Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

7 - 15
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے ایک دفعہ اپنے شاگرد طلباءکی جوتیاں اٹھائیں

فرمایا کہ حضرت مولانا گنگوہیؒ ایک مرتبہ حدیث پڑھا رہے تھے کہ بارش آگئی سب طلباءکتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا سب طلباءکی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اٹھا کر لے چلیں لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ سے کسی نے عمل تسخیر کے بارہ میں دریافت کیا

فرمایا کہ مولانا گنگوہیؒ سے مولانا عبدالرحیم صاحبؒ نے یا ان کی موجودگی میں کسی نے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ تسخیر کا عمل جانتے ہیں فرمایا ہاں جب ہی تو میرے یہاں مولانا عبدالرحیم صاحب جیسے لوگ آتے ہیں۔

دہلی کے ایک مجذوب کی بددعا

احقر جامع نے ثقہ سے سنا ہے کہ ایک تھانہ بھون کے رہنے والے دہلی میں کسی مجذوب کے پاس دعا کے واسطے حاضر ہوئے تو اس نے کہا کہ تھانہ بھون ابھی تک غرق نہیں ہوا۔ اس نے عرض کیا کہ حضرت میں تو دعا کے واسطے حاضر ہوا ہوں اور آپ بددعا فرما رہے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ تھانہ بھون اب تک ضرور غرق ہوجاتا مگر وہاں دو شخص ہیں ایک مردہ ایک زندہ ایک تو شاہ ولایت صاحب وہاں لیٹے ہوئے ہیں (ان بزرگ کا تھانہ بھون میں مزار ہے) اور ایک مولانا اشرف علی صاحب۔ ان دونوں کی برکت سے تھما ہوا ہے ورنہ ضرور غرق ہوجاتا۔

حضرت حکیم الامتؒ کے بارے میں حضرت مولانا گنگوہیؒ کی رائے

احقر جامع نے ثقہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہی رحمة اﷲ علیہ نے حضرت سیدی و سندی شیخی و مرشدی حکیم الامت حضرت مولانا مولوی شاہ محمد اشرف علی صاحب رحمة اﷲ علیہ کی نسبت یہ فرمایا کہ بھائی ہم نے تو حاجی صاحبؒ کا کچا پھل کھایا ہے (کیونکہ بڑھاپے میں کمال روحانی بڑھتا ہے‘ جامع )محشیٰ کہتا ہے کہ یہ تواضع ہے اس کو تفاضل لازم نہیں آتا کیونکہ حالت فاضلہ کے ملا بس کی استعداد کا فاضل ہونا لازم نہیں۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ نے حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی

شکایت سننے سے انکار کردیا

احقر جامع نے استادی مولانا مولوی محمد قدرت اﷲ صاحبؒ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں حضرت مولانا گنگوہیؒ کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا کہ کچھ لوگ تھانہ بھون کے حضرت مولانا کے پاس آئے اور آکر حضرت مولانا اشرف علی صاحب رحمة اﷲ علیہ کی شکایت کرنے لگے کہ ایسا کرتے ہیں ایسا کرتے ہیں اور ابھی نام ظاہر نہ کیا تھا کہ مولانا گنگوہیؒ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کی شکایت ہے انہوں نے کہا کہ مولانا اشرف علی صاحب کی حضرت نے فرمایا کہ میں سننا نہیں چاہتا وہ جو کام کرتے ہیں حق سمجھ کر کرتے ہیں نفسانیت سے نہیں کرتے بشریت سے غلطی دوسری شے ہے پھر وہ سب صاحب اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ کے مزار پر ایک درویش نے چیخ ماری

اور شدت سے گریہ طاری ہوگیا

احقرجامع نے مکرمی مولانا مولوی احمد شاہ حسن پوریؒ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ مجھ سے مکرمی حکیم مولوی محمد یوسف صاحب گنگوہیؒ نے بیان کیا کہ پیران کلیر میں میں نے ایک درویش صاحب کا یہ طرز دیکھا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار کے اندر نہیں جایا کرتے تھے بلکہ مزار کے قریب دروازہ سے باہر کھڑے ہوکر کچھ دیر رویا کرتے تھے۔ یہ درویش حکیم محمد یوسف صاحب سے ملنے گنگوہ آئے حکیم موصوف کا بیان ہے کہ ہم ان کو ظہر کے وقت مسجد خانقاہ قطب عالم شیخ عبدالقدوس قدس اﷲ سرہ‘ العزیز میں لے گئے۔ وہ درویش بعد نماز ظہر حسب عادت مزار شیخ کے دروازہ کے قریب کھڑے ہوکر کچھ دیر تک رو کر واپس آئے۔ حکیم صاحب موصوف کا بیان ہے کہ ہم کو یہ خیال آیا کہ ان کو حضرت اقدس محبوب الٰہی مولانا رشید احمد صاحبؒ کے مزار پر لے چلیں اور ظاہر نہ کریں کہ مولانا کے مزار پر لئے جاتے ہیں۔ حکیم صاحب نے ان درویش سے یہ فرمایا کہ جنگل کی طرف تشریف لے چلئے درویش صاحب نے فرمایا بہت بہتر۔ حکیم صاحب موصوف کو گنگوہ سے غرب کی جانب جنگل کو لے چلے اور راستہ سے شمال کی جانب جو ایک مسجد حضرت اقدس مولانا گنگوہیؒ کے مزار کے قریب بنی ہوئی ہے اس طرف کو چلے۔ فرش مسجد کے شمالی کنارہ پر جس وقت یہ درویش پہنچے نہایت زور سے ان دریش نے چیخ ماری اور کھڑے ہوکر شدت سے روتے رہے۔ اس میں عصر کا وقت آگیا اور حکیم صاحب نے عصر کی اذان پڑھی، اذان کے بعد بھی وہ درویش روتے رہے۔ جب حکیم صاحب نماز کے واسطے کھڑے ہوئے تب وہ درویش تکبیر کے وقت نماز میں شریک ہوئے۔ نماز کے بعد جب درویش صاحب واپس ہوئے تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ ایسا نہیں کیا کرتے ہیں۔ جیسا آپ نے میرے ساتھ کیا بعض وقت ایسے موقع پر جان نکل جاتی ہے انسان کو جب کسی بزرگ کے مزار کی خبر ہوجاتی ہے تو کچھ سنبھل کر جاتا ہے یہ حضرت مولانا کا مزار ہے حضرت ممدوح نے شریعت کے پردہ میں اپنی نسبت عالیہ کا اخفاءفرمایا تھا۔

حضرت مولانا نانوتویؒ کے ایک بدعتی درویش کی مہمان نوازی پر نکیر

احقر جامع نے ثقہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ مولانا نانوتویؒ کے یہاں ایک بدعتی درویش مگر صاحب حال مہمان ہوئے تو آپ نے اس کا بڑا اکرام کیا۔ اس کی خبر ایک شخص نے مولانا گنگوہیؒ کو کی تو مولانا نے فرمایا برا کیا۔ اس شخص نے یہ مقولہ مولانا نانوتویؒ سے جاکر کہا تو مولانا نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو کفار مہمانوں کا اکرام کیاہے۔ اس شخص نے اس جواب کو پھر مولانا گنگوہیؒ سے آکر نقل کیا تو مولانا گنگوہیؒ نے فرمایا کہ کافر کے اکرام میں مفسدہ نہیں ہے بدعتی کے اکرام میں مفسدہ ہے۔ اس نے پھر اس جواب کو مولانا نانوتویؒ سے جاکر کہا تو مولانا نانوتویؒ نے اس کو ڈانٹ دیا کہ یہ کیا واہیات ہے اِدھر کی اُدھر اِدھر کی ادھر لگاتے پھرتے ہو جاﺅ بیٹھو اپنا کام کرو۔

حضرت مولاناقاسم صاحبؒ نانوتویؒ کے بچپن اور جوانی کے دوخواب

مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ میں مرگیا ہوں اور لوگ مجھ دفن کر آئے ہیں تب قبر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کچھ نگین سامنے رکھے اور یہ کہا کہ یہ تمہارے اعمال ہیں اس میں ایک نگین بہت خوشنما اور کلاں ہے، اس کو فرمایا کہ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ ایسے ہی مولانا نے ایک خواب ایام طالب علمی میں دیکھا تھا کہ میں خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور مجھ میں سے نکل کر ہزاروں نہریں جاری ہورہی ہیں اس خواب کی مولانا مملوک علی صاحبؒ نے یہ تعبیر دی تھی کہ تم سے علم دین کا فیض بکثرت جاری ہوگا (از تحریرات بعض ثقات)

حضرت مولانا نانوتویؒ کے والد کی حضرت حاجی صاحبؒ سے شکایت

ایک مرتبہ مولانا نانوتویؒ کے والد ماجد نے حضرت حاجی صاحب قدس سرہ سے شکایت کہ کہ بھائی میرے تو یہ ہی ایک بیٹا تھا اور مجھے کیا کچھ امیدیں تھیں کچھ کماتا تو افلاس دور ہوجاتا تم نے اسے خدا جانے کیا کردیا نہ کچھ کماتا ہے نہ نوکری کرتا ہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ اس وقت توہنس کر چپ ہورہے پھر کہلا بھیجا کہ یہ شخص ایسا ہونے والا ہے کہ بڑے بڑے آدمی اس کی خادمی کریں گے اور ایسی شہرت ہوگی کہ اس کا نام ہر طرف پکارا جائے گا اور تم تنگی کی شکایت کرتے ہو خدا تعالیٰ بے نوکری ہی اتنا دے گا کہ ان سو سو پچاس پچاس روپیہ کے نوکروں سے اچھا رہے گا (از تحریرات بعض ثقات)

حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی ایام روپوشی کا واقعہ

ایک مرتبہ مولانا محمد قاسمؒ ایام روپوشی کے زمانہ میں دیوبند تھے زنانہ مکان کے کوٹھے پر مردوں میں سے کوئی تھا نہیںزینہ میں آکر فرمایا پردہ کرلو میں جاتا ہوں عورتوں سے رک نہ سکے باہر چلے گئے، بعضے مرد بازار میں تھے ان کو اطلاع کی وہ اتنے میں مکان پہونچے تو دوڑ سرکاری آدمیوں کی پہونچ گئی۔ (از تحریرات بعض ثقات)

(جاری ہے۔)
Flag Counter