Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

10 - 11
مولانا الحاج مظفر احمد
مولانا الحاج مظفر احمد


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ در پیدا
مظہر انوار مدنی‘ عارف باللہ‘ محدث عظیم حضرت مولانا الحاج مظفر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ بانی وشیخ الحدیث جامعہ ریاض العلوم مینگیزی بوتھیدنگ ارکان برما‘ خلیفہ مجاز شیخ الاسلام والمسلمین قطب العالم والارشاد حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ (وفات ۱۳/جمادی الاولی ۱۳۷۷ھ مطابق ۵/دسمبر ۱۹۵۷ء) سر زمین ارکان ”برما “کے یکتائے روزگار‘ ولی کامل‘ شیخ الحدیث والتفسیر‘ ماہر علوم وفنون دینیہ وامور سیاسیہ کے وہ روشن مینار تھے‘ جو نصف صدی تک ہر سو چمکتے رہے جن کی یادان کی ہزاروں تعداد میں تلامیذ اور خلفأ ومریدین‘ محبین ومتعلقین سرزمین ارکان ”برما“ سے بنگلہ دیش ”سابق مشرقی پاکستان“ سمیت پاکستان اور سعودی عرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت پیر صاحب کی ذات گرامی اس دورِ ظلمت میں ایک عظیم الشان مہر تاباں‘ محبوب ومقبول ترین شخصیت اور علم وعمل کے بدر منیر اور عبادت وریاضت‘ حسن اخلاق‘ محبت حق اور خدمت خلق میں اپنے شیخ ومرشد حضرت اقدس مدنی کے نمونہ تھے اور ان کی خاندانی شرافت ونجابت میں جامع صفات کے مالک تھے‘ بلاتفریق وامتیاز عوام وخواص کا مرجع ومنظور نظر تھے۔ حضرت پیر صاحب ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء اپنے وطن مالوف میں پیدا ہوئے‘ خاندانی سلسلہ کچھ اس طرح سے ہے: مظفر احمد ولد الحاج فضل الرحمن ولد سید علی‘ نسلی اعتبار سے زمیندار‘ صاحب ثروت وسخاوت تھے‘ علم وعلمأ دوست اور انصاف پسند تھے‘ ان کی خاندانی رواداری اور فیاضی زبان زدعام وخاص تھی‘ حضرت موصوف ہوش سنبھالنے کے بعد تقریباً ۶/سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا‘ ابتدائی تعلیم اپنے عم محترم حضرت مولانا الحاج ابو القاسم صاحب کے پاس قرآن کریم کے ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم حاصل کی پھر چوتھی جماعت تک اردو وغیرہ پر مشتمل سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی‘ اس دوران عالمگیر جنگِ ثانی کا انقلاب شروع ہوا‘ اس ہنگامہ خیز خونی سانحہ میں دو تین سال تعلیمی سلسلہ باضابطہ قائم نہیں رکھ سکے۔
۱۹۴۵ء کو جنگ فرو ہونے کے بعد علاقہ کے ایک مدرسہ میں ۶/ مہنیے میں درجہ ثانیہ ”ہدایة النحو‘ قدوری“ تک کی کتابیں ختم کیں‘ پھر اس دوران شہر تنکبازار میں حضرت مولانا مفتی محمد حسین فاضل مظاہر العلوم سہارنپور وفات ۲۰/صفر ۱۴۲۴ھ مطابق ۲۳/اپیرل ۲۰۰۳ء نے ایک مدرسہ ”دارالعلوم عربیہ“ کے نام سے بنیاد رکھی‘ اس میں داخلہ لے کر مسلسل ۴/سال تک متوسطہ درجہ کی تمام عربی کتابیں پڑھ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ۱۹۴۹ء کو ہندوستان کا رخت سفر باندھا‘ وہاں جاکر ازہر الہند ”جامعہ دارالعلوم دیوبند“ میں داخلہ لے لیا پھر وہاں ۱۹۴۹ء ۱۹۵۳ء تک مسلسل ۵/سال مصروف تعلیم رہ کر تمام کتب متداولہ تفسیر وحدیث اور جملہ فنون عالیہ وآلیہ کی تکمیل کے بعد دورہٴ حدیث کی تعلیم مکمل کی اور ہرایک امتحان میں اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے گویا ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۹۵۳ء کو سند فراغ حاصل کی۔ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد باطنی وروحانی علوم کے حصول کے لئے شیخ العرب والعجم امام ربانی حضرت اقدس مدنی کے دست مبارک پر بیعت کی اور سفر وحضر میں ساتھ رہ کر مستفید ہوتے رہے‘ صحبت شیخ میں رہ کر اس قدر ریاضت ومشقت کی کہ دو تین مہینے کے اندر اندر حضرت پیر صاحب کو جذب غالب ہوگیا‘ خدا کا شکر ہے کہ اپنے شیخ کی خصوصی توجہ سے پھر اپنی اصلی حالت پر آگئے‘ حضرت پیر صاحب اپنے شیخ حضرت اقدس مدنی کی دامن تربیت میں مسلسل ۴/سال رہ کر شب وروز ایک کرکے راہ سلوک کی منازل طے کرتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کے صلہ میں زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا۔
حضرت پیر صاحب نے اپنے شیخ حضرت اقدس مدنی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن اور احسان وسلوک کی بلند وبالا فضا میں محو پرواز تھے کہ بالآخر ۱۹۵۷ء کو چار سال کے اختتام پر سلاسل اربعہ میں حضرت اقدس مدنی نے خلیفہٴ مجاز بناکر اس روحانی نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا۔ حضرت مدنی کے کل (۱۶۷) خلفأ میں سے حضرت پیر صاحب کا(۱۶۵) واں نمبر ہے۔ بعدازاں وطن مالوف تشریف لاکر ”مدرسہ عربیہ“میں دوسال تک درس وتدریس کا مشغلہ جاری رکھا‘ پھر ۱۹۵۹ء کو معروف بستی ”مینگوی“ میں ”ریاض العلوم“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اس مدرسہ میں دن رات ایک کرکے محنت جاری رکھی اور تدریسی خدمات انجام دہی کے لئے مستند علمأ کرام کا تعین فرمایا‘ یہاں تک کہ بتدریج ترقی کرتے ہوئے یہ مدرسہ ایک جامعہ کی شکل اختیار کرگیا‘ ارکان کے معیاری جامعات میں اب یہ ”ریاض العلوم“ بھی ایک اعلیٰ اور معیاری جامعہ بن گیا ہے۔ اس ادارہ میں عرصہ دراز سے ”دورہٴ حدیث“ تک تعلیم ہورہی ہے‘ حضرت پیر صاحب بخاری شریف وترمذی شریف کی تدریس بڑی شان وشوکت سے دیتے رہے اور دعوت وارشاد وہدایت کے اسفارکو بھی مسلسل جاری رکھا‘ احسان وسلوک کا سلسلہ بام عروج پر رہا‘ اپنے مریدوں کی تربیت بھی فرماتے رہے۔
ماشأ اللہ! اللہ رب العزت نے اس نصف صدی سے زائد زندگی میں سینکڑوں عمرے اور چار حج مبارک سے نوازا تقریباً (۱۰۰) کی تعداد میں علمأ وفضلأ‘ خلفأ کرام ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مریدین ہیں‘ بالآخر بحکم خداوندی امسال ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۰۰۵ء کا حج آخری حج ثابت ہوا‘ مناسک حج واعمال سے فراغت کے بعد ۲۱/ ذی الحجہ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۲/جنوری ۲۰۰۶ء بروز اتوار طواف وداع سے فارغ ہوکر وطن واپسی کے لئے اپنے معتقدین ومریدین کے ساتھ جدہ ائیرپورٹ تشریف لائے ہی تھے کہ اچانک قلب میں درد سا محسوس کیا‘ دراصل یہ دل کا دورہ تھا‘ وہاں سے خدام جدہ ملک فہد ہسپتال لے گئے‘ جہاں سعودی وقت کے مطابق دن کے ۲/بجے ارض مقدس کے جوارِ حرم میں ۷۸/سالہ حیاتِ مستعار جان جانِ آفریں کے حوالہ کرکے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
وہاں کے دستور کے مطابق تقریباً ۲/دن ۲/رات سرکاری کاروائی سے فارغ ہونے کے بعد ۲۳/ذی الحجہ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۴/ جنوری ۲۰۰۶ء بروز منگل بعد نماز فجر حرم مکہ مکرمہ میں امام حرم الشیخ شریم حفظہ اللہ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی‘ اور ”جنت معلیٰ“ میں ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سلادئے گئے۔
اللہم ارفع درجاتہ فی جنات النعیم بنعمتک وکرمک یا ارحم الراحمین
پسماندگان میں ایک بیوہ‘ ۱۱/اولاد میں ۹/لڑکے اور ۲/لڑکیاں ہیں ۵/ عالم فاضل ہیں‘ اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دے رہے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے تمام متعلقین ومسترشدین کو حضرت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے‘ آمین․
گلستان میں عجب افسردگی معلوم ہوتی ہے پریشان گل ہیں رنجیدہ کلی معلوم ہوتی ہے
کسی کی موت کی شاید غمی معلوم ہوتی ہے جو نرگس آج یہ روتی معلوم ہوتی ہے
ستارے نوحہ کناں ہیں آسمان مصروف ماتم ہے زمین پر ایک ہلچل سی مچی معلوم ہوتی ہے
ہرایک لب پہ فغاں ہے اور فریادیں ہیں نالے ہیں جدھر دیکھو صفِ ماتم بچھتی معلوم ہوتی ہے
مظفر احمد! تمہاری موت سے دنیا کو دلی صدمہ ہے جہاں میں آج ایک اداسی معلوم ہوتی ہے
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الاول۱۴۲۷ھ اپریل۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: نظریہ پاکستان اور دینی مدارس
Flag Counter