Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

9 - 12
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

بیرونِ ملک مقیم ایک مُجاز کے خطوط
حال: حضرت میرا خط حضرت والا کے جوابات کے ساتھ ملا لفافہ دیکھتے ہیں خوشی کی لہر جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ حضرت والا کے جواب سے ہمت، ایمان، ذوق و شوق تمام نعمتوں میں اضافہ محسوس ہوا۔ حضرت والا کی محبت بھی قلب میں بڑھتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ حضرت والا کو بڑے سے بڑے درجات پر فائز فرمائے۔ حضرت والا سے تعلق کا فائدہ روز روشن کی طرح محسوس کر رہا ہوں۔ نماز میں خضوع و خشوع تلاوت قرآن میں لذت، اﷲ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ، اﷲ تعالیٰ کی محبت میں رونا، آہ وزاری کرنا، آخرت کی تیاری میں ہر وقت لگا رہنا اپنے مالک کو خوب جھوم جھوم کر رو رو کر یاد کرنا یہ تمام کی تمام نعمتیں حضرت والا ہی کی نظر کرم کا ثمرہ ہیں۔
جواب: حق تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس ناکارہ کے ساتھ حُسن ظن کا ثمرہ ہے اپنے مُربی کے ساتھ حسن ظن پر حق تعالیٰ شانہ کا فضل مرتب ہوتا ہے۔
حال: اﷲ تبارک تعالیٰ حضرت والا کو بلند سے بلند مرتبہ پر فائز فرمائے۔ حضرت والا نے میرے اور میرے بیٹے پر نذر عنایت فرماکر ہم کو اپنے خاص خادموں میں میں شامل فرمالیا اس عنایت، مہربانی کا میں بہت مشکور ہوں۔ اس کا بدلہ تو اﷲ تعالیٰ ہی حضرت والا کو دے سکتے ہیں۔ حضرت والا ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمة اﷲ علیہ کے بعد میں بالکل بے سہارا محسوس کر رہا تھا۔ میری اہلیہ کو اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ انہوں نے بار بار تعریفیں کرکے حضرت والا تک پہونچا یا۔
جواب: ماشاءاﷲتعالیٰ ۔
حال: حضرت جب سے بیعت ہوا ہوں اسی وقت سے فائدہ محسوس کر رہا ہوں۔ سرپرستی کے احساس نے بڑی تقویت بخشی ہے اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن پاک کی تلاوت میں اور نماز میں بہت ہی زیادہ دل لگتاہے۔ میرے مالک کی ہر ہرآیت قلب پر اثر کرتی جاتی ہے۔ بیساختہ بلند آواز سے رونے لگتا ہوں اور قرآن پاک کو سینے سے لگا کر کہتا ہوں کہ اے میرے مالک کتنا حسین ہے تیرا کلام۔ میں تیری ایک ایک آیت پر ایمان لاتا ہوں یہ کہہ کر پھر رونے لگتا ہوں۔
جواب: یہ بڑی نعمت ہے مبارک ہو حق تعالیٰ شرف قبول فرمائیں۔
حال: اسی طرح نماز میں نیت باندھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تعلق مع اﷲ کا کنکشن جڑ گیا ہے اور میں اپنے خالق و مالک کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوں۔ رکوع اور سجود میں جی چاہتا ہے کہ سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ کہتا چلا جاﺅں۔ یہ کیفیت اﷲ تبارک تعالیٰ اکثر عطا فرمادیتے ہیں۔ حضرت والا سے دعائے استقامت کی درخواست ہے۔
جواب: بہت ہی دل خوش ہوا اس حال محمود سے حق تعالیٰ احقر کو آپ کو استقامت عطا فرمائےں، آمین۔
حال: حضرت ایک مرض موذی نے مجھے ساری زندگی چین سے بیٹھنے نہیں دیا ہے۔وہ مرض نظر کا ہے جب قلب میں ذکر ہوتا ہے تو غالب رہتا ہوں۔ ذرا غفلت ہوئی کہ مغلوب ہوجاتا ہوں۔ روتا ہوں۔ گڑگڑاتا ہوں توبہ کرتا رہتا ہوں۔ حضرت دعا فرمادیں کہ میرے مالک مجھے اپنی محبت اتنی عطا فرمادیں اور حاضر ناظر کا اتنا استحضار عطا فرمادیں کہ اس مرض کا قلب پر خطرہ بھی نہ گذرے۔
جواب: یہ پرچہ بدنظری کے علاج کا اصلاح کی نیت سے صبح شام پڑھ لیا کریںاور اس پر عمل کریں۔
……………………….
حال: حضرت اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے عمرہ کرنے کی توفیق عطا فرمادی۔ کل رات واپس آیا ہوں۔ الحمدﷲ بہت فائدہ ہوا۔ حضرت والا کی طرف سے ہر نماز کے بعد روضہ اطہر کے سامنے سلام بھیجتا رہا۔ سلام ان الفاظ کے ساتھ بھیجتا رہا الصلوٰة والسلام علیک یارسول اﷲ من شیخی حضرت مولانا حکیم محمد اختر۔ حضرت والا کی طرف سے سلام بھیجتے ہی قلب کی کیفیت فوراً بدل جاتی تھی۔آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا تھا۔ اشہداﷲ لا الہ الااﷲ واشہد وانک لرسول اﷲ سبحان اﷲ جس وقت میں کلمہ شہادت اس طرح پڑھتا تھا عجیب رقت محبت عظمت قلب میں محسوس کرتا تھا۔ کافی دیر تک آنسو جاری رہتے تھے۔
جواب: مبارک ہو۔
حال: حضرت اب تو صرف یہی جی چاہتا ہے کہ ہر وقت اپنے رب کو یاد کرتا رہوں، آنسو بہاتا رہوں۔ استغفار کرتا رہوں۔
جواب: مبارک حالت ہے مگر احباب سے ملنا ہنسنا بولنا رکھئے، مفرحات مثل سیب وغیرہ کھائیے تاکہ دماغ میں اعتدال قائم رہے۔
حال: حضرت الحمدﷲ اب تو اپنے خالق و مالک کی محبت واضح طور پر محسوس کرتا ہوں۔تھوڑا سا بھی تصور اپنے مالک کا کرتا ہوں تو رونے لگتا ہوں۔ قلب میں عجیب مٹھاس محسوس ہوتی ہے کہ زبان سے ظاہر نہیں کرسکتا۔ حضرت والا خوب جانتے ہیں۔ جی چاہتا ہے لا الہ الا اﷲ کہتا چلا جاﺅں۔ اﷲ تعالیٰ اپنی محبت میری رگ رگ میں پیوست فرمادیں تاکہ میں رب کو کسی وقت بھی بھولنے نہ پاﺅں۔
جواب: اﷲ تعالیٰ ترقیات ظاہری و باطنی سے نوازیں آمین۔
……………………….
حال: الحمدﷲ میرا خط مع حضرت والا کے جوابات کے مجھے ملا اور ساتھ ہی ساتھ حضرت والا کے دست مبارک سے لکھا ہوا اجازت نامہ بھی ملا۔ جس وقت میں نے اجازت نامہ پڑھا ہے حیرت اور سکوت کے عالم میں ڈوب گیا آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اسی وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے خالق و مالک کے سامنے پھیلا دیا اور کہنے لگا یااﷲ میں بالکل نا اہل ناکارہ ہوں ہمارے حضرت نے بربنائے حسن ظن احقر کو اجازت بیعت عطا فرمادی ہے یا اﷲ تو اپنے فضل و کرم سے مجھے اس کا اہل بنادیجئے اور اتنی بڑی ذمہ داری کو محض اپنی خوشنودی کے لیے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمادیجئے اور مجھے آخری سانس تک اس ذمہ داری کے ساتھ دین پر ثابت قدم رکھئے اور میرے قلب کو تمام روحانی امراض سے پاک کر کے اپنی محبت سے پُر کردیجئے۔حضرت جب میں اپنی حقیقت پر نظر ڈالتا ہوں اور حضرت والا کے مشفقانہ اجازت نامہ پر نظر ڈالتا ہوں تو شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ حضرت والا کو بڑے بڑے مراتب پر فائز فرمائے۔ اﷲتعالیٰ مجھے اپنے فضل و کرم سے حضرت والا کے حسن ظن کے مطابق بنادے، آمین
کسی کی نظر کرم مجھ کو اڑا کے لے چلی
شبنم خستہ حال کو حاجت بال و پر نہیں
جواب: جملہ حالات مندرجہ علامات قبول ہیں ندامت اور اپنی نااہلی کا حال سالکین کے لیے نعمت عظمیٰ ہے شکر ادا کیجئے۔
حال: حضرت والا سے دلی درخواست ہے کہ حضرت والا اس احقر کے لیے دعا فرمادیں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و کرم سے اتنی بڑی ذمہ داری کو بخیر و خوبی اور لوجہ اﷲ تا حیات انجام دینے کی توفیق عطا فرماویں۔ حضرت جس لمحہ سے میں نے اجازت نامہ پڑھا ہے اسی وقت سے ذمہ داری کا بوجھ قلب و دماغ میں محسوس کر رہا ہوں۔
جواب: یہ بوجھ بھی علامت دولتِ صالحین کی ہے۔ مبارک ہو۔
حال: حضرت الحمدﷲ حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ تعلق مع اﷲ میں ”ذکر اﷲ میں شیئاً فشیئاً و یوماً فیوماًاضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سبحان اﷲ خالق مالک کا ذکر تصور کس قدر پرکشش کتنا حسین ہے۔
جواب: یہ حالات مبارک ہوں۔
……………………….
حال: حضرت الحمدﷲ فکر آخرت بڑھتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ حضرت جب بھی قلب میں بازار جانے سے یا دفتر سے واپسی پر اثر محسوس کرتا ہوں تو رنجیدہ ہوجاتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیمار ہوگیا ہوں۔ کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر اﷲ تبارک تعالیٰ توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں۔ اور رُلا بھی دیتے ہیں اس کے بعد الحمدﷲ پھر پہلی کیفیت عود کر آتی ہے اور قلب اور زبان پھر اپنے خالق و مالک کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔
جواب: آپ کے یہ حالات قابلِ مسرت ہیں۔
حال: حضرت میرے ایک شاگرد جو نوکری چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں۔ مجھ سے پڑھنے کی وجہ سے ان کی حالت اتنی بدلی کہ حضرت مولانا حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی رحمة اﷲ علیہ کے عاشق ہوگئے اپنی استطاعت کے مطابق دین پر عمل کر رہے ہیں۔ ان کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت والا نے مجھے اجازت بیعت دے دی ہے تو خط کے ذریعہ مجھے بیعت کی درخواست کی ہے۔چوں کہ بہت ہی مخلص شاگردوں میں ہیں اس لیے میں نے قبول کرلیا اور ان کے خط کے جواب میں اپنی رضامندی ظاہر کردی۔ اس سلسلے میں حضرت والا کی رضامندی بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ اس ضمن میں حضرت والا سے مفید مشورے کا طالب ہوں۔
جواب: بہت اچھا کیا انکار نہ کریں فوراً داخل سلسلہ کیا کریں۔
……………………….
حال: حضرت الحمدﷲ توجہ الی اﷲ والآخرہ بدستور قائم ہے۔ شوق لقاءاﷲ بڑھتا جارہا ہے۔ اپنے خالق و مالک کی محبت واضح طور پر محسوس کرتا ہوں۔ دلی تمنا یہی رہتی ہے کہ سارا عالم ہمارے رب کا عاشق بن جائے۔
جواب: اس حالت سے قلب پر وجد طاری ہے۔ مبارکباد۔
……………………….
حال: حضرت الحمدﷲ جب ہمارے رب لا الہ الا اﷲ زبان سے کہلاتے ہیں تو قلب یقین کے زیوروں سے مالا مال ہوکر خوشی میں مست ہوکر زبان کے ساتھ رقص کرنے لگتا ہے اور پھر سارے جسم میں میرے رب کی محبت پھیل جاتی ہے اور آنکھیں اپنے رب کی محبت میں آنسو بہانے لگتی ہیں اور میں بھی اسی حالت میں لا الہ الا اﷲ کے ساتھ جھومتا رہتا ہوں۔
جواب: نہایت مبارک حال ہے۔ شکر ادا کیجئے۔
حال: بس اب یہی تمنا رہتی ہے کہ ہر وقت اپنے رب کی یاد میں غرق رہوں اور اپنے رب سے باتیں کرتا رہوں۔ حضرت جب میں اپنے رب کو مخاطب کرکے باتیں کرتا ہوں تو سبحان اﷲ خوب ہی ایمان میں اور محبت میں اور یقین میں اضافہ محسوس کرتا ہوں۔ جب میں اپنے خالق و مالک سے یہ جملہ کہتا ہوں تو بہت زیادہ متا ثر ہوجاتا ہوں اور خوب اپنے رب کے سامنے روتا ہوں۔ وہ جملہ یہ ہے: اے میرے مالک اب مجھ سے اپنی یادو واپس مت لیجئے گا۔ میری لغزشوں کو معاف کردیا کیجئے۔ یا اﷲ ایسی گرفت مت فرمایئے گا کہ مجھ کو اپنی یاد سے روک دیں۔ اے میرے مالک اگر آپ نے ذکر کی نعمت چھین لی تو برباد ہوجاﺅں گا۔“ حضرت والا سے بھی دعا کی درخواست ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی محبت کو میرے رگ و ریشے میں پیوست فرمادیں اور آخری سانس تک اپنی یاد میں لگائے رہیں۔
جواب: بہت اچھی دعا ہے دل سے دعا کرتا ہوں آپ کے حالات سے دل بہت خوش ہوتا ہے۔
……………………….
حال: حضرت والا کو خط لکھنے میں بہت ہی خوشی محسوس کرتا ہوں۔
جواب: یہ آپ کی محبت ہے۔
حال: اگر غافل رہتا ہوں تو جونہی خط لکھنا شروع کرتا ہوں الحمدﷲ زبان اور قلب دونوں اپنے رب کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔ الحمدﷲ اس وقت بھی یہی کیفیت محسوس کر رہا ہوں۔
جواب: مبارک ہو۔
حال:حضرت والا سے عاجزی کے ساتھ التماس ہے کہ میرا سلام جناب حضرت مولانا …. دامت برکاتہم اور ڈاکٹر …. صاحب کو پہونچا دیں۔ حضرت والا سے سلام کے لیے درخواست کرنے پر قلب پر گرانی محسوس کررہا ہوں۔ حضرت والا کی شان بڑی ہے اس لیے خوف معلوم ہوتا ہے کہیں بے ادبی نہ ہوجائے۔ حضرت اگر ذرہ برابر بھی بے ادبی کا پہلو پایا جائے تو احقر کو معاف فرمادیجئے گا۔
جواب: ڈاکٹر صاحب سامنے بیٹھے ہیں ان کو آپ کا سلام پہنچادیا انہوں نے آپ کو سلام لکھایا ہے۔ شیخ کے آداب میں یہ بھی ہے کہ نہ کسی کا سلام لکھائے نہ زبانی کہے لیکن کچھ لوگ مستثنی ہوتے ہیں ان میں آپ بھی ہیں۔
……………………….
حال: بڑھاپے کی وجہ سے قوت میں کمی معلوم ہوتی ہے اور اعمال کم ہوتے ہیں تو کبھی کبھی غمزدہ ہوجاتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ اب تو آخری منزل ہے اور اپنے رب سے ملنے کا وقت قریب ہے تو پھر خوش ہوجاتا ہوں اور قلب و زبان ذکر میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ حضرت والا سے ایمان پر خاتمہ کے دعا کی درخواست ہے۔
جواب: کمزوری میں اتنا ہی ثواب ملتا ہے جس قدر طاقت میں وظائف سے ملتا ہے پس جب خدا دے مفت میں کھانے کو تو بلا جائے کمانے کو۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ حسن فرمائے آمین۔
……………………….
حال: حضرت الحمدﷲ حالات حسب معمول ہیں۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا شوق بڑھتا جارہا ہے۔ میرے رب میرے مالک میرے خالق جب اپنی محبت کی ہوا اپنے محبین کے لیے چلاتے ہیں تو وہ ہوا میرے قلب کو بھی چھوتی ہوئی گذر جاتی ہے۔اور پھر قلب زبان اور دونوں آنکھیں اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں قلب و زبان ذکر میں لگ جاتے ہیں اور آنکھیں محبت کے آنسو بہانے لگ جاتی ہیں اور پھر اپنے رب کی محبت میں اضافہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔ یہ عربی کا شعر اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے
جمالک فی عینی وذکرک فی فمی
و حبک فی قلبی فا ین تغیب
حضرت والا سے دعائے استقامت کی درخواست ہے۔
جواب: مبارکباد۔ آپ کے حالات سے نہایت مسرت محسوس کرتا ہوں۔ دل سے دعا کرتا ہوں۔
……………………….
حال: حضرت الحمدﷲ حالات قابل تشکر ہیں۔ میرے رب ذکر قلبی ذکر لسانی ذکر عقلی کی توفیق دیتے رہتے ہیں۔ اکثر جب میں ”الم نشرح لک صدرک“ اور ”والذین اذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسکم ذکروا اﷲ فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفر الذنوب الا اﷲ ولم یصروا علی مافعلوا وہم یعلمون۔“ تلاوت کرتا ہوں تو میرے رب کے احسانات کا اتنا استحضار ہوجاتا ہے کہ زبان سے لا الہ الا اﷲ اتنی رفتار سے جاری ہوجاتا ہے کہ کھانا وغیرہ پھر نہیں کھا سکتا ہر سانس اپنے ساتھ لا الہ الا اﷲ لاتا ہے پھر میں کھانے کو روک دیتا ہوں جب رفتار کم ہوجاتی ہے تو پھر کھانا شروع کرتا ہوں۔ مگر الحمدﷲ پھر بھی اثر باقی رہتا ہے مگر کھانے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ چاند، سورج، آسمان، ستارے جس چیز پر بھی نظر پڑتی ہے ایمان میں اضافہ اور ذکر کے شوق کو دوبالا کرتی ہے۔ حضرت والا سے دعائے استقامت کی درخواست ہے۔
جواب: یہ حالات رفیعہ مبارک ہوں اور حق تعالیٰ ہم سب کو استقامت علی التقویٰ عطا فرمائیں، آمین۔
حال: چونکہ زندگی کی آخری منزل پر گامزن ہوں اس لیے موت کا اکثر اوقات استحضار رہتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں استغفار اور لا الہ الا اﷲ زبان پر قلب کی شمولیت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ جاری فرمادیتے ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت برابر جاری ہے۔ بعد نماز عشاءدرس کا سلسلہ بھی مسجد میں جاری ہے۔کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اب میرے رب سے ملاقات کا وقت قریب آگیا ہے تو بڑی خوشی محسوس کرتا ہوں۔ دل کی گہرائی سے لا الہ الا اﷲ جاری ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ حضرت سے ایمان پر خاتمہ کی دعا کی درخواست ہے۔
جواب: آپ کے جملہ حالات پڑھ کر دل نہایت خوش ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازش فرمائیں، آمین۔
……………………….
حال: حضرت میں آپ کا بہت ہی ضعیف اور معمولی درجہ کا مرید ہوں۔ مجھ میں نہ علم ہے نہ عمل، جو کچھ بھی میرے رب کی جانب سے ملا ہے اور مل رہا ہے یہ صرف حضرت والا کی توجہ اور دعاﺅں کا ثمرہ ہے۔ حضرت میرے رب نے مجھے اقرار ربوبیت لسانی و قلبی، تلاوت قرآن پاک، استغفار اور ذکر لا الہ الا اﷲ میں مشغول کردیا ہے۔
جواب: مبارک حال ہے۔
حال: جب میں اپنے رب سے کہتا ہوں اے میرے رب بے شک آپ میرے رب ہیں آپ کے رب ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں ہے اور آپ کے حبیب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کے برحق رسول ہیں یہ کہتے ہی میرے رب مجھے رلانے لگتے ہیں اور روتے ہوئے سبحان اﷲ العظیم ، سبحان اﷲ و بحمدہ کہتا چلاجاتا ہوں۔ قلب اﷲ تبارک و تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہوجاتا ہے۔ لقائے رب کے تصور سے خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ غض البصر کی قوت میرے رب نے عطا فرمادی ہے۔ جب ہسپتال جاتا ہوں تو ضعف محسو س کرتا ہوں کیوں کہ ہسپتال میں اکثر عورتیں ہی سارا کام کرتی ہیں پھر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر استغفار کا سہارا لے لیتا ہوں پھر میرے رب اپنی طرف متوجہ فرمادیتے ہیں۔ حضرت والا سے دعائے استقامت کی درخواست ہے۔
جواب: جملہ حالات قابل شکر ہیں۔ دل و جان سے دعا ہے۔
……………………….
ایک صحافی کا عریضہ
حال: خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے آپ کے مواعظ پڑھنے سے بہت روشنی ملی ہے اور میری دلی تمنا ہے کہ آپ کی ہدایات سے اپنی ذہنی خرابیوں کو دور کروں میں ایک ماہ کراچی رہ کے آیا ہوں میں گلشن اقبال بھی گیا مگر وہاں بلاک نمبر۱، اور بلاک نمبر۲ کے چکر میں مبتلا ہوکر نامراد واپس آیا۔ کیونکہ ایک نئے آدمی کے لیے گلشن اقبال نمبر۲ جانے کی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ میں عرصہ دراز سے صدیقی ٹرسٹ کا ممبر ہوں میرے پاس آپ کے بہت سے مواعظ اور کتب ہیں۔ میری تعلیم بی ایس سی، ڈپلومہ ان جرنل ازم۔ عمر تقریباً ۸۷ سال ہے صحت بظاہر اچھی ہے مگر ۶/۷ سال سالوں سے جگر کا سائروسس ہوگیا ہے یاداشت بہت اچھی ہے میں ۸۸ میں ۹۲ سال کی سروس کے بعد پاکستان ٹائمز اسلام آباد(جو اب بند ہوچکا ہے) ریٹائر ہوا تھا میرا تعلق نیوز روم سے رہا اور بطور ریزیڈنٹ ایڈیٹر فارغ ہوا۔ ۴۵سے ۸۵ تک ٹائمز آف کراچی میں کام کیا۔ قرآن کریم کی بڑی بڑی سورتیں مجھے تقریباً زبانی یاد ہیں دعائیں بھی بہت سی یاد ہیں ترجمہ بھی تھوڑا بہت سمجھ لیتا ہوں۔ میرے ذہن میں اسلام کی بابرادی جو یقینا نظر آرہی ہے مسلط ہوگئی ہے اور اصلاح کی کوئی صورت سامنے نہیں آتی۔ ہم بہت تیزی سے اس گڑھے میں پوری طرح گرچکے ہیں جہاں مغربی اقوام ہمیں کھینچے لیے جارہی ہے۔ اہل تشیع اور کسی حد تک مرزائیوں نے حکومت پر قبضہ کیا ہوا ہے مغرب کے ہدایت نامہ پر عمل ہورہا ہے۔ یہ صورت حال میرے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ انگریزی اخبار، جرائد، کیبل نے اسلام کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیئے ہیں کشمیر کا پانی بھارتی صوبوں میں تقسیم ہوچکا ہے انہیں خوامخواہ مروایا جارہا ہے۔ میرے خیال میں امریکہ کو وہاں بٹھادیا جائے گا شمال میں شیعہ اسٹیٹ بنائی جارہی ہے اس طرح چین ہم سے دور ہوجائے گا اس وقت ڈبل گیم ہورہی ہے ملک کو غیر ملکی آقاﺅں کے حوالے کردیا گیا جس کی اصلاح کیسے ہو۔
جواب: اسلام اﷲ کا دین ہے یہ ہمیشہ باقی رہے گا اسے کوئی نہیں مٹا سکتا البتہ جب تک مسلمان اس پر عمل کریں گے کامیاب رہیں گے عمل نہیں کریں گے تو ناکام ہوں گے جیسا آج کل ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ان اعمال کا مکلف کیا ہے جس پر اس کو اختیار ہے، جس پر اختیار نہیں اس کا مکلف نہیں کیا لہٰذا اﷲ تعالیٰ آپ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے ملکی حالات یا بین الاقوامی حالات کی اصلاح کی کوشش کیوں نہیں کی بلکہ یہ پوچھیں گے کہ ہم نے تمہیں تمہارے چھ فٹ کے جسم پر حکومت دی تھی تم نے اس پر کتنا اسلام نافذ کیا، تم نے اپنی اصلاح کی کوشش کیوں نہیں کی اﷲ تعالیٰ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے حکام کو گناہوں کے کام کرنے سے کیوں نہیںروکا لیکن یہ پوچھیں گے کہ تم نے اپنے آپ کو گناہوں سے کیوں نہیں روکاجہاں تمہیں پورا اختیار تھا۔ لہٰذا جہاں اختیار نہ ہو وہاں صرف دعا کریں اور اﷲ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی رہیں۔
حال: میرے پاس معارف مثنوی آپ کی تالیف کردہ موجود ہے اس کے آخر میں دستور العمل درج ہے آپ اجازت دیں تو شروع کردوں میں صبح کو نماز کے بعد ۰۰۵ مرتبہ لا الہ الا اﷲ ، ۰۰۲ مرتبہ لاحول ولا قوة الا باﷲ ، ۰۰۱مرتبہ چھوٹا درود شریف، ۰۰۱مرتبہ رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین، ۰۰۲ مرتبہ لا الٓہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین، ۰۰۱ مرتبہ رب انی مَسَّنِیَ الضر وانت ارحم الرٰحمین، ۰۰۱ مرتبہ رب انی …. آخر میں ۰۰۱مرتبہ رب انی مغلوب فانتصر۔ اس کے بعد قرآن کی کچھ آیا ت اور مکمل سورتیں، مغرب کے بعد بھی دعائیں پڑھتا ہوں میں تقریباً شروع ہی سے حکیم الامت کے مواعظ پڑھتا رہا ہوں آج کل صحت کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتا۔ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے جیسا فرمائیں گے ویسا کروں گا۔
جواب: یہ اذکار بہت زیادہ ہیں اس زمانے میں اعصاب کمزور ہوگئے اتنے زیادہ اذکار سے صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لیے ہمارے یہاں ذکر کم کرایا جاتا ہے گناہوں سے بچنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کیونکہ ولایت گناہوں سے بچنے پر موقوف ہے نہ کہ کثرتِ ذکر پر۔ اگر اتباع کا ارادہ ہو تو آئندہ خط لکھیں ورنہ نہیں۔
……………………….
انہی صاحب کا دوسرا خط
حال: میں نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے مجھے اپنی جوتیوں میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
جواب: فی الحال کچھ عرصہ باقاعدہ اصلاح مکاتبت کریں تاکہ مناسبت قوی ہوجائے پھر آنا زیادہ مفید ہوگا۔
حال: مجھے آپ میں حکیم الامت کا سا رنگ نظر آتا ہے اس لیے میں نے دل سے یہ فیصلہ کیا ہے کتنی حسرت ہے مجھے کہ میں تھانہ بھون جاﺅں مجھے امید ہے مجھے میری مراد آپ کے در سے ہی مل جائے گی۔
جواب: اﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے آپ کے حسن ظن کے مطابق معاملہ فرمائیں۔
حال: مجھے معارف مثنوی میں مذکور دستور العمل کی اجازت دی جائے یا جو آپ مناسب خیال فرمائیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ میں زیادہ معمولات کا توجہ کے ساتھ متحمل نہیں ہوسکتا۔
جواب: ذکر لا الہ الااﷲ دوسوبار اﷲ اﷲ تین سو بار اور درود شریف صلی اﷲ علی النبی الامی سو بار مراقبہ موت اور مراقبہ عذاب جہنم نہ کریں مراقبہ انعامات الٰہیہ اور مراقبہ الم یعلم بان اﷲ یریٰ دو دو منٹ کریں۔اور تھوٹی سی تلاوت کرلیں۔ دستور العمل کے دوسرے مراقبے بھی تحمل سے زیادہ نہ کریں۔ باقی جو اذکار آپ کرتے ہیں سب ملتوی کردیں۔ بس تقویٰ یعنی گناہوں سے بچنے کا ہر سانس میں اہتمام کریں۔ ولایت تقویٰ ہی پر موقوف ہے۔
حال: میرے پچھلے خط پر آپ کے ارشادات میں نے لوح دل کے ساتھ ساتھ اپنی کاپی پر بھی نوٹ کرلیے ہیں۔ کتنے جامع ہیں وہ۔ آپ نے ہزار لفظوں کی بات چند الفاظ میں ادا کردی جزاک اﷲ۔اسلام کے بارے میں اپنے جذبات کو کیسے قابو میں رکھوں تفصیل پچھلے خط میں بیان کرچکا ہوں۔ تمام عمر اخبار میں گذری ہے اب میں اس سے کٹ جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں یکطرفہ چلنے کا عادی ہوں۔ اس عمر میں عبادات میں توجہ بٹتی ہے۔
جواب: جو بات غیر اختیاری ہو اس کے پیچھے نہ پڑیں جہاں اختیار نہ ہو اس کے لےے تضرع کے ساتھ دعا کریں۔ اسلام تو اﷲ کا دین قیامت تک کے لیے ہے اس پر عمل کے لیے اپنے اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں۔ اب تو یہ مذاق ہونا چاہیے
تو کر بے خبر ساری خبروں سے مجھ کو
الٰہی رہوں اک خبردار تیرا
Flag Counter