Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

10 - 12
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)
واذکراسم ربک و تبتل الیہ تبتیلاً
(پارہ ۹۲ سورہ مزمل)

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپ اپنے رب کا نام یاد کرتے رہیے اور سب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہیے۔
حق تعالیٰ نے اس آیت میں ذکراسم رب کو مقدم فرماکر یہ بتا دیا کہ تمام علائق سے دل خالی کرکے ہماری طرف بالکل متوجہ رہنے کی توفیق جبھی ہوتی ہے جب ہمارا نام لیا جائے۔ غلبہ ذکر سے تبتل کی قوت قلب میں پیدا ہوتی ہے کیونکہ میں ذاکر بندے کا، ہمنشین اور جلیس ہوتا ہوں کما ہو فی الحدیث انا جلیس من ذکرنی ”اور جب میں پاس ہوں گا تو میرے قرب کی نعمت تم کو میرے ماسوا سے بے پروا اور مستغنی کردے گی“۔ پس جس قدر ذکر کامل نصیب ہوگا اسی قدر تبتل کامل نصیب ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کو مطلقاً ترک کرے کسی پہاڑ کے غار میں جابیٹھیں، اسلام نے تو رہبانیت کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں تعلق مع اﷲ کا غلبہ اس قدر رہے کہ غیراﷲ دل میں داخل نہ ہوسکے۔ اسی کو حضرت عارف رومی فرماتے ہیں

آب درکشتی ہلاک کشی است
آب اندر زیرکشتی پشتی است

کشتی کے اندر پانی کا داخل ہوجانا کشتی کی ہلاکت کا سبب ہے لیکن کشتی کے نیچے پانی کا رہنا اس کی پشتی ہے۔

اس شعر کے اندر مولانا رومیؒ نے ایک علم عظیم رکھ دیا ہے، حق تعالیٰ نے ان کو معرفت کا بڑا حصہ عطا فرمایا تھا۔ اس شعر کے اندر ترکِ دنیا کا طریقہ ارشاد فرمادیا یعنی سب سے قطع کرکے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں تعلقات ماسوی اﷲ داخل نہ ہونے پائیں یعنی بقدر ضرورت کسبِ معاش کے لیے اسباب میں مشغولی تبتل کے خلاف نہیں ہے۔ جس طرح کہ پانی اگر کشتی کے نیچے بھی نہ رہے تو کشتی چلے کیسے؟ لیکن اگر دنیا کے تعلقات دل میں داخل ہوگئے تو اس صورت میں قلب کی ہلاکت ہے کیونکہ قلب ایک نازک آبگینہ ہے جو صرف شہنشاہ حقیقی کا مسکن ہے یہی وجہ ہے کہ دل کی غذا صرف ذکر اﷲ ہے۔ الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب ﴾پارہ ۳۱ سورہ رعد﴿

حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں خوب غور سے سن لو کہ دلوں کو چین صرف میری یاد سے نصیب ہوتا ہے۔
اسی کو حضرتِ عارف رومیؒ فرماتے ہیں

آں زجاجے کو ندارد نورِ جاں
بول قارورہ است قندیلش مخواں

جو آبگینہ یعنی قلب اپنے اندر نور جان یعنی تعلق مع اﷲ نہیں رکھتا ہے وہ دل نہیں ہے وہ محض قارورہ کی شیشنی ہی جس میں مریض اپنا پیشاب حکیموں کے پاس لے جاتا ہے۔ دل کب دل ہوتا ہے جب اس کے اندر حق تعالیٰ کے ساتھ مستقل رابطہ قائم ہوجائے۔ اسی کو ایک بزرگ مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڈھی فرماتے ہیں

شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا
اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا

اور ہمارے خواجہ صاحب مجذوب فرماتے ہیں

آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بہت مشکل سے بن پاتا ہے دل

الغرض روح نے غلبہ طبیعت کے سبب زبانِ حال سے اپنی جدائی کا غم بیان کیا تو حق تعالیٰ کی رحمت کو جوش ہوا۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں

ہر کجا دردے دوا آنجا رود
ہرکجا رنجے شفا آنجارود
ہر کجا پستی است آب آنجارود
ہرکجا مشکل جواب آنجارود

جہاں درد ہوتا ہے وہیں اس کی دوا پہنچتی ہے، جہاں مرض ہوتا ہے وہیں اس کی شفا پہنچتی ہے، جہاں پستی ہوتی ہے اسی طرف پانی اپنا رخ کرتا ہے، جہاں مشکل ہوتی ہے وہیں اس کا جواب پہنچتا ہے

تشنگاں گر آب جویند از جہاں
آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح پیاسے جہاں میں پانی ڈھونڈتے ہیں اسی طرح پانی بھی اپنے پیاسوں کو ڈھونڈتا ہے۔

حاصل یہ کہ محبت طرفین سے ہوتی ہے یحبہم ویحبونہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اﷲ ان لوگوں سے (یعنی حضرات صحابہؓ سے) محبت کرتا ہے اور یہ لوگ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ یحبہم کو مقدم فرماکر یہ بتادیا کہ پہلے ہم تمہیں چاہتے ہیں پھر ہماری محبت کے فیض سے تمہارے دل ہمیں چاہنے لگتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے

مری طلب بھی کسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں

اﷲ تعالیٰ کے دریائے رحمت کو روح کی پریشانی اور غمِ ہجر پر جوش آیا اور روح کو اس بے کسی کے عالم میں لق و دق میدان میں نفس کے حوالے ہوجانے سے نجات کا راستہ نازل فرمایا جس کا نام صراطِ مستقیم ہے۔ صراطِ مستقیم کا ترجمہ سیدھا راستہ ہے، صراط مستقیم وہ راستہ ہے جس پر چل کر بندہ اﷲ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے یعنی اﷲتعالیٰ کا مقرب بندہ بن جاتا ہے۔ صراط مستقیم پر چلنا یہی روح کے لیے دوائے ہجر ہے اور صراط مستقیم نازل فرمانے سے پہلے ایک درخواست بندوں کی طرف نازل فرمائی کیونکہ بڑے دربار سے کوئی نعمت جب دی جاتی ہے تو کہا کرتے ہیں کہ درخواست لکھ کر لاﺅ حالانکہ نعمت دینے کی منظوری ہوچکی ہوتی ہے۔ حضرت مرشدیؒ فرمایا کرتے تھے دنیا کے یہ کارخانے عالم آخرت کے نمونے ہیں۔ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے شایانِ شان بندے درخواست نہیں پیش کرسکتے تھے حق تعالیٰ کی تعریف کے لیے حق تعالیٰ کی معرفتِ کاملہ اور تمام صفات کا احاطہ ضروری ہے اور بندوں کی عقل محدود کے لیے صفات غیر متناہیہ کا احاطہ عقلاً محال ہے۔ بندوں کی اس عاجزی اور مجبوری کا چونکہ حق تعالیٰ کو علم تھا اور کیونکر ان کو علم نہ ہوتا جبکہ وہ پیدا فرمانے والے ہیں، پس حق تعالیٰ کی رحمت بندوں کی طرف سے وکیل بن گئی اور فرمایا کہ ہم تمہارے مولیٰ بھی ہیں اور وکیل بھی ہیں۔ نعم الوکیل فرمایا ہے یعنی ہم تمہارے بڑے اچھے کارساز ہیںِ ہمارے حضرت مرشدیؒ نے وکیل کا ترجمہ کارساز فرمایا ہے۔ اسی کو حضرت عارف فرماتے ہیں

کارسازِ ما بفکرِ کارما
فکر ما درکارما آزارِ ما

حضرت فرماتے تھے کہ میں نے مصرعہ اولیٰ میں ترمیم کی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے لیے فکر کا لفظ مناسب نہیں ہے۔ فکر مستلزم ہے تغیر کو اور ہر تغیر مستلزم ہے حدوث کو اور حدوث منافی ہے ذات واجب الوجود کے۔ مولانارومیؒ پر اس وقت محبت الٰہیہ کا حال غالب تھا اور مغلوب الحال معذور ہوتا ہے۔ میں نے اس میں یہ ترمیم کی ہے

کارساز ما بسازِ کارما
فکر ما درکار ما آزارِ ما

حق تعالیٰ نے وکالةً بندوں کی طرف سے صراط مستقیم کی ہدایت کے لیے درخواست نازل فرمائی جو سورہ فاتحہ میں مذکور ہے۔ اسی درخواست کی منظوری میں تیس پارے کا قرآنِ پاک نازل فرمایا گیا۔

صراطِ مستقیم بتاکر حق تعالیٰ نے روح کو یہ بتادیا کہ عالمِ ارواح سے جدا کرکے عالم ناسوت یعنی دنیا میں تجھے بھیجنے کا مقصد تجھ کو اپنے سے دور کرنا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تجھے ہم اپنی ایسی معرفت عطا فرمادیں جس کی بدولت تو میری دوستی کے قابل ہوجاوے۔ اندھا اگر مقرب ہی ہو تو اس کوقرب کا لطفِ تام حاصل نہ ہوگا۔ دنیا میں تجھے بینا بنانے کے لیے بھیجا ہے یہاں تیری آنکھیں ایمان اور تقویٰ کے نور سے بنائی جاویں گی اور عالمِ آخرت میں یہی بنی ہوئی آنکھیں کھول دی جائیں گی۔ عالمِ ارواح میں تم صرف بندے اور غلام رہتے اور اس عالم میں بھیج کر ایمان بالغیب اور تقویٰ کی برکت سے ہم تمہیں اپنا دوست بنالیں گے۔ کیا یہ معمولی انعام ہے کہ آقا اپنے بندے اور غلام کو دوست بنالے۔ دنیا میں اپنے غلام کو کوئی بادشاہ دوست بنانا تو بڑی بات ہے زبان سے بھی غلام کو دوست کہنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں حالانکہ سلاطین دنیا بشریت میں تمہارے ہم جنس ہیں یعنی تم بھی انسان ہو اور یہ شاہانِ دنیا بھی انسان ہیں لیکن ان کی وضعداری ان کو اس امر سے مانع ہوجاتی ہے کہ اپنے غلام کو دوست کے لقب سے یاد کریں۔ مگر میری عطا اور میرے کرم بے مثال کو دیکھو کہ ہم تمہارے خالق بھی ہیں اور مالک بھی ہیں، تمہارے جسم کے ظاہر اور باطن کا ہرذرہ ہمارا مملوک ہے، ہماری مخلوق ہے اور ہمارا پرورش کیا ہوا ہے، ہم نے تم کو عدم سے وجود بخشا ہے ہم نے تمہاری آنکھوں کو بینا بنایا ہے کانوں کو سننے والا بنایا ہے زبان کو گویائی بخشی ہے ناک میں سونگھنے کی قوت عطا فرمائی ہے دماغ میں عقل اور فہم کا خزانہ رکھا ہے۔ ہاتھ پاﺅں ایسے جوڑ دار بنائے ہیں جن سے مختلف کاموں کے وقت مختلف طرز سے تم کام لیتے ہو اور تمہارا ہر ذرہ ہر وقت ہماری قدرتِ قاہرہ اور قدرتِ غالبہ کے تحت ہے۔ فرماتے ہیں وہو القاہر فوق عبادہ اور وہ ذات پاک ہے اپنے بندوں پر غالب القدرة ہے اتنی عظمت اور جلالتِ شانِ الوہیت کے باوجود ہم اپنے کرم سے تمہیں اپنا دوست بنالیتے ہیں، ہم تمہارے ایسے مولیٰ ہیں جو تم غلاموں کو دوست بنالینے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تمام صفات میں ہماری ایک صفت ودود بھی ہے یعنی بہت محبت کرنے والا۔ پس ہماری شان محبت کا مقتضا یہ ہے کہ ہم غلاموں کو دوست کے خطاب سے نواز دیتے ہیں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں وہو الغفور الودود۔ وہ یعنی اﷲ بہت بخشنے والا اور بہت محبت فرمانے والا ہے۔ میں اس کا ترجمہ بزبان محبت میں یہ کیا کرتا ہوں کہ میاں بندوں کو اس آیت سے اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ ہم تمہیں کیوں بخش دیتے ہیں جانتے ہو؟ پھر خود ہی فرماتے ہیں کہ زیادہ محبت کی وجہ سے، تمہاری مغفرت کا سبب ہماری محبت کا اقتضاءہے۔ یہ عجیب ربط یہاں غفور اور ودود کا سمجھ میں آیا ہے۔ قرآن کے لطائف بھی عجیب ہیں

مخدرات سراپردہ ہائے قرآنی
چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی

(جاری ہے۔)
Flag Counter