بقیع کا ایک واقعہ
اس سلسلے کا ایک ارتسام ذہنی ایسا ہے جو مٹائے نہیں مٹتا، بقیع کی جنت کی سیر میں تنہا مصروف تھا کہ اچانک ایک سرخ و سپید چھریرے بدن والے نوجوان کلّہ سیاہ داڑھی سے بھرا ہوا، سامنے سے گزرتے ہوئے معلوم ہوئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا، میں نے ان کو سلام کیا۔ سلام سے راہ و رسم کی ابتدأ ہوئی دریافت سے معلوم ہوا کہ مراکش وطن ہے۔ مجھ سے پوچھا گیا تو کہاں کا ہے؟ ہند، جواب دیا گیا۔ اسی کے بعد واقعہ پیش آتا ہے۔ مراکشی نوجون نے عربی میں کہا کہ ہندوستان پر تو انگریزوں کی حکومت ہے، ہاں کہتے ہوئے فقیر نے عرض کیا کہ مراکش پر بھی تو فرانس قابض ہے۔ اس فقرے کے بعد پھر کیا ہوا؟ میں نے دیکھا کہ نوجوان مراکشی مجھ سے لپٹا ہوا ہے سامنے قبہ خضرأ تھا اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلبلاتے اور چیختے ہوئے وہ کہہ رہے تھے یا رسول اللہ؟ ان امتک فی الاسر فی اسر النصاریٰ۔ ( یا رسول اللہ آپ کی امت قید و بند میں گرفتار ہے نصاریٰ کی قید و بند میں ) وہ بھی رو رہے تھے، اور جس سے لپٹے ہوئے تھے وہ بھی رو رہا تھا، دونوں کی التجا کا رخ ایک ہی طرف تھا،