علی بن ابراہیم حوفی متوفی ۳۳۰ھ سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک علوم القرآن سے متعلق جتنی تالیفات کی بابت انہیں معلوم ہوسکا وہ ذکر فرمادی ہیں ، مکمل معلومات کے احاطے کے لیے وہاں رجوع کیا جائے ۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: فرقِ باطلہ اور ان کے عقائد
Flag Counter