Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

6 - 15
مقام تقویٰ
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

مولانا محمد عمر فاروق

عن النعمان بن بشیرؓ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الحلال بین والحرام بین وبینہما مشتبھات لا یعلمہن کثیر من الناس فمن اتقی الشبہات استبرءلدینہ و عرضہ ومن وقع فی الشبہات وقع فی الحرام کا الراعی یرعیٰ حول الحمیٰ یوشک ان یرفع فیہ الا ان لکل ملک حمی الا و ان حمی اﷲ محارمہ الا وان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا افسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب

(رواہ البخاری و مسلم)

ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو حلال ہے و واضح اور روشن ہے اور جو حرام ہے وہ بھی واضح اور روشن ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ہیں جو مشتبہ ہیں ان کو (یعنی ان کے شرعی حکم کو)بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ والی چیزوں سے بھی (ازاراہِ احتیاط) پرہیز کرے وہ اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالے گا اور بے داغ رہے گا۔ اور جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑے گا اور مبتلا ہوگا وہ (خدا نہ کرے)حرام کی حدود میں جاگرےگا۔ اس چرواہے کے طرح جو اپنے جانور محفوظ سرکاری علاقے کے آس پاس بالکل قریب ہی چراتا ہے تو اس کا قریبی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جانور اس محفوظ سرکاری علاقے میں داخل ہوکر چلنے لگیں۔ (جوقابل سزا اور جرم ہے) اور معلوم ہونا چاہیے کہ ہر بادشاہ اور فرمانروا کا ایک حمی (محفوظ علاقہ ) ہوتا ہے (جس کی حدود میں بغیر اجازت داخلہ حرام سمجھا جاتا ہے) تو اﷲ تعالیٰ کا وہ حمی (محفوظ علاقہ) اس کے محارم یعنی محرمات ہیں (آدمی کو چاہیے کہ اس کے قریب بھی نہ جائے یعنی مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے) اور خبردار انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے (جس کی شان یہ ہے) کہ اگر وہ ٹھیک ہو (یعنی اس میں نور ایمان خدا کی معرفت اور اس کا خوف ہو) تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال صحیح و درست ہوتے ہیں) اور اگر اس کا حال خراب ہو تو سارے جسم کا حال بھی خراب ہوتا ہے (یعنی اس کے اعمال و اموال خراب ہوجاتے ہیں) آگاہ رہو گوشت کا کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔

تشریح: حدیث کے پورے ذخیرہ میں چند چند حدیثیں وہ ہیں جنکو امت کے علماءاور فقہاءنے بہت اہم اور اصولی سمجھا ہے، انہی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کی ہوئی یہ حدیث بھی ہے۔

رسول کریم علیہ السلام نے اس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ بیان فرمایا ہے کہ شریعت میں جو چیزیں اور جومعاملات صراحت کے ساتھ حلال یا حرام قرار دیئے گئے ان کا معاملہ تو صاف اور روشن ہے، لیکن ان کے علاوہ بہت سی چیزیں اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا جائز یا ناجائز ہو ناکسی صریح دلیل سے معلوم نہ ہوسکے گا بلکہ دونوں رایوں کی گنجائش ہوگی۔ مثلاً شریعت کے ایک اصول کی روشنی میں ان کو جائز اور کسی دوسرے اصول کی روشنی میں ناجائز قرار دیا جاسکے گا تو ایسی شبہ والی چیزوں اور ایسے معاملات کے بارے میں بندہ مومن کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ازراہ احتیاط و تقویٰ ان سے بھی پرہیز کرے، اسی میں دین و آبرو کی حفاظت ہے۔ آگے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایسی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کا اہتمام نہ کرے گا تو وہ بے احتیاطی کا عادی بن کر محرمات کا بھی مرتکب ہوجائے گا۔ تو مومن بندہ کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں اور مشتبہ معاملات سے بھی پرہیز کرے۔ اس طرح وہ محرمات اور معصیات سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ یہی مقام تقویٰ ہے۔ آخر میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک نہایت اہم بات ارشاد فرمائی کہ انسانی وجود کے بگاڑ اور سدھار، سعادت اور شقاوت کا دارومدار اس کے قلب کے حال پر ہے جو انسان کے پورے جسمانی وجود پر اور تمام اعضاءپر حکمرانی کرتا ہے اگر وہ درست ہوگا اور اس میں خدائی معرفت اور ایمان کا نور ہوگا تو انسان کا پورا جسمانی وجود درست رہے گا۔ اور اس کے اعمال واموال صحیح اور صالح ہونگے اور اگر قلب میں فساد و بگاڑ ہوگا اور اس پر حیوانی و شیطانی جذبات کا غلبہ ہوگا تو اس کا پورا جسمانی وجود فاسد اور غلط کا رہو گا اور اس کے اعمال و اخلاق شیطانی ہوںگے۔ اس حدیث میں قلب سے مراد انسان کا وہ باطنی حاسہ ہے جس کا رحجان خیر یا شر کی طرف ہوتا ہے۔ اس کو مقضہ (گوشت کا ٹکڑا) اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے سینہ میں بائیں جانب صنوبری شکل کا جو ایک خاص عضو اور مضغہ لحم ہے جس کو قلب اور دل کہا جاتا ہے وہ اس باطنی حاسہ کا خاص محل اور گویا اس کا تخت ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حدیث میں پہلے تو محرمات کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی جو تقویٰ کی بنیادی شرط ہے اس کے بعد آپ علیہ السلام نے قلب کے بارے میں یہ آگاہی دی اور بتلایا کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار قلب کے صلاح و فساد پر ہے اس کی حفاظت کی اور نگرانی کی طرف توجہ دلائی۔ مبارک ہیں وہ بندے جو قلب اور باطن کی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور قالب اور ظاہر سے زیادہ اپنے قلب اور باطن کی طرف فکر رکھتے ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام کا یہی امتیاز ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی اہمیت کو سب سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے اﷲ تعالیٰ انہیں اس کی بہتر جزاءدے اور ان کی برکات سے ہمیں محروم نہ فرمائے۔

بعض شارحین نے اس حدیث پاک کے مضامین کی ترتیب سے یہ بھی سمجھا ہے کہ قلب کی صفائی اور طہارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کھانے پینے میں محرمات کے علاوہ مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے۔ اﷲ تعالیٰ مجھ سمیت تمام مومنین کو ہر ہر حدیث پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
Flag Counter