Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 11
امیر الہندحضرت مولانا سید اسعد مدنی
امیر الہندحضرت مولانا سید اسعد مدنی


سنت اللہ یہی ہے کہ کتاب اللہ وسنتِ رسول اللہ ا کی ترویج واشاعت اور نفاذِ اسلام کا کام اللہ نے ہمیشہ اپنے مقبول بندوں سے لیا‘ روزِ اول سے لوگوں کی ہدایت اور ظالم وجابر قوتوں سے ٹکرانے کے لئے انبیاء ورسل کی آمد ورفت کا سلسلہ رہا‘ یہاں تک کہ خاتم الانبیأ حضرت محمد مصطفی ا تشریف لائے‘ اللہ تعالیٰ نے آپ ا کو کامل واکمل دین عطا فرمایا اورآپ ا کے ذریعہ اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا کیا۔ چونکہ آپ ا کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا‘ اس لئے آپ ا کے بعد اللہ رب العزت نے نبوت والے کام کو آپ ا کی امت کے علمأ ربانی کے مقدر کردیا۔ علمأ ربانی قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ : ”وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہونا“ (الفرقان:۶۳)کے مصداق ہیں اور ان حضرات کا سایہٴ عاطفت خلقِ خدا کے لئے باعثِ رحمت ہوتا ہے‘ جیسے سرزمینِ ہند میں صدیوں پہلے سکھوں اور مشرکوں کے نظامِ ظلم کا دور دورہ تھا انسانیت ضلالت وگمراہی کے سیلاب میں بہہ رہی تھی۔
ہند میں حضرت خواجہ اجمیری کی آمد:
اللہ رب العزت نے اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور ان کے فیض یافتہ علمأ سے دعوتِ دین کا کام لیا‘ ان کے اخلاقِ عالیہ اور مجاہدانہ کردار سے لاکھوں افراد مشرف بہ اسلام ہوئے‘کچھ صدیوں کے بعد جب اس سرزمین پر تجارت کے نام سے انگریز عیار قابض ہوا تو وقت کے مسلم حکمرانوں کی غفلت وبے حسی کو دور کرنے اور عوام کو باشعور بنانے کے لئے اللہ رب العزت نے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا۔
حضرت مجدد الف ثانی کی محنت
حضرت سرہندی کی جماعت نے عوام سے لے کر شاہی ایوانوں کے ذمہ داروں تک کی نظریاتی‘ فکری اور عملی زندگی کی تربیت فرمائی‘ جس کے نتیجہ میں دربارِ شاہی سے عظیم مجاہد اورنگ زیب عالمگیر ‘ اور عوام میں سے سینکڑوں علمائے حقہ پیدا ہوئے۔ بالخصوص آپ کے طریقہٴ تربیت اور تعلیمات کے امین ووارث حضرت شاہ عبد الرحیم دہلوی نے آگے چل کر دلی کے علاقہ میں ”مدرسہ رحیمیہ“ کی شکل میں ایک عظیم علمی وروحانی مرکز قائم کیا۔
امام الحکمة اوران کی جماعت
آپ کے بعد آپ کے عظیم فرزند امام الحکمة شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس ادارہ کو شریعتِ نبوی کے مطابق چلایا‘ آپ ہی کی شخصیت نے امتِ مسلمہ کی ہر محاذ پر رہنمائی فرمائی‘ بالخصوص علمِ حدیث کی اشاعت اور دینِ اسلام کو بطور نظام کے متعارف کرایا۔ آپ نے ہی آنے والے انقلابات کے اسباب وعوامل سے مسلمانوں کو آگاہ کیا‘ امام الحکمة کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ کام آپ کے جانشین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے لیا۔ حضرت شاہ عبد العزیز نے اپنے لائق وفائق حقیقی بھائیوں کے تعاون سے انگریز کی ظالمانہ وجابرانہ کارروائیوں سے نمٹنے کے لئے ہندوستان کو ”دار الحرب“ قرار دیا۔ اپنے والدِ گرامی کی تحریری وتقریری محنت کو منظم ومدون کرکے تربیت یافتہ نظریاتی وفکری زندگیوں کو سامراجی طاغوتی طاقتوں کے خلاف بصورتِ تحریکِ جہاد نبردآزما کردیا‘ اس تحریک کی قیادت وسیادت دینِ اسلام کے عظیم روحانی پیشوا حضرت سید احمد شہید نے فرمائی‘ جبکہ امامت آپ کے خاص تربیت یافتہ اور حضرت شاہ عبد العزیز کے حقیقی بھتیجے حضرت شاہ اسماعیل شہیدنے کی‘ ان علمأ حقہ ومجاہدینِ اسلام نے اپنے وطن کی آزادی اور غلبہٴ اسلام کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
سرزمینِ دیوبند کی قبولیت
ان کے بعد بظاہر علمأ ربانیین کا وجود بہت قلیل ہوگیا‘عامة الناس کو ظالم کی قوت کا عروج نظر آنے لگا‘ ایسے قحط الرجال کے زمانہ میں اللہ رب العزت نے حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے دعوت الی اللہ اور غلبہٴ اسلام کا کام بصورت تحریک ”دار العلوم دیوبند“لیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں بزرگوں کی تربیت ومجاہدانہ کردار کی سرپرستی سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیسے کروائی۔
مقام شیخ الہند
ان کی محنت اور ہمہ قسم قربانیوں کو اللہ نے وہ شرف قبولیت بخشا کہ مذکورہ تینوں بزرگوں کی آغوش تعلیم وتربیت سے اس وطن کو انگریز شاطر کے آہنی پنجے سے آزاد کرانے اور مظلوم لوگوں کی دینی‘ علمی‘ اخلاقی روحانی‘ معاشرتی اور سماجی تربیت کے لئے دنیائے اسلام کے نامور فرزند‘ عالم ربانی اورعظیم مجاہد حضرت محمود حسن دیوبندی کو پیدا کیا‘ جن کو دنیا ”شیخ الہند“ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت شیخ الہند کے مجاہدانہ کردار اور تعلیم وتربیت کے ماحول‘ آپ کی ذہانت وذکاوت اور آپ کے لائق وعظیم شاگردوں کو دیکھ کر معاصرین زمانہ آپ کو ”ابوحنیفہ ثانی“ کہنے پر مجبور ہوئے‘ جہاں ایک طرف آپ کے حلقہٴ تعلیم وتربیت سے حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری‘ حضرت مفتی کفایت اللہ‘ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی‘ امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی‘ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ‘ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی‘ امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد جیسے محدث‘ فقیہ‘ کامل صوفیأ‘ مجاہدین اسلام اور عظیم دانشور ہوئے‘وہاں دوسری طرف آپ کے مجاہدانہ کردار سے ظالم وجابر انگریزی قوت اتنی کمزور ہوگئی کہ انگریزی حکومت کے ڈکٹیٹر ہندوستان کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایسے نازک حالات اور حساس زمانہ میں حضرت شیخ الہند کی زندگی نے وفا نہ کی‘ آپ اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو چل دیئے۔
جانشینِ شیخ الہند
ان کے بعد حق جل مجدہ نے آپ کی جانشینی جیسے عظیم منصب اور آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ کے شاگردوں میں سے جس جلیل القدر شاگرد کو چنا‘ اس کے بارے میں آپ اپنی زندگی میں ہی فرما چکے تھے کہ:
”وہ میرے قلب وجگر کی دھڑکن کی مانند ہے“
اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قلب وجگر کو جسم میں مرکزی حیثیت اور رئیس الاعضاء کا مقام حاصل ہے- اللہ کریم نے حضرت شیخ الہند کی فرمائی ہوئی تشبیہ کے مطابق حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کو آپ کی جانشینی کے لئے منتخب کیا‘ اس انتخاب کی توصیف کا اظہار اللہ تعالیٰ نے آپ کے معاصرین زمانہ‘ امت مسلمہ کے علمائے کرام سے بھی کرالیا‘ یہی وجہ ہے کہ آپ کو متفق علیہ ”جانشین شیخ الہند“ کہا جاتاہے۔ جس عظیم مشن کے فکر کی بنیاد حضرت مجدد الف ثانی اور امام الحکمة حضرت شاہ ولی اللہ نے رکھی‘ جس تحریک کا عملاً آغاز حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے کیا اور جس مشن کے لئے ہزاروں نفوسِ قدسیہ شہید ہوئے‘ اس کی تکمیل اللہ نے حضرت اقدس شیخ الاسلام کے زمانہ میں کروادی۔ انگریز ظالم وجابر آپ کے زمانہ میں ہی ہندوستان کو چھوڑ کر رخصت ہوا‘ تواضع وبے نفسی کے کوہِ گراں حضرت سید مدنی نے تقسیمِ ہند کے بعد مجبور‘ مظلوم‘ محروم اور بے سہارا مسلمان (جو تقسیمِ ملک کی وجہ سے ہر طرح کی اپنی اجتماعی قوت کھو چکا تھا)کی کفالت وسرپرستی اس طرح فرمائی جس طرح کہ حقیقی والد اپنی حقیقی اولاد کے لئے فکر مند ہوتا ہے ‘ آپ اس فکر وغم والم کو سینے میں لئے ۱۹۵۷ء میں اس دارِ فانی سے دار البقاء کی طرف رحلت فرماگئے۔
انتخاب جانشینِ شیخ الاسلام
آپ کے بعد سرزمینِ ہند کے عظیم محدث‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریانے آپ کے عظیم ولائق وفائق بڑے فرزند حضرت مولانا سید اسعد مدنی کو آپ کے بیسیوں خلفأ کے باہمی مشورہ واتفاق رائے سے آپ کا جانشین قرار دیا۔
خطاب ”فدائے ملت“ کا پس منظر
اس جانشین کی شخصیت سایہ دار درخت کی طرح ساری امت کے لئے رحمت تھی‘ بلاشبہ جہاں وہ امت مسلمہ کے لئے شیخِ طریقت اوررہبرِ شریعت تھے‘ وہاں ایسے عالمی مسلم رہنما تھے جو زندگی کے ہرشعبے میں پوری امت کی رہنمائی فرماتے رہے‘ آپ مجاہدانہ عزم وحوصلہ رکھنے والے عوامی قائد تھے‘ اپنی جان کو خطرات میں ڈال کر خدمتِ خلق ان کا شیوہ تھا‘ آپ کے اسی کردار کی عظمت کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان‘ آپ کو ”فدائے ملت“ کے لقب سے پہنچانتاہے۔ حضرت امیر الہند میں بحمد اللہ! جہاں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی حریت فکر تھی‘ وہاں شیخ الاسلام حضرت سید حسین احمد مدنی کا زہد وتقویٰ بھی تھا‘ جہاں مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ کی دور اندیشی تھی وہاں مجاہدِ ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن کی مجاہدانہ شان بھی تھی‘ تاہم ان خوبیوں کے ساتھ خالقِ کائنات نے موصوف کو نہایت منکسر المزاج اور متواضع رہنما کی صفات سے بھی متصف فرمایا تھا‘ ان اوصاف ِ جمیلہ سے متصف ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں سے بڑی انکساری اور کھلے دل ودماغ سے پیش آتے تھے۔
حضرت امیر الہند اکابر کے جامع کردار کے وارث اور ان کے کارناموں کے امین تھے‘ ہندوستان وبیرون ہندوستان ان کی خدماتِ جلیلہ کے نقوش کچھ اس طرح سے ثبت ہیں کہ مخالفین وحاسدین اور دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیاں بھی ان کومدہم اور مٹا نہیں سکیں۔
امیرِ ہند کا اجمالی تعارف
آپ کی ان عظیم خدمات‘ مجاہدانہ کارناموں‘ قومی‘ ملی اور سماجی قربانیوں کی وجہ سے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ جانشینِ شیخ الہند کے عظیم فرزند کا تعارف اور ملی وسماجی خدماتِ جلیلہ کا اجمالی تذکرہ ارشاد خداوندی:”واتبع سبیل من اناب الی“ (لقمان:۱۵)(پیروی کرو اس شخص کے راستے کی جس نے میری طرف رجوع کیا) کے تحت ملک وملت کے ہرفرد کی فکر ونظر کو جِلا بخشنے کے لئے کریں۔
تاریخ پیدائش
۶/ذوالقعدہ ۱۳۴۶ھ بمطابق ۲۷/اپریل ۱۹۲۸ء بروز جمعة المبارک۔
مقامِ ولادت
بچھراؤں مضافات دیوبند ضلع سہانپور۔
اسمِ گرامی
آپ کا نام حضرت والد ماجد نے ”اسعد“ رکھا۔ معلوم ہوتاہے کہ مدینہ منورہ کے معلم اول‘ صحابی رسول سیدنا اسعد بن زرارہ کے نام کی نسبت سے یہ نام رکھا گیا۔
تعلیم وتربیت
بچپن میں ہی آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا‘ حضرت شیخ مدنی کو ظالم حکومت نے جیل بھیج دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ جانا معمولی بات نہیں تھی پھر والد بزرگوار کا اسیر ہوجانا مزید برآں۔ حضرت شیخ الاسلام نے اپنے مریدِ خاص وابتدائی مدرسہ کے استاذ قاری اصغر علی کو لکھا کہ:
”اسعد کی والدہ اور والد آپ ہی ہیں‘ اوپر خدا ہے‘ اس کے سپرد کرتاہوں نہ کوئی بڑی بہن ہے اور نہ ہی کوئی بھائی“۔
فدائے ملت کے استاذ اول اور حضرت شیخ الاسلام کا تعلق
حضرت قاری اصغر علی مرحوم ومغفور کو حضرت مدنی سے بے پناہ تعلق تھا‘ یہاں تک کہ بیماری میں عام طور پر لوگ خانقاہ سے گھر کو جایا کرتے اور حضرت قاری صاحب بیماری میں گھر سے دیوبند آیا کرتے تھے۔ قاری صاحب کی طبیعت میں طبعاً غصہ بہت تھا‘ لیکن مدنی منزل خانقاہ مدنیہ میں رہتے رہتے اور حضرت مدنی کی خدمت کی برکت سے بہت نرمی اختیار کرنے لگے تھے‘ حضرت سید مدنی سمجھایاکرتے تھے کہ قاری صاحب!
”کمال یہ ہے کہ حسنِ اخلاق سے لوگوں کو اپنا بنائیں نہ کہ بری عادت کا ثبوت دے کر لوگوں کو بھگائیں“
قاری صاحب فرمایا کرتے تھے:
”خدا حضرت شیخ کے مراتب میں ترقی دے‘ مجھے آپ کی ذاتِ گرامی سے بہت فائدہ پہنچا“۔
حضرت قاری اصغر علی اور حضرت شیخ الاسلام کے مابین جو تعلق تھا وہ غیر منفک تھا‘ اڑتیس سال تک حضرت قاری صاحب نے حضرت اقدس سید مدنی کے آستانہ پر خدمت انجام دی‘ اس دوران کبھی کسی کو آپ کی نیت پر عدم اطمینان تو در کنار شبہ بھی نہیں ہوا۔ اس بات سے دارالعلوم کے اربابِ حل وعقد سمیت تمام متعلقین اور حضرت اقدس مدنی سے تعلق رکھنے والے سبھی حضرات خوب واقف ہیں۔
حضرت قاری اصغر علی کا اندازِ تربیت
امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی جب ایام طفولیت میں تھے تو تربیت کے لئے صرف ایک ذات قاری اصغر علی رحمہ اللہ کی تھی‘ قاری صاحبحضرت امیر الہند کو اپنے پاس ماں کی طرح لے کر بیٹھتے تھے اور ماں کی طرح ہی ضروریاتِ طبعیہ کا خیال رکھتے تھے قاری صاحب کبھی بھی اس خدمت سے تنگ دل نہ ہوئے‘ ظاہر ہے کہ اس خدمت کے پیشِ نظر حضرت شیخ الاسلام کا اعتماد وبھروسہ بڑھتا ہی گیا‘ بچپن سے لے کر طالب علمی کے زمانہ تک قاری صاحب نے ہی تربیت فرمائی۔ حضرت اقدس امیر الہند  بھی ادب واحترام اور تعمیلِ ارشاد اسی طرح سے کیا کرتے تھے جیسے کرنا چاہئے تھا۔ حضرت قاری صاحب فرمایا کرتے تھے:
”اسعد سے آج بھی مجھے ایسی محبت ہے جیسے اولاد سے ہوا کرتی ہے‘ بچپن میں مارتا بھی تھا اور پیار بھی کرتا تھا‘ جو ان ہونے کے بعد بوقتِ ضرورت ڈانٹتاہوں تو اسعد اپنے حیأ کامل کی وجہ سے نظریں نیچی کرلیتاہے“۔
تعلیم قرآن اور ابتدائی عربی کتب آپ نے حضرت قاری اصغر علی مرحوم سے ہی پڑھیں‘ دورہ حدیث تک بقیہ تعلیم علم وحکمت کے مخزن دار العلوم دیوبند میں مکمل کرکے ۱۹۴۶ء میں سند فراغ حاصل کی۔
آپ کے چند مشہور اساتذہٴ کرام
دورہ حدیث کی کتب: والدِ گرامی حضرت اقدس سید حسین احمد مدنیحضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی‘ حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی سے پڑھیں۔
تدریس
آپ اپنی مادر علمی میں ہی فراغت کے بعد تقریباً چھ سال تک متوسط درجات کے کامیاب مدرس رہے۔
امیرِ ہند کی سیاسی زندگی کا آغاز
حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ‘ مجاہدِ ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاردی کی وفات حسرت آیات سے جمعیت علماءٴ ہند اور مسلمانانِ عالم میں جو خلاء پیدا ہوا تھا‘ اس کو حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اپنے تقویٰ ومجاہدانہ کردار سے اس طرح پُر کیا کہ جب ۱۹۶۳ء میں جمعیت علمائے ہند کے ناظم عمومی بنائے گئے تو پورے ملک میں جمعیت کی شاخوں کا جال بچھادیا۔ اس کے تمام شعبوں کو اتنا جاندار اور فعال بنادیا کہ جمعیت کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت شیخ الاسلام اور حضرت مجاہد ملت کے بعد لگتا تھا کہ اکابر کا لگایا ہوا یہ پوداشایدامر جھاجائے گا‘ لیکن حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے نا صرف یہ کہ اس پودے کو اپنے خونِ جگر سے سینچا‘ بلکہ تناور درخت بنادیا۔
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن ہندوستانی پارلیمنٹ کا الیکشن اس لئے لڑتے تھے کہ ایوانِ حکومت میں مسلمانوں کی ترجمانی کرسکیں‘ ان کے انتقال پُرملال کے بعدپار لیمنٹ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہ رہا‘ ۱۹۶۸ء میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے ہندوستانی پارلیمنٹ (راجیاسبھا) کی رکنیت قبول فرمالی‘ تاریخ شاہد ہے کہ ایوانِ حکومت حضرت موصوف کی وجہ سے حق وصداقت کی آواز سے گونجتا رہا ۔ فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ ہو ‘ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک ہو یا بابری مسجد کا قضیہ نامرضیہ ہو‘ ہرمسئلہ پر حضرت موصوف دوٹوک رائے کا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے اسلاف کے سچے جانشین اور اکابر کے ورثے کے رہنما ہونے کے ناطے جمعیت علمائے ہند کے وقار اور اس کے اثرات میں ہی اضافہ نہیں کیا‘ بلکہ اس کے وسائل وذرائع میں بھی اتنا اضافہ کیا کہ کسی ناگہانی آفت کے آجانے پر چندہ وصول ہونے سے پہلے ہی جمعیت علمائے ہند بروقت متأثرین کی خدمت انجام دے دیتی ہے۔
امیرِ ہند کی وسعتِ ظرفی
اتنے اوصاف سے متصف اور اکابر کے عظیم ورثہ کے رہنما ہونے کے باوجود اس حالت میں کہ جمعیت علمائے ہند اور مولاناسید اسعد مدنی لازم وملزوم یا یک جان ودوقالب تھے‘ حضرت موصوف کا مزاج غیر معمولی طور پر شورائی تھا۔ جمعیت کے تمام فیصلے مجلس عاملہ کے اراکینِ محترم کے صلاح ومشورہ سے ہوتے تھے اور مجلسِ عاملہ کے اجلاسوں میں بعض اوقات حضرت والا کی آراء سے اختلاف بھی کیا جاتا تھا‘ مگر اس اختلافِ رائے کے باوجود تمام فیصلے اتفاق رائے یا کثرت رائے سے کئے جاتے تھے۔
امیرِ ہند میں قومی وملی خدمت کا جذبہ
آپ بحمد للہ! اپنے والدِ گرامی حضرت شیخ الاسلام کے سچے جانشین تھے‘ اس لئے ملی امور یا مسلمانوں کے مسائل میں کبھی مصلحت کوشی سے کام نہیں لیتے تھے‘ اس خصوصیت کی وجہ سے وہ ملک بھر کی تمام سیاسی پارٹیوں میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ پورے ملک میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی کی شخصیت ہی تھی جو فرقہ پرستی کے خلاف ملک کی تمام سیکولرپارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتی تھی‘ حضرت مولانا سید اسعد مدنی کو قدرت نے تعمیری ذہن بخشا تھا‘ اس لئے ان کو تعمیرات سے بھی خصوصی شغف تھا۔ مدنی ہال کی شاندار عمارت اور مسجد کے اطراف کی خوبصورت عمارتیں ان کے اس ذوق کا مظہر ہیں‘ جمعیت علمائے ہند فرقہ وارانہ فسادات کے متأثرین کی امداد وآباد کاری کا کام اگرچہ پہلے بھی کرتی رہی ہے‘ لیکن فدائے ملت حضرت سید اسعد مدنی کے دورِ امارت میں جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام جاری ہوا‘ اس کی مثال بھی جمعیت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
امیرِ ہند کی خدماتِ جلیلہ کا اجمالی تذکرہ
تقسیمِ ہند کے ہولناک نتائج سے امتِ مسلمہ پر جو قیامت ٹوٹی وہ ہر کس وناکس پر عیاں ہے‘ تقسیم ہند کے تاریک ایام میں ہندوستانی مسلمانوں کو جن بڑے مسائل سے دوچار ہونا پڑا ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱:- فسادات کی روک تھام اور مظلومین کی امداد․ ۲:- مسئلہ آسام‘ ۳:-مسئلہ کشمیر‘ ۴:- مسلم اوقاف کی حفاظت․ ۵:- اردو کا تحفظ اور اس کی بقاء․ ۶:-عالم اسلام سے ملت کا واسطہ․ ۷:- بابری مسجد․ ۸:- علمی پروگرام امداد ووظائف․ ۹:- مسلم یونیورسٹی کا تحفظ․ ۱۰:- مسئلہ ارتداد․ ۱۱:- مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام․ ۱۲:- مسلم پرسنل لاء․ ۱۳:- تحفظ حرمین شریفین وغیرہ وغیرہ۔
تفسیم وطن سے ہندوستان میں جو فرقہ پرستی کا زہر گھولاگیا تھا اس کا تدارک ممکن ہی نہ تھا‘ اگر یہاں حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی‘ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد‘ مفتی کفایت اللہ‘ حضرت مولانا احمد سعید‘ مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی اور مولانا حفظ الرحمن جیسی بلند قامت شخصیات نہ ہوتیں۔ایک طرف تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ لوگ جب بھی اس خالق کے بنائے ہوئے طریقہ پر چلتے ہیں تو کامیابیاں اور کامرانیاں قطار باندھے ایسے لوگوں کی قدم بوسی کے لئے ترستی ہیں‘دوسری طرف تاریخ نے یہ بات بھی واضح کردی کہ اگر اس کے برعکس اس طریق کار سے ہٹ کر یا کسی اور طریق کار پر قوموں نے اپنی تعمیر کی ہے تو ناصرف یہ کہ کوتاہیوں اور ناکامیوں کا منہ انہیں دیکھنا پڑا‘ بلکہ وہ خود دوسری قوموں کے لئے ایک بدترین مثال بن کررہ گئیں اور لعنت ورسوائی نے ان کے چہروں کود اغدارکردیا‘ ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار پر تعجب نہ ہوتا اگر ان کے پاس خدا کا پیغام اور نظام زندگی نہ ہوتا۔
امیرِ ہند کی حکمتِ عملی
قرآنِ حکیم اور نبی کریم ﷺ نے ہمارے لئے یقیناً کامیابی کا ایسا نمونہ چھوڑا‘ جس کی مثال کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ چنانچہ انہیں احساسات کے پیشِ نظر جگر گوشہ شیخ الاسلام حضرت سید اسعد مدنی کی اولو العزم اور بلند نظر شخصیت نے عزم مصمم کیا‘ تقسیم ہند کے بعد مذکورہ تمام مسائل کا حل اور یہاں کے مسلمانوں میں احساس بیداری کے ساتھ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کو نفع پہنچانے کی وہ تمام صورتیں مہیا کیں جس کو اسلام اور پیغمبر ﷺ نے پیش فرماکر رہنمائی فرمائی تھی۔
مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام کا پس منظر
حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی زندگی میں ہی ۱۹۴۰ء میں آپ ہی کے ایماء اور تحریک پر ٹانڈہ باولی ضلع رام پور کے چند درد مند لوگوں نے سادہ اور پُر خلوص انداز میں ایک ایسا اقتصادی فنڈ قائم کیا جو بلاسودی اسلامی بینکاری کا حامل تھا‘ یہ وہ نقش اول تھا جو حضرت مدنی نے اپنی زندگی میں مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لئے عملی طور پر پیش کردیا تھا‘ حضرت فدائے ملت‘ امیر الہند نے حضرت اقدس شیخ الاسلام کے بتائے ہوئے طریقوں سے تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ لیا‘ مذکورہ اہم مسائل میں سب سے پہلے مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام کا آغاز کیا تاکہ مسلم معاشرے کی اقتصادی بدحالی کو دور کیا جائے اور سود جیسی لعنت سے نجات دلانے کے لئے شریعت اور اسلامی اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے‘ چنانچہ جانشینِ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے سب سے پہلے اس تخیل کو اپنے رفیق خاص محترم مولانا شمیم احمد صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند کے سامنے رکھا‘ دونوں حضرات کے مشورے سے طے ہوا کہ دیوبند کے ذمہ دار مسلمانوں کی ایک مجلس بلائی جائے‘ چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب سے دارالعلوم کے دارالحدیث میں انعقاد جلسہ کی اجازت لے کر ۱۱/ستمبر ۱۹۶۱ء کو بعد نماز عشاء دیوبند کے مخلص‘ باعمل اور ملی جذبہ رکھنے والے افراد کا ایک نمائندہ اجلاس حضرت قاری صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔ فدائے ملت‘ امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے سود در سود کے شکنجے میں پھنسے مسلمانوں کے واقعات کو بڑے دلدوز انداز میں پیش کیا‘ دعوت فکر وعمل دے کر مسلم فنڈ دیوبند کے ابتدائی اخراجات کے لئے ایک ہزار بیالیس روپے پچاس پیسے جمع کئے۔
مسلم فنڈ ٹرسٹ (بلاسود بینکاری) کا قیام
حضرت اقدس سید مدنی کے اس نقش اول اور نقطہ آغاز کو نقش ثانی کے طور پر تحریک کی شکل دینے کا عزم حضرت امیر الہند نے فرمایا‘ چنانچہ حضرت سید اسعد مدنی کی شخصیت نے دیوبند کی سرزمین پر ”مسلم فنڈ“ کے نام سے جو اقتصادی ادارہ قائم کیا اس کو آپ کی ذات نے ترقی دینے اور آگے بڑھانے میں جس جذبے سے کام کیا وہ قابل تحسین ہے۔ آج دیوبند میں ہی نہیں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشی پس ماندگی کو دورکرنے کے لئے علاج کا ایک ایسا طریقہ تلاش کرلیا گیا ہے‘ جس سے آنے والی نسلیں شفایاب ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ ۳۹ سال کے طویل عرصہ میں ادارے کا ترقیاتی سفر مخلصانہ جد وجہد کے زیر سایہ کامیابی کی منزلیں طے کررہاہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد تمام تعمیری اور ترقیاتی پروگراموں کو عملی جامہ پہنانا‘ کمزور طبقوں کو مضبوط کرنا‘ ان میں آبرومندی کے ساتھ جذبے کو بیدار کرنا اور مسلم معاشرے کے معاشی استحکام کو تقویت دیناہے۔
نوٹ: صدیوں بعد عالم اسلام میں یہ بلاسود بینکاری کا نظام پہلی مرتبہ ایک منظم تحریک کی شکل میں عملاً دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جو آج تک بڑی بڑی مسلم حکومتیں نہ کرسکیں تاحال پوری دنیا میں یہ ادارہ منفرد ہے۔
مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے چند اہم اقدامات
۱:- پبلک نرسری سکول:
مسلم فنڈ ویوبند نے ۱۹۷۱ء میں سب سے پہلے دیوبند میں پبلک نرسری سکول قائم کیا‘ جس میں مسلم بچوں اور بچیوں میں اسلامی اور دینی رجحانات بیدار کرکے ذہن سازی کی جاتی ہے‘ اس طرح دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی اقدار کی بقاء بھی اس سکول کا بنیادی مقصد ہے‘ اس سکول میں سیکنڈری کلاس تک تعلیم دی جاتی ہے۔
۲:- مسلم فنڈ کمرشل انسٹیٹیوٹ:
مسلم فنڈ دیوبند نے اگر ایک طرف مسلم معاشرے میں اقتصادی توانائی کے لئے کام کیا تو دوسری طرف مسلم نوجوانوں کو خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ بھی بخشا‘ اس کے لئے ۱۹۸۰ء میں ”مسلم فنڈ کمرشل انسٹیٹیوٹ“ کے نام سے ٹائپنگ کالج کا آغاز کیا‘ جس نے عربی‘ انگریزی‘ ہندی اور اردو کے ٹائپسٹ تیار کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا اور سینکڑوں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے معاشی مسائل کا حل پیش کیا۔ عربی کے باقاعدہ ٹائپسٹ تیار کرنے کا یہ ہندوستان میں پہلا اور واحد ادارہ ہے‘ عربی ٹائپنگ سیکھنے والا نوجوان آج صرف ایشیائی مسلم ممالک میں ہی نہیں‘ بلکہ ہندوستان میں بھی امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرنے والی فرموں میں کام کررہاہے اور باعزت طور پر زندگی گزاررہاہے۔
۳:- مسلم فنڈ کیریئر گائیڈ سینٹر:
یہ یونٹ بھی نوجوانوں میں خود اعتمادی کے ساتھ ان کے مستقبل کی صورت گری کرنے میں بڑا نمایاں رول ادا کررہاہے‘ یہاں پر انگریزی سکولز وکالجز میں پڑھنے والے طلباء کی ذہن سازی کی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں موزوں کورس یا ٹریڈ اور ملازمت کا انتخاب کرسکیں‘ حقیقت یہ ہے کہ اکثر طلباء بروقت معلومات اور صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے اہلیت رکھنے کے باوجود بھی اچھے اور بہتر مواقع گنوادیتے ہیں‘ مگر اس سینٹر نے مایوس اور کم حوصلہ رکھنے والے طلباء میں جوش اور ایک نئے ولولے کو فروغ دیا۔ بحمد اللہ! اس سے بہتر اور امید افزاء نتائج پیدا ہورہے ہیں۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
Flag Counter