پیش لفظ
از حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی
اقباؔل مرحوم نے مدینہ طیبہ کی اُس حاضری پر جو انہوں نے عالم تخیل اور دنیائے جذب و شوق میں اپنے اُس زار و نزار اور ناتواں جسم کے ساتھ نہیں جس کے متعلق انہوں نے حدی خواں ساربان سے کہا تھا کہ وہ اونٹ کو بہت تیز نہ لے چلے؏
کہ راکب خستہ و بیمار پیر است
اپنی اُس روح کے ساتھ جو خود انہی کے الفاظ میں زندگی کی طرح "ہر دم جواں، ہر دم دواں " ہے حاضری کا شرف حاصل کیا تھا، یہ دو۲ عارفانہ اور عاشقانہ شعر کہے ہیں
حکیماں رابہا کمتر نہاوند بناواں جلوۂ مستانہ داوند
چہ خوش بختئے چہ خرم روزگارے درسلطان بہ درویشے کشادند
واقعہ بھی یہی ہے کہ سفر حج سفر عشق ہے، صحت و ادائیگی فرض تو ایک خالص شرعی اور فقہی مسئلہ ہے اور قبولیت کا معاملہ بھی بندہ اور اللّٰہ کے درمیان ہے،" فضولی درمیاں کیست"(بیچ میں بولنے والا کون؟) لیکن اس کے حقیقی روحانی فوائد و فیوض جبھی حاصل ہوتے ہیں جب سفر عاشقانہ بلکہ مستانہ ہو۔ اسی طرح مدینہ کی حاضری اہل قلوب کے یہاں وہی معتبر ہے جو حکیمانہ کے بجائے کلیمانہ اور عاقلانہ سے زیادہ عاشقانہ ہو