Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

7 - 14
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

(گذشتہ سے پیوستہ)

پردہ امر فطری اور غیرت کا تقاضہ ہے

فرمایا کہ پردہ ایسی چیز ہے کہ اگر شریعت بھی نہ تجویز کرتی تب بھی فطری امر اور غیرت کا مقتضاء ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے ایک شخص نے شبہ کیا کہ پردہ کا ذکر کونسی آیت یا حدیث میں آیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ آپ جو سو دوسو کے نوٹ جاکٹ کی جو سب سے اندر کی جیب ہے اس میں رکھتے ہیں اور بڑی حفاظت کرتے ہیں یہ کونسی حدیث میں آیا ہے۔ کیا عورت کی قدر آپ کے نزدیک نوٹ کے برابر بھی نہیں ہے۔ افسوس ہر وز اس بے پردگی کی بدولت نئے نئے شرمناک واقعات سننے میں آتے ہیں مگر پھر بھی ہوش نہیں آتا۔ ابھی ایک اخبار میں دیکھا ہے کہ حیدرآباد میں ایک باغ عامہ ہے۔ وہاں ایک رئیس زادی زیب و زینت کے ساتھ ٹہل رہی تھی اسے بدمعاشوں نے چھیڑنا شروع کیا۔ وہ عورتوں کے غول کی طرف بھاگی وہاں بھی پناہ نہ ملی۔ تو پولیس نے بچایا۔ اور لیجئے ایک جینٹلمین جنہوں نے نیا نیا پردہ توڑا تھا وہ اپنی بیگم کو بغرض تفریح منصوری پہاڑ لے گئے اور تفریح کے لیے اس سڑک پر گئے جہاں بڑے بڑے آفیسر انگریزوں کے بنگلے تھے۔ وہاں ایک کوٹھی کے سامنے سے گزرے جو کسی بڑے افسر کی تھی اور تین گورے پہرے پر تھے ان کو دیکھ کر انہوں نے کچھ آپس میں گفتگو کی اور ایک ان میں سے چلا اور ان کی بیگم کا ان کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑا کر ایک طرف لے گیا اور اسے خراب کرکے لے آیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے نے بھی یہی عمل کیا اور یہ اپنا سا منہ لے کے چلے آئے (جامع کہتا ہے کہ یہ شخص علاوہ بد دین ہونیکے حد درجہ بے غیرت بھی تھا جو ایسی بے غیرتی پر اف نہ کی دیندار ہوتا تو ان تینوں کو فنا فی النار کرکے خود جام شہادت پیتا) ہمارے حضرت نے مجمع کی طرف مخاطب ہوکے فرمایا۔ بس جی لوگوں کو شرم و غیرت نہیں رہی یہ تو شریعت کی رحمت ہے کہ اس کا بھی حکم دے دیا۔ باقی غیرت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کو برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ وہ تو ایک قسم کی محبوبہ ہوتی ہے۔ عاشق کب چاہتا ہے کہ میرے محبوب پر کوئی دوسرا نظر ڈالے۔ شاہ قلندر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎

غیرت از چشم برم روی تو دیدن ندہم

گوش رانیز حدیث توشنیدن ندہم

گریباید ملک الموت کہ جانم بیرد

تانہ بینم رخ توروح رمیدن ندہم

ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت پردہ میں بھی تو ایسے قصے ہوجاتے ہیں۔ پھر پردہ سے کیا فائدہ ہوا۔ فرمایا سبحان اﷲ جب اول تعلق ہوا ہے تو بے پردگی ہی سے ہوا ہے۔ وہ عورت اول اس سے بے پردہ ہی تو ہوئی تھی جب ہی تو تعلق ہوا۔

پردہ میں کوئی خرابی نہیں ہوسکتی۔ جہاں خرابی ہوتی ہے بے پردگی سے ہوتی ہے۔ جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں پردہ ہی نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو محض نام کا ہوتا ہے۔ پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی نے خوب لکھا ہے ؎

کل بے حجاب چند نظر آئیں بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑگیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا

اس وقت پردہ اٹھانے کی تحریک کا ثمرہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ عورتیں بے شرم و حیا ہوکر علانیہ فسق و فجور میں مبتلا ہوں اور خاوندوں کے تصرف سے نکل کے عیش کو منغض کریں (تبسم کے ساتھ فرمایا) کہ ایک ظریف شخص سے پوچھا گیا کہ آپ پردہ توڑنے کی تحریک میں کیوں شریک نہیں ہوتے فرمایا بھائی اگر ہماری جوانی ہوتی تو ہم بھی شریک ہوجاتے اب یہ خیال ہے کہ تم بے پردگی سے مزے اڑائو اور ہم دیکھ دیکھ کر حسرت کریں۔

حضرت تھانویؒ کا عامۃ الناس کے ساتھ حسن ظن

اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن تربیت کا معاملہ

فرمایا کہ عام لوگوں میں سے تو اگر کسی کے اندر ننانویں عیب ہوں اور ایک بھلائی ہو تو میری نظر اس بھلائی پر جاتی ہے اور ان ننانویں عیبوں پر نہیں جاتی۔ اور جس نے اپنے کو تربیت کے واسطے میرے سپرد کیا ہو تو اس میں اگر ننانویں بھلائی ہوں اور ایک عیب ہو تو میری نظر اس عیب پر جاتی ہے۔ ان ننانویں بھلائیوں پر نہیں جاتی (جامع کہتا ہے سبحان اﷲ اس سے حضرت والا کا عامۃ الناس کے ساتھ حسن ظن اور غلاموں کے ساتھ حسن تربیت ظاہر ہے۔) واقعی حضرت رحمت محض ہیں جیسے کوئی شفیق طبیب اپنے مریض کے اندر تھوڑی سی کسر بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایسے ہی ہمارے حضرت بھی اپنے خادموں میں کسی کوتاہی کو گوارا نہیں فرماتے اور یہی وجہ ہے جو بعض ناواقف لوگ حضرت کوسخت مزاج اور سخت گیر کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذوق صحیح نہیں یا حضرت والا کی کبھی صحبت میسر نہیں ہوئی ورنہ ہمارے حضرت میں تو سختی کا پتہ بھی نہیں۔ سراسر رحمت ہی رحمت ہیں ؎

بندۂ پیر خرابا تم کہ لطفش دائم است

زانکہ لطف شیخ و زاہدہ گاہ ہست وگاہ نیست

احقر کو بارہا کم اور زیادہ مدت حاضری کا اتفاق ہوا مگر آج تک کوئی بھی سختی سوائے ترحم کے نظر ہی نہ آئی اب اگر کوئی بے تمیزی کرے اور اس پر اسے نہ روکا جائے تو یہ تو بے حسی ہے جو نقص ہے۔ اس سے تو حضرت کی اعلیٰ درجہ کی حس اور فہم و ادراک کا پتہ چلتا ہے ہمیں تو یہی روک ٹوک مرغوب ہے ؎

نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت

سرخادماں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

اور جن کو یہ پسند نہیں وہ اس پر عمل کریں ؎

ہاں وہ نہیں وفا پرست جائو وہ بیوفا سہی

جن کو ہوجان و دل عزیز انکی گلی میں جائیں کیوں

سرمد رحمۃ اﷲ علیہ نے خوب فیصلہ کیا ہے ؎

سرمد گلہ اختصار می باید کرد

یک کارازیں دوکارمی بایدکرد

یاتن برضائے دوست میباید داد

یاقطع نظر زیارمے باید کرد

ایک مرتبہ احقر حاضر خدمت تھا کہ حضرت کو ایک کار ڈکی ضرورت ہوئی۔ مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ ڈاکخانے سے میں لادوں حضرت والا نے فرمایا نہیں بھائی سخت گرمی ہے (گرمی کا زمانہ تھا) تکلیف ہوگی۔ لوگ تو مجھے سنگ دل کہتے ہیں۔ مگر مجھے سے کسی کی تکلیف بھی نہیں دیکھی جاتی تحدث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں کہ اگر کسی مجمع میں سو آدمی (جامع کہتا ہے لاکھ) جمع کئے جائیں اور اس میں میں بھی موجود ہوں۔ تو انشاء اﷲ مجھ سے زیادہ نرم و رحمدل کوئی بھی نہ نکلے گا۔

آج کل لوگوں میں اتباع کا مادہ بالکل نہیں رہا

فرمایا کہ آجکل لوگوں کے اندر اتباع کا مادہ بالکل نہیں رہا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ طواف کررہے تھے اسی حال میں آپ نے ایک عورت جذامی کو طواف کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے منع فرمایا کہ لوگوں کو تکلیف نہ دو۔ اس سے بہتر تمہارا گھر بیٹھ جانا ہے کچھ دنوں کے بعد وہ پھر آئی تو لوگوں نے کہا کہ خوش ہو جنہوں نے تجھے طواف سے روکا تھا ان کا انتقال ہوگیا اس عورت نے کہا کہ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ وہ زندہ ہیں۔ اس لیے آگئی تھی کہ ان سے معذرت کرونگی۔ لیکن جب وہ زندہ نہیں تو وہ ایسے شخص نہ تھے کہ ان کے سامنے تو ان کے حکم کو مانا جائے اور ان کے بعد نافرمانی کی جائے وہ تو ایسے تھے کہ جیسا ان کا حکم زندگی میں ماننا چاہیے ایسا ہی بعد وفات بھی۔ یہ کہہ کر وہ عورت چلی گئی اور پھر کبھی نہ آئی۔ ایسے ہی حضرت کعب ابن مالکؓ کا قصہ ہے کہ جب ان سے مقاطعہ کیا گیا تو ان کو یہ فکر تھی کہ اگر میں معافی سے پہلے مرگیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ کوئی شریک نہ ہونگے اور اگر خدا نہ کرے آپ کا وصال ہوگیا تو مدۃ العمر صحابہ مکالمت نہ کریں گے۔ حضرت کعب ابن مالکؓ کو یہ پختہ خیال تھا۔ کہ صحابہؓ بعد وفات بھی حضور کے حکم کا ایسا ہی اتباع کریں گے جیسا حیات میں ہے اب یہ مذاق کہاں یہ تو لوگوں کے اندر سے مفقود ہی ہوگیا۔ چونکہ کعبؓ ابن مالک سے اجتہادی غلطی ہوئی تھی اور وہ توبہ کرکے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرچکے تھے۔ اور جب کوئی ان کو راضی کرلیتا ہے تو وہ سب کو راضی کردیتے ہیں ؎

تو ہم گردن از حکم دا ورپیچ

کہ گردن نہ پیچد زحکم توہیچ

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی کہ ہم نے کعب ابن مالکؓ کا قصور معاف کردیا آپ بھی معاف فرمادیجئے (سبحان اﷲ) ؎

اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر

تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا

روزہ خوروں کے لیے ایک سبق

فرمایا کہ بکثرت بعض کتوں کی نسبت یہ واقعہ سنا ہے کہ ہفتہ میں ایک دن ایسا ہوتا ہے جس میں وہ کتا نہیں کھاتا تھا اس کے بہت سے واقعات ہیں۔ روزہ خوروں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

(جاری ہے۔)

ژژژژژ
Flag Counter