Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اگست 2010

ہ رسالہ

5 - 14
خزائن القرآن
ایف جے،وائی(August 31, 2010)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)

رب العٰلمین کے بعد الرحمٰن الرحیم نازل کرکے بتا دیا کہ میری ہر ادائے ربوبیت میں شانِ رحمت شامل ہے، ہر ادائے تربیت میں شانِ رحمانیت اور شانِ رحیمیت ہوگی۔ رحمٰن اور رحیم میں کیا فرق ہے؟ رحمٰن کے معنیٰ ہیں مہربانی کرنے والا اور رحیم کے معنیٰ ہیں بہت زیادہ مہربانی کرنے والا، بار بار رحمت کرنے والا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ رحمٰن میں جو رحمت ہے وہ مومن اور کافر سب پر عام ہے، اسی صفتِ رحمانیت کے صدقے میں دنیا میں کافر رزق پارہا ہے، اگر شانِ رحمانیت نہ ہوتی تو اﷲتعالیٰ کسی کافر کو روٹی نہ دیتا غرض صفتِ رحمانیت مشترک ہے مومن اور کافر کے درمیان اور رحیم خاص ہے مؤمنین کے لیے، شانِ رحیمیت صرف مومنین کے لیے ہے لہٰذا مؤمنین جب جنت میں جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے: نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ (سورۃ فصلت، آیت:۳۲)

یہ مہمانی ہے غفور رحیم کی طرف سے۔

دوسرا فرق علامہ آلوسی السید محمود بغدادی نے یہ بیان کیا ہے کہ رحمانیت کی شان کبھی ممزوج بالالم ہو سکتی ہے یعنی اس رحمت میں تکلیف کی آمیزش ہوسکتی ہے جیسے گردے کی پتھری نکالنے کے لیے آپریشن ہورہا ہے اس میں بھی رحمت ہے کہ پتھری نکل جائے گی مگر اس میں تکلیف شامل ہے اور رحیم میں وہ صفتِ رحمت ہے جو کبھی ممزوج بالالم نہیں ہوتی۔ جنت میں چونکہ کوئی تکلیف نہ ہوگی اس لیے اﷲ تعالیٰ نے نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍنازل فرمایا یہاں رحمٰن نازل نہیں فرمایاکیونکہ جنت میں کوئی الم نہیں ہے کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن وہاں کی خوشیاں اُنہی کو ملیں گی جو یہاں اﷲ کے لیے غم اٹھا چکے ہیں، جنہوں نے گناہوں سے بچنے کا غم اٹھایا ہے، عبادت کی مشقت برداشت کی ہے۔ اس لیے جب جنت میں پہلا قدم داخل ہوگا تو ہر جنتی کے منہ سے یہ بات نکلے گی: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (سورۃ فاطر، آیت:۳۴)

شکر ہے اس اﷲ کا جس نے ہم سے غم کو اٹھا لیا کہ آج غم ہمیشہ کے لیے ختم ہورہا ہے، اب کبھی غم کا تصور بھی نہ ہوگا۔ علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں یہی دعا مانگی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی شانِ رحیمیت کا مظہر بنائے اپنی وہ شانِ رحمت دے جو کبھی ممزوج بالا لم نہیں ہوتی یعنی اے خدا! اپنی شانِ رحیمیت کے صدقے میں ہمیشہ ہم کو عافیت سے رکھئے، کبھی کوئی تکلیف نہ دیجئے۔

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ میں بتا دیا کہ میں قیامت کے دن تابعِ قوانین نہیں ہوں گا قیامت کے دن کا مالک ہوں گا۔ اُس دن میری حیثیت قاضی اور جج کی نہیں ہوگی مالک کی ہوگی۔ دنیا کی عدالتوں کے قاضی اور قاضی القضاۃ یعنی سپریم کورٹ کے جسٹس اور چیف جسٹس سب قوانین و فرامینِ سلطنت کے پابند ہوتے ہیں، پابندِ قانونِ مملکت ہوتے ہیں، قانون کے دائرے کے خلاف نہیں جاسکتے لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میں قاضی اور جج کی حیثیت سے فیصلے نہیں کروں گا، میں قیامت کے دن کا مالک رہوں گا جس کو چاہوں گا بخش دوں گا جس کو چاہوں سزادوں گا، میں کسی قانون کا پابند نہیں ہوں، تابعِ قانون نہیں ہوں بلکہ مالک ہوں جس کو چاہوں سزا دوں جس کو چاہوں بخشوں، بخشش کے لیے بس ایمان شرط ہے۔ اگر قانون کی رو سے کوئی بخشش نہیں پارہا ہے تو جس کو چاہوں گا اپنے مراحمِ خسروانہ، اپنے شاہی رحم سے بخش دوں گا۔

شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے صاحبزادے شاہ عبد القادر صاحب تفسیر موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے عرشِ اعظم کے سامنے لکھا یا ہوا ہے سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ یعنی میری رحمت اور میرے غصہ میں دوڑ ہوئی تو میری رحمت غصہ سے آگے بڑھ گئی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ از قبیل مراحمِ خسروانہ یعنی شاہی رحم کے طور پر لکھا یا ہے تا کہ جو بندے قانون کی رُو سے مغفرت نہ پاسکیں میں ان کو اپنے شاہی رحم سے معاف کر دوں جس طرح اخباروں میں آپ پڑھتے ہیں کہ سزائے موت کے مجرم نے سپریم کورٹ سے مایوس ہوکر شاہ سے رحم کی اپیل کر دی۔ بادشاہ کو قانوناً اختیار ہوتا ہے کہ جس کو چاہے معاف کر دے۔ لیکن دنیا کے بادشاہ معاف کرنے میں بھی پابندِ قانون ہوتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ نے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ فرماکر بتا دیا کہ میں قیامت کے دن کا مالک رہوں گا، قوانین کا پابند نہیں رہوں گا جس کو چاہوں گا سزا دوں گا جس کو چاہوں گا اپنے مراحمِ خسروانہ سے، شاہی رحم سے معاف کردوں گا۔

(جاری ہے۔)

ظظظظظ
Flag Counter