Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

2 - 10
خاندانی منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں نامی کتا بچے پر ایک نظر
خاندانی منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں نامی کتابچے پر ایک نظر

زلزلہ زدہ علاقوں میں رفاہی وسماجی خدمات انجام دینے والے بعض حضرات کی وساطت سے ”خاندانی منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں“ نامی ایک کتابچہ دیکھنے کو ملا‘ جس کا موضوع مروجہ خاندانی منصوبہ بندی ہے۔ اس پروگرام کے تعارف وترویج کے لئے سرکاری سطح پربھی باقاعدہ ایک محکمہ” بہبودِ آبادی“ کے نام سے قائم ہے‘ مختصر یہ کہ یہ پروگرام ایسے ممالک میں جاری وساری ہے جو اقتصادی لحاظ سے پسماندہ اور غریب ومفلس ہیں کیونکہ خاندانی منصوبہ بندی کے اغراض واہداف کے حصول (یعنی قلیل وسائل والے ممالک کی آبادی کا تناسب وسائل سے بڑھا ہوا ہرگز نہ ہو) اور اس پروگرام کی پذیرائی کے لئے پسماندگی اور غربت کوایک اچھا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ بہرکیف مذکورہ بالا کتابچہ ․․․خاندانی منصوبہ بندی اسلام کی نظر میں․․․ میں اپنے اغراض واہداف کی حمایت اور اس پروگرام کے جواز اور اس کی ضرورت پر شرعی دلائل اور فتاویٰ کا نہ صرف یہ کہ سہارا لیا گیا ہے‘ بلکہ پوری طرح سے یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ موجودہ خاندانی منصوبہ بندی شریعت کا ایک اہم ترین دینی وسماجی فریضہ ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے یہ کتابچہ اور اس کے علاوہ اس نوعیت کے بے شمار پمفلٹ اور رسائل کی نشر واشاعت باقاعدہ سرکاری خرچ یا غیر ملکی این جی اوز کے تعاون سے ہورہی ہے۔ ان رسائل وکتابچوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے جو شرعی دلائل اور فتاویٰ نقل کئے گئے ہیں‘ ان میں سے کسی فتویٰ میں کوئی ٹھوس دلیل یا کسی مستند کتاب سے فتویٰ کے اصولوں کے مطابق کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا گیا‘ تاہم ایک عامی آدمی کے لئے کسی بات پر اعتماد کے لئے قرآن وسنت کا نام ہی کافی ہے ممکن ہے سادہ لوح مسلمان کتابچہ میں پیش کردہ حوالوں اور دلائل سے متاثر ہوکر کسی قسم کی بے چینی اور تذبذب کا شکار ہوئے ہوں‘ چنانچہ ان کی خیر خواہی اور رہنمائی کے لئے ہم عرض کرتے ہیں کہ:
۱- قرآن وسنت اور شریعت اسلامیہ کی تعبیر وتشریح قرآن وسنت کے حاملین اور شریعت اسلامیہ کے محافظین ومبلغین کی صائب ومعتبر ہوگی اور وہ سب کے سب مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کو اسلام کی نظر میں ناجائز سمجھتے ہیں۔ نہ کہ مغرب زدہ حکومتوں اور عیسائیت ویہودیت کی تبلیغ کرنے والی غیر مسلم این جی اوز کی۔
۲- جو سادہ لوح مسلمان بہبود آبادی کے پروپیگنڈہ کا شکار ہورہے ہیں‘ انہیں غور کرنا چاہئے کہ اس پروگرام کے محرکین کون سے ممالک ہیں‘ کیا وہاں بھی اس پروگرام کو اسی شد ومد سے قومی ‘ملی اوردینی ضرورت کے طور پر پیش کیا جاتااوراس پر عمل درآمد کے لئے اسی قدر اصرار ہوتا ہے؟ یا یہ ضرورت صرف پسماندہ مسلمان ممالک کے لئے ہے؟
۳- جو مغربی ممالک اس پروگرام کے معاون اور محرک ہیں‘ کیا ان کے لئے یہ اہم نہیں کہ غریب ممالک میں جائز طریقوں سے نسل انسانی کی افزائش کو روکنے اور کم کرنے کے بجائے اپنے ہاں کم از کم ناجائز طریقوں سے جنم لینے والوں کا راستہ روکیں اور ان کی افزائش کو کم کریں۔
۴- کیا فیملی پلاننگ کا مسئلہ صرف پسماندہ علاقوں اور غریب خاندانوں کا ہے یا ملکی اشرافیہ بھی اس کا احساس رکھتی ‘ اور خود اس پر عمل کرتی ہے؟ اگر وہ خود اس پر عمل نہیں کرتی تو صرف عوام کو اس کار خیرمیں شریک ہونے کے لئے اصرار کیوں؟
۵- جن طبقوں کی طرف سے یہ کتابچے اور شرعی دلائل سے مزین پمفلٹ چھاپے اور تقسیم کئے جاتے ہیں (جن میں صرف یہ کہ مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کا جواز ‘ بلکہ دینی ضرورت اور شرعی حکم کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے)۔
کیا یہ طبقے واقعةً دین اور اہل دین کے خیر خواہ ہیں؟ کیا خاندانی منصوبہ بندی کو پیش کرنے کا مقصد دین کا حکم عام کرنا اور لوگوں سے دین پر عمل کرانا مقصود ہے؟ یا دین کے نام پر ان حوالوں کو اپنے غیر شرعی مقاصد کے لئے استعمال کرنا اور عوام کو دھوکہ دینا ہے؟ اگر ان لوگوں کے پیش نظر واقعةً دینی احکام کی ترویج ہو اور یہ لوگ خود بھی دیندار ہوں‘ اور ان کا ہدف دین واہل دین کی خیر خواہی ہو‘ تو پھر یہ دیکھنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت وتائید میں پیش کردہ حوالہ جات (صحیح وعدم صحیح سے قطع نظر) کے علاوہ بقیہ دینی احکام پر ان کا کتنا عمل ہے‘ کیونکہ شریعت کے اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے احکام واعمال ہیں‘ جن کے بارے میں کسی ادنیٰ مسلمان کے بھی کسی قسم کے تحفظات نہیں ہیں‘ کیا ان احکام واعمال کی خدمت کا جذبہ بھی یہ لوگ اس قدر رکھتے ہیں یا نہیں؟ مثلاً ارکان خمسہ :ایمان‘ نماز‘ زکوٰة‘روزہ‘ اور حج وغیرہ کو رائج کرنے اور منکرات جیسے چوری‘ ڈاکہ ‘ بدکاری‘ بے حیائی‘ بے پردگی اورشراب نوشی وغیرہ کے ازالہ اور انسداد کے لئے بھی یہ طبقہ اتنا ہی مخلص ہے‘ جتنا خاندانی منصوبہ بندی کے لئے ہے‘ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسانہیں تو پھر ہر مسلمان بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی والوں نے دینی حوالوں پر مشتمل جو کتابچے اور پمفلٹ تقسیم کئے ہیں‘ ان کا مقصد‘ دین کو اپنے مذموم عزائم کے لئے ڈھال اور سادہ لوح مسلمان کو ان حوالوں کے ذریعہ دھوکہ دینا ہے۔ ان کے خفیہ مذموم عزائم کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سرفہرست مسلمانوں کی افرادی قوت کا راستہ روکنا ہے‘ اس لئے کہ مغربی دنیا جس طرح مسلمانوں کو سیاسی‘ اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور کرکے ان کی سیاست‘ اقتصاد اور معیشت ومعاشرت پر حاوی ہوچکی ہے‘ اسی طرح مسلمانوں کی افرادی قوت کو محدود تر کرنے کے لئے وہ کوشاں ہے۔ بھلا یہ کونسی عقل کی بات ہے کہ غربت وافلاس کو مٹانے اور روزگار کے وسائل واسباب مہیا کرنے کی بجائے غربت وافلاس زدہ طبقوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹایا جائے‘ بلکہ ان کے لئے دنیا میں آنے کے راستے ہی مسدود کر دیئے جائیں۔ یہ کون سا انصاف ہے کہ خود اپنے ممالک کی آبادی کے لئے غیر ممالک کے لوگوں کو نیشنلٹی دی جائے‘ بلکہ بغیر باپ کے اولاد پیداکرنے کو بھی عارنہ سمجھا جائے اور مسلمانوں کے ہاں جائز اولاد کی پیدائش کو دینی مزاج کی خلاف ورزی قرار دیا جائے‘ جب کہ حضور ا نے زیادہ اولاد پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اسے اپنی امت پر فخر کا ذریعہ بتایا ہے۔ باقی آبادی کے پھیلاؤ اور معیشت کے قلت وسائل کے جن خدشات اور مفروضوں کو بنیاد بناکر دھوکہ دیا جاتاہے ان کو سچ اور حقیقت باور کرانا انتہائی مشکل ہے‘ ذرا غور فرمایئے! کہ ایک انسان سے آج کروڑوں‘ اربوں‘ کھربوں انسان دنیا میں کیسے آباد ہوئے‘ کیا حضرت آدم علیہ السلام اپنی اس پوری اولاد کے لئے وسائل معیشت اور بہبود آبادی کا کوئی پیشگی پلان اور منصوبہ تیار فرماکر دنیا سے گئے تھے؟ دور جانے کی بجائے ہرانسان اپنے رہن سہن اور معاش اور ذرائع معاش کا تقابل اپنے آبا واجداد کے رہن سہن اورذرائع معاش سے کرے‘ کیا آپ کے پاس موجود جملہ اثاثہ جات اور روزگار کے ذرائع آپ کے آباء و اجداد کی پیشگی پلاننگ کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں یا یہ مواقع آپ کے اپنے تلاش کردہ ہیں اور آپ کی تگ ودو بھی اس میں شامل ہے۔ یقینا ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جن کی آبادی ومعیشت کا انحصار صرف اور صرف ان کے آبا ء واجداد کی پلاننگ پر ہو ‘ بلکہ اگر ایک عام انسان کی سطح پر آکر سوچاجائے تو یہ بات بآسانی سمجھ آسکتی ہے کہ الحمد للہ! جوں جوں آبادی اور افراد بڑھ رہے ہیں‘ خدا کی زمین اور خدا کے خزانے خدا کی مخلوق پر تنگ ہونے کی بجائے وسیع ہوتے جارہے ہیں۔ ہم میں سے کس کا مشاہدہ نہیں کہ چند گز زمین کے ٹکڑے پر کئی منزلہ عمارت کیسے تعمیر ہوتی ہے‘ اور اس میں کتنے لوگوں کی آبادی سما جاتی ہے‘ کیا یہ خدائی عطاء اور الٰہی انتظام کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح روز مرہ زمین اپنے خزانے اگل رہی ہے‘ ایک ایک خزانہ کتنے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بن رہا ہے‘ کیا آپ نے غور فرمایا کہ کچھ عرصہ پہلے دنیا تیل اور گیس سے نا آشنا تھی‘ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین نے یہ خزانے اگلے‘ اور اس وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح جدید ایجادات کی ایک چھوٹی سی مثال موبائل فون کو لیجئے! چند برس قبل موبائل فون کا وجود نہیں تھا‘ اس کی ایجاد اوراس کے عام ہونے کے بعد کتنے انسانوں کے لئے روزگار کے مواقع اور ذرائع فراہم ہوئے‘ موبائل ایجاد کرنے والی مختلف کمپنیوں سے وابستہ افراد ‘ موبائل فون کے پرزہ جات میں استعمال ہونے والی دھاتوں کے فراہم کنندگان سے لے کر موبائل کی دوکانیں‘ ہر دکان پر کام کرنے والے مختلف لوگ‘ موبائل کے خریدار پھر موبائل کارڈکی خریدو فروخت میں مصروف کار لوگ‘ پھر موبائل ٹھیک کرنے والوں تک کے اعداد وشمار کون بتا سکتا ہے؟ بتایئے! چند برس قبل جب موبائل فون جیسے وسائل معیشت کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘ کیا اس وقت وسائل معاش کی عدم فروانی کا بہانہ بناکر موبائل فون سے وابستہ کروڑوں انسانوں کی دنیا میں آمد کو بقیہ انسانوں کے لئے بوجھ قرار دیتے ہوئے نسل کشی کی نذر کردینا جائز ہوسکتا تھا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سچ یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کی مخلوق ‘ بلکہ اشرف المخلوقات کے بڑھنے سے خدا کی زمین اور اس کے خزانے کم نہیں ہوتے‘ بلکہ حق تعالیٰ شانہ نے انسانیت کی پیدائش سے قبل اس کے رہن سہن اور خورد ونوش کے اسباب ووسائل کو پیدا فرمادیا ہے۔ اب یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان اسباب اور معاش کے وسائل تک پہنچنے اور ان سے مستفید ہونے کے لئے تمام رعایا کو عدل وانصاف اور انسانی ہمدردی کے ساتھ مساوی مواقع فراہم کریں‘ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اگر تمام انسانوں کو اسباب معاش تک رسائی کے مساویانہ مواقع فراہم کئے جائیں تو ہر انسان اپنی استطاعت کے مطابق ان مواقع سے اپنی ضروریات کا انتظام کر سکے گا اور وہ معاشرہ پر کسی قسم کا بوجھ نہیں بنے گا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پوری دنیا کے اسبابِ معاش پر تو دنیا کا سرمایہ دار وجاگیردار طبقہ قابض ہے‘ سرمایہ کی گردش ان کے ہاتھوں سے باہر آتی نہیں‘ جس کے نتیجہ میں سرمایہ دار مزید سرمایہ دار اور غریب ونادار مزیدغریب ہوتا چلاجارہا ہے‘ بلکہ یوں کہنا قطعاً غلط نہیں کہ اگر دنیا کے سرمایہ داروں کے زیر کفالت پلنے والے صرف پالتو جانوروں پر خرچ ہونے والا بجٹ اکٹھا کرکے کسی غریب ملک میں مساویانہ تقسیم کیا جائے تو بلا مبالغہ اس ملک کی معیشت معمول پر آسکتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں پلنے والے گھوڑوں اور اسلام آباد میں پرورش پانے والے کتوں پر خرچ ہونے والی رقم اگر اکٹھی کرلی جائے تو ملک کے کسی پسماندہ علاقہ کے لئے یقینا بہترین معاشی پلان تیار ہوسکتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملہ کے اصل عوامل اور محرکات پر غور کرنے کی بجائے اس کے ظاہری اثرات کے درپے ہوجاتے ہیں‘ بلکہ محض انسانیت کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو ہمارے لئے انتہائی شرم وعار کی بات ہے کہ ہم غربت وافلاس اورمعاشی تنگی سے بچنے کے لئے دوسرے انسانوں کی دنیا میں آمد کے راستے مسدود کرنے کی پلاننگ شروع کردیں ‘ بلکہ انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم غریب ‘مفلس اور تنگدست کی غربت اور افلاس کے اسباب پر غور کریں اور ان کے ازالہ کے لئے پلاننگ کریں‘ لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے اورانہیں ان مواقع تک پہنچنے کی آسان تدبیریں سوچیں اور وسائل معاش تک پہنچنے کے لئے تمام انسانوں کو یکساں طور پر انصاف کے ساتھ مواقع فراہم کریں۔ مزید یہ کہ نسل انسانی کو محدود کرنے اور غریب ومفلس کے لئے صفحہٴ ہستی کو تنگ کرنے کے لئے جتنے وسائل خرچ کئے جارہے ہیں‘ اگر یہی اخراجات غریبوں میں خوراک وپوشاک کے طور پر تقسیم ہوجائیں تو اس سے بھی غربت وافلاس کی شرح میں کافی کمی آسکتی ہے۔ اگر غربت وافلاس کے اسباب پر سوچے بغیر غریب ومفلس کو ناپید کرنے کی پلاننگ ہوتی رہی تو آپ کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جائے گی اور غریب ومفلس کا اضافہ سرمایہ دار معاشرہ پر بوجھ بنتا چلا جائے گا‘ پھر پورے معاشرے سے غربت وافلاس اور تنگی کے بد نما داغ کو دھونے کے لئے صرف ہائیڈروجن بم نہیں‘ بلکہ ایٹم بم بھی استعمال کرنے پڑیں گے۔ خدا بزرگ وبرتر انسانوں کو فہم عطا کرے‘ ان کی معاش کو بہتر بنائے۔ کفر وناسمجھی کے اندھیروں سے نکال کر ایمان وسمجھ کی روشنیاں نصیب فرمائیں ‘ آمین․
نوٹ: مذکورہ بالا مضمون دھوکہ بازوں کا کافی وشافی جواب ہے‘ بندہ دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو زائغین کی رہنمائی اور ہدایت کا ذریعہ بنا ئے۔
مفتی عبد المجید دین پوری مفتی انعام الحق مفتی محمد شفیق عارف مفتی محمد عبدالقادر
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ جولائی ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: شریعت کے نام پر شریعت کی مخالفت پس پردہ محر کات اور علل و اسباب
Flag Counter