Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 11
نظریہ پاکستان اور دینی مدارس
نظریہ پاکستان اور دینی مدارس

خلافت راشدہ کا بابرکت دور علم وعمل، صلاح وتقویٰ، فقرو زہد، ایثار وقربانی اور اخوت ومساوات کے لحاظ سے انسانیت کا تابناک دور تھا، جس کے آثار وبرکات نے عرصہ دراز تک دنیا کو منور رکھا، بعد کے دور میں مسلمان حکمرانوں کی عملی زندگی اگرچہ مجروح ہوتی چلی گئی تاہم اعتقادی پہلو ہمیشہ محفوظ رہااور امت کی اصلاح اور دینی تقاضوں کی بجا آواری کے لئے ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر“ کا کام بھی اپنے صحیح طریق کار اور تسلسل کے ساتھ جاری رہا، آج بھی جب کہ اسلامی حکومت کے دھندلے نقوش بھی تدریجاً مٹتے چلے جارہے ہیں”ہیئة الأ مربالمعروف والنہی عن المنکر“ کے ادارے تھوڑابہت کام کررہے ہیں، مسلم حکمرانوں کی عملی زندگی سے قطع نظر یہ بات بالکل صاف ہے کہ اسلامی تاریخ کے سابقہ ادوار میں اسلامی قوانین سے عداوت اور بغض وعناد کا کہیں پتا نہیں چلتا،البتہ آخری دور میں اس کاظہور ترکی میں ہوا، خلافت اسلامیہ کے الغاء کے بعد جو قیادت ابھری اس نے اسلامی احکام سے اعلانیہ عداوت کا مظاہرہ کیا، یہاں اس ناخوشگوار بحث کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اس کا اثر پھیلتا چلا گیا، تاہم بہت سے شعائر اسلام کا احترام اب تک بیشتر ممالک میں باقی ہے، ان ممالک کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ امر بالمعروف کے اداروں کی سر پرستی مدارس ومعاہد کی تأسیس اور مساجد کی تعمیر حکمرانوں کے فرائض میں شامل سمجھی جاتی تھی اور عامة المسلمین اس فریضہ سے سبکدوش ہوچکے تھے، جب ان حکمرانوں نے دین اور دینی مسائل سے غفلت یا عداوت کارویہ اختیار کیا تو ان ممالک میں دین بے سہارا ہو کر رہ گیا، اس کی بنیادیں گرنے لگیں اور کوئی مؤثر قوت ایسی نہ رہی جو آگے بڑھ کر اسے سنبھالا دیتی۔
البتہ متحدہ ہندوستان اس خصوصیت میں منفرد ہے جو محض حق تعالیٰ کی عنایت کا ثمرہ ہے کہ یہاں جب مسلمان حکمران ختم ہوئے اور نظام اقتدار کفر کے ہاتھ آیا تو ا س موقعہ پر اکابر امت کی فراست نے محسوس کیا کہ شعائرِ دین کی بقاء، دینی اداروں کی تأسیس، مساجد و مدارس کی تعمیر کے لئے اگر عام مسلمانوں کو تربیت نہ دی گئی اور تعلیم وتربیت، فتویٰ وقضاء اور امامت وخطابت کے مناصب کا بطور خاص انتظام نہ کیا گیا تو اس خطہ میں اسلام باقی نہیں رہے گا، حق تعالیٰ نے ان کی مبارک توجہات کو بار آو ر فرمایا، عام مسلمانوں میں حفاظت دین کا جذبہ بیدار رہا اور أ عداء دین کی دسیسہ کا ریوں کے علی الرغم دین جوں کا توں محفوظ رہا۔(بصائر وعبر،ج:۱،ص:۶۸) یہ علوم آخرت کی درس گاہیں اور ان سے پیدا ہونے والے حاملین علوم انبیاء علمائے حق،حکومت کے عدم تعاون یا عوام کی سرد مہری کی وجہ سے مذکورہ بالا قابل رشک اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں اگر کامیاب نہ بھی ہوں تب بھی ان کے دم قدم کا اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ معاشرہ کے فسق و فجور میں گرفتار افراد، قانون الٰہی اور احکام شرعیہ کی خلاف ورزی، سود خوری، شراب نوشی حتیٰ کہ زنا کاری اور فحاشی کے باوجود خود کوگنہگار عند اللہ مجرم ضرور سمجھتے رہیں گے، اور کسی نہ کسی وقت خدا کے سامنے گناہوں کی مغفرت کے لئے ان کے ہاتھ ضرور اٹھتے رہیں گے، بالکل ہی خدا ناشناس درندے اور جانو ر نہ بنیں گے، اور اس اعتراف گناہ کی بدولت (اگرچہ صرف دل ہی سے ہو) عذاب الٰہی، خدائی قہر اور الٰہی انتقام کا نشانہ نہ بنیں گے، ارشاد ہے:
﴿وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون ۔(الانفال:۲۳)﴾
ترجمہ․․․”:اللہ سے یہ بعید ہے کہ وہ تو اللہ سے مغفرت کی دعائیں کررہے ہوں اور اللہ ان کو عذاب (آسمانی) میں گرفتار کردے۔“
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمانی قوت اور اسلامی روح اگرچہ فسق وفجور کی وجہ سے کتناہی مضمحل اور کمزور ہوجائے ،باقی ضرور رہتی ہے اور آڑے وقت ضرور کام آتی ہے(سمتبر ۹۶۵اء کی پاک بھارت جنگ میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے) علاوہ ازیں چونکہ ان علماء دین اور حاملین علوم آخرت کی عمر کا وہ حصہ جو فطری طور پر صنعت وحرفت اور ان کے علاوہ دنیوی مسائل معاش کے سیکھنے اور حاصل کا ہوتا ہے، انہی علوم دینیہ کی درس گاہوں اور علوم دینیہ کے حاصل کرنے میں گذر جاتا ہے۔اس کے بعد وہ د نیوی اعتبار سے کسی مصرف کے نہیں رہتے، اس لئے قدرتی طور پر ان کی معاشی زندگی دین اور دینی خدمات سے وابستہ ہوجاتی ہے ،خواہ درس وتدریسِ علوم دینیہ کی صورت میں ہو، خواہ وعظ وتبلیغ کی صورت میں، خواہ مؤذنی وامامت وخطابت کی شکل میں یا مکاتب ِقرآن کریم میں حفظ یا ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم کی شکل میں ہو، ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم اور اس کے معاشرہ میں ان لوگوں کی بدولت کم از کم دین کا شعور اور خدا پرستی کا احساس ضرور بیدار اورباقی رہتا ہے ،بلکہ قوم کی اکثریت انفرادی طور پر ضرور دیندار اور احکام شرعیہ کی بڑی حد تک پابند رہتی ہے، حرام وحلال، طاعت ومعصیت، عذاب وثواب کی تمیز اور کسی نہ کسی درجہ میں خوف خدا اورخوف آخرت ضرور باقی رہتا ہے، اور اس کے نمایاں اثرات محفوظ رہتے ہیں اور کسی نہ کسی وقت اس کی برکات ضرور ظاہر ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس جن اسلامی ملکوں میں ان آزاد عربی مدارس ومکاتب کا وجود حکومت کے زور سے بالکل ختم کر دیا گیا ہے اور ملک کے تمام مدارس و مکاتب کو دنیوی تعلیم کی درس گاہوں میں تبدیل کر دیاگیاہے ،امامت وخطابت، وعظ وتبلیغ اور درس وتدریس کو حکومت کے کنٹرول میں لے لیا گیا ہے، ان ملکوں میں علوم قرآن وحدیث وفقہ واصول فقہ کے سوتے بالکل خشک ہوچکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نری عیش پرستی کے تسلط کی وجہ سے ایمانی قوت اور دینی روح اور خدا پرستی کا احساس اور چرچا بالکل ہی ختم ہوچکا ہے یا ختم ہوتا جارہا ہے، اسلام کی جگہ قومیت نے لے لی ہے، خدا کی جگہ مادی ترقیات پر قابض طاغوتی طاقتوں نے لے لی ہے، قانون الٰہی کی جگہ انسانی ساختہ پرداختہ استعماری اشتراکی قوانین نے اور ”أمربالمعروف ونہی عن المنکر“ کی جگہ مغربی تہذیب اور اس کے لوازمات موسیقی ،رقص وسرور، غناء،عریانی، فحاشی اور جنسی جذبات کو برا نگیختہ اور مشتعل کرنے والی فلموں، ڈراموں اور نام نہاد ثقافتی پروگراموں نے لے لی ہے، اور عام طور پر پوری قومیں خصوصاً نوجوان نسلیں شب وروز ریڈیو پر موسیقی کے نغمے اور دھنیں سننے اور ٹیلویژن پر عریاں مناظر دیکھنے اور پھراپنی نجی صحبتوں، مجلسوں یا خلوتوں میں قد آدم آئینوں کے سامنے اس فحاشی اور جنسی آورگی کی ریہرسل (مشق) اور عملی تجربے کرنے میں مصروف ہے،العیاذ باللہ۔
واضح رہے کہ پاکستان کی اس پاک سرزمین پر بطور استہزاء اللہ کے پسندیدہ ”دین اسلام“ کو ”ملاازم“ اور اس کے حاملین علماء حق کو ”ملا“ کہہ کر مذاق اڑانے اور توہین کرنے والوں پر قہر خدا وندی کی بجلی نہ گرنے اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہنے کا سبب آیت کریمہ:
﴿وماکان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وماکان اللہ معذبہم وھم یستغفرون۔(الانفال:۲۳)﴾
کی روشنی میں صرف یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں قوت ایمان زندہ اور روح اسلام بیدار رہے، اور اونچے طبقہ کو چھوڑ کر متوسط اور ادنیٰ طبقہ کی اکثریت کسی نہ کسی حد تک، کم از کم انفرادی زندگی میں احکام شرعیہ کی پابندہے، چپہ چپہ پر مسجدیں آباد ہیں، پنچ وقتہ اذان کی آوازیں گونج رہی ہیں، عربی مدارس میں قال اللہ وقال الرسول کی آسمان سے رحمت الٰہی کو لانے والی آوازیں بلند ہورہی ہیں، تفسیر حدیث، فقہ وغیرہ کی کتابیں ادنیٰ سے ا علیٰ تک باقاعدہ پڑھائی جارہی ہیں، اور قانون الٰہی کو زندہ اور محفوظ رکھنے کے لئے حاملینِ علوم انبیاء تیار کئے جارہے ہیں، مکاتبِ قرآن جگہ جگہ بے شمار کھلے ہوئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے حفظ اور ناظرہ باتجوید اور بے تجویدقرآن پڑھنے میں مصروف ہیں، وعظ وتذکیر کے خوف خدا اور خوف آخرت کو زندہ اور بیدار رکھنے والے ہفتہ وار حلقے (اجتماعات) نماز جمعہ کے ساتھ قائم ہیں۔
تبلیغی جماعت کے پیارو محبت سے کلمہ طیبہ اور نماز پڑھوانے وغیرہ کی غرض سے تبلیغی دور ے جاری ہیں، احکام شرعیہ اور مسائل ِدینیہ بتلانے کے لئے جگہ جگہ دارا لافتاء کھلے ہوئے ہیں، صرف ان دار الافتاؤں سے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق مختلف اور متنوع احکام شرعیہ کے استفتاء (سوالات) اور ان کے جوابات کی ہزاروں لاکھوں تک پہنچنے والی تعداد ہی اس امر کاناقابل تردید ثبوت ہے کہ اس ملک کا عام مزاج ،دینی ہے، اور غالب اکثریت کے دلوں میں ہر شعبہ زندگی کے اندر احکام شرعیہ معلوم کرنے کی تڑپ ضرور موجود ہے، اور جہاں تک ملکی حالات مساعدت کرتے ہیں، ان پر عمل بھی کرتی ہے، استفتاء(سوال کرنا) اس کی دلیل ہے۔
اور یہ بتلانے کی ضرورت نہیں ،ہر ذی ہوش سمجھتا اور مانتا ہے کہ یہ تمام تر صورت حال صرف انہی حکومت کے کنٹرول سے آزاد عربی مدارس، دینی مکاتب کی برکات اور دولت ورفاہیت پر فقرو افلاس کو ترجیح دینے والے اور اس فقر کو خدا کی رحمت باور کرنے والے حاملین علوم دینیہ، علماء حق کی دیرینہ اور مسلسل جدو جہد اور ان کی مساعی مشکورہ(عنداللہ وعندالناس) کا نتیجہ اور خالقِ کائنات جل وعلاکی توفیق خدمت دین عطا فرمانے کا ثمرہ ہیں۔ اس لئے بھی خاص طور پر ان گستاخ او ردریدہ دہن ملحدوں، بے دینوں اور علوم دینیہ اور علماء دین کو گالیاں دینے والوں اور ان کے ہم نواؤں کو ان حکومت کے کنٹرول سے آزاد علوم دینیہ کی درس گاہوں اور ان سے نکلنے والے علماء وخدام دین کے پاکستان میں وجود کو مغتنم اور قہر خداوندی سے بچانے والی پناہ گاہیں اور پناہ دہندہ سمجھنا چاہئے، ورنہ اگر خدانا کردہ اس مسلمان ملک کے عوام وخواص پر بھی وہی عام بے دینی، خدافراموشی، اغراض وخواہشات پر ستی اور روحانیت کش مادہ پرستی مسلط ہوجاتی جو دوسرے اشتراکیت نواز مسلم ممالک پر مسلط ہے تو یہ ملک بھی آج دوسرے مسلمان اشتراکیت پسند ملکوں کی طرح کسی نہ کسی صور ت میں قہرِخداوندی اور انتقام الٰہی کا نشانہ بنا ہوتا۔ ارشادالٰہی ہے:
﴿نسوا اللہ فأنساھم أنفسھم۔(الحشر:۱۹)﴾
ترجمہ:․․․” انہوں نے اللہ کو فراموش کردیا تو اللہ نے ان سے خود اپنے نفسوں کو فراموش کرادیا۔“
یعنی خالق کائنات، خدا فراموش لوگوں کو اس خدا فراموشی کے جرم کی سزا دنیا میں یہ دیتا ہے کہ انہیں خود فراموش بنا دیتا ہے تو وہ اپنے بقاوتحفظ کی تدبیریں سوچنے اور اسباب اختیار کرنے کے بجائے خود اپنی ہلاکت وبربادی کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں، اقوام عالم کے عروج وزوال کی تاریخ اس کی شاہد ہے، یہ انتہائی تباہ کن انتقام خدا وندی ہے، ارحم الرحمین اپنے لطف وکرم سے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو اس خدا فراموشی کے جرم کے ارتکاب سے اور اس کی پاداش میں اس انتقام الٰہی سے محفوظ رکھے اور ہماری بد اعمالیوں کو معاف فرمائے۔(آمین)
حق تعالیٰ شانہ نے محض اپنے فضل وکرم سے مملکت خدا دپاکستان مسلمانوں کو عطا فرمائی تاکہ اسلام کے صحیح تقاضے بروئے کار آسکیں، عوام نے دل وجان سے اسی مقصد کے لئے کوششیں کیں، ہر قسم کی قربانیاں دیں، دعائیں کیں، خواص نے باربار اعلان کیا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی آزادی کا مستقبل تاریک ہے، اور نہ یہاں یہ امکان ہے کہ اقتصادی ومعاشی سکون وراحت نصیب ہوسکے، غرض اسلام وکفر دونظریوں کے ماتحت یہ مملکت وجود میں آئی اور کروڑوں مسلمانوں نے ہندوستان سے ہجرت کر کے اس مملکت کو آباد کیا ،بلاشبہ مسلمانوں نے ابتداء میں بہت کچھ ایثار سے کام لیا، اپنی تجارتیں، اورانڈ سٹریز اور دیگر ذرائع معیشت اسباب راحت وسکون کو خیر باد کہا، اپنی عبادت گاہیں، مسجدیں اور دینی درس گاہیں چھوڑیں، علمی ادارے چھوڑے، نشرو اشاعت کے مراکز کو الوداع کہا۔
حق تعالیٰ شانہ نے ترک وطن کرنے والوں پر احسان فرمایا ،ان کو وہاں سے بہتر مکانات اور کارخانے عطا فرمائے، ان کے ارباب خیر وصلاح نے مسجد یں بنوا ئیں، تاکہ عوام ان کو آباد کریں، علماء امت کو توفیق عطا فرمائی کہ ہندوستان میں چھوڑی ہوئی دینی درس گاہوں کے بجائے یہاں متبادل دینی وعلمی مراکز بڑے بڑے دارالعلوم وجامعات اور تعلیم القرآن کے مدارس جاری کئے گئے، تشنگانِ دین کے لئے دینی مراکز قائم کئے، مشتاقان ِعلم نبوت کے لئے علمی چشمے جاری ہوئے، کتب خانے اور مطابع قائم کئے، علمی ودینی کتابوں کے انبار لگ گئے، علوم ومعارف کے ذخائر تیار ہوگئے، الغرض سندھ کے صحراؤں میں علم ومعرفت کے چشمے پھوٹ پڑے، پنجاب کی وادیوں میں علمِ دین کی بہار آگئی۔
یہ سب کچھ ان غریب مسلمانوں نے کیا جو اپنا مال ومتاع لٹا کر یہاں آئے تھے، اگر بمبئی کا ٹھیاواڑ اور گجرات وبرما کے مسلمان تاجر یہاں نہ پہنچتے تو یہ کارخانے انڈسٹریاں نظر نہ آتیں، اور اگر اربابِ علم اوردیندار اصحابِ ثروت کا طبقہ یہاں نہ پہنچتا تو یہ مدارس ومساجد ومعاہد یہاں نہ ہوتے، ان دیندار اور ارباب خیر مسلمانوں کی وجہ سے آج کراچی میں دوہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں ا،ن میں ایسی مساجد بھی ہیں جن پر دس لاکھ روپیہ خرچ ہوا، اگر یہ اہلِ علم نہ ہوتے تو ا س مغربی پاکستان میں چھوٹے بڑے ایک ہزار مدرسے نہ ہوتے۔ بلاشبہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی یہی دینی مدارس وتعلیم گاہیں ہیں، پاکستان کی روح ،یہی مسجدیں اور دینی ادارے ہیں، اگر آج مسلمانان ِپاکستان کی توجہات ا ورکوششیں نہ ہوتیں تو دین کا وہی حشر ہوتا جو اسپین میں ہوا۔
خدارابتلایئے کہ کراچی جیسے عظیم الشان شہر میں کتنی مسجدیں ارباب حکومت نے بنائیں، کتنی درسگاہیں ہیں جن کو حکومت نے تعمیر کرایا ،نہ صرف دینی درس گاہیں، بلکہ دنیوی تعلیم گاہیں بھی مسلمانوں کی کوششوں کی مرہونِ منت ہیں، کیا حکومت کے قائم کردہ اسکول ومکاتب مسلمان بچوں کی تربیت کے لئے کافی ہوسکتے تھے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی دنیوی حیات جس طرح مسلمان ارباب ِتجارت کی سعی بلیغ کا ثمرہ ہے، ٹھیک اسی طرح پاکستان کا دینی وعلمی نظام اربابِ دین اور اربابِ فکر کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اگر حکومت پاکستان کا میزانیہ ان کارخانے والوں کا مرہون منت ہے جو ان ٹیکسوں کے ذریعہ پورا ہوتا ہے تو ٹھیک اسی طرح پاکستان کادینی وعلمی وقار ان علماء امت کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے جو بوریوں پر بیٹھ کر معمولی مشاہروں ”قوت لا یموت“ پرگذارہ کر کے اس نظامِ دین کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان ارباب ِعلم میں کچھ لوگ ایسے بھی شامل ہوگئے ہوں جن کے مقاصد بلند نہ ہوں، اخلاص میں کمی ہو، دنیاوی اغراض ان کا مطمح نظر ہوں، لیکن ان کی وجہ سے اس پورے علمی ودینی نظام کو یکسر ختم کر نے کی تدبیر کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اس قماش کے لوگ آخرت کے ثواب سے محروم اور دنیاوی اعزازواحترام سے تہی دامان ہوں گے، اور اس کے لئے یہی سزا کافی ہے، لیکن ان کے ادارے بھی خالی از نفع نہیں ہیں، اگر چند کا رخانے دار رشوت دے دے کر صنعت کے نظام میں فساد پیدا کردیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارا صنعت وحرفت کا نظام ہی ناقص اور بے سود ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن اسکولوں، کالجوں اور علمی اداروں کو حکومت نے قومیا کراپنی تحویل میں لے لیا ہے ان کا کیا حشر ہوا؟ کیا وہ سابقہ معیار قائم رہ سکا؟ جن کارخانوں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لیا، کیا ان کی آمدنی اور پیداوار کاتوازن قائم رہ سکا؟نتیجہ یہ ہوا کہ پیداوار میں خسارہ رہا اور حکومت مجبور ہوگئی ہے کہ نئے ٹیکس لگا کر اپنے میزانیہ کو پورا کرنے کی تدبیر کرے (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔
کبھی کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ دینی مدارس حکومت اپنی تحویل میں لینا چاہتی ہے، کیا حکومت کو اپنے سابقہ تجربات سے یہ عبرت انگیز نصیحت نہیں ملی کہ ”ان بوریہ نشینوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دو اور ان کو نہ چھیڑو“ ورنہ اس کے نتائج جہاں پاکستان کے حق میں تباہ کن ہوں گے ۔وہاں حکمرانوں کے حق میں بھی نہایت ہی مضر ثابت ہوں گے، فواحش و منکرات کے روز افزوں تباہ کن سیلاب کے راستہ میں اگر کچھ روڑے ہیں تو یہی ٹوٹے پھوٹے مدرسے ہیں،جن کے ذریعہ ملک کے اندر روباہر دینی وقار قائم ہے، ظاہر ہے کہ یہ ”بوریہ نشین“ جن کی زندگی اسی خدمت کے لئے وقف ہے، وہ ان دینی درسگاہوں کی حفاظت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حال ہی میں ملتان میں دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی ہر مکتب فکر کے اربابِ مدارس، اہلِ علم کا عظیم اجتماع ہوا ،اور سب ہی نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ ان دینی مدارس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی، اور اگر خدا نخواستہ ارباب ِحکومت نے ناعاقبت اندیشانہ قدم اٹھایا تو اس کی مزاحمت کی جائے گی، اگرچہ ہمیں اطمینان ہے کہ حکومت اپنی سیاسی بصیرت کے پیش ِنظر ایسا اقدام ہر گز نہ کرے گی، متفقہ قرار داد کا متن حسب ذیل ہے:
”یہ اجلاس پورے وثوق کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ اس غیر اسلامی اور غیر جمہوری اقدام کے اصل سوشلسٹ عناصر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کو اپنی تحویل میں لے کر دینی اقدار اور اسلامی روایات کو ختم کیا جائے، اگر خدانخواستہ ایسا قدم اٹھایا گیا تو ملتِ اسلامیہ کسی صورت میں اسے کامیاب نہیں ہونے دے گی، اور دینی مدارس کے تقدس، آزادی، وقار اور شاندار روایات کو محفوظ رکھنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی، ملک کے تمام دینی اداروں کا یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے پرزور مطالبہ کرتاہے کہ اگر اس کا ایسا ارادہ ہے تو اسے یکسر ترک کر دیا جائے، اور بلاوجہ فضا کو مکدر نہ کیا جائے، ورنہ اس کے نتائج کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ یہ اجلاس فیصلہ کرتا ہے کہ اس اہم ترین دینی مسئلہ کے بارے میں حکومت کے عزائم کو معلوم کرنے اور اسی مرحلہ پر اس اجتماع کے فیصلے، جذبات ا وراحساسات اربابِ اقتدار تک پہنچانے کے لئے ایک نمائندہ وفد اربابِ حکومت سے ملاقات کرے گا، دینی مدارس کے تقدس اور آزادی کی حفاظت کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔“
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، اور اسلام پر اس کو باقی رکھنا ہے، اور حقیقت میں اس کاوجود بھی اسلام سے وابستہ ہے تو مدارس کا یہ دینی نظام اور یہ علمی ادارے اسی طرح باقی رکھنے ہوں گے، اس سے پیشتر دینی علوم کا یہ نظام اگر بے دین اور اسلام دشمن حکمرانوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا تو اسلام اس ملک سے کبھی کارخصت ہوجاتا، ملک کے دینی مدراس اور علماء ان بے دین حکمرانوں کے عزائم کے سامنے ڈٹ گئے اور ملک کی دینی حیثیت قدرے باقی رہ گئی۔ سکندر مرزا غلام محمد،اور ایوب خان نے پاکستان کا دینی حلیہ بگاڑ نے کی کچھ کم کوشش نہیں کی، لیکن ان کا حشر کیا ہوا؟ یہ سب کو معلوم ہے، ان لوگوں نے ہر لادینی تحریک کی حوصلہ افزائی کی، اور ہر دینی تحریک کے کچلنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، ان ہی منحوس وملعون کوششوں کا نتیجہ ہے کہ کراچی میں سال نوکے افتتاح کے موقع پر دوکروڑ کی شراب پی گئی، کلبوں کے اندر عریاں ناچ کیا گیا، اور وہ حرکتیں کی گئیں کہ انسانیت وحیا کا جنازہ اس ملک سے نکل گیا، کیا پاکستان اس کے لئے بناتھا؟ اگر اس ملک میں قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صدائیں بلند نہ ہوتیں جن سے کچھ نیکی اور بدی کا توازن قائم ہے تو یہ ملک کبھی کا پیوند زمین ہوگیا ہوتا، مسلمان قوم پر من حیث العموم کا فرانہ زندگی اور خدا فراموش ماحول کبھی راس نہیں آیا اور اس کا نتیجہ تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ صرف وزارت امورِ مذہبی اور وزارتِ حج واوقاف قائم کرنے سے یہ مملکت صحیح معنوں میں اسلامی مملکت نہیں بن سکتی، جب تک کہ اول سے آخر تک تمام نظام اسلامی نہ ہو، اور حق تعالیٰ کی حاکمیت کا قدم قدم پر ظہور نہ ہو، محاکم عدلیہ کا پورا نظام کتاب وسنت پر مبنی نہ ہو، اس ملک کی قامت پر سوائے اسلام کی قبا کے اور کوئی چیز راس نہیں آسکتی، سوشلزم یا کمیونزم یا چینی ازم کے جو خواب آج ہمارے حکمران دیکھ رہے ہیں، وہ سب تباہی وبربادی کے خطرناک راستے ہیں، دین سے پہلے اس میں دنیا کی تباہی ہے، بارہا ”بینات“ کے صفحات میں ہم لکھتے رہے ہیں اور آج پھر صاف صاف کہہ دیناچاہتے ہیں کہ اسلامی مدارس کو ختم کرنے کی اسکیم دراصل ملک کو ٹھیٹ لا دینی ریاست میں تبدیل کرنے کا اشتراکی وقادیانی منصوبہ ہے جو اس ملک کے لئے تباہی وبربادی کا موجب ہوگا، اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو صحیح فہم عطا فرمائے اور اس تباہ کن زندگی سے ہمیں نجات عطا فرمائے۔(امین) 
Flag Counter