گاڑی رکی، سامنے مسجد تھی، مسجد کے پاس صاف و شفاف پانی سے بھری ہوئی ایک کافی عریض و عمیق باوڑی ۱؎ تھی، خوب نہائے تیرے اور مسجد میں آ کر احرام باندھا، الفاظ کہاں ہیں جو شکر و امتنان کے جذبات کی ترجمانی کی گنجائش رکھتے ہوں ؎
جو کچھ کہ ہوا ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ کہ ہو گا تیرے کرم سے ہو گا!
مدینہ منوّرہ کی منزل ختم ہو گئی، رسول کے دربار سے باریاب ہو کر اب اللہ کے بندے اللہ کے دربار میں تھے جس کا قصہ ان شاء اللہ دوسرے حج نمبر میں زندگی نے وفا کی تو سنایا جائے گا۔
مدینہ منوّرہ میں آستانہ نبوت کبریٰ کے سوا دوسرا مقام جہاں زمین پر وہ سب کچھ مل جاتا تھا جو شاید آسمانوں میں بھی نہ ملے۔ وہ جنت البقیع کی خواب گاہیں تھیں جن جن کی تلاش تھی، سب وہیں مل جاتے تھے۔ صبح و شام اس کا پھیرا ہوتا تھا۔ اُحد کے دامن میں بھی گذر کا موقعہ دیا گیا۔ عقیق کی ندی جو دامن احد میں گویا ایک برساتی نالہ ہے۔ اس کے پانی سے وضؤ کیا۔ ایک دن مدینہ میں بارش کا لطف بھی حاصل ہوا۔ مسجد نبوی کی میزاب کے نیچے غسل کرنے والوں نے غسل کیا۔ الغرض ایک مہینہ تین دن کی یہ مدت زندگی کی ایسی مدت تھی، جس کی نظیر پچاس ساٹھ سال کی طویل مدت میں نہ ملی ہے نہ مل سکتی ہے۔
------------------------------
(۱) کنواں