Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 11
توھین رسالت
توھین رسالت
اور گستاخان رسول کا بد ترین انجام

ڈنمارک اور بعض یورپین ممالک میں کچھ لوگوں نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے اور شائع کئے ہیں‘ یہ عزت مآب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین اور سراسر گستاخی ہے‘ جو حرام ‘قطعاً ناجائز اور سنگین جرم ہے‘ اس کی سزا قتل ہے‘ اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے جو کرنا ہی چاہئے‘ اس موقع پر کچھ سوالات ذہنوں میں ابھرتے ہیں‘ قرآن و سنت کی روشنی میں ان کے جوابات لکھے گئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک جن لوگوں نے یہ گناہ اور سنگین جرم کیا ہے‘ ان کا بدترین انجام ہوا‘ اور ذلت کی موت مرے‘ تاریخِ اسلام سے ایسے لوگوں کے چند واقعات بھی عبرت کے لئے لکھے گئے ہیں۔
تحفظ ناموس رسالت کی شرعی حیثیت:
سوال: تحفظ ِ ناموس رسالت کی شرعی حیثیت اور اس کی حدود کیا ہیں؟
سوال: اگر کوئی شخص یا حکومت اس کا ارتکاب کرتی ہے تو شرعاً اس کی سزا کیا ہے؟
جواب: تحفظِ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کا دینی اور شرعی فریضہ ہے‘ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تو ہماری اپنی جانوں سے بھی بہت زیادہ ہے‘ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم۔“ (سورئہ احزاب:۶)
ترجمہ: ”نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) مومنین کے ساتھ ان کے نفس (اور ذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔“
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ‘ تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ما من نبی الا وانا اولی الناس بہ فی الدنیا ولآخرة اقرأوا ان شئتم النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم۔“ (صحیح بخاری ج:۲‘ ص:۷۰۵)
”کوئی مومن ایسا نہیں‘ جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ و اقرب نہ ہوں‘ اگر تمارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لئے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ لو:
”النبی اولیٰ بالمؤمنین۔“
جس کا حاصل یہ ہے کہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مؤمن مسلمان پر ساری دنیا سے زیادہ شفیق و مہربان ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا لازمی اثر یہ ہونا چاہئے کہ ہر مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب سے زیادہ ہو‘ جیسا کہ حدیث میں بھی یہ اشارہ ہے:
”لایؤمن أحد کم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔“ (بخاری‘ مسلم‘ مظہری)
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا‘ جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنے باپ‘ بیٹے اور سب انسانوں سے زیادہ نہ ہو۔“
(معارف القرآن ج:۷‘ ص:۸۷)
ذیل میں چند احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ کرام سے بھی تحفظ ِ ناموس رسالت کی اہمیت واضح ہوتی ہے:
۱:… ”حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص کی ام ولد باندی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی‘ وہ اس کو روکتے تھے مگر وہ نہ رکتی تھی‘ وہ اسے ڈانٹتے تھے مگر وہ نہ مانتی تھی‘ راوی کہتے ہیں جب ایک رات پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنا اور گالیاں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ایک خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبا دیا‘ اور اس کو مار ڈالا‘ عورت کی ٹانگوں کے درمیان سے بچہ نکل پڑا اور جو کچھ وہاں تھا وہ خون آلود ہوگیا‘ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں اس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں‘ جس نے جو کچھ کیا میرا اس پر حق ہے وہ کھڑا ہوجائے تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا اور جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کا مالک اور اسے مارنے والا ہوں‘ یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی‘ میں اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح خوبصورت ہیں اور وہ مجھ پر بہت مہربان بھی تھی‘ لیکن آج رات جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا‘ اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگاکر اسے مار ڈالا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لوگو! گواہ رہو! اس کا خون ”ھدر“ یعنی بے سزا ہے۔“
(ابوداؤد ج:۲ص:۲۵۱‘ مکتبہ حقانیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور بُرا بھلا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا‘ یہاں تک کہ وہ مر گئی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا۔
(ابوداؤد ج۲:ص۲۵۲)
”ابنِ خطل کی گانے والی دونوں باندیوں کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا‘ ان دونوں کے قتل کرنے کا حکم بھی اس لئے دیا گیا کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کے اشعار گایا کرتی تھیں‘ ان میں سے ایک قتل کی گئی اور دوسری بھاگ گئی جو بعد میں آکر مسلمان ہوگئی۔“
(حاشیہ ابوداؤد‘ ج:۲‘ ص:۹ و حاشیہ بخاری ج:۲‘ص:۶۱۴)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا‘ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچایا کرتا تھا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا۔ (حاشیہ بخاری ج:۲‘ص:۶۱۴)
ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والا مباح الدم ہوجاتا ہے‘ یعنی اس کا خون بہانا جائز ہوجاتا ہے اور حق کا علمبردار سزاؤں کا مستحق نہیں ہوتا‘ بلکہ ثواب کا حق دار ہوجاتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں صراحتاً یا اشارتاً‘ قولاً یا فعلاً بدگوئی اور گستاخی کرے تو شرعاً گستاخی کرنے والا شخص قتل کا مستحق ہے اور قتل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے کہ وہ ہر طریقے سے ایسے مجرم کو پکڑ کر اس پر قتل کی سزا جاری کرے‘ عام آدمی کے لئے قانون کے نفاذ کو اپنے ہاتھ میں لینا مناسب نہیں‘ لیکن اس کے باوجود اگر کسی عام شخص نے ایسے گستاخ اور بدگوئی کرنے والے شخص کو قتل کردیا تو اس پر شرعاً نہ قصاص ہے اور نہ تاوان‘ کیونکہ ایسے شخص کا خون مباح ہوجاتا ہے اور س کا قتل جائز ہوجاتا ہے‘ عام شخص کے لئے ایسا کرنا صرف خلافِ انتظام ہے۔
یہ تفصیل اس وقت ہے جبکہ گستاخی کرنے والا حربی کافر ہو یا مسلمان ہو‘ لیکن اگر گستاخی کرنے والا ذمی کافر ہو (یعنی اسلامی ملک کا باشندہ ہو) تو بعض فقہاء کے نزدیک اس کا بھی یہی حکم ہے جو اوپر لکھا گیا‘ کیونکہ ایسے کافر کا ذمی ہونا ختم ہوجائے گا‘ لیکن بعض فقہاء جیسے علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد ذمہ تو ختم نہ ہوگا‘ لیکن انتظامی اور تعزیری طور پر حکومت وقت اس کو قتل کرسکتی ہے‘ جبکہ وہ علانیہ اور بار بار سبّ و شتم کرتا ہو۔ (ملاحظہ رسائل ابن عابدین ج:۱‘ص:۳۵۴‘ خلاصة الفتاویٰ ج: ۴‘ ص:۳۸۶ ‘شامیہ ج:۴‘ص:۲۱۵)
شرعی سزا کا نفاذ ممکن نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
سوال: موجودہ دور میں اگر شرعی سزا کا نفاذ ناممکن ہو تو مسلمانوں کے لئے اس سے برأت اور بچاؤ کے لئے کیا حکم ہے اور وہ کیا طریقہ اختیار کریں؟ جواب: ایسی صورت میں ہر مسلمان کے ذمہ ہے کہ اس میں جتنی قوت و طاقت ہو‘ وہ جائز اور ممکن طریقوں کے ذریعہ ایسی گستاخانہ حرکتوں کو اور ایسی گستاخانہ حرکت کرنے والوں کو اور ان کے اسباب و ذرائع کو روکیں۔ اور جس میں یہ قدرت نہ ہو‘ ان پر زبان سے اس کی خرابی اور برائی بیان کرنا واجب ہے‘ اور جس کو زبان سے کہنے میں جان و مال کا خطرہ ہو‘ اس کے لئے دل میں بُرا جاننا واجب ہے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں یہی تفصیل آئی ہے:
”سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنی طاقت سے اس کو روکے‘ اگر اس کی قوت نہ ہو تو زبان سے اس کو منع کرے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے ‘یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“
(مسلم ج:۱‘ص:۵۱)
اس سلسلے میں احتجاج کرنا درست ہے‘ بشرطیکہ احتجاج پُرامن طریقے سے ہو اور اس میں حرام و ناجائز کاموں کا ارتکاب نہ ہو‘ مثلاً لوگوں کی املاک اور اموال کو نقصان پہنچانا‘ جلاؤ‘ گھیراؤ اور پتھراؤ کرنا وغیرہ‘ کیونکہ یہ سب گناہ کے کام ہیں‘ جو حرام اور ناجائز اور ان سے بچنا ہر حال میں لازم ہے۔ گستاخی کرنے والوں سے تجارتی تعلقات اور معاہدات کا ختم کرنا ایمانی حمیت ، غیرت کا تقاضا اور مسلمانوں کو اخلاقی فریضہ ہے ۔
چنانچہ کتبِ احادیث میں ثمامة بن اثال رضی اللہ عنہ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے:
” حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار تھے اور اسلام لانے کے بعد جب وہ مکہ مکرمہ گئے اور اہل مکہ نے ان کے اسلام لانے کو توہین آمیز الفاظ سے تعبیر کیا تو انہوں نے اہل مکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کردیئے‘ اس طور پر کہ اہل مکہ کے لئے یمامہ سے آنے والے غلہ کی درآمد پر پابندی لگائی اور یہ کہا کہ اس وقت تک یہ پابندی برقرار رہے گی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت نہ دیدیں‘ چنانچہ جب اہل مکہ غلہ کی درآمد پر پابندی لگنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے تو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے نام‘ والا نامہ تحریر فرمائیں کہ وہ اس پابندی کو ختم کردیں‘ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرماتے ہوئے‘ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی جانب ایک مکتوبِ مبارک تحریر فرماکر ارسال کیا‘ اس کے بعد یہ پابندی ختم کردی گئی اور معاہدات ختم کرنے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار اور مہاجرین کے درمیان ایک تحریری معاہدہ فرمایا اور اس معاہدہ میں یہود کو بھی شامل کیا‘ لیکن بعد میں یہود کی سازشوں‘ ریشہ دوانیوں اور گستاخیوں کی بنا پر معاہدہ ختم فرمایا‘ حتی کہ بعض یہود کے خلاف جہاد فرمایا اور بعض یہود کو جلاوطن فرمایا۔“
(صحیح مسلم ج:۲‘ص:۹۳‘ الصارم المسلول لابن تیمیہ ص:۶۶‘ مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح ج:۸‘ص:۵۱۲)
جس کمپنی کا توہین سے تعلق نہ ہو‘ اس کے بائیکاٹ کا کیا حکم ہے؟
سوال: اگر کسی کمپنی یا شخص کا اس توہین والے عمل کے ساتھ بلاواسطہ کوئی تعلق نہ ہو‘ محض ایک علاقائی یا لسانی تعلق ہو‘ اس بنا پر اس شخص یا کمیٹی کا بائیکاٹ کرنا اور لوگوں کو اس کی ترغیب دینا کیسا ہے؟
جواب: اگر کسی کمپنی یا شخص کا اس توہین والے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو‘ محض ایک علاقائی یا لسانی تعلق ہو تو اگر وہ ان کے اس بُرے عمل کے حامی ہوں تو ان کا وہی حکم ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ‘ اور اگر کمپنی یا شخص ان کے اس بُرے عمل سے بیزاری اور لاتعلقی اختیار کرے تو ایسی صورت میں اگر کمپنی کی آمدنی کا فائدہ گستاخوں کو پہنچ رہا ہو تو اس کمپنی کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے‘ البتہ اس شخص سے جو اس گستاخی سے بیزاری اور لاتعلقی اختیار کرے‘ اس سے تعلق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (مأخذہ تبویب جامعہ دارالعلوم کراچی بتصرف کثیر)
گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات
خسرو پرویز کا قتل اور اس کی حکومت کا خاتمہ:
”فارس“ ایران کا پُرانا نام ہے‘ یہ اپنے زمانہ کی بڑی طاقتور حکومت تھی‘ رقبہ کے لحاظ سے بہت وسیع سلطنت تھی‘ جس کی سرحد ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی‘ جنوبی عرب میں یمن پر اس کا گورنر حاکم تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خسرو پرویز ایران کا بادشاہ تھا‘ جس کا لقب کسریٰ تھا‘ آپ نے حضرت عبداللہ بن حزافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کا نامہٴ مبارک بحرین کے حاکم شجاع بن وہب کے ذریعہ کسریٰ کو پہنچائیں‘ چنانچہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہٴ مبارک کسریٰ کو پہنچایا اس کا ترجمہ یہ ہے:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے
کسریٰ عظیم فارس کے نام:
سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے‘ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں‘ تمام لوگوں کی طرف تاکہ جو لوگ زندہ ہیں‘ ان تک اللہ کا پیغام پہنچادیا جائے‘ پس تم اسلام لاؤ سالم رہوگے اور اگر انکار کرو گے تو تمام مجوس (آتش پرستوں) کا وبال تمہاری گردن پر ہوگا۔“
خسرو پرویز کی ناراضگی:
کسریٰ کے دربار میں جب یہ نامہٴ مبارک پڑھا گیا‘تو خسرو پرویز سخت غصہ ہوا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی اپنے نام سے پہلے دیکھ کر مشتعل ہوگیا اور طیش میں آکر خط پھاڑ دیا اور کہا: میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں‘ اس نے ہمیں عرب سمجھ رکھا ہے (نعوذباللہ) میرا غلام ہوکر اس مضمون کا خط لکھنے کی جرأت کی ہے‘ اس نے یمن کے گورنر باذان کو حکم نامہ لکھوایا کہ دو طاقتور آدمی بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور روانہ کیا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت عبداللہ بن حزافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو دربار سے نکل جانے کا حکم دیا‘ حضرت عبداللہ بن حزافہ سہمی رضی اللہ عنہ اسی وقت دربار سے سوئے مدینہ روانہ ہوئے اور جو کچھ دیکھا سنا تھا‘ بیان کردیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس طرح اس نے میرے خط کو پرزے پرزے کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے فرمادے گا۔“
کچھ دن بعد یہ بھی ارشاد فرمایا:
”کسریٰ مر گیا اور اب اس کے بعد نہ ہوگا کسریٰ‘ جب قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم دونوں سلطنتوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کروگے۔“
کسریٰ کے حکم کے مطابق گورنر یمن باذان نے دو طاقتور فوجی روانہ کئے‘ ان میں ایک کا نام بابو یہ اور دوسرے کا نام خرِ خسرو تھا‘ ایک خط کے ساتھ مدینہ بھیجے‘ یہ دونوں مدینہ پہنچے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ خط پیش کرنے آئے تو خوف سے تھر تھر کانپنے لگے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان پر نظر ڈالی تو فرمایا: افسوس ہے تمہاری اس حالت پر (کیونکہ دونوں کی داڑھیاں صاف اور مونچھیں متکبرانہ انداز میں بل دی ہوئی تھیں) تمہیں کس نے یہ صورت بنانے کا حکم دیا ہے؟ عرض کیا: ہمارے رب! (کسریٰ بادشاہ) نے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں چھوٹی کرانے حکم دیا ہے‘ انہوں نے عرض کیا: اگر آپ نے کسریٰ کے پاس چلنے سے انکار کیا تو وہ آپ کو اور آپ کی پوری قوم کو ہلاک کردے گا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب جاؤ‘ کل آنا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ آپ کو مطلع کردیا کہ کسریٰ کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قاصدوں کو طلب فرمایا اور ان کے آنے کے بعد فرمایا کہ میرے رب کے حکم سے تمہارا آقا قتل کردیا گیا ہے‘ یہ بھی فرمایا کہ کسریٰ کی سلطنت تک یہ دین پھیلے گا اور باذان کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اسے یمن پر حاکم برقرار رکھا جائے گا‘ خرِ خسرو کو ایک پٹکا جو سونے اور چاندی سے آراستہ تھا“ عطا فرمایا۔
بابویہ نے کسریٰ کے قتل کی تاریخ لکھ لی‘ یمن پہنچ کر باذان کو بتایا کہ ان کی باتیں کسی بادشاہ کی نہیں بلکہ نبی کی معلوم ہوتی ہیں‘ طے ہوا کہ اگر یہ باتیں درست نکلیں تو عمل کریں گے‘ چند دن بعد شیرویہ کا فرمان باذان کو ملا کہ کسریٰ کو قتل کردیا گیا ہے‘ یمن میں اس کی اطاعت کا عہد لے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی باز پرس نہ کرے‘ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی‘ کسریٰ کے تخت پر اس کا بیٹا شیرویہ قابض ہوا‘ جس کی حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکی‘ اس طرح کسریٰ پرویز کے قتل کے بعد اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور بالآخر چار سو سال پرانی سلطنت کا چراغ اسلامی افواج کے ہاتھوں گل ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ پیشینگوئی آٹھ سال کے اندر اندر پوری ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایران کا حاکم بنادیا۔
فائدہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہٴ مبارک کو پھاڑنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اظہارِ ناراضگی کی گستاخی کا انجام یہ ہوا کہ کسریٰ پرویز اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کی سلطنت بھی ختم ہوگئی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار! اے عقل والو! عبرت حاصل کرو۔
کعب بن اشرف یہودی کا قتل:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں میں ا یک یہودی کعب بن اشرف بھی تھا‘ یہ شاعر ہونے کے علاوہ بڑا مال دار یہودی تھا‘ غزوئہ بدر میں قریش کی شکست کا اس کو یقین نہ آتا تھا‘ جب حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے کہا: قریش کے سردار جو حرم کے نگہبان اور عرب کے بادشاہ ہیں‘ ان کی موت کے بعد ہم جیسوں کا زمین پر چلنے پھرنے سے مرجانا بہتر ہے۔
مکہ مکرمہ گیا اور قریش کے غزوئہ بدر میں قتل ہونے والے سرداروں کے ماتم میں قریش کے ساتھ شریک ہوا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا رہا اور لشکروں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکساتا رہا‘ مدینہ منورہ واپس آکر نئے جوش اور جذبے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے؟ جو مجھے اس کے شر سے نجات دلوائے؟ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے حامی بھرلی اور عرض کیا: اس کوشش میں اگر کوئی بات بے ادبی اور بظاہر ایمان کے خلاف ہو تو جائز ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اجازت ہے۔
چنانچہ منصوبہ بنایا گیا‘ ابو نائلہ جو کعب بن اشرف کے دودھ شریک بھائی تھے اور حضرت عباد بن بشر اور حضرت ابو عبس بن جبیر کو اس میں شریک کیا گیا‘ منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ کعب کے پاس گئے ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں‘ ایک دوسرے کو اپنے اپنے اشعار سنائے‘ جب اعتماد کی فضا بن گئی تو کہا: میں ایک ضرورت سے آیا ہوں‘ اگر راز داری کا عہد کرو تو بیان کروں‘ اس نے جواب دیا: کیا تم اپنے بھائی پر بھی اعتماد نہ کروگے؟ فرمایا: اس شخص ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ نے ہم سے صدقہ طلب کیا ہے جو ہمارے لئے مشقت کا باعث ہے‘ ہم پر احسان کرو‘ کچھ غلہ اور کھانے پینے کی چیزیں ہمیں دو‘ ہم اس کے بدلے کچھ نہ کچھ رہن رکھیں گے‘ پوچھا: کیا اپنی بیویوں کو گروی رکھوگے؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: نہیں! اس میں بڑی رسوائی ہوگی۔ اس نے کہا: چلو بچوں کو رہن رکھ دو‘ یہ بات بھی ذلت کا باعث ہوگی‘ تم احسان سے کام لو‘ اگر رہن ہی رکھنا ہے تو ہمارے ہتھیار رکھ لو‘ اس سے غلہ کی قیمت بھی ادا ہوجائے گی‘ کعب نے رضا مندی ظاہر کی۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا: ہتھیار سجالو‘ پھر سب مل کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ آپ نے انہیں بقیع الغرقد تک چھوڑ دیا اور فرمایا: اللہ کے نام پر اس کی مدد کے بھروسے سے چلے جاؤ‘ وہ سب کعب کے قلعہ پر پہنچے اور محمد بن مسلمہ نے آواز دی‘ ہر چند اس کی نئی دلہن روکتی رہی‘ لیکن وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں اندھا ہوا جارہا تھا‘ کہا: جواں مرد تو وہ ہے جب رات میں بھی اس کو نیزہ بازی کے لئے بلایا جائے تو دیر نہ کرے‘ اس کے آنے کے بعد دونوں کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے اور کہا: ہواؤں میں کس قدر خوشبو سی مہک رہی ہے؟ اے ابن اشرف! یہ اس تیل کی مہک ہے جو تم نے سر میں لگایا ہے‘ سر پکڑ کر خوشبو کو سونگھنے لگا‘ وہ بڑا خوش ہوا‘ یہ دیکھ کر اس کے بال مضبوطی سے جکڑ لئے اور آواز دی‘ اس دشمن خدا اور دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردو‘ ہر طرف سے تلواریں پڑنے لگیں‘ حضرت محمد بن مسلمہ نے اپنا چھوٹا خنجر اس کی ناف میں گھونپ دیا اور اس نے زور کی چیخ ماری‘ جلدی سے آپ نے اس لعین کا سر کاٹا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ بقیع غرقد کے قریب پہنچے تو اللہ اکبر! کا نعرہ لگایا‘ آواز حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو سمجھ گئے کہ کام تمام ہوگیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی۔
صبح یہودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قس قتل پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ‘ارشاد ہوا:
”تم کعب کے اشعار اور اس کے گستاخانہ انداز اور کھلی مخالفت سے خوب واقف ہو‘ اگر تم معاہدے پر قائم رہو تو پھر کسی سے کوئی عداوت نہیں۔“
فائدہ:
کعب بن اشرف یہودی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں حد سے زیادہ گستاخی کی اور اپنے کیفر کردار کو پہنچا۔
ابو رافع گستاخِ رسول کا انجام بد:
ابو رافع اسلام دشمنی میں کعب بن اشرف کا معین و مدد گار تھا‘ اس کا نام عبداللہ تھا‘ جو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کا بھائی تھا‘ بہت مال دار تاجر تھا اور خیبر میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا‘ ابو رافع اس کی کنیت تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش تھا۔ کعب بن اشرف کو جہنم رسید کرنے کا شرف قبیلہ اوس کے حصہ میں آیا تھا‘ ایسا ہی اعزاز قبیلہ خزرج کے لوگ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے‘ آخر ابو رافع پر ان کی نظر پڑی‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر حضرت عبداللہ بن عتیک‘ مسعود بن سنان اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہم نے اس کام کو انجام دینے کا بیڑا اٹھایا‘ اس جماعت کا امیر حضرت عبداللہ بن عتیک کو بنایا گیا‘ خیبر میں اس کے قلعہ کے قریب شام کے وقت پہنچے‘ حضرت عبداللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں سے کہا: میں کسی نہ کسی ترکیب سے قلعہ کے اندر جاؤں گا‘ اندھیرا پھیلنے لگا تو حضرت عبداللہ بن عتیک قلعہ کی فصیل کے قریب ایسے بیٹھ گئے‘ جیسے قضائے حاجت کے لئے بیٹھے ہوں‘ دربان نے سمجھا اپنا ہی آدمی ہے‘ دروازہ بند کرنے کا وقت آیا تو آواز دی گئی : اندر آجاؤ یہ سنتے ہی وہ قلعہ میں داخل ہوکر لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ابو رافع بالا خانے پر رہتا تھا‘ رات گئے قصہ خواں اس کے پاس جمع رہتے تھے‘ جب یہ محفل برخواست ہوگئی تو دربان نے تمام دروازے بند کئے اور چابیوں کو ایک طاق میں رکھ کر خود بھی سو گیا۔
حضرت عبداللہ بن عتیک نے دربان کو غافل پایا تو کنجیاں اٹھالیں‘ قلعہ کے ہر کمرے کا اندرونی تالا کھولتے اور اسے اپنے پیچھے بند کرلیتے تاکہ اگر کوئی اندر داخل ہونا چاہے تو راستہ نہ پاسکے‘ آخر وہ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں ابو رافع اپنے بچوں کے ساتھ سویا ہوا تھا‘ اندھیرے کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ انہوں نے آواز دی: ابو رافع! جواب ملا: کون ہے؟ حضرت عبداللہ نے آواز کے رخ پر تلوار سے وار کیا‘ بدحواسی میں وار اوچھا پڑا ‘ابو رافع نے شور مچایا‘ کچھ وقت گزرا تو آواز بدل کر پوچھا :یہ شور کیسا ہے؟ ابو رافع نے جواب دیا: کوئی میرے کمرے میں گھس آیا ہے اور مجھ پر وار کیا گیا ہے‘ حضرت عبداللہ قریب پہنچے اور تلوار اس کے پیٹ میں گھونپ دی‘ جو آر پار ہوگئی‘ وہ کہتے ہیں کہ میں دروازہ کھولتا ہوا آخری زینے تک پہنچا‘ سمجھا کہ زمین آگئی ہے‘ آگے بڑھا تو بلندی سے نیچے گر پڑا اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ عمامہ نکال کر اسے باندھ لیا اور ساتھیوں کے پاس فصیل کے باہر پہنچ گیا‘ ان سے کہا: تم جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سناؤ‘ میں صبح اس کی موت کی تصدیق کے بعد آؤ ں گا۔
مرغ نے بوقت فجر اذان دی‘ تو منادی نے قلعہ سے اعلان کیا کہ کسی نے ابو رافع کو قتل کردیا ہے‘ یہ سن کر میں خوش خوش مدینہ منورہ آیا ‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے پنڈلی کی ٹوٹی ہڈی پر لعب دہن لگایا جو اچھی ہوگئی۔
فائدہ:
ابو رافع گستاخ رسول ہی نہیں تھا‘ بلکہ قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر ابھارا کرتا تھا‘ ان کی ہر طرح مدد کرتا تھا‘ لہٰذا مسلمانوں کی سلامتی کے لئے ایسے مجرم کا خاتمہ بہت ضروری تھا‘ بہرحال ابو رافع حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی سزا پاکر ہمیشہ کے لئے جہنم میں گیا۔
یہودیہ عصماء شاعرہ کاانجام:
بنی خطمہ میں ایک یہودیہ عصماء نامی عورت شاعرہ تھی‘ اس نے اپنی شاعری کا رخ مسلمانوں کی ہجو کی طرف موڑ دیا‘ خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی تھی اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر ابھارتی تھی‘ اپنے ایام ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی غزوئہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ اس نے اپنے اشعار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو اور گستاخی شروع کردی‘ ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے سنا تو دل میں عہد کرلیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ بدر سے بسلامت واپس تشریف لائے تو میں اس شاعرہ کی زبان بند کروں گا۔ الحمدللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے فاتحانہ تشریف لائے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لئے تلوار لے کر نکلے‘ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہوئے‘ راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اس کے قریب پہنچے‘ بچہ اس کی چھاتی سے لگا ہوا تھا‘ اسے ایک طرف کیا اور تلوار دل میں چبھودی‘ وہ آواز تک نہ نکال سکی اور مرگئی۔
صبح کی نماز مسجد نبوی میں ادا کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے عرض کیا‘ کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟ فرمایا: نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے عمیر رضی اللہ عنہ لوٹ رہے تھے تو عصماء کے لڑکے نے کہا: یہ ہماری ماں کا قاتل ہے ‘ جواب میں کہا: بے شک! میں نے ہی اسے قتل کیا ہے اور اگر کسی نے پھر ایسی جرأت کی تو اسے بھی موت کا مزہ چکھاؤں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا:
”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو‘ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔“
یہ بھی ارشاد ہوا کہ ان کو نابینا نہ کہو‘ یہ بینا اور بصیر ہیں‘ وہ بیمار ہوئے تو عیادت کے لئے جاتے ہوئے فرمایا کہ :مجھے بنی واقف کے بینا کی عیادت کے لئے لے چلو۔
یہودی شاعر کا قتل:
قبیلہ ٴ بنی عمرو بن عوف میں ابو عفک ایک شاعر تھا‘ اس کی عمر ۱۲۰ سال تھی‘ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو کرتا تھا‘ اپنی قوم کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا‘ بدر کی فتح سے بھی کوئی سبق نہ لیا‘ بلکہ اس کی گستاخی کچھ اور ہی بڑھ گئی‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو میری عزت و حرمت کے لئے ان کی زبان بند کردے؟ حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے‘ رات آئی تو اپنے کام پر روانہ ہوئے ابو عفک اپنے گھر کے صحن میں غفلت کی نیند سو رہا تھا‘ تلوار اس کے سینے کے پارکردی اور اس کا کام تمام کردیا۔ (یہاں تک تمام واقعات بعد ترمیم سیرتِ احمد مجتبیٰ سے ماخوذ ہیں)
فائدہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کا دنیا میں یہ انجام ہوا کہ عصماء اور ابو عفک دونوں قتل ہوئے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوئے‘ گستاخی کرنے والے عبرت لیں۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: امیر الہندحضرت مولانا سید اسعد مدنی
Flag Counter