Deobandi Books

ماہنامہ الابرار مارچ 2010

ہ رسالہ

13 - 15
سفرنامہ حضرت مولانا محمد مظہر صاحب
ایف جے،وائی(March 17, 2010)

از : محمد اشرف علی رنگونی عفا اﷲ عنہ

۱۱ صفر المظفر ۱۳۴۱ھ بمطابق ۷۲ جنوری ۰۱۰۲ءبروز بدھ حضرت اقدس مہتمم جامعہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ بوقت صبح ۸ بجے گلشن اقبال سے ہالا کے لیے روانہ ہوئے۔ (ہالا اندرون سندھ میں واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ایک مدرسہ ہے جس کے مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد خالد صاحب ہیں جو دارالعلوم کراچی سے فاضل ہیں اور عرصہ دراز تک دارالعلوم کراچی میں استاذ رہے ہیں اور مفتی رشید احمد صاحبؒ کے ہاں بھی طویل مدت تک تدریس کی ہے اور شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے مجاز بیعت بھی ہیں ان کے زیر اہتمام ”دارالعلوم الاسلامیہ“ میں سہ ماہی امتحانات کے اعلان نتائج کے سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم بطور مہمان خصوصی مدعو تھے وہاں کے لیے حضرت دامت برکاتہم روانہ ہوئے۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ دارالعلوم الاسلامیہ کے تمام طلباءمتبعین سنت و شریعت ہیں۔ اس سفر میں مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہ‘ مفتی رفیق الاسلام صاحب‘ مشہور نعت خواں مولانا ابراہیم کشمیری صاحب اور خانقاہ میں وقت لگانے کے لیے آئے ہوئے مشہور نعت خوان جناب حافظ فیصل بلال صاحب اور چند سالکین حضرت دامت برکاتہم کے شریک سفر رہے۔ جبکہ حضرت دامت برکاتہم نے اپنی شفقت تامہ سے تخصص فی الحدیث کے طلباءکرام کو بھی اپنی معیت میں سفر کرنے کا شرف بخشا۔ تقریباً صبح ۱۱ بجے ہالا پہنچے۔ داراالعلوم الاسلامیہ ہالا میں مہمانوں کے لیے پرتکلف ناشتے کا انتظام کیا گیا، ناشتے کے بعد جناب حافظ فیصل بلال صاحب نے حمد باری تعالیٰ پیش کی، اس کے بعد مفتی احمد ممتاز صاحب نے شیخ العرب والعجم، عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا الہامی مضمون ”ولی اﷲ بنانے والے چار اعمال“ کو مفصل و مدلل انداز میں پیش کیا، اس کے بعد مولوی ابراہیم کشمیری نے نعتیہ کلام پیش کیا، اس کے بعد حضرت دامت برکاتہم کا تقریباً ایک گھنٹہ بیان ہوا، بیان میں حضرت دامت برکاتہم نے اسلام کی حقانیت، اتباع سنتِ صحبت اہل اﷲ کی اہمیت اور علماءو طلباءکی فضیلت پر روشنی ڈالی۔ حضرت دامت برکاتہم کے بیان کا خاصہ یہ ہے کہ ہر مضمون کے لیے ایک عام فہم مثال پیش کرتے ہیں جس سے غبی سے غبی انسان بھی مسئلہ سمجھ جاتا ہے۔ حضرت دامت برکاتہم کے بیان سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

اسلام کی حقانیت: فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن یہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں آیا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بدرکامل یعنی چودہویں رات کا چاند کتنا روشن ہوتا ہے، دیہاتوں میں رہنے والے جانتے ہیں کہ اس رات کتے آسمان کی طرف منہ کرکے بھونکتے ہیں لیکن کتوں کے بھونکنے سے چاند کی روشنی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ وہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے اسی طرح یہود و نصاریٰ کے منصوبے کتوں کے بھونکنے کی طرح ہیں اور اسلام مثلِ بدر کامل ہے اور اسلام غالب ہوکر رہے گا، انشاءاﷲ۔

اتباع سنت

فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ ہرچیز میں ان کی اتباع ضروری ہے چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ کیونکہ جہاں انسانی سمجھ اور عقل ختم ہوتی ہے، وہاں سے وحی شروع ہوتی ہے۔ (پھرحضرت دامت برکاتہم نے ایک صاحب کا قصہ سنایا کہ) ایک صاحب میرے پاس امریکہ سے آئے میں نے ان سے کہا ڈاڑھی رکھ لو۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ یورپ میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہر چیز کو عقل سے پرکھو جو سمجھ میں آئے وہ کرو اور جو سمجھ میں نہ آئے اسے چھوڑ دو اور داڑھی سمجھ میں نہیں آتی۔ تو میں نے کہا کہ دین میں تو بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خروج ریح سے وضو ٹوٹ جاتا ہے حالانکہ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک گلاس پانی لے کر مقعد کو دھولیاجائے لیکن آپ چہرہ بھی دھوتے ہیں ہاتھ بھی دھوتے ہیں پیر بھی دھوتے ہیں سر کا مسح بھی کرتے ہیں‘ یہ بھی تو خلاف عقل ہے۔ وہ شخص کہنے لگا ہاں! واقعی یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا دین میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو خلاف عقل ہے جن کو امر تعبدی کہا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بلا چوں و چرا دینی احکامات کی تعمیل کریں۔

صحبت اہل اﷲ کی اہمیت

صحبت اہل اﷲ کی اہمیت پر حضرت دامت برکاتہم نے پر اثر خطاب فرمایا۔ دوران بیان حضرت دامت برکاتہم پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ داڑھیں مار مار کرروتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ والوں کی قدر کرلو، قدر کرلو۔ جب دنیا میں کوئی اﷲ اﷲ کہنے والا نہیں ہوگا تو اﷲ تعالیٰ بھی اس دنیا کو ختم فرمادیں گے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم شادی بیاہ کے موقع پر شامیانے لگاتے ہیں اور خوب آرائش کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن جب تقریب ختم ہوجاتی ہے تو دوسرے دن صبح آپ وہاں جاکر دیکھیں گے تو کوڑا کرکٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔اس لئے کہ شامیانے لگانے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا ہے۔ اسی طرح جب دنیا میں کوئی اﷲ کا نام لینے والا نہیں ہوگا تو اﷲ تعالیٰ بھی اس دنیا کو ختم فرما دیں گے کیونکہ دنیا کو وجود بخشنے کا جو مقصد تھا وہ ختم ہوگیا ہے۔

علماءو طلباءکی فضیلت

فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے بندوں کا رزق مختلف چیزوں میں رکھ دیا ہے۔ کسی کا رزق تجارت میں ہے تو کسی کا زراعت میں اور کسی کا صنعت میں ہے تو کسی کا ملازمت میں ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا رزق اﷲ تعالیٰ نے ”قال اﷲ‘ قال الرسول“میں رکھ دیا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بادشاہ آپ سے کہہ دے کہ تم میری باتوں کو لکھ کر لوگوں تک پہنچایا کرو تو لوگ کہیں گے کہ کیا ہی خوش نصیب ہے۔ اسی طرح علمائے کرام بھی اﷲ و رسول کی باتیں لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔

بیان کے بعد حضرت دامت برکاتہم نے اپنے دست مبارک سے طلباءمیں انعامات تقسیم فرمائے، اس کے بعد جو بیعت کے خواہشمند تھے ان کو حضرت دامت برکاتہم نے بیعت فرمایا اور یوں بہت سے لوگ داخل سلسلہ ہوئے، اس کے بعد حضرت دامت برکاتہم نے دعا فرمائی۔ پھر حضرت دامت برکاتہم نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ بیعت ہوئے ہیں وہ مفتی خالد صاحب سے اپنا اصلاحی تعلق رکھیں، مفتی صاحب جو شیخ العرب والعجم، عارف باﷲ، حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کے مجاز بھی ہیں اذکار بتائیں گے۔ اس کے بعد ظہر کی نماز بھی حضرت دامت برکاتہم نے پڑھائی، حضرت دامت برکاتہم چونکہ مسافر تھے اس لیے دو رکعات پر سلام پھیر دیا اور مقیمین حضرات نے کھڑے ہوکر اپنی اپنی نمازوں کی تکمیل کی۔ اس کے بعد پرتکلف کھانے کا بندوبست کیا گیا، کھانے سے فراغت کے بعد نوکوٹ کے لیے روانہ ہوئے (نوکوٹ میرپور خاص سے آگے تھر کے قریب ایک علاقہ ہے جہاں حضرت دامت برکاتہم کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان مسجد اور مدرسہ ابرار العلوم زیر تعمیر ہے) عصر کی نماز ٹنڈو آدم کی ایک مسجد میں اور مغرب کی نماز ایک پیٹرول پمپ کے مصلے میں ادا کی گئی۔ رات تقریباً ۰۱ بجے نوکوٹ پہنچے۔ عشاءکی نماز سے فارغ ہوکر پہلے مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہ نے بیان فرمایا اس کے بعد مولوی ابراہیم کشمیری نے نعتیہ کلام پیش کیا، اس کے بعد حضرت دامت برکاتہم نے مسلسل سفر اور تھکن کے باوجود تقریباً پون گھنٹے کا خطاب فرمایا، بیان کے شروع میں حضرت دامت برکاتہم نے حاضرین سے فرمایا کہ سوادس ہورہے ہیں، نیند تو نہیں آرہی؟ حاضرین نے کہا ”نہیں“ حضرت دامت برکاتہم نے فرمایا کہ لوگ پارٹیوں، شادی بیاہ اور دیگر دنیاوی معاملات میں کتنی راتیں قربان کردیتے ہیں، آج ہم بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے ایک رات قربان کرکے دیکھتے ہیں۔ ہمارا آپ کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے اور نہ کوئی تجارتی یا دنیا وی تعلق ہے۔ صرف اﷲ تعالیٰ کی محبت میں اﷲ تعالیٰ کے لیے اﷲ تعالیٰ کی باتیں سننے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو کتنا پیار آرہا ہوگا۔ پھر حضرت دامت برکاتہم نے اہل اﷲ کی صحبت کی اہمیت پر نہایت جامع خطاب فرمایا۔ بیان کے بعد حضرت دامت برکاتہم نے بیعت فرمایا، وہاں بھی کئی افراد داخل سلسلہ ہوئے۔ اس کے بعد رات کا کھانا کھایا، کھانے کے بعد ابھی سستانے کا ارادہ کرہی رہے تھے کہ اطلاع ملی کہ شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی طبیعت بہت ناساز ہے۔ حضرت دامت برکاتہم نے فوراً گاڑی تیار کرنے کا حکم فرمایا اور پانچ منٹ کے اند اندر تقریباً رات ۱ بجے نوکوٹ سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ ترتیب کے مطابق حضرت دامت برکاتہم کو دوسرے دن میرپور خاص جانا تھا۔ میر پور خاص کے احباب نے تمام انتظامات مکمل کرلئے تھے لیکن اس ناگہانی صورتحال کی وجہ سے میرپور خاص کے احباب سے معذرت کرلی گئی۔ سجاول پہنچ کر خبر ملی کہ حضرت والا دامت برکاتہم کی طبیعت کافی سنبھل چکی ہے تب حضرت دامت برکاتہم نے گاڑی روک کر تمام رفقائے سفر کو چائے پلائی۔ پھر وہاں سے روانہ ہوکر تقریباً فجر کی اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے گلشن اقبال خانقاہ پہنچے۔ اﷲ تعالیٰ بڑے حضرت چھوٹے حضرت کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے اور بڑے حضرت دامت برکاتہم العالیہ کو صحت و عافیت کے ساتھ ۰۳۱ سال کی عمر نصیب فرمائے، ہمیں ان بزرگوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی فیوضات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے اور ان کے قدموں میں جینے مرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔
Flag Counter