Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

10 - 14
قرآن پاک کی نظر میں بےوقوف کون ہیں؟
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

{آخری قسط}

صحابہ پر رحمت کا نزول

اگرچہ دین پر چلنے میں صحابہ کو تھوڑی سی تکلیف تو ہوئی لیکن عین اس وقت بھی رحمت کی بارش ہورہی تھی، جب جنگ احد میں کفار جیت کر واپس چلے گئے صحابہ کے دلوں پر غم تھا تو ان کے دلوں کو سکون دینے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے چین کی ہوا بھیج دی، اَمَنَۃً نُعَاسًا اس ہوا سے صحابہ کا غم غلط ہوگیا۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے ہم پر اونگھ بھیج دی اور جب وہ اونگھ آئی کَانَ یَسْقُطُ سُیُوْفُنَا ہماری تلواریں ہمارے ہاتھوں سے گری جارہی تھیں جنہیں ہم بار بار اٹھاتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے صحابہ کی پریشانیوں پر مجھ کو رحم آیا، میں نے ایک ہوا بھیجی جس سے سوائے سید الانبیاء صلی اﷲ علہ وسلم کے سارے صحابہ پر اونگھ طاری ہوگئی جس کی وجہ سے ان کی تھکاوٹ و پریشانی دور ہوگئی۔ جنگ بدر میں جب صحابہ پر اونگھ بھیجی گئی تو اس وقت بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھرپور عبادت کرتے رہے کیونکہ نبیوں کو اونگھ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

شکست کے اسرار

جنگ بدر میں اﷲ کی کھلی مدد و نصرت کے بعد جب جنگ احد میں دشمنوں کو کچھ کامیابی ہوئی تو منافقین کے دل میں شبہات پیدا ہونے لگے کہ اگر ہم مقبول ہیں تو یہ مصیبت کیوں آگئی؟ ہم کو یہ تھوڑی دیر کی شکست کیوں ہوئی؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم دن بدلتے رہتے ہیں:

اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ فَرْخٌ مِثْلُہٗ وَ تِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ وَاﷲُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ o وَلِیُمَحِّصَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ o (سورہ اٰل عمران۔ آیت:۱۴۲۔۱۴۱)

اگر تمہیں صدمہ پہنچا ہے تو پہلے جنگ بدر میں کافروں کو بھی شکست کا زخم پہنچ چکا ہے وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ اور ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تاکہ ظاہری طور پر ثابت ہوجائے کہ کون مخلص اور کون منافق ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کو ہمیشہ فتح ہوتی تو ہر منافق کہتا کہ چلو میاں وہاں مالِ غنیمت سمیٹ لو، وہاں تو شکست کا کوئی سوال ہی نہیں چنانچہ غیر مخلص بھی اسلام میں داخل ہوجاتے لہٰذا اﷲ تعالیٰ لوگوں کے درمیان دنوں کو بدل دیتے ہیںکبھی فتح دے دی اور کبھی شکست تاکہ مخلص مومن کا پتہ چل جائے۔ مؤمن کے اخلاص کا پتہ جب چلتا ہے جب ابتلاء و مصیبت آئے کیونکہ مومن مصیبت میں بھی اﷲ کو نہیں چھوڑتا۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ دن اس لیے بدلے وَلِیَعْلَمَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تاکہ اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کے ایمان کو ظاہری طور پر بھی دکھادیں کہ یہ ہیں اصلی مومن جو ہمارے ہیں اور ہمارے ہی رہتے ہیں، یہ منافقین نہیں ہیں اور دوسری وجہ اس شکست کی یہ ہے کہ وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ ہمیں تم میں سے بہت سے لوگوں کو شہادت بھی دینی تھی، چنانچہ جنگ احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے۔ اگر صحابہ شہید نہ ہوتے تو کفار قرآن پر اعتراض کرتے کہ اﷲ تعالیٰ نے انعام یافتہ بندوں میں انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کا ذکر کیا ہے تو شہداء کا طبقہ کہاں ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کو شہادت سے سرفراز فرمایا تاکہ قرآن پاک کی صداقت پر حرف نہ آسکے۔ آگے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ظلم کرنے والوں سے یعنی کافروں اور مشرکوں سے محبت نہیں فرماتے لہٰذا یہ گمان نہ کیا جائے کہ شاید محبوب ہونے کی وجہ سے ان کو غالب کردیا ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اس غم اور پریشانی سے ایمان والوں کے دلوں کو پاک صاف کرنا تھا وَلِیُمَحِّصَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تاکہ اﷲ ایمان والوں کو گناہوں کے میل کچیل سے صاف کردے وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ اور کافروں کو مٹادے کیونکہ ایک بار غالب آجانے سے ان کی جرأت بڑھے گی اور پھر مقابلہ میں آئیں گے اور ہلاک ہوں گے۔

اور ایک احسان اﷲ نے یہ فرمایا کہ کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا کہ فتح کی ہوئی جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے اور جب بہت آگے بڑھ گئے تب سوچا کہ ارے بھئی بڑی غلطی ہوگئی، ہم لوگ کیوں آگئے، اگر ہم مدینے پر قبضہ کرلیتے تو ہمارا جھنڈا لہرا جاتا، اب پچھتارہے ہیں۔ تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم واپس کیسے آسکتے تھے جبکہ ہم نے تمہارے دلوں میں ہیبت اور رعب ڈال دیا تھا۔

اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کی عظمتوں کی حفاظت کے لیے اتنے فضائل اس لیے بیان کئے تاکہ کل کو ایسے نالائق اہل قلم جو قابلِ سر قلم ہیں صحابہ کی ناموس کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ بعض گستاخانِ قلم اور بغض صحابہ رکھنے والے بدبختوں نے صحابہ کی شان میں بدتمیزیاں کی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلَقَدْ عَفَا اﷲُ عَنْہُمْ ہم نے صحابہ کی چوک اور خطا کو معاف کردیا۔

صحابہ کے دنیا کی لالچ سے پاک ہونے کا ثبوت

اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فرمایا کہ صحابہ جنگ ختم ہونے کے بعد اس ٹیلہ پر سے جہاں انہیں سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا دنیا کی لالچ میں نہیں اترے تھے اس لیے کہ دنیا کی لالچ تو جب ثابت ہوتی جب مالِ غنیمت ان ہی کو ملتا جو یہ مال سمیٹتے۔ مالِ غنیمت کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے چاہے کوئی بھی اٹھائے سب کو برابر برابر حصہ ملے گا لہٰذا یہ کہنا کہ وہ مال کے لالچ میں اترے تھے بالکل غلط ہے۔ حکیم الامت بیان القرآن کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ صحابہ نے وہ مقام اس لیے چھوڑا تھا کہ اب جنگ فتح ہوگئی ہے لہٰذا اب ہمارے لیے ٹیلہ پر کھڑے رہنے کا حکم نہیں رہا جبکہ مالِ غنیمت کی حفاظت کرنا اور اس کو اٹھانا بھی عبادت ہے لہٰذا انہیں مالِ غنیمت سمیٹنے کا لالچ نہیں ہوسکتا کیونکہ انہیں یہ مسئلہ معلوم تھا کہ مال غنیمت جو چاہے اٹھائے مگر سب میں برابر تقسیم ہوگا۔ تو جب انسان کو معلوم ہو کہ مال لوٹنے میں چاہے جتنی محنت کرو لیکن ملے گا برابر تو کون آدمی لالچ کرے گا؟ یہ بہت احمق اور پاگل قسم کے لوگ ہیں جو صحابہ کے بارے میں گستاخانہ باتیں لکھتے ہیں، ان کو قرآن کے تفقہ کی ہوا بھی نہیں لگی، یہ بے علم لوگ ہیں۔

ناقدین صحابہ پر بے وقوفی کی قرآنی مُہر

اسی لیے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ پر تنقید کرنے والے، جنہوں نے میرے صحابہ کو بے وقوف کہا اَنُؤْمِنُ کَمَا اٰمَنَ السُّفَہَآئُ کیا ہم ایسا ایمان لائیں جیسا کہ یہ بے وقوف لوگ یعنی (معاذ اﷲ) صحابہ ایمان لائے، تو ان لوگوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے صحابہ کو جو بے وقوف کہتے ہیں یہ خود سفیہ یعنی بے وقوف ہیں، سفیہ سفاہت سے ہے اور اس کی جمع سفہاء ہے اور سفاہت کے معنی ہیں خِفَّۃُ الْعَقْلِ وَالْجَہْلُ بِالْاُمُوْرِ جس کی عقل ہلکی ہو اور جو حقائق امور سے ناواقف ہو۔ تو اﷲ تعالیٰ نے صحابہ پر اعتراض کرنے والوں کو دو خطاب دیئے۔ نمبر ۱۔ خِفَّۃُ الْعَقْلِ ہلکی عقل والے نمبر۲۔ وَالْجَہْلُ بِالْاُمُوْرِ اور حقائق امور سے ناواقف۔

سفاہت کی یہ تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے روح المعانی میں بیان فرمائی ہے کہ یہ خفیف العقل ہیں، عقل کے ہلکے ہیں اس لیے میرے صحابہ پر اعتراض و تنقید کررہے ہیں اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو بے وقوف کہہ رہے ہیں۔ بتائیے! اگر کوئی بندہ اپنے مالک کو خوش کرے تو وہ بے وقوف ہے؟ اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو راضی کرے تو وہ بے وقوف ٹھہرے گا؟ بے وقوف تو تم ہو اَلاَ اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآئُ یہ خود پاگل اور بے وقوف ہیں وَلٰکِنْ لَا یَعْلَمُوْنَ لیکن اس کا علم نہیں رکھتے یہ بے علم لوگ ہیں، اﷲ تعالیٰ نے صحابہ پر تنقید کرنے والوں کے علم پر لا داخل کردی کہ یہ بے علم ہیں لہٰذا ہر وہ شخص اس آیت کے ذیل میں شامل ہے جو صحابہ پر تنقید کرتا ہے یا صحابہ پر تنقید کرنے والے کو مولانا کہتا ہے، ایسے لوگوں کو مولانا کہنا جائزنہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس کے علم پر لا داخل کررہے ہیں، یہاں لا کے معنی نہیں کے ہیں۔ یہ وہ لا نہیں ہے جو ایک ہندوستانی نے ایک عرب سے کہا تھا کہ یہ چیز ہے؟ عرب نے کہا لایعنی یہ نہیں ہے، تو اس نے سوچا پیسہ مانگ رہا ہے کیونکہ وہ دہلی کا تھا۔ عربی کا لااور ہے اور اردو کا لا اور ہے۔

لفظ حلیم سے عجیب استدلال

تو اﷲ تعالیٰ نے وَلَقَدْ عَفَا اﷲ عَنْہُمْ نازل فرمایا کہ ہم نے صحابہ کی اس چوک اور خطا کو معاف کردیا، ان کی خطائے اجتہادی کو معاف کردیا۔ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ اﷲ تعالیٰ غفور ہیں یعنی بڑے مغفرت کرنے والے ہیں اور حَلِیْمٌ ہیں یعنی بڑے حلموالے ہیں کہ عین صدور خطا کے وقت بھی سزا نہیں دی۔ حضرت تھانویؒ آیت اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌمیں حلیمسے استدلال فرماتے ہیں کہ جو کچھ تکلیف صحابہ کو پہنچی یہ عتاب و سزا نہیں تھی ورنہ حلیمنازل نہ ہوتا، کیونکہ عتاب کے ساتھ حلم نہیں ہوتا۔ حلیمکے معنی ہیں جو عتاب کو روک لے، قدرت رکھتے ہوئے انتقام نہ لے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اس اعتراض کو رفع کردیا کہ یہ شکست معاذ اﷲ عذاب تھی، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے حلیم نازل کیا تاکہ معلوم ہو کہ یہ قوت قہریہ نہیں تھی پاداش اصلاحی تھی، صحابہ کی تربیت و اصلاح کے لیے اﷲ نے یہ معاملہ کیا تھا۔

فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ اﷲ نے ان کو یہ غم اس لیے دیا تھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی خطائے اجتہادی سے غم ہو اتھا، اگر اﷲ تعالیٰ یہ غم نہ دیتے تو صحابہ ساری زندگی شرمندہ رہتے، سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے تھوڑا سا زخم پہنچا کر ان کا دامن صاف کردیا۔ اس لیے فرمایا وَلَقَدْ عَفَا اﷲُ عَنْہُمْ ہم نے ان کو معاف کردیا۔ حکیم الامت لکھتے ہیں کہ جب خدا نے معاف کردیا تو پھر کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔

اسم اعظم تواب اور رحیم کا ربطہ

قرآن پاک کا ایک ایک لفظ اپنے اندر حکمت و معانی کا دریا رکھتا ہے جیسے یہاں حلیم نازل کرکے اﷲ تعالیٰ نے ظاہر کردیا کہ یہ شکست عذاب نہیں تھی بلکہ اس سے مقصود صحابہ کی تربیت تھی اور جیسے علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ آیت اِنَّ اﷲَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کا نزول فرقۂ معتزلہ کے رد میں ہوا ہے۔ اگرچہ نزول قرآن کے وقت یہ فرقہ موجود نہیں تھا لیکن اﷲ تعالیٰ کے علم میں تو تھا کہ یہ فرقہ پیدا ہوگا۔ فرقۂ معتزلہ ایک باطل فرقہ ہوا ہے جو کہتا ہے کہ جب بندہ توبہ کرلیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کو مجبوراً معاف کرنا پڑے گا، قانونی طور پر ضابطے سے اﷲ تعالیٰ کو بندے کو معاف کرنا پڑے گا۔ تو علامہ آلوسی السید محمود بغدادی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے التواب کے ساتھ الرحیم کا لفظ نازل کرکے قیامت تک کے لیے اس فتنہ کا جواب دے دیا کہ میں جو تمہاری توبہ قبول کرتا ہوں وہ ضابطے اور قانون سے نہیں کرتا، شان رحمت سے قبول کرتا ہوں کیونکہ میں رحیم ہوں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں فِیْہِ رَدُّ عَلٰی فِرْقَۃٍ ضَآلَۃٍ مُعْتَزِلَۃٍ اس آیت میں رد ہے فرقہ ضالہ معتزلۃ کا۔

اسم اعظم عزیز اور غفور کا ربط

اسی طرح قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے سورۂ ملک میں وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ نازل فرمایا۔ غفور کے معنی ہیں معاف کردینے والا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کے ساتھ عزیز کیوں نال کیا۔ عزیز کے معنی ہیں زبردست طاقت والا۔ تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں الفاظ ایسے تھوڑے ہی نازل کردیئے، لہٰذا علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ چونکہ مغفرت اس شخص کی معتبر ہوتی ہے جس میں طاقت ہو۔ ایک شخص ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہے، کمزور ہے، بیمار ہے اس کو کسی نے تھپڑ مار دیا، اب وہ کہتا ہے کہ جائو میں نے معاف کردیا، تو تھپڑ مارنے والا کہتا ہے کہ تم میں انتقام کی طاقت ہے ہی نہیں، تم چالیس دن سے ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہو، بستر سے اٹھ نہیں سکتے، مجھ کو دوڑا کر پکڑ نہیں سکتے لہٰذا مجبوراً معاف کردیا، میرے نزدیک تمہاری معافی کی کوئی حیثیت نہیں۔ مفسر عظیم علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے غفور سے پہلے عزیز نازل کردیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں زبردست طاقت والا ہوں اس کے باوجود تمہیں بخشتا ہوں لہٰذا میری مغفرت کی قدر کرنا، ناقدری نہ کرنا۔ اس طاقت والے نے اپنی صفتِ مغفرت کی عظمت شان کے لیے عزیز نازل کیا، زبردست طاقت والے نام کو پہلے نازل کیا۔

خیر میں یہ عرض کررہا تھا کہ مولانا اسعد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ محدث سہارنپوری فرماتے ہیں ؎

گو ہزاروں شغل ہیں دن رات میں

لیکن اسعدؔ آپ سے غافل نہیں

نظر بازی اور حسن پرستی کا بھیانک عذاب

اس کے بعد ایک شعر اور فرمایا جس کا آج کل بڑا مرض پھیلا ہوا ہے، وہ مرض ہے نظر بازی کا، حسن پرستی کا، ہر شخص سوچتا ہے کہ کوئی حسین مل جاتا تو بڑا چین ملتا، بڑا مزہ آتا، بڑے اچھے دن گذرتے حالانکہ اس سے خراب اور بدترین دن نہیں گذریں گے، جو سانس اﷲ کی نافرمانی میں گذرتی ہے وہ دوزخیوں کی زندگی ہے، جس نے دوزخ نہ دیکھی ہو وہ اﷲ کے قہر اور عذاب کو خرید کر دیکھے کہ نافرمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب ایک اﷲ والے کا شعر ہے ؎

اف کتنا ہے تاریک گنہگار کا عالم

انوار سے معمور ہے ابرار کا عالم

اور ایسے موقعوں پر اپنا ایک شعر اور یاد آتاہے کہ گنہگاروں کی دنیا بہت بھیانک، بڑی تاریک ہے، بڑی بے چین ہے، پریشانیاں اور ذلتیں ہیں، اﷲ تعالیٰ جس سے ناراض ہوجائے اس کے دل کا گلستان اجڑ جائے گا ؎

جس طرف کو رخ کیا تونے گلستاں ہوگیا

تونے رخ پھیرا جدھر سے وہ بیاباں ہوگیا

جس دل سے اﷲ راضی ہوتا ہے اس کا دل گلستان ہوجاتا ہے اور جس دل سے اﷲ رخ پھیر لے، ناراض ہوجائے اس کا دل جنگل ہوجاتا ہے، ویران ہوجاتا ہے، تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور جب دل میں چین نہیں تو تمہارا مرغی فارم، تمہارے کپڑوں کی فیکٹریاں، تمہارے جتنے ائیرکنڈیشن کمرے ہیں ان سب سے کچھ نہیں ہوتا، ائیرکنڈیشن میں بیٹھے ہیں کھال تو ٹھنڈی ہورہی ہے مگر دل عذاب الٰہی سے پگھلتا رہتا ہے۔ ایک بزرگ شاعر فرماتے ہیں ؎

دل گلستاں تھا تو ہر شے سے ٹپکتی تھی بہار

دل بیاباں ہوگیا عالم بیاباں ہوگیا

دوستو! یقین کرلو ہم اﷲ کے بندے ہیں، ہمارا مالک طاقت والا ہے، اس کی ناراضگی میں سانس لینا عذاب و بے چینی کے سوا کچھ نہیں ہے، نفس مردانہ حملے سے مغلوب ہوتا ہے بار بار کہتا ہوں کہ میری اس بات پر یقین کرلو اور نفس کو کچل دو، نفس پر مردانہ حملہ کرو، زنانہ حملہ مت کرو، چوڑیاں مت پہنو۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎

ہیں تبر بردار مردانہ بزن

چوں علی وار ایں درِ خیبر شکن

اے نفس پرستو! ذرا مردانہ حملہ کرو، زنانہ حملے سے نفس چت نہیں ہوتا، اس سے گناہ نہیں چھوٹتا، لہٰذا مردانہ حملہ کرو اور فرماتے ہیں کہ جیسے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خیبر کے دروازے کو توڑ دیا تھا تم بھی اپنے نفس کے بابِ خیبر کو توڑ دو، ابھی اگر دنیا ہی کا کوئی کام پڑجائے تو ساری طاقت آجاتی ہے لیکن چونکہ ابھی دل میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت نہیں ہے اس لیے طاقت اور ہمت استعمال نہیں کرتے لہٰذا جو طریقہ بتایا جات اہے اس پر عمل کرکے دیکھو لیکن اگر کوئی عمل ہی نہ کرے تو الگ بات ہے۔

دل کو غیر اﷲ سے پاک کرنے کا نسخہ

مشایخ لکھتے ہیں کہ جب بدنظری ہوجائے تو آٹھ رکعات توبہ پڑھو، پانچ روپیہ خیرات کرو، اگر اس سے زیادہ وسعت ہے تو سو روپیہ خیرات کرو، قبر و موت کا مراقبہ کرو اور میدان حشر کو‘ قیامت کے دن کو یاد کرو‘ عطر لگا کر نہادھو کر خوب صاف کپڑے پہن کر لا الٰہ الا اﷲ کی پانچ تسبیح پڑھو‘ پھر دیکھو کہ قلب سے غیر اﷲ کیسے نہیں نکلتا۔

حکیم الامت کی کتاب التکشف کے اندر یہ سب مواد موجود ہے لیکن کوئی عمل ہی نہ کرے‘ کوئی طاقت کا کیپسول ہی نہ کھائے پھر بھی کہے کہ میرے اندر تو طاقت ہی نہیں ہے۔ گناہ کرنا یہ ذکر اﷲ کا کیپسول نہ کھانے کا عذاب ہے لہٰذا عمل کرکے دیکھو، اﷲ کا نام بہت بڑا نام ہے۔ ایک بزرگ دعا کررہے تھے کہ اے خدا آپ کا نام بہت برا نام ہے، جتنا بڑا آپ کا نام ہے اتنا ہم پر احسان و فضل کردے۔ اﷲ اﷲ کیا دعا ہے! یہ دعا تو وجد پیدا کرتی ہے، یا اﷲ آپ کا نام تو بہت بڑا نام ہے، جتنا بڑا آپ کا نام ہے ہمارے اوپر اتنی رحمت کردے، اﷲ کے نام کے صدقہ دوزخ بجھ سکتی ہے۔ دوزخ کو کون بجھا سکتا ہے؟ ا ﷲ تعالیٰ دوزخ سے پوچھیں گے ہَلِ امْتَلَئْتِ کیا تیرا پیٹ بھرگیا؟ وہ کہے گی ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ اﷲ میاں کچھ اور مال ہے؟ جب دوزخی ختم ہوگئے تو کیا اﷲ میاں نیک بندوں کو دوزخ میں ڈالیں گے؟ نہیں۔ بخاری شریف میں ہے فَیَضَعُ قَدَمَہ اﷲ تعالیٰ دوزخ پر اپنا قدم مبارک رکھ دیں گے فَتَقُوْلُ جَہَنَّمُ قَطْ قَطْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَطْ قَطْ قَطْ تو دوزخ دو مرتبہ کہے گی کہ بس بس اور ایک روایت میں ہے کہ تین مرتبہ کہے گی بس بس بس یعنی اے اﷲ! میرا پیٹ بھر گیا۔ اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہاں قدم سے مراد اﷲ تعالیٰ کی ایک خاص تجلی ہے۔

تو دوستو! جب اﷲ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے دوزخ کا پیٹ بھر سکتا ہے تو ہمارے نفس کی دوزخ کا پیٹ نہیں بھرسکتا؟ ہمارا نفس تو دوزخ کی ایک برانچ ہے اور برانچ ہیڈآفس کے مقابلے میں چھوٹی اور حقیر ہوتی ہے، تو اتنی بڑی اور وسیع دوزخ کے مقابلے میں نفس کی دوزخ کیا ہے؟ ارے اﷲ سے تعلق بناکر تو دیکھو کہاں خوابوں خیالوں کی دنیا میں پڑے ہوئے ہو‘ کیوں شک و شبہات کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہو‘ امیدوں کی خوشیوں اور امیدوں کے اسباب کی طرف آجائو‘ اﷲ کا نام بہت بڑا نام ہے‘ ان کا نام لے کر تو دیکھو۔

اس لیے دوستو! نا امیدمت ہو‘ پابندی سے اﷲ کا نام لینا شروع کردو، جو لوگ محروم ہیں یا محروم ہوں گے یا محروم مرگئے یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اہل اﷲ سے مشورہ نہیں کیا اور اگر مشورہ لیا مگر ان کے مشوروں پہ عمل نہیں کیا، اﷲ کا نام نہیں لیا اور گناہوں سے پرہیز نہیں کیا۔ کیا پیر ہرجگہ پہنچ سکتا ہے؟ پیر تو کہے گا کہ تم یہ کام کرو اور یہ کام نہ کرو، مرشد کا کام تو صرف اتنا ہے ؎

راہبر تو بس بتادیتا ہے راہ

راہ چلنا راہ رو کا کام ہے

تجھ کو مرشد لے چلے گا دوش پر

یہ تیرا رہرو خیالِ خام ہے

حسینوں کا عشق عذابِ الٰہی ہے

یہ خواجہ صاحب کا شعر ہے۔ مولانا اسعد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے نظر بازوں پر ایک شعر فرمایا ہے اور اس شعر میں اپنا نام لیا ہے، اﷲ والوں کا کمال یہی ہے کہ اپنے ہی کو گنہگار کہتے ہیں، دوسروں کو نہیں کہتے، تو فرماتے ہیں ؎

عشقِ بتاں میں اسعدؔ کرتے ہو فکرِ راحت

دوزخ میں ڈھونڈتے ہو جنت کی خوابگاہیں

ادھر ادھر جھانک کر حسینوں کے عشق میں راحت تلاش کرتے ہو؟ ذرا شعر تو دیکھو! یہ ایک عالم، محدث اور اﷲ والے کا شعر ہے، یہ حکیم الامت کے خلیفہ ہیں اور میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کے استاذ ہیں۔

فرماتے ہیں کہ اﷲ کے قہر و عذاب میں تم چین تلاش کرتے ہو، خدا تمہاری کھوپڑیوں میں اور ہماری کھوپڑیوںں میں عقلِ سلیم ڈال دے،یہ بہت بڑی گمراہی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کی راہوں سے حرام لذت کی چوریاں کرکے ہم چین سے رہ لیں گے، تو یاد رکھو کہ جب حرام لذت آتی ہے تو حلال کو بھی لے جاتی ہے، تمہاری جو بیویاں گھر میں ہیں بدنگاہی کی وجہ سے ان سے بھی محبت ختم ہوجائے گی۔

دیکھو ایک شخص کہیں سے کچھ چراتا تھا اور اس کے پاس حلال کمائی ایک ہزار تھی، ایک دن دوسرے چور نے اس کی جیب کاٹ لی اور حرام کے ساتھ ساتھ وہ حلال کمائی بھی چلی گئی۔ اسی طرح یہ حرام لذتیں ہمارے گھر کے آرام و سکون کو بھی چھین لیں گی، اﷲ تعالیٰ تو بہت سی نعمتیں دے رہے ہیں‘ انڈے کھا رہے ہو، پراٹھے کھا رہے ہو، چائے پی رہے ہو، مرنڈا پی رہے ہو، کتنی نعمتیں کھارہے ہو، اﷲ کی بے شمار نعمتیں ہیں اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی نعمت سے نوازا، نماز کی توفیق دی اور اﷲ والوں کی، اپنے پیاروں کی، اپنے دوستوں کی شکل عطا فرمائی توکتنی نعمتیں دیں پھر پرائی چیز پر کیوں اپنا دل خراب کرتے ہو؟

مسلمان بیویاں جنت میں حوروں سے زیادہ حسین ہوں گی

اب ایک حدیث پاک عرض کرتا ہوں جس کے سنانے پر مسلمان خواتین مجھے زوردار ناشتہ بھجواتی ہیں۔ میں نے الٰہ آباد میں ایک عالم کے گھر میں اس حدیث کو بیان کیا، وہ عالم بھی وہاں موجود تھے کہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ جنت میں مسلمان بیویوں کا حسن زیادہ ہوگا یا حوریں زیادہ حسین ہوں گی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام سلمہ مسلمان عورتوں کا حسن حوروں سے کہیں زیادہ ہوگا، پوچھا کیوں؟ فرمایا کہ بِعِبَادَتِہِنَّ وَبِصِیَامِہِنَّ وَبِصَلَاتِہِنَّ ان کی نمازیں،ان کے روزے کہاں جائیں گے؟ حوروں نے تو نماز نہیں پڑھی، انہوں نے تو روزہ نہیں رکھا، حوروں نے بچہ نہیں جنا، حوروں نے شوہر کے ناز نخرے نہیں اٹھائے، اَلْبَسَ اﷲُ وَجُوْہَہُنَّ النُّوْرَ اﷲ عبادات کا نور عورتوں کے چہروں پر ڈال دے گا جیسے رضائی کے اوپر کے کپڑے اور نیچے کے استر میں فرق ہوتا ہے اتنا فرق ہوگا مسلمان بیویوں اور حوروں کے حسن میں۔ یہ حدیث آج ہی جاکر اپنی بیویوں کو سنادو کہ اﷲ تعالیٰ ایمان پر آپ کا خاتمہ نصیب فرمائے تو جنت میں آپ حوروں سے زیادہ حسین ہوں گی۔

بیویوں سے حسن سلوک کی ترغیب

لہٰذا ا ﷲ تعالیٰ نے جیسی بیوی دی ہے ایمان والی ہے اس کی قدر کرو، ان کی خطائوںں کو معاف کرو اور ان سے مت لڑو۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ٹیڑھی پسلی کی سی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے:

اَلْمَرْأَۃُ کَالضِّلَعِ اِنْ أَقَمْتَہَا کَسَرْتَہَا وَاِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیْہَا عِوَجٌ

(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب المدارۃ قامع النسائ)

عورت ٹیڑھی پسلی کی طرح ہے، اگر تم ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو فائدہ اٹھاسکتے ہو، اگر اسے سیدھی کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ بخاری شریف کی شرح میں لکھتے ہیں فِیْہِ تَعْلِیْمٌ لِلرِّفْقِ بِالنِّسَآئِ اس میں خواتین کے ساتھ شفقت و رحمت اور محبت کی تعلیم ہے وَالصَّبْرِ عَلٰی عِوَجِہِنَّ اور ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لِضُعْفِ عُقُوْلِہِنَّ کیونکہ ان کی عقل ضعیف و کمزور ہے، ان کی عقل آدھی ہوتی ہے، جلد غصہ آجاتا ہے۔ ذرا سوچو اگر تمہارے کسی بچہ کی عقل کم ہو تو تم کیا اس پر غصہ کرو گے؟

تو ہماری بیویوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بھی سفارش فرمارہے ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے بھی سفارش نازل فرمائی عَاشِرُوْ ہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ اپنی بیویوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آئو۔ لہٰذا اﷲ کی سفارش کو رد نہ کرو اور جب غصہ آئے اس آیت کو یاد کرلو۔ اﷲ کی سفارش کو رد کرنے میں بہت خسارہ ہے، بہت گھاٹا ہے لہٰذا ان کی بندیوں پر رحم کرکے اﷲ سے انعام لے لو۔ اس کی مثال بتاتا ہوں کہ ایک شخص کی بیٹی تیز مزاج والی ہے، غصے والی ہے۔ اس کی شادی کے بعد اب ماں باپ ہر وقت ڈررہے ہیں کہ پتا نہیں غصے میں کیا کہے گی اور اپنے شوہر سے کتنے جوتے کھائے گی۔ ایک مرتبہ وہ داماد کے گھر مہمان ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی نے بدتمیزی شروع کردی مگر شوہر نے اسے کچھ نہیں کہا برداشت کرلیا تو باپ نے سوچا کہ دیکھو مجھے اﷲ تعالیٰ نے اتنا شریف داماد دیا ہے کہ میری نالائق بیٹی کو برداشت کررہا ہے تو سوچو کہ وہ اپنے داماد کو کیسی دعا دے گا اور اس کو کیا کیا انعام دے گا۔ ربا بھی ایسے ہی ہیں کہ جو ان کی بندیوں کے ساتھ نباہ کرتا ہے اس پر اﷲ تعالیٰ کی عظیم الشان رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اﷲ علیہ کو الہام ہوا کہ اگر تم تلخ کلام والی فلاں عورت سے شادی کرلو تو تم کو میں اپنے قرب و محبت سے نواز دوں گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسی کی برکت سے کہاں سے کہاں جاپہنچے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہماری بیوی نے ہماری عزت کو نقصان پہنچادیا، ہم سے لڑجاتی ہے تو عزت کے بارے میں بھی سن لو۔ کیا ہماری آپ کی عزت سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں یَغْلِبْنَ کَرِیْمًا یہ عورتیں کریم شوہر پرغالب ہوجاتی ہیں یعنی تو تو، میں میں بھی کرلیتی ہیں، کریم کہتے ہیں جو نا اہل پر بھی مہربانی کردے وَیَغْلِبُہُنَّ لَئِیْمٌ اور کمینے شوہر اپنی ماردھاڑ سے، گالی گلوچ سے، ڈنڈوں سے ان پر غالب ہوجاتے ہیں، لَئِیْمٌ کریم کی ضد ہے۔ تو سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم جن کو اﷲ نے دونوں جہاں کی عزت دی ان کا ارشاد گرامی ہے فاحب ان اکون کریما مغلوبا میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں مغلوب رہوں اپنی بیویوں سے، یہ زبان سے چاہے کچھ کہیں، اپنے مطالبات میں تھوڑی سی تیزی بھی کرلیں لیکن میں ان پر کرم اور مہربانی ہی کرتا رہوں گا، وَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ لَئِیْمًا غَالبًا میں ان پر کمینہ بن کر غالب ہونا پسند نہیں کرتا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، ازواج مطہرات اپنے سالانہ خرچہ کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کررہی تھیں، کچھ تھوڑا سا ناز کا لہجہ تھا، اسے بدتمیزی نہیں کہیں گے، عورتوں کو اپنے شوہروں سے ناز کرنے کا حق حاصل ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے عائشہ! جب تم مجھ سے روٹھ جاتی ہو تو مجھے پتا چل جاتا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کو کیسے پتا چلتا ہے؟ فرمایا کہ جب تم مجھ سے روٹھتی ہو تو کہتی ہو وَرَبِّ اِبْرَاہِیْمَ ابراہیم کے رب کی قسم اور جب تم خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو وَرَبِّ مُحَمَّدٍ محمد کے رب کی قسم۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ بیویوں کو روٹھنے کا حق ہے اور یہ شانِ محبوبیت کی علامت ہے۔

تو دوستو! جب حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے تو ہماری مائوں کی تھوڑی سی آواز ناز کی وجہ سے، محبوبیت کی شان کی بنا پر وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں باتیں کررہی تھیں اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے کریمانہ گفتگو فرمارہے تھے، اپنے کریم ہونے کا ثبوت پیش کررہے تھے، قیامت تک کے لیے لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اس طرح کی زندگی گذارو کیونکہ نبی کا ہر عمل ہماری رہنمائی کے لیے آفتاب ہے۔ تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے ہی داخل ہوئے سب خاموش ہوگئیں کیونکہ ان کی ہیبت بہت زیادہ تھی۔ تاریخ میں ہے کہ یہ جارہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ان کے پیچھے تھے، انہوں نے مڑ کر ایک نظر دیکھا تو سب صحابہ گھٹنے کے بل گر گئے، ان میں شان ہیبت بہت تھی لہٰذا سب امہات المومنین انہیں دیکھ کر خاموش ہوگئیں تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ نبی سے نہیں ڈرتی ہیں اور عمر سے ڈرتی ہیں، ابھی تو خوب آواز آرہی تھی اور اب ایک دم سے خاموش ہوگئیں تو ہماری مائوں نے کیا شاندار جواب دیا کہ اے عمر! تم سخت دل ہو جبکہ ہمارے نبی رحمۃ اللعٰلمین ہیں، سراپا رحمت ہیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ اﷲ کے بندوں پر رقیق القلب، رحیم المزاج اور حلیم الطبع ہوجائو۔ پھر دیکھو کتنا جلد سلوک طے ہوتا ہے، کتنے جلد اﷲ کے قریب ہوتے ہو اور ولی اﷲ بنتے ہو، مخلوق کی خطائوں کو معاف کرو، ان پر رحم کرو، ان کے دکھ درد میں کام آئو، خون کے رشتوں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ اور بیوی کے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک بھی صلہ رحمی میں داخل ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں اَلْمُرَادُ بِالْاَرْحَامِ الْاَقْرِبَآئُ مِنْ جِہْۃِ النَّسَب وَ مِنْ جِہْۃِ النِّسَآئِ بیویوں کی طرف سے جو رشتے ہیں یعنی ساس، سسر یہ سب بھی صلہ رحمی میں داخل ہیں، ان کا بھی وہی حق ہے جو سگے ماں باپ کا ہے اور برادر نسبتی کا سگے بھائی جیسا حق ہے۔

دیکھو تفسیر روح المعانی پیش کررہا ہوں۔ اس طریقے سے سلوک جلد طے ہوتا ہے، لوگ تہجد اور تسبیحات تو بہت پڑھتے ہیں لیکن گھر میں چین سے نہیں ہیں، جہاں دیکھو وظیفوں کی بھرمار ہے لیکن ڈنڈے گالی کی بھی بھرمار ہے۔ عزیزوںسے، پڑوسیوں سے، بال بچوں سے ہر وقت غصے ہورہے ہیں۔ کیا کہیں بزرگوں سے مشورہ کرو کہ کہاں کس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔

خواتین کو شوہروں کے اکرام کی نصیحت

خواتین کو بھی چاہیے کہ اپنے شوہر کا اکرام کریں اور ان کی نہایت ہی عظمت کریں کیونکہ عورت لاکھ عبادت کرے، لاکھ تسبیح پڑھے لیکن اگر شوہر ناراض ہوگا تو اس پر رات بھر خدا کی لعنت برسے گی، اﷲ کی رحمت نہیں ملے گی، چاہے لاکھ تہجد پڑھتی ہو۔ اور شوہر کے سوا بیوی کے کوئی کام بھی نہیں آتا، نہ ماں کام آتی ہے، نہ باپ کام آتا ہے، نہ بھائی کام آتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے لیے شوہر ہی کے ساتھ ساری زندگی کے گذارنے کا انتظام کیا ہے۔ جن لوگوں نے اکڑفوں کرکے بیویوں کو الگ کردیا تو ساری زندگی ان کی بہنیں اور ان کی بیٹیاں بھی مصیبت میں رہیں اور بے عزت رہیں۔

دوستو! یہ بات اس لیے عرض کرتا ہوں کہ بیویوں کو بھی چاہیے کہ اپنے شوہر جس سے تم ہزاروں آرام اٹھاتی ہو اگر اس سے کبھی تکلیف بھی پہنچ جائے کیونکہ وہ بھی انسان ہی تو ہے لہٰذا اگر اس سے کبھی غصے کی کوئی بات ہوجائے تو اس کو برداشت کرو۔ کیا وجہ ہے کہ جس کے ہاتھ سے ہر وقت روح افزا پی رہی ہو اگر کبھی ذرا سی کڑوی دا پلادی تو ناراض ہوگئیں لہٰذا اس کی کڑوی بھی کبھی برداشت کرلو اور ایک وظیفہ بھی بتائے دیتا ہوں یَا سُبُّوْحُ یَا قُدُّوْسُ یَا غَفُوْرُ یَا وَدُوْدُ یہ اﷲ تعالیٰ کے چار نام ہیں، اگر افسر اعلیٰ ستارہا ہو یا نیچے کا کوئی کلرک اوپر والے کو ستا رہا ہو، کسی کی بیوی ستارہی ہو یا کسی کا شوہر تیز مزاج کا ہے اور بیوی کو پریشان کررہا ہے تو اﷲ تعالیٰ کے یہ چار نام پڑھ کر دیکھو، اس کی برکت سے کسی سے لڑنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ان ناموں کی برکت سے دل نرم ہوجاتا ہے۔

جب مکے شریف سے مدینے شریف جائیں تو جگہ جگہ شرطے انکوائری کرتے ہیں، سب چیزیں دیکھتے ہیں اور ذرا سی غلطی پر روک لیتے ہیں۔ تو ہماری سب چیزیں درست تھیں لیکن وہ شاہی لوگ ہیں، وہاں ڈر ہی لگتا ہے، بعض لوگ تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن بعض لوگ سختی کرتے ہیں کیونکہ شاہی مزاج ہے لہٰذا میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہمیں فرماتے تھے کہ بھئی پولیس چوکی آرہی ہے جلدی پڑھو یَا سُبُّوْحُ یَا قُدُّوْسُ یَا غَفُوْرُ یَا وَدُوْدُ۔ الحمدﷲ حضرت کی بتائی ہوئی دعا کی برکت سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

ایک مرتبہ ہمارے سید عشرت جمیل میر صاحب جب بس میں داخل ہوئے تو ان سے کسی نے پاسپورٹ ہی نہیں مانگا کیونکہ احرام میں تھے اور احرام بھی گرمی کی وجہ سے گرا ہوا تھا اور سینے کے سب بال نظر آرہے تھے، سینے پر صحرائے سینائی نظر آیا اور پیٹھ پر چھاتہ بردار تو شرطے نے کہا یا شیخ الاسلام السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا اور ان کا پاسپورٹ نہیں دیکھا۔ اس پر حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب بہت ہنسے۔ بہرحال اﷲ تعالیٰ کے ان چار اسماء کو پڑھو، ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کی برکت سے آپ کو اپنے بڑوں سے پیار ملے گا۔

میرے شیخ جب یہاں کراچی آتے ہیں تو میں بھی ان اسماء حسنیٰ کو پڑھتا ہوں، ہر آدمی اپنے بڑوں کے سامنے یا جس سے کوئی کام ہو اس کے لیے ان اسماء کو پڑھے پھر دیکھو کہ مخلوق کے دل کس طرح نرم ہوجاتے ہیں۔ ان چاروں ناموں کو پڑھنے کی تعداد کچھ نہیں ہے جتنا چاہو پڑھو اور اگر مستقل طور پر کوئی مصیبت ہے ، کوئی ستا رہا ہے تو ہر فرض نماز کے بعد سات مرتبہ پڑھ کر یوں کہو کہ اے اﷲ اپنے ان ناموں کے صدقے میں جو مجھ کو ستا رہا ہے اس کا دل نرم کردیجئے، اس کو مجھ پر شفیق و مہربان کردیجئے۔

بس اب دعا کیجئے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اس مجلس کو اﷲ اپنی رحمت سے قبول فرمالے۔ یا اﷲ جو لوگ یہاں آرہے ہیں خواتین ہیں یا ہمارے دوست احباب ہیں یا اﷲ ہم سب کی اپنی رحمت سے اصلاح فرمادے، یا اﷲ ہم سب کا تزکیہ فرمادے، یا اﷲ ہم سب کو گناہوں سے نفرت اور کراہت نصیب فرمادیجئے ، اور ہم سب کو تقویٰ نصیب فرمادیجئے‘ یا اﷲ ہماری جانوں کو جذب فرماکر اپنا بنالیجئے، یا اﷲ اسباب معصیت سے ہمیں دوری اور تحفظ نصیب فرمائیے، ہم سب کو اور خواتین، بہنوں کو، بیٹیوں کو، مائوں کو سب کو اﷲ اپنا بنالیجئے۔ یا اﷲ ہم سب کو اؤلیاء صدیقین اور اپنے دوستوں میںشامل فرما اور ان کے اخلاق اور اعمال و یقین نصیب فرما، آمین۔

وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ o

ظظظظظ
Flag Counter