Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

8 - 15
ملفوظات حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)
بعد نماز عشاءبرمکان جناب غلام سرور صاحب (لاہور)

اہل علم و اہل خیر کا خصوصی اجتماع

مورخہ ۵ صفر ۹۹۳۱ھ

ارشاد فرمایا کہ دین کے تین اہم شعبے ہیں۔ تعلیم‘ تبلیغ‘ تزکیہ‘ جن کے ذرائع کا نام مدارس ‘ مساجد‘ خانقاہیں ہیں مدارس اور مساجد کے خدام کی تنخواہوں کے سلسلے میں غور کرنا ہے اور وہ یہ کہ ان کی تنخواہیں معقول ہونا چاہیے۔ جب تنخواہ معقول ہوگی تو آدمی بھی معقول ملیں گے انحطاط امت کے رسالہ میں اس کی تفصیل موجود ہے جو مع شرح مجلس ابرار میں شائع ہوچکا ہے۔ بالغین کے لیے پہلا مدرسہ مساجد ہیں اور بچوں کے لیے مدارس ہیں اور جو لوگ مساجد میں نہیں آتے ان کے لیے تبلیغی نظام ہے مساجد اور مدارس میں ایک منٹ کا مدرسہ صبح ایک منٹ کا مدرسہ شام کا اس طرح شروع کیا جاوے کہ صرف ایک سنت صبح بتادی جاوے تو تیس دن میں تیس سنتیں یاد ہوجاویں گی اور تعب بھی نہ ہوگا۔ آج ہم ہر چیز بڑھیا اور عمدہ پسند کرتے ہیں دوکان بڑھیا ہو مکان بڑھیا ہو اور پان بھی بڑھیا ہو اور نان بھی بڑھیا ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ انسان خود اشر ف المخلوقات ہے اگر ہر چیز اسے اشرف اور اعلیٰ پسند ہو تو یہ اس کی فطری خواہش ہے لیکن یہ انسان اپنے لیے تو اشرف اور بڑھیا چیزیں پسند کرے مگر اپنے مالک اور خالق کے کاموں میں بھی اس کو یہی تقاضا ہونا چاہیے کہ اس کا وضو بھی بڑھا ہو اور نماز بھی بڑھیا ہو مگر وضو اور نماز کب بڑھیا ہوگی جب سنت کے مطابق ہوگی نماز میں ۶ فرائض ہیں ۸۱ واجبات ہیں اور ۱۵ سنتیں ہیں مگر آج سو آدمیوں میں سے ایک آدمی کی بھی نماز سنت کے مطابق نظر نہیں آتی اگر ایک سنت روز بتائی جاوے تو ۱۵ دن میں نماز کی ۱۵ سنتیں یا دہوجاویں گی وضو کی ۳۱ سنتیں ۳۱ دن میں یاد ہوجاویں گی اور اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں کی سنتیں یاد کرائی جاسکتی ہیں‘ لیکن جب وضو اور نماز کی سنتوں کا اہتمام نہیں تو ختنہ اور عقیقہ اور کھانے پینے کی سنتیں کون یاد کرے گا۔ اور جب ہماری زندگی سنتوں سے محروم ہوتی جاوے گی تو خاندان اور برادری کی غلط رسم و رواج یا پھر شہر کی یا صوبے کی یا ملک کی راہ و رسم آجاویں گی جب اصلی گھی گھر میں نہ ہوگا تو لا محالہ ڈالڈا کھانا پڑے گا۔ اور جب سنتوں کو سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کا اہتمام ہوگا تو غلط رسم و رواج خود ہی دور ہونے لگیں گے جس طرح بارش کاپانی جب برستا ہے تو نالے اور نالیاں گندے پانی سے خود بخود صاف ہوجاتی ہے۔ دین آسان ہے مساجد میں ایک سنت روز سکھائے چند ماہ میں اس طرح نمازیوں کو کتنی سنتوں کا علم ہوجاوے گا اور ہر نمازی اپنے گھر جاکر عورتوں اور بچوں کو سکھائیے۔ اور اسی طرح مدرسے میں جن طلباءکو ہر روز ایک سنت سکھائی جاوے وہ گھر جاکر اپنے بھائی اور بہنوں اور ماں باپ کو سکھائیں اس طرح سنت کے انوار مساجد اور مدارس سے گھر گھر پھیل جاویں گے اور جب سنتیں پہنچیں گی تو بری عادتیں خود بخود دور ہوتی جاویں گی۔

اسی طرح برسوں ہوجاتے ہیں لوگوں کو درود شریف اور الحمد شریف کے معنیٰ نہیں معلوم ہوتے ہیں اﷲ اکبر اور اعوذباﷲ بسم اﷲ کے معنی نہیں معلوم ہوتے ہیں اس کا بھی یہی نظام ہے کہ ایک منٹ کا مدرسہ بعد نماز عصر یا ایک منٹ کا مدرسہ بعد نماز فجر قائم کیا جاوے اور ایک لفظ کے معنیٰ کو ایک دن بتایا جاوے مثلاً ایک دن اعوذ کا معنیٰ دوسرے دن باﷲ کا معنیٰ تیسرے دن من الشیطٰن کا معنیٰ چوتھے دن الرجیم کا معنیٰ یاد کرایا جاوے اس طرح ان پڑھ آدمی کو بھی ترجمہ آسانی سے یاد ہوجاوے گا۔ دین آسان ہے ان تجاویز پر جہاں بھی عمل کیا گیا بڑی کامیابیاں نظر آرہی ہیں۔ اور گھر والے بھی بڑے خوش ہیں اور جن بعض احباب کو ہمارے اکابر سے حسن ظن نہ تھا سنتوں کی تعلیم سے ان کی رائے بدل گئی اور حسن ظن پیدا ہوگیا مسجد میںسنت کے مطابق جیسا کہ مشکوٰة شریف کی روایت ہے کہ بسم اﷲ پڑھنے اور درود شریف پڑھے اور داہنا پاﺅں مسجد میں رکھے اور اللّٰہم افتح لی ابواب رحمتک کی دعا پڑھے اور نفلی اعتکاف کی نیت کرتے تو پانچ سنتیں ادا ہوجاتی ہیں اور جہاں احباب کو حسن ظن اپنے اکابر سے نہ ہو وہاں بسم اﷲ اور درود شریف زور سے پڑھ کر مسجد میں داہنا قدم رکھے اس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ ان کی بدگمانی حسن ظن سے بدل جاوے گی اور غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کی زبان خود بخود رک جاوے گی۔ کہ عوام مشاہدہ کو کیسے غلط ثابت کرسکیں گے۔

اسی طرح مجھے آج افسوس ہے کہ اذانیں اور تکبیریں کہیں اصول فقہ پر صحیح نہ ملیں نہ کراچی میں نہ لاہور میں نہ حیدر آباد میں۔ اس کا سبب بھی غفلت کے ساتھ سستے موذنوں کا تقرر ہے۔ آنکھ میں تکلیف ہوگی تو آنکھ کے ماہر ڈاکٹر کو دکھائیں گے لیکن اذان دینے والے کو جب مقرر کریں گے کم تنخواہ کا تلاش کریں گے کسی ماہر فن سے تجویز کرانا چاہیے خود موذن یا مدرس نہ مقرر کرے اور معقول تنخواہ دی جاوے

ہر کہ اوارزاں خرد ارزاں دہد

گوہرے طفلے بہ قرص ناں دہد

موذنین کی تربیت کا خاص نظام بنایا جائے ہمارے یہاں موذنین کی تربیت دی جاتی ہے اور دو ماہ تین ماہ تصحیح قرآن پاک اور اذان کی صحت کے لیے ان کا معقول وظیفہ بھی دیتے ہیں اس کے بغیر اصلاح کسیے ہوگی کافیہ منطق، پڑھانے والوں کی تنخواہوں سے ہم قرآن پاک کے مدرسین کو زیادہ تنخواہ دیتے ہیں اور تنخواہ کا مدار قابلیت نہیں کیونکہ علم کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے اسکی بنیاد حاجت پر رکھی ہے۔ علماءکی تنخواہوں سے زیادہ ہمارے ہاں حفظ مدرسین کی تنخواہیں ہیں بلکہ نورانی قاعدہ پڑھانے والوں کی ہے کیونکہ عالم کے مثلاً دو بچے ہیں اور حفظ کرانے والے استاد کے ۷ بچے ہیں تو زیادہ تنخواہ کی ضرورت ظاہر ہے۔

اسی طرح دینی مدارس کے طلباءکا امتحان قرآن پاک کی تلاوت مع الصحت میں ہونا چاہیے۔ جب فارغین طلباءعوام کی امامت کرتے ہیں اور قرآن پاک کو تجوید کے خلاف پڑھتے ہیں تو بے حدبدنامی ہوتی ہے کہ یہ کس مدرسہ کے فارغ ہیں ان کو کس نے سند دے دی کم از کم آخر کے ۲ پارے حفظ بھی ان کو کرادیا جاوے تاکہ سنت کے مطابق طویل سورتیں بھی پڑھ سکیں۔

ایک فارغ التحصیل ہمارے یہاں آئے ہم نے ان کا امتحان نورانی قاعدہ میں لیا۔ بہت خفا ہوئے میں نے کہا آپ کی سند میں نورانی قاعدہ تو نہیں لکھا ہے۔ پھر ایک بچہ کو بلایا اور اس سے قرآن پاک پڑھوایا پھر اس کو درسگاہ بھیجا اور مولانا سے دریافت کیا کہ اس بچے نے کیسا پڑھا کہنے لگے مجھ سے اچھا پڑھا میں نے کہا اگر اس کا آپ کو امام بنادیا جاوے تو یہ بچہ آپ کی تلاوت کے متعلق کیسا فیصلہ کرے گا اور اس کے دل میں آپ کی کیا وقعت ہوگی۔ آج کل اذان دینا گھٹیا عمل سمجھا جاتا ہے اگر علماءاور معزز لوگ اذان دینے لگیں تو پھر یہ عمل گھٹیا نہیں سمجھا جاوے گا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر خلافت کا کام میرے ذمے نہ ہوتا تو میں موذنی کے فرائض ادا کرتا۔

میں نے اپنے یہاں مدرسین کا اجتماع کیا اور اس میں علماءکی تعداد ۹۱ تھی ایک ماہ تک یہ اجتماع رہا میں نے انہیں ۹۱ علماءسے باری باری اذانیں دلائیں اور اقامت بھی اس طرح ان کی اذان و اقامت کی اصلاح بھی مقصود تھی نیز تاکہ اذان دینے کو لوگ گھٹیا نہ سمجھیں۔

اگر دینی خدام کو معقول تنخواہیں دی جائیں تو یہ ٹیوشن کے چکر میں کیوں رہیں اور پھر ان کا یہ وقت جو بچے گا اس سے تبلیغ اور امامت کا کام لیا جاسکتا ہے۔ حفظ کے استاد کے پاس ۵۱ سے ۰۲ بچوں سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔سوفیصد کامیاب ہونا مطلوب ہے ایک بچہ بھی فیل کیوں ہو ہر شخص کے ۳۲ دانت ہیں تو ایک دانت کا ٹوٹنا گوارا کرے گا؟ سوفیصد بچوں کے کامیاب ہونے کا طریقہ یہ ہے جو کمزور بچے ہو ان پر توجہ زیادہ کیا جائے۔ ہمارے یہاں ۱۱ صوبوں کے بچے پڑھتے ہیں اس کے علاقہ افریقہ‘ لندن‘ موزمبیق اور پاکستان سے پڑھ کر وہاں تصحیح کے لیے پہنچ رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ حق تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ معیاری صحت و تجوید سے قرآن پاک کی تعلیم ہوتی ہے۔ آج کل رواج یہ ہے کہ قرآن پاک کے ۰۴۵ رکوع میں سے صرف چند رکوع مشق کرلیتے ہیں اور قاری صاحب ہوجاتے ہیں حالانکہ پورا قرآن پاک صحیح ہونا چاہیے۔

حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ بعض بڑے بڑے قاری حضرات جب سری نمازپڑھتے ہیں تو رعایت تجوید کی نہیں کرتے نہ مدنہ اخفا توصحت قرآن اور تجوید کیا صرف نماز جہری کا حق ہے یا قرآن پاک کا حق ہے۔ ایک مدرسہ میں کافیا کے درجے میں عمدہ دریاں تھیں اور قرآن پاک کے درجے میں ٹوٹی چٹائیاں تھیں۔ دل کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیان نہیں کرسکتا۔

قرآن پاک کی عظمت نہیں ہے حالانکہ یہ شاہی خاندان والے طلباءہیں ان کو اہل القرآن اہل اﷲ کہا گیا ہے۔ہمارے یہاں نئی دریاں پہلے قرآن پاک کے درسگاہوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر پرانی ہوکر عربی و فارسی کے درسگاہوں میں پہنچتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے اس کی عظمت کا استحضار اور اہتمام کی برکت ہے کہ مجھے کبھی مالی ابتلا نہیں پیش آتی حالانکہ تقریباً ۵ لاکھ سالانہ کا خرچ ہے اور تقریباً ستر مکاتب ہیں۔ اور جو طالب علم بیمار ہوتا ہے اس کا علاج بھی شاہی ہوتا ہے دل کھول کر اس کے علاج میں صرف کیا جاتا ہے یہ مجاہد ہیں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ طلباءہمارے لئے ذریعہ معاش بھی ہیں اور ذریعہ معاد بھی ہیں صدقہ جاریہ کا باعث بھی یہی بنتے ہیں۔ مدرسین اور منتظمین دونوں کا نفع انہیں سے ہے جو طالب علم دین سیکھنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے جب تک گھر واپس نہیں آتا مجاہد ہوتا ہے۔ اذان اور قرآن پاک کی صحت کے سلسلے میں یہ باتیں گذارش کی گئیں اور ایک مشورہ عرض کرتا ہوں کہ ہر موذن کے ساتھ ایک خادم بھی ہو۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter