Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

13 - 14
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

{آخری قسط}

قرض اور زکوٰۃ کا حکم

قرض کی دو صورتیں ہیں: (۱) خود مالدار آدمی پر قرض ہو‘ خود اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنا ہے‘ ایسے شخص کے پاس نصاب کی بقدر کسی قسم کا مال ہے لیکن اس پر اتنا قرض بھی ہے کہ اگر وہ قرض ادا کرے تو بقیہ مال نصاب سے کم رہ جاتاہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

کیونکہ حضرات فقہائے کرام کے نزدیک قرض ’’حاجات اصلیہ‘‘ میں شامل ہے جبکہ زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لیے مال کا ’’حاجتِ اصلیہ‘‘ سے زائد ہوکر نصاب کی بقدر ہونا ضروری ہے۔ (حاجتِ اصلیہ کی تعریف اور اس سے متعلق ضروری تفصیل آپ زکوٰۃ کے فرض ہونے کی شرائط کے بیان میں پڑھ چکے ہیں)

قرضوں کی دو قسمیں: قرضوں کے سلسلے میں ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے‘ وہ یہ کہ قرضوں کی دو قسمیں ہیں: ایک تو معمولی قرضے ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی ضروریات اور ہنگامی ضروریات کے لیے مجبوراً لیتا ہے۔ دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو بڑے بڑے سرمایہ دار پیداواری اغراض کے لیے لیتے ہیں۔

مثلاً: فیکٹریاں لگانے‘ یا مشینریاں خریدنے یا مال تجارت امپورٹ کرنے کے لیے قرضے لیتے ہیں یا مثلاً ایک سرمایہ دار کے پاس پہلے ہی سے دو فیکٹریاں موجود ہیں لیکن اس نے بینک سے قرض لے کر تیسری فیکٹری لگالی۔ اب اگر اس دوسری قسم کے قرضوں کو مجموعی مالیت سے منہا کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ان سرمایہ داروں پر ایک پیسے کی بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی بلکہ وہ لوگ الٹے مستحق زکوٰۃ بن جائیں گے‘ اس لیے کہ ان کے پاس جتنی مالیت کا مال موجود ہے‘ اس سے زیادہ مالیت کے قرضے بینک سے لے رکھے ہیں‘ وہ بظاہر فقیر اور مسکین نظر آرہا ہے۔ لہٰذا ان قرضوں کے منہا کرنے میں بھی شریعت نے فرق رکھا ہے۔

تجارتی قرضے کب منہا کئے جائیں: اس میں تفصیل یہ ہے کہ پہلی قسم کے قرضے تو مجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے اور ان کو منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اور دوسری قسم کے قرضوں میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کسی شخص نے تجارت کی غرض سے قرض لیا‘ اور اس قرض کو ایسی اشیاء خریدنے میں استعمال کیا جو قابل زکوٰۃ ہیں‘ مثلاً اس قرض سے خام مال خرید لیا‘ یا مالِ تجارت خرید لیا‘ تو اس قرض کو مجموعی مالیت سے منہا کریں گے۔ لیکن اگر اس قرض کو ایسے اثاثے خریدنے میں استعمال کیا جو ناقابل زکوٰۃ ہیں تو اس قرض کو مجموعی مالیت سے منہا نہیں کرینگے۔

قرض کی مثال: مثلاً ایک شخص نے بینک سے ایک کروڑ روپے قرض لیے اور اس رقم سے اس نے ایک پلانٹ باہر سے امپورٹ کرلیا۔ چونکہ یہ پلانٹ قابلِ زکوٰۃ نہیں ہے اس لیے کہ یہ مشینری ہے تو اس صورت میں یہ قرضہ منہا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس نے اس قرض سے خام مال خرید لیا تو چونکہ خام مال قابل زکوٰۃ ہے اس لیے یہ قرض منہا کیا جائے گا۔ کیونکہ دوسری طرف یہ خام مال ادا کی جانے والی زکوٰۃ کی مجموعی مالیت میں پہلے سے شامل ہوچکا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ نارمل قسم کے قرض تو پورے کے پورے مجموعی مالیت سے منہا ہوجائیں گے۔ اور جو قرضے پیداواری اغراض کے لیے لئے گئے ہیں‘ اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس سے ناقابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا نہیں ہوگا اور اگر قابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں تو وہ قرض منہا ہوگا۔

(۲) کسی شخص کے پاس دوسرے لوگوں پر قرض ہو جو اس نے ان سے وصول کرنا ہے۔

’’قرض‘‘ سے کیا مراد ہے؟

یہاں قرض سے مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی کے ذمہ واجب ہو خواہ وہ کسی بھی وجہ سے ہو خواہ وہ دوسروں کے ذمہ واجب ہونے والی چیز رقم ہو یا سامان یا اور کوئی چیز۔ فقہ کی زبان میں ایسی چیز کو’’دین‘‘ کہتے ہیں۔ اردو میں سمجھانے کے لی اسے قرض کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ خود قرض ’’دین‘‘ کا ایک فرد ہے۔ ہر قرض کو ’’دین‘‘ کہہ سکتے ہیںلیکن ہر دین کا قرض ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔

ایسا دین اور قرض جو دوسروں سے وصول کرنا ہے اس پر زکوٰۃ کا حکم سمجھنے کے لیے دین کی اقسام سمجھنا ضروری ہیں۔ دین کی تین قسمیں ہیں:

(۱)دین قوی (۲)دین متوسط (۳)دین ضعیف

دین قوی کی تعریف: دین قوی کی دو صورتیں ہیں:

(ا) کسی شخص کو نقدی یا سونا چاندی کچھ مدت کے لیے بطور قرض دیا ہے جو مقررہ مدت کے بعد اس سے وصول کرنا ہے۔

مثال: (الف) محسن نے حسیب کو ایک ہزار روپیہ بطور قرض دیا جو ایک ماہ کے بعد اس سے وصول کرنا ہے۔ اسے یوں کہیں گے کہ محسن کا حسیب پر ’’دین قوی‘‘ ہے۔

(ب) ہر وہ مال جو کسی کے ذمہ اس لیے واجب ہو کہ اسے مال تجارت بیچا ہو۔

مثال: فرحان کی کمپیوٹر کی دکان ہے۔ اس نے دو مہینے کے ادھار پر سلیمان کو ایک کمپیوٹر بیچ دیا جس کی قیمت پندرہ ہزار روپے طے ہوئی۔ اسے یوں کہیں گے کہ فرحان کا سلیمان پر پندرہ ہزار ’’دین قوی‘‘ ہے۔

دین قوی پر زکوٰۃ کا حکم: اس قسم کے دین پر تمام ائمہ کے ہاں زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے تاہم اس زکوٰۃ کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب وہ دین مکمل وصول ہوجائے یا کم از کم ساڑھے دس تولہ چاندی کی قیمت کے برابر رقم وصول ہوجائے‘ اگر کسی شخص نے کئی برسوں کے بعد دین قوی ادا کیا ہے تو لینے والے پر گزشتہ تمام برسوں کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

ظظظظظ

دین متوسط تعریف:

اگر کوئی شخص دوسرے کو ایسی چیز ادھار بیچ دے جو مال تجارت نہ ہو تو ایسی چیز کے بدلے جو دین خریدار کے ذمہ واجب ہو اسے ’’دین متوسط‘‘ کہتے ہیں۔

مثال: جیسے کوئی شخص اپنی حاجت اصلیہ میں سے کوئی چیز بیچ دے مثلاً پہننے کے کپڑے‘ گھر کا اسباب‘ استعمال کی گاڑی‘ اسلحہ وغیرہ کسی کو ادھار بیچ دیا۔ تو ان چیزوں کے بدلے خریدار پر جو ادائیگی واجب ہے وہ دین متوسط ہے۔

دین متوسط پر زکوٰۃ کا حکم:

دین متوسط پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے لیکن ادا کرنا کب فرض ہوتا ہے اس میں ائمہ احنافؒ کا اختلاف ہے۔

سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک جب تک یہ شخص اپنے مدیون (مقروض) سے دین میں سے نصاب کی بقدر وصول نہ کرلے۔ اس وقت تک زکوٰۃ ادا کرنا فرض نہیں ہوتا۔

مگر امام اعظمؒ کے دونوں جلیل القدر شاگرد حضرت امام ابو یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ ارشاد فرماتے ہیں اگر کسی شخص کو اپنے دین متوسط سے کچھ بھی رقم وصول ہوجائے تب بھی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتا ہے خواہ وہ وصول ہونے والی رقم نصاب سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

مثال سے وضاحت:

کسی شخص نے دوسرے آدمی کو گھر کے استعمال کا فرنیچر ادھار بیچ دیا جس کی قیمت دوسوتولہ چاندی مقرر کی گئی ایک سال کے بعد اسے پچاس تولہ چاندی وصول ہوگئی اور ایک سوپچاس تولہ اس کے ذمہ بطور دین متوسط باقی رہ گئی اس شخص پر بالاتفاق زکوٰۃ فرض ہوچکی ہے لیکن زکوٰۃ ادا کرنا کب ضروری ہے؟

تو اس کے بارے میں حضرت امام اعظمؒ کے مذہب کے مطابق جو چاندی سال کے بعد وصول ہوئی ہے چونکہ چاندی کے مقررہ نصاب ساڑھے باون تولہ سے کم ہے لہٰذا اس پر فی الحال زکوٰۃ ادا کرنا فرض نہیں ہے‘ جب تک وصول ہونے والی چاندی نصاب کے بقدر نہ ہوجائے۔

چند ہفتوں کے بعد مزید پانچ تولے چاندی وصول ہوگئی تو اب چونکہ مجموعی طور پر وصول ہونے والی چاندی پچپن تولہ ہوچکی ہے لہٰذا حضرت امام اعظمؒ کے نزدیک زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوچکا ہے۔

اسی صورت میں حضرات صاحبینؒ کے نزدیک جب اسے پچاس تولہ چاندی وصول ہوچکی تھی اس وقت ہی ادا کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ اگرچہ وہ نصاب سے کم ہی کیوں نہ تھی۔

اس اختلاف میں فتویٰ حضرت امام اعظمؒ کے مذہب پر دیا جاتا ہے۔

آدمی جس وقت دین متوسط کا مالک ہوجائے اور وہ دین نصاب کی بقدر ہو تو زکوٰۃ اسی وقت فرض ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ دین کئی برسوں کے بعد وصول ہوا تو سب برسوں کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہوجاتی ہے۔

ظظظظظ

دین ضعیف کی تعریف:

دین ضعیف وہ دین ہوتا ہے جو دوسروں کے ذمہ میں ایسی چیز کے بدلے میںواجب ہو جو سرے سے مال ہی نہ ہو۔

مثال: جیسے مہر کی رقم شوہر کے ذمہ واجب ہوتی ہے چونکہ یہ عقدِ نکاح کے بدلے میں واجب ہوتی ہے جو کہ مال نہیں ہے لہٰذا مہر بیوی کے لیے شوہر پر دین ضعیف ہے۔

مثال: اگر کسی سے ایسا قتل ہوجائے جس کی وجہ سے قاتل پر دیت آتی ہو یا قصاص آتا ہو مگر مقتول کے ورثاء دیت لینے پر قاتل سے صلح کرلیں۔ تو چونکہ دیت کی رقم کسی تجارتی یا غیر تجارتی مال کے بدلے میں واجب نہیں ہوئی بلکہ قتل کے بدلے میں ہے جو سرے سے مال ہی نہیں ہے اسے یوں کہیں گے کہ قاتل پر مقتول کے ورثاء کے لیے دیت کی رقم ’’دین ضعیف‘‘ ہے۔

مثال:کسی عورت نے گھریلو ناچاقی کی بنیاد پر اپنے شوہر سے خلع کرلیا اور خلع کے عوض میں جو رقم طے کی (جسے فقہ کی اصطلاح میں ’’بدل خلع‘‘ کہتے ہیں) یہ رقم بیوی کے ذمہ شوہر کے لیے دین ضعیف ہے کیونکہ یہ فسخ نکاح (نکاح توڑنے) کے بدلے میں واجب ہوئی ہے جو کہ مال نہیں ہے۔

مثال: کسی شخص نے مرتے وقت بلال کے لیے وصیت کردی کہ مرنے کے بعد میری جائیداد میں سے فلاں دکان یا دس ہزار روپے بلال کو دے دیئے جائیں۔ تو وصیت کی یہ دکان یا رقم بلال کے لیے چونکہ بغیر کسی عوض یا مال کے ورثاء کے ذمہ واجب ہے لہٰذا اسے یوں کہیں گے کہ فلاں دکان یا دس ہزار روپے بلال کا ورثاء کے ذمہ ’’دین ضعیف‘‘ ہے۔

دین ضعیف پر زکوٰۃ کا حکم:

دین ضعیف پر زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ جب تک درج ذیل شرائط نہ پائی جائیں زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی:

(۱) دین ضعیف پر قبضہ کرلے (یعنی وصول ہوجائے)۔

(۲) دین ضعیف نصاب کی بقدر ہو۔

(۳) دین ضعیف پر قبضہ کے بعد حولانِ حول ہوجائے یعنی مکمل سال گزرجائے۔

لہٰذا دین ضعیف کی وصولی میں اگر کئی برس گزرجائیں تو وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔

ظظظظظ

پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ:

سرکاری ملازم کو ریٹائر ہونے کے بعد جو پراویڈنٹ فنڈ ملتا ہے جب تک وہ ملازم کو نہ ملے اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی کیونکہ یہ فنڈ دین ضعیف میں شامل ہے۔

حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ:

جو رقم حج کے لیے رکھی ہے اس کے لیے دو صورتیں ہیں:

(۱) اگر وہ رقم اپنے پاس موجود ہے تو سال پورا ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

(۲) اگر وہ حکومت کو جمع کراچکا ہے تو وہ رقم جو آمدورفت کا کرایہ اور معلم وغیرہ کی فیس کاٹنے کے بعد اپنے ذاتی خرچ کے لیے حاجی کو ملتی ہے سال پورا ہونے پر اس رقم کی زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔

ظظظظظ

زکوٰۃ کے نصاب سے متعلق مندرجہ بالا تفصیل سمجھنے کے بعد ایک نظر میں ان تمام اموال کو ملاحظہ کیجئے جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور وہ قابل زکوٰۃ اثاثے کہلاتے ہیں۔

اور وہ اموال جن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی‘ یہ ناقابل زکوٰۃ اثاثے کہلاتے ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل ’’نقشہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں:

نمبر

قابل زکوٰۃ اثاثے

ناقابل زکوٰۃ اثاثے

۱

سونا 7.50تولہ

رہائشی مکان (ایک ہو یا زیادہ)

۲

چاندی 52.50 تولہ

دکان (دکان کا مال قابل زکوٰۃ ہے)

۳

کرنسی (روپیہ‘ دینار‘ ڈالر‘ یورو وغیرہ)

فیکٹری کی زمین

۴

بینک میں جمع شدہ رقم

فیکٹری کی مشین

۵

جمع کرائی ہوئی کمیٹی

دکان‘ گھر‘ دفتر‘ فیکٹری کا فرنیچر

۶

دکان یا گودام میں جمع کیا ہوا مال

زرعی زمین

۷

تجارت کی نیت سے خریدا ہوا پلاٹ

کرایہ پر دیا ہوا مکان‘ دکان یا فلیٹ (یاد رہے کہ کرایہ قابل زکوٰۃ ہے)

۸

جمع کرائی ہوئی حج کی اتنی رقم‘ جو معلم کی فیس‘ کرایہ جات کاٹ کر حاجی کو واپس کردی جاتی ہے

مکان‘ دکان‘ اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہوا پلاٹ

۹

کارخانہ کا تیار مال

کرایہ پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ (ٹیکسی‘ رکشہ‘ ٹرک‘ منی بس‘ لانچ)

۱۰

کارخانے کا وہ مال جو تیاری کے مراحل میں ہے

لیئر مرغی (انڈے‘ مال تجارت میں شامل ہوکر قابل زکوٰۃ ہیں)

۱۱

کمپنی کے شیئرز

۱۲

وہ قرضہ جو دوسروں سے وصول کرنا ہے

۱۳

کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی رقم

۱۴

جنگل میں چرنے والے جانور

۱۵

برائیلر مرغی

انتباہ! فیکٹری کی مشینری اور فرنیچر قابل زکوٰۃ اثاثے میں شامل نہیں ہے لیکن اگر کسی شخص نے ایسی دکان بنائی جس میں مشینری یا فرنیچر بکتا ہو تو اب یہ اشیاء ’’مال تجارت‘‘ ہونے کی وجہ سے قابل زکوٰۃ اثاثوں میں شامل ہیں۔

ظظظظظ

زکوٰۃ کا خود تشخیصی فارم

ذیل میں ایک فارم کا ذکر کیا جارہا ہے جس کی مدد سے زکوٰۃ کا حساب نکالنا بہت آسان ہوجاتا ہے

(۱) سونا: (کسی بھی شکل میں کسی بھی مقصد کے لیے ہو، نیز دیکھئے ہدایت نمبر ا) ……

(۲) چاندی:(کسی بھی شکل میں کسی بھی مقصد کے لیے ہو‘ نیز دیکھئے ہدایت نمبر ۱) ……

(۳) نقد رقم:

(ا) ہاتھ میں بینک بیلنس‘ کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی۔ ……

(ب) غیر ملکی کرنسی (پاکستانی روپے میں قیمت لکھی جائے) ……

(۴) قابل وصول قرضے: (Receiveables) (دیکھئے ہدایت نمبر۲)

(ا) کسی کو دیا ہوا قرض ……

(ب) بیچی ہوئی اشیاء کی واجب الوصول رقم ……

(ج) نقد پذیر مالی دستاویزات جیسے ڈرافٹ‘ چیک بل آف ایکسچینج

ہر قسم کے بچت سرٹیفکیٹ‘ ہر قسم کے بانڈز اور گورنمنٹ سیکورٹیز وغیرہ۔ ……

(د) کمیٹی (بی سی) کی جو قسطیں اب تک جمع کرائی گئی ہیں۔ ……

(و) کسی بھی قسم کا قابل واپسی زر ضمانت جو کہیں جمع کرایا گیا ہو۔ ……

(۵) مال تجارت: (دیکھئے ہدایت نمبر۳)

(ا) خام مال (Raw Material) ……

(ب) تیار کردہ مال برائے فروخت ……

(ج) کمپنیوں کے شیئرز (دیکھئے ہدایت نمبر ۴) ……

(د) دیگر ایسی اشیاء اور جائیداد جنہیں نفع پر بیچنے کی نیت سے ہی خریدا گیا ہو اور اب تک یہ نیت برقرار ہو۔ ……

قابل زکوٰۃ مجموعی مالیت: ( Gross Zakatable Worth)

مالی ذمہ داریاں:

(ا) ملازمین کی تنخواہ جو اب تک واجب الادا ہوچکی ہے۔ ……

(ب) ٹیکس جو اب تک واجب الادا ہوچکا ہے۔ ……

(ج) یوٹیلیٹی بلز (فون‘ بجلی‘ گیس وغیرہ) ……

(د) گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ کی وہ رقم جو ابھی تک ادا نہیں کی گئی۔ ……

(ہ) کمیٹی اگر آپ وصول کرچکے ہیں تو اس کی باقی ماندہ اقساط جو آپ نے دینی ہیں۔ ……

(و) لیا ہوا قرض (دیکھئے ہدایت نمبر۵) اور دیگر ہر ایسی رقم جو کسی کی آپ کے ذمے واجب الادا ہوچکی ہے۔جیسے کرایہ مہر وغیرہ۔ ……

مجموعی مالی ذمہ داریاں:

قابل زکوٰۃ صافی رقم مالی ذمہ داریاں تفریق مجموعی قابل زکوٰۃ مالیت

واجب الاداء زکوٰۃ کی رقم 40=÷

(قابل زکوٰۃ مجموعی مالیت میں سے مالی ذمہ داریاں تفریق کریں‘ باقی کو 40پر تقسیم کرلیں۔ حاصل تقسیم واجب الادا مالیت ہے۔)

ظظظظظ

فارم پُر کرنے کے لیے ہدایات

(۱)… سونے اور چاندی کے زیور اگر تجارت کے لیے ہیں تو نگینوں وغیرہ کی قیمت بھی لگائی جائے اور اگر استعمال کے لیے ہیں تو نگینوں اور بناؤٹ وغیرہ کی قیمت شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔

(۲)… دوسروں کے ذمے آپ کے لئے واجب الاد ایسی رقوم جن کی وصولی کی امید نہ رہی ہو درج کرنے کی ضرورت نہیں۔

(۳)… مال تجارت ایسی چیز ہے جو بیچ کر نفع کمانے کی نیت سے خریدی گئی ہو اور یہ نیت ابھی تک برقرار ہو‘ خواہ اس چیز کو اسی شکل میں بیچنا ہو یا اس سے کچھ اور بناکر‘ اگر چیز خریدی ہی نہیں گئی بلکہ وراثت یا ہبہ وغیرہ سے حاصل ہوئی ہے‘ یا خریدی تو ہے لیکن بیچنے کی نیت سے نہیں اگرچہ اب بیچنے کی نیت کرلی ہو‘ یا بیچنے کی نیت سے خریدی تھی لیکن اب نیت بدل گئی تو ایسا مال مالِ تجارت نہیں کہلائے گا۔

(۴)… کمپنی شیئرز اگر مہنگا ہونے پر بیچنے (Capital Gain) کے لیے خریدے ہیں تو ان کی پوری بازاری قیمت (Market Value) لکھی جائے اور اگر سالانہ منافع حاصل کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں تو کمپنی کے کل اثاثوں میں قابل زکوٰۃ اثاثوں کی جو نسبت ہے‘ شیئرزکی مارکیٹ ویلیو کی اسی نسبت سے زکوٰۃ فرض ہے‘ لیکن احتیاطاً پوری مارکیٹ ویلیو لگالینا مناسب ہے۔

(۵)… قرض اگر کاروبار کے لیے نہیں بلکہ ذاتی ضرورتوں کے لئے لیا ہے تو اسے مالی ذمہ داریوں والے حصے میں درج کیا جائے اور اگر کاروبار کے لیے لیا ہے تو اگر اس سے قابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں جیسے خام مال اشیاء تجارت وغیرہ تو بھی اسے یہاں درج کیا جائے اور اگر اس سے کاروبار کے لیے ناقابل زکوٰۃ اثاثے خریدے ہیں جیسے مشینری وغیرہ تو اس قرض کو یہاں درج نہیں کیا جائے گا۔

(۶)… اس بات کا خیال رہے کہ کسی چیز کا دوہرا اندراج (Double Entry) نہ ہو مثلاً سونا‘ چاندی کالم نمبر 1نمبر2میں لکھ چکے ہیں تو وہی سونا چاندی دوبارہ مال تجارت والے حصے میں نہ لکھا جائے‘ اسی طرح چیک بانڈز وغیرہ کو نقد رقم میں شامل کرچکے ہیں تو قابل وصول حصے میں اسے نہ لکھا جائے۔

(۷)…ہر مد (Item) میں وہی مقدار معتبر ہوگی جو سال پورا ہونے کی تاریخ کو آپ کے پاس ہے‘ جو کچھ درمیان سال میں خرچ ہوچکا ہے اسے درج نہیں کیا جائے گا۔

( ۸)… شرعاً گھر کے ہر فرد کی ملکیت الگ الگ سمجھی جاتی ہے‘ اس لیے فارم بھی ہر بالغ فردکا الگ پُر کیا جائے‘ مشترکہ کاروبار کا مستقل فارم پُر کرکے تمام شرکاء کی رضامندی سے مشترکہ زکوٰۃ نکالی جاسکتی ہے۔

ظظظظظ

زکوٰٰۃ کے مصارف

وہ لوگ جنہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے زکوٰۃ کے ’’مصرف‘‘ کہلاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف ارشاد فرمائے ہیں:

انما الصدقات للفقرآء والمسٰکین والعملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اﷲ وابن السبیل ط فریضۃ من اﷲ ط واﷲ علیمٌ حکیمٌ o (التوبہ: ۶۰)

ترجمہ: زکوٰۃ تو ان لوگوں کاحق ہے جو فقیر ہیں اور جو مسکین ہیں اور جو زکوٰۃ کے کام پر جانے والے ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا مقصود ہے اور گردنوں کے چھڑانے میں اور قرضداروں کے قرضہ (ادا کرنے) میں اور جہاد میں اور مسافروں میں‘ یہ حکم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اور اﷲ تعالیٰ بڑے علم والے اور بڑی حکمت والے ہیں۔(معارف القرآن ۴/۳۹۲)

ظظظظظ

قرآن کریم نے زکوٰۃ کے مصارف کی آٹھ قسمیں ذکر فرمائی ہیں جن پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ ان آٹھ میں سے ایک قسم حضرت عمر فاروق کے سنہری دورخلافت میں حضرات صحابہ کرامؓ کے اجماع اور اتفاق سے ختم ہوچکی ہے لہٰذا اب زکوٰۃ کے آٹھ کے بجائے ساتھ مصرف ہیں۔ وہ مصرف جو ختم ہوچکا ہے وہ المؤلفۃ قلوبہم ہے۔

المؤلفۃ قلوبہم کی تفصیل:

اسلام کے ابتدائی دور میں جو لوگ لوگ مسلمان ہوتے تھے ان نو مسلموں کی دل جوئی اور ایمان پر استقامت کی غرض سے ان کو زکوٰۃ دینا جائز تھا لیکن جب اسلام کی حقانیت اور سچائی دوپہر کے سورج کی طرح واضح ہوگئی تو یہ مصرف ختم کردیا گیا یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت فاروق اعظمؓ کے تابناک دورِ خلافت کا ڈنکا چاردانگ عالم میں بج رہا تھا۔

بقیہ مصارف کی تفصیل نمبر وار یہ ہے:

(۱) فقیر کی تعریف:

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس نصاب سے کم مال ہو (اور ہر قسم کے نصاب کی تفصیل گذر چکی ہے) چنانچہ ایسے لوگ جن کے پاس نصاب سے کم مال ہوا نہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے‘ اگرچہ وہ تندرست اور کمانے پر قادر ہوں لیکن انہیں خود زکوٰۃ کا سوال کرنا جائز نہیں ہے۔

(۲) مسکین کی تعریف:

مسکین وہ شخص ہوتا ہے جس کی ملکیت میں کچھ بھی مال نہ ہو۔ فقیر اور مسکین میں یہ بات قدر مشترک ہوتی ہے کہ دونوں کے پاس بقدر نصاب مال نہیں ہوتا۔

(۳) العٰلمین علیہا کی تعریف:

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حکومت اسلامیہ کی طرف سے لوگوں سے زکوٰۃ اور عشر وصول کرنے پر مامور ہوں۔ ان لوگوں کو بھی ان کے کام کی بقدر زکوٰۃ میں سے اجرت دینا جائز ہے اگرچہ یہ لوگ مال دار ہی کیوں نہ ہوں۔

(۴) الغارمین (یعنی مقروض) کی تعریف:

اس سے مراد وہ شخص ہے جس پر اتنا قرضہ ہے کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد اس کے پاس اتنا مال نہیں بچتا جو نصاب کی بقدر ہو۔ لہٰذا مقروض کا قرض ادا کرنے کے لیے مقروض کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے۔

(۵) فی سبیل اﷲ کی تعریف:

فی سبیل اﷲ وہ لوگ ہیں جو اﷲ کے راستے میں دین کی سربلندی کے لیے نکلے ہوں‘ خواہ وہ جہاد میں نکلے ہوں یا تعلیم کے سلسلے میں مدرسے میں آئے ہوں‘ یا دعوت و تبلیغ کے لیے نکلے ہوں یا حج بیت اﷲ کے لیے آئے ہوں۔

سفر کے دوران ان لوگوں کا مال و اسباب ختم ہوجائے اور یہ محتاج اور فقیر ہوجائیں تو انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے اگرچہ یہ لوگ اپنے گھر اور وطن میں غنی اور مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔

(۶) ابن السبیل (مسافر) کی تعریف:

اس سے مراد وہ مسافر ہے جو گھر اور وطن میں مالدار ہو مگر سفر کے دوران اس کا مال چوری ہوگیا یا کسی وجہ سے ضائع ہوگیا اب اس کے گھر پہنچنے کا خرچ بھی نہیں اور فوری گھر سے منگوانے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اسے بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

اگر کسی شخص پر زکوٰۃ فرض ہے تو اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم ان تمام مصارف یا بعض مصارف میں خرچ کردے اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی ایک ہی مصرف کو ساری رقم دے دے۔

لیکن ایک ہی مصرف کو اتنی رقم دینا کہ وہ مصرف خود مالدار ہوجائے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہوجائے مکروہ ہے اگرچہ ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔

ظظظظظ

ان لوگوں کا بیان جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں

درج ذیل سطور میں ان افراد کو بیان کیا جاتا ہے جنہیں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے:

(۱) کافر کو زکوٰۃ دینا: کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے‘ اسی طرح کافر کو صدقۃ الفطر‘ عشر‘ نذر اور کفارات کی رقم دینا جائز نہیں ہے‘ ان کے علاوہ اور کوئی نفلی صدقہ دے سکتے ہیں۔

(۲) مالدار کو زکوٰۃ دینا: مالدار کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور شریعت مطہرہ کی نظر میں ہر وہ شخص مالدار ہے جس کے پاس نصاب کی بقدر مال موجود ہو۔ (نصاب کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں)

(۳) مالدار کی نابالغ اولاد کو زکوٰۃ دینا: یاد رہے کہ جیسے خود مالدار کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے‘ ایسے ہی مالدار کی نابالغ اولاد کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے‘ کیونکہ نابالغ اولاد اپنے مال و دولت اور فقر و غناء میں اپنے باپ کے تابع ہوتی ہے۔

البتہ (۱) مالدار شخص کی بالغ اولاد کو جو محتاج اور فقیر ہوں‘ یا (۲)مالدار آدمی کی بیوی کو جو فقیر ہو‘ یا (۳)اور مالدار شخص کے والدین اور دیگر رشتے داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے‘ بشرطیکہ وہ مستحق ہوں۔وجہ یہ ہے کہ شریعت میں ہر ایک کی ملکیت کا الگ الگ اعتبار ہے اور ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے تابع نہیں ہے۔

(۴) اپنے اصول (آبائ) کو زکوٰۃ دینا: اپنے اصول کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے‘ اصول سے مراد وہ آباء و اجداد ہیں جن سے یہ پیدا ہوا ہے۔ جیسے ماں‘ باپ‘ دادا‘ نانا‘ نانی وغیرہ۔

(۵) اپنے فروع کو زکوٰۃ دینا: اپنے فروع کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور فروع سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو اس سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے بیٹا‘ پوتا‘ نواسہ‘ نواسی وغیرہ۔

(۶) میاں بیوی کو زکوٰۃ دینا: میاں کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے شوہر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ نمبر ۴‘ نمبر۵‘ نمبر۶ کی وجہ یہ ہے کہ یہ تین رشتے ایسے ہیں کہ عموماً آدمی ان کے مال سے استفادہ کرتا ہیُ ان کے مالدار ہونے کا یا فقیر ہونے کا اثر اس آدمی پر ظاہر ہوجاتا ہے لہٰذا ان کو زکوٰۃ دینا خود اپنے آپ کو زکوٰۃ دینا ہے‘ گویا وہ زکوٰۃ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل کردی گئی۔ان کے علاوہ باقی جتنے رشتے دار ہیں جیسے بھائی‘ چچا‘ ماموں‘ بہن‘ خالہ وغیرہ ان میں چونکہ یہ بات نہیں پائی جاتی لہٰذا انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

(۷) رفاہی اداروں میں زکوٰۃ دینا: ہر ایسی جگہ زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہے جہاں تملیک کی شرط نہ پائی جائے۔ جیسے مسجد یا مدرسے کی تعمیر کرنا‘ کسی لاوارث میت کی تجہیز و تکفین کرنا‘ کنواں کھودنا‘ یا کسی بھی رفاہی کام میں خرچ کرنا۔

(۸) بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا: سادات اور بنی ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے‘ ان سے مراد وہ حضرات ہیں جو حضرت عباس یا حضرت جعفر‘ یا حضرت عقیل‘ یا حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہم اجمعین کی اولاد میں سے ہیں۔

اسی طرح وہ صدقہ جو زکوٰۃ کی طرح واجب ہو جیسے صدقۃ الفطر‘ نذر‘ کفارہ اور عشر بھی انہیں دینا درست نہیں ہے۔ حضرات سادات کی شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ انہیں یہ اموال نہ دیئے جائیں‘ البتہ صدقہ‘ نافلہ‘ اور ہدیہ وغیرہ سے ان کی مدد کی جائے۔

ظظظظظ
Flag Counter