Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

8 - 14
ملفوظاتِ حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ارشاد فرمایا کہ بعض وقت روشنی ہے علم ہے۔ یقین بھی ہے مگر عمل کی قوت نہیں ہوتی مثلاً کمرے میں روشنی ہے اور الماری میں سیب نظر آرہا ہے اور اس کے باوجود اور نافع ہونے پر یقین بھی ہے ڈاکٹروں نے اس کو کھانے کے لیے حکم بھی دیا ہوا ہے اور دل بھی چاہتا ہے مگر سیب تک اٹھ کر جانے کی قوت نہیں ہوتی۔ پھر ڈاکٹر طاقت کا انجکشن لگاتا ہے اور وٹامن کے کیپسول کھلاتا ہے جب طاقت آجاتی ہے تو خود اٹھ کر الماری تک جاکر سیب کھاتا ہے یہی حال ان اہل علم کا ہے کہ علم کی روشنی بھی ہے۔ یقین بھی ہے۔ مگر عمل کی قوت نہیں ہے اﷲ والوں کی صحبت میں آنے جانے سے کچھ ہی دن میں قوت آنی شروع ہوجاتی ہے اور اعمال میں ترقی شروع ہوجاتی ہے۔

ارشاد فرمایا کہ بعض وقت سردی لگتی ہے بارش ہورہی ہے سستی محسوس ہورہی ہے کہ ایک پیالی چائے پی لینے کے بعد مزاج بدل جاتا ہے جب ایک پیالی چائے مزاج بدل دیتی ہے تو اﷲ والوں کی صحبت کیا روحانی سستی دور نہیں کرسکتی کیا صالح کی صحبت ایک پیالی چائے سے بھی کم درجہ رکھتی ہے۔

ارشاد فرمایا کہ ظاہری اعمال کا فساد اس کے دل کے فساد و خرابی پر دلالت کرتا ہے۔ دلیل حدیث یہ ہے اذا فسدت فسدت کلہ جب دل صالح ہوجاتا ہے تو تمام اعضاء صالح ہوجاتے اور جب دل فاسد ہوجاتا تو تمام اعضاء فاسد ہوجاتے ہیں۔

ارشاد فرمایا کہ صالحین سے ملنا جلنا جاری رکھے ایک عام غلطی یہ ہورہی ہے کہ اﷲ والوں سے ملنے جلنے اور تھوڑی دی کی ملاقات کو نافع نہیں سمجھا جاتا صرف وعظ اور مجلس میں ملفوظات کے سننے پر نفع کو موقوف سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ صرف ملاقات بھی مفید ہے صالحین کے قلب کا عکس حاضرین کے قلب پر پڑتاہے۔ جو اہل ادراک کو صرف ملاقات سے محسوس ہوجاتا ہے ایک نظر اﷲ والوں کو دیکھنے سے نفع محسوس ہوجاتاہے۔ کسی ہاتھ کو مصافحہ کرنے سے ہاتھوں کی سردی گرمی کا احساس نہ ہو تو یہی کہا جاوے گا ہاتھوں پر فالج ہے۔ بے حس ہے۔ بجلی کی روشنی بجلی کا پنکھا نافع ہے مگر ناطق نہیں ہے رات کی رانی نافع ہے دماغ کو فرحت دیتی ہے مگر بولتی نہیں ہے صالح کی صحبت خاموش بھی نافع ہے ایک مغلوب الغضب نے حضرت تھانویؒ کی خدمت میں اپنا حال لکھا کہ مجھے غصہ جلد آتا ہے اور تیز آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے حضرت والا نے جواب لکھا کہ آپ مولوی محمد حسن صاحب (انور بک ڈپو لکھنؤ) کی صحبت میں تھوڑی دیر بیٹھ لیا کریں چند روز یہ جاکر دوکان پر مولوی صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ غصے کی بیماری میں کمی محسوس کرنے لگے تو کیا بات تھی مولانا کے مزاج میں حلم بہت غالب ہے ان کی خاموش صحبت کا اثر ان پر کس طرح ہوا ان کے قلب کا عکس ان کے دل پر پڑنا شروع ہوگیا اور دل کی کیفیت آہستہ آہستہ بدل گئی حالانکہ مولوی صاحب نے کوئی وعظ یا تقریر نہیں کیا تو صحبت صالح کی خاموشی کے باوجود نافع ہوتی ہے۔ اس لیے آپس میں ملنے جلنے کا صالحین سے اہتمام ہونا چاہیے۔

ارشاد فرمایا کہ علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ نے فرمایا ہے کہ جو بات نامناسب دیکھو تو اگر وہ لوگ دین کے قدردان ہیں تو اس وقت مناسب عنوان سے کہہ دیا جاوے اور اگر وہ ناقدر دان ہیں تو تنہائی میں سمجھا دیا جاوے‘ فتویٰ عالمگیری میں یہ مسئلہ تصریح سے مذکور ہے کہ اگر مخاطب کے قبول کرنے کی پوری امید ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہوجاتا ہے۔

ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک جگہ ظاہر کی اصلاح پر بہت تاکید کیا تو ایک صاحب نے کہا کہ اگر باطن ٹھیک ہو تو ظاہری وضع قطع یعنی داڑھی وغیرہ کے اوپر سختی کی کیا ضرورت ہے میں نے کہا کہ آپ تاجر ہیں آپ اپنی دوکان کا سائن بورڈ الٹ کر لگادیجئے تو کہنے لگے لوگ مجھے پاگل کہیں گے اور دماغی توازن کے خراب ہونے پر دلیل قائم کرلیں گے تو میں نے کہا کہ اس وقت اس سائن بورڈ کا باطن تو ٹھیک ہوگا صرف ظاہر خراب ہوا تو آپ نے کیوں پاگل ہونے اور دماغی توازن کی خرابی کا سرٹیفکیٹ خود ہی دے دیا تو کہنے لگے مولانا اب سمجھ میں بات آگئی بعض وقت مثالوں سے بات خوب سمجھ میں آجاتی ہے۔

ارشاد فرمایا کہ ہر ملک اپنی سرحد کی حفاظت کرتا ہے اگر ایک گز زمین پر دوسرا پڑوسی ملک قبضہ کرلے تو تمام ملک میں حتیٰ کہ مرکز یعنی دارالخلافہ تک ہلچل مچ جاتی ہے دیکھئے یہاں ظاہر کی حفاظت کا کس قدر اہتمام ہے کار کی ٹائر خراب ہے‘ صرف ظاہر خراب ہے انجن درست ہے کیا کار بے کار نہ ہوجاوے گی ہوائی جہاز کی تمام مشینیں اندر سے بالکل درست ہیں صرف ٹائر خراب ہے کیا وہ بے کار نہیں ہوجاتا ایک ڈاکٹر ہے اعلیٰ درجہ کی ڈگری ہے مگر آنکھ سے اندھا کان سے بہرا زبان سے گونگا ہوگیا اور ہاتھ پر فالج گرگیا تو اس ڈاکٹر کو زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ تو مل سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بے کار ہونے کا بھی سرٹیفکیٹ مل جاوے گا بس آج امت کا یہی حال ہے۔ امت نے جب سے ظاہری وضع قطع اور ظاہری اسلامی دوری سے غفلت کی۔ اس کی جو ہیبت غیر مسلمین پر تھی ختم ہوگئی۔ بیت المقدس نکل گیا اور مصر کی کیا حالت ہوئی۔ بیت المقدس جب حاضری ہوئی تو نماز میں مقامی حضرات کی ایک صف بھی پوری نہ تھی۔

وعدۂ غلبہ ہے مومن کے لیے قرآن میں

پھر جو تو غالب نہیں کچھ ہے کسر ایمان میں

کنتم خیر امۃ الخ یہ بہترین امت تھی جو تمام کائنات کے لیے بھلائی پھیلانے اور برائی سے روکنے کے لئے پیدا کی گئی تھی لیکن وہی امت آج خود ہی جرائم کی عادی ہورہی ہے۔

تو نہیں ہے اس جہاں میں منہ چھپانے کیلئے

تو نمونہ بن کے آیا ہے زمانے کیلئے

تو نہیں ہے وقت غفلت میں گنوانے کیلئے

تو ہے دنیا بھر کے سوتوں کو جگانے کیلئے

ارشاد فرمایا کہ بے پردگی کے مفاسد کو اہل فتاویٰ سے پوچھئے ایک عورت نے خط لکھا کہ میری بہن بے پردہ آتی جاتی تھی میرے شوہر کا دل اس پر آگیا ہے مجھے بھنگن کی طرح ذلیل رکھتا ہے کوئی تعویذ دے دیجئے۔ بعض لوگ دل صاف اور نظر پاک یا نظر صاف دل پاک کا بہانہ کرتے ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دل اور ان کی نظر کے بارے میں کیا خیال ہے کہنے لگے کہ ارے صاحب کیا کہنا ہے ان کے دل تو پاک اور نظر بھی پاک تھی میں نے کہا پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو کیوں حکم دیا کہ اے علیؓ پہلی اچانک نظر معاف ہے۔ مگر خبردار دوسری نظر مت ڈالنا پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کی نظر اور آپ لوگوں کا دل حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے زیادہ صاف اور پاک ہے۔

دیکھئے اگر بجلی کا تار ننگا ہو اور پاور ہائوس سے اس وقت بجلی نہ آرہی ہو تو بھی اس کو عقلمند نہیں چھوتے اور کہتے ہیں کہ ارے بھائی پاور ہائوس سے بجلی آنے میں دیر تھوڑا ہی لگتی ہے بس یہی حال نظر کا ہے ابھی پاک ہے مگر اسی نامحرم سے جس سے نظر ابھی پاک ہے ذرا تنہائی ہوئی تو ناپاک ہونے میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں لگتی۔ جنہوں نے اپنے نفس پر بھروسہ کیا عمر بھر کا تقویٰ اور دین ذرا سی دیر میں غارت ہوگیا۔ اسی کو حضرت خواجہ صاحبؒ نے فرمایا ؎

نفس کا اژدھا دلا دیکھ ابھی مرا نہیں

غافل ادھر ہوا نہیں اس نے ادھر ڈسا نہیں

ارشاد فرمایا کہ صرف اخلاص قبول نہیں اگر شریعت اور سنت کے مطابق وہ عمل نہ ہو اس لیے قانون کا معلوم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اﷲ تعالیٰ کی محبت میں نماز عصر کے بعد تنہائی میں گھر کے اندر ۲۰؍ رکعت نفل پڑھتا ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ میں خدا سے قریب ہورہا ہوں لیکن کیا اس کا یہ اخلاص قبول ہوگا اور کیا اس کو قرب ملے گا؟ کیونکہ عصر کے بعد نفل پڑھنا جائز نہیں۔ پس اس صورت میں اخلاص تو ہے مگر مقبول نہیں کیونکہ اخلاص کے ساتھ صدق شرط ہے یعنی قانون کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے تقویٰ کا حکم دیا اور اس کو آسانی سے حاصل کرنے کی تدبیر یہ فرمائی کہ صادقین کی صحبت میں رہو۔ صادقین کا مفہوم کیا ہے اس کی تفسیر کاملین و مشایخ یعنی بزرگان دین سے ہمارے اکابر کرتے ہیں لیکن الحمدﷲ تلاوت کرتے ہوئے ایک دن ایک علم عظیم عطا ہوا کہ صادقین اور متقین دونوں ایک ہی ہیں یہ عنوان تنوع کا نفع دیتے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں اور یہ بات بالکل واضح بھی ہے کہ تقویٰ کہاں سے ملے گا تقویٰ والوں سے ملے گا کپڑا کپڑے والوں سے‘ پھل پھل والوں سے‘ بس تقویٰ بھی تقویٰ والوں سے ملے گا۔ وہ آیت جس کی برکت سے یہ مفہوم سمجھ میں آیا۔ یہ ہے لیس البر ان تولو وجوہکم قبل المشرق والمغرب سے شروع کریں اور چند آیات کے بعد ہی ارشاد ہے اولئک الذی صدقوا و اولئک ہم المتقون (پارہ۲؍ رکوع۵)

اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے صادقین ہی کو متقین فرمایا ہے۔ (جس کا ترجمہ یہ ہے حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کچھ سارا کمال اسی میں نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو لیکن کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتب پر اور پیغمبروں پر اور مال دیتا ہو اﷲتعالیٰ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی رکھتا ہو اور زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کرلیں اور وہ لوگ جو مستقل رہنے والے ہوں تنگدستی میں اور بیماری میں اور قتال میں یہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقین ہیں۔ جامع)

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter