Deobandi Books

ماہنامہ الابرار نومبر 2009

ہ رسالہ

9 - 12
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(November 20, 2009)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

ایک دارالعلوم کے استاذ کا عریضہ

حال: اﷲ تعالیٰ ہمارے حضرت والا کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔(آمین) حضرت والا! کافی عرصہ سے ایک کیفیت بہت ہی پریشان کررہی ہے، وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مہربانی اور حضرت والا کی دعاﺅں کی برکت سے اسباق سمیت دیگر فرائض میں احقر کی کوشش ہوتی ہے کہ بالکل ناغہ نہ ہو اور نہ اسباق میں تاخیر ہو، یہ اہتمام پڑھائی کے زمانہ سے ہے، اس کے نتیجہ میں الحمدﷲ سالوں تک کوئی ناغہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی گھنٹہ میں تاخیر ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ اس اہتمام میں رب کریم کا فضل و مہربانی ہی اصل عامل ہے۔ البتہ اس اہتمام میں بسا اوقات بہت سے امور دینیہ پر عمل کا اہتمام نہیں ہوتا۔ مثلاً اعزہ و اقارب، دوست و احباب اور تعلق والوں میں سے کسی کے یہاں نماز جنازہ، دعوت اور دیگر پروگرام میں شرکت، گھریلو مسائل میں توجہ دینا وغیرہ، جس کی وجہ سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔

جواب: محض ریکارڈ اچھا رکھنے کے لیے تاکہ سالوں تک ایک بھی ناغہ ہو (جیسا کہ آپ نے لکھا ہے) رخصت نہ لینا صحیح نہیں ہے اور اسکا نقصان آپ نے خود ہی ذکر کردیا۔ مدارس میں رخصت اتفاقیہ اور رخصت علالت کا نظم ہوتا ہی ہے وہ اسی لیے ہے کہ شرعی ضرورت کے وقت اسے بروئے کار لایا جائے فی زمانہ رخصت پر عمل ہی انسب ہے۔ رخصت پر عمل میں اظہار عبدیت بھی ہے جبکہ عزیمت پر عمل میں اندیشہ عجب ہے۔ فقہاءو محدثین کے زمانے میں دین کا ایک ماحول تھا اگر آج کل ان کی قربانیوں کی من و عن پیروی کی جائے تو حقوق متاثر ہونے پر لوگ دین دشمن قوتوں سے متاثر ہوکر علماءاور مدارس کے خلاف زبان کھولتے ہیں اس لیے گاہ گاہ رخصت لے کر جنازوں میں شرکت دعوتوں وغیرہ میں (اگر شریعت اس طرح کے خلاف نہ ہوں تو) شرکت اور گھریلوں مسائل میں توجہ دیجئے۔

حال: ذہن پر یہ سوار رہتا ہے کہ فلاں کام کے لیے اسباق کے وقت، یا تکرار و مطالعہ کی نگرانی کے وقت میں نکلوں گا تو ناغہ ہوگا، رخصت لینی پڑے گی، اساتذہ کرام اور طلبہ کیا کہیں گے، دفتری ریکارڈ خراب ہوگا۔

جواب: آپ طلباءاور اساتذہ کے لیے نہیں اﷲ کے لیے کام کررہے ہیں اس لیے مدرسے میں رخصت کے نظم کے تحت رخصت لینے میں طلباءاور اساتذہ کے کہنے کی پرواہ نہ کریں اور دفتری ریکارڈ تو اس صورت میں خراب ہوگا کہ بغیر اطلاع و رخصت کے چھٹی کرلی یا بے ضرورت کرلی یا مقررہ تعداد سے زیادہ بلاجواز رخصت لے لی۔

حال: اس صورتِ حال میں حضرت والا احقر کو ڈر لگ رہا ہے کہیں اس طرح کے اہتمام میں ریا کاری و نام نمو د کا عنصر نہ ہو جب اپنے اساتذہ اور بڑوں کو دیکھتے ہیں تو اس طرح کے امور دینیہ کے لیے رخصت لیتے ہیں اور احقر کی طبیعت اس کے لیے تیار نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ یہ تمنا ہوتی ہے کہ شبِ جمعہ اور سہ ماہی اور ششماہی کی تعطیلات میں یا شعبان و رمضان کی تعطیلات میں خانقاہ میں قیام ہوجائے لیکن ناغہ اور رخصت کے ڈر سے اس سعادت سے محرومیت ہوجاتی ہے۔ آنجناب سے رہنمائی کی درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب: مذکورہ تعطیلات میں تو پڑھائی نہیں ہوتی پھر ناغہ اور رخصت کے کیا معنی ہیں؟ جتنا ہوسکے ان تعطیلات میں خانقاہ میں قیام کی کوشش کرنی چاہیے۔

حال: مذکورہ بالا گذارشات کے تناظر میں ایک اور بیماری بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ میں دوسرے اساتذہ سے اچھی حالت میں ہوں، میرے اندر اہتمام زیادہ ہے اور جید اساتذہ میں شمار کرتا ہوں۔

جواب: یہ وہی بات ہے جسے میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ رخصت کے نظم کے باوجود اور جبکہ شرعی ضرورت بھی ہو رخصت نہ لے کر عزیمت پر عمل میں اندیشہ عُجب ہے۔

حال: اگرچہ کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کا خیال آجائے تو حضرت والا کا بتایا ہوا مراقبہ ہوجائے اور ہر کمال کو اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کروں، لیکن اس طرح کے خیال کا مستقل نہ ہونا ہمیشہ باعث تشویش رہتا ہے۔

جواب: یہ مراقبہ بھی اسی وقت رفع تشویش کا باعث ہوگا جب اوپر لکھے گئے مشوروں پر عمل ہو۔

……………………….

حال: مندرجہ ذیل معاملات میں آپ سے مشورہ مطلوب ہے:

معاملہ نمبر ۱: حضرت چونکہ بحمدﷲ میرے پاس گاڑی ہے تو کبھی کبھار ایسی صورتحال پیش آتی ہے کہ رشتہ داروں یا جاننے والوں کو کسی جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسے رشتوں میں کبھی کوئی بے پردہ نامحرم خاتون (جو میرے لیے نامحرم ہوتی ہیں) اپنے کسی محرم مرد کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتی ہیں (جیسے ان کے شوہر یا والد) یا وہ نامحرم خواتین میری کسی محرم خاتون کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھتی ہیں (جیسے میری والدہ، خالہ، اہلیہ وغیرہ) اگرچہ کہ وہ نامحرم خواتین اکیلی نہیں ہوتیں لیکن مجھے ان کے گاڑی میں بیٹھنے ہی سے کچھ کھٹک اور بے چینی سی ہوتی ہے جس کی کچھ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگرچہ الحمدﷲ میری نظرکی حفاظت رہتی ہے مگر دل میں اس طرح کے خیالات آتے ہیں کہ وہ عورتیں مجھے دیکھ رہی ہوں گی اور یہ کہ میں اچھا تاثر اور imprasionان کے اوپر ڈالوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ میں خود سے ان عورتوں سے بات چیت نہیں کرتا اگر وہ خواتین مجھ سے کچھ بات وغیرہ کریں تو یا تو میں ان کو نظر انداز کردیتا ہوں یا مختصر جواب بغیر کسی لچک یا مسکراہٹ کے دے دیتا ہوں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگرچہ میری ان سے براہ راست بات نہ بھی ہو اور اگر گاڑی میں بیٹھے مرد یا میری محرم عورتوں سے میری بات چیت ہوتی ہے تو اس وقت بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ میں اچھے انداز میں اور اچھی بات کروں تاکہ میرا اچھا تاثر ان عورتوں پر پڑے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اگر وہ خواتین آپس میں بات چیت وغیرہ کریں تو مجھے بے چینی سی ہوتی ہے کہ کہیں میرا نفس ان کی آوازوں وغیرہ سے حرام مزہ نہ لے لے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بناءپر کبھی تو میں اپنی والدہ، اہلیہ وغیرہ سے کہہ کر ایسے رشتے داروں وغیرہ کو بٹھانے سے منع کردیتا ہوں اور ٹال دیتا ہوں مگر کبھی مجبوری میں لوگوں کو بٹھانا پڑ بھی جاتا ہے مثلاً اگر ان رشتہ داروں کو جانا ضروری ہو اور میرے علاوہ کسی اور ذریعہ سے جانے میں دشواری ہورہی ہو یا یہ کہ کوئی اور مرد عورتوں کے ساتھ نہ ہو۔ ایسے موقع پر میں کوشش کرتا ہوں کہ بالکل خاموشی سے گاڑی چلاتا رہوں اور گاڑی میں بیٹھے مردوں اور محرم خواتین سے بھی بات وغیرہ کرنے سے گریز رکھتا ہوں۔ اگر میں قطعی طور پر رشتہ داروں کو گاڑی میں بٹھانے سے انکار کردوں تو میری والدہ اور رشتہ دار اس بات سے ناراض ہوسکتے ہیں اور مجھے بداخلاق سمجھیں گے۔ برائے مہربانی ہدایت فرمائیے کہ مندرجہ بالا احتیاطوں کے ساتھ کیا میں رشتہ داروں وغیرہ کو گاڑی میں بٹھا سکتا ہوں۔ برائے مہربانی وضاحت فرمادیجےے بالخصوص مجبوری کی حالت میں کیا کرنا چاہیے۔

جواب: انکار کردیں دوسروں کی دل شکنی کی وجہ سے اپنی دین شکنی نہ کریں والدین کو پہلے ہی سمجھادیں کہ میں بے پردہ خواتین کو لے کر نہیں جاﺅں گا کیونکہ یہ جائز نہیں ہے دوسرے لوگ ڈاڑھی کا مذاق اڑائیں گے کہ مولانا دوسروں کو پردہ کی اور شریعت کی نصیحت کرتے ہیں اور خود نامحرم عورتوں کو لے کر گھومتے ہیں۔

حال: معاملہ نمبر ۲: میرے ایک ماموں ہیں جن سے ہمارے پورے خاندان کی ناچاقی ہوگئی ہے اور ملنا جلنا بند ہے۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس میں دونوں فریقین کی غلطیاں رہی ہوں گی میں نے کچھ عرصہ قبل حضرت میر صاحب سے اپنے ان ماموں اور ان کے گھروالوں سے تعلقات رکھنے کے حوالے سے دریافت کیا تھا حضرت نے مفتی صاحب سے مشورہ کرلینے کا فرمایا مفتی صاحب کو تمام حالات تفصیل سے بتائے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ میں ملنا جلنا رکھوں کبھی خوشی غمی میں مل لیا کبھی فون کردیا۔ جب میرے یہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو میں اور میرے والد صاحب عقیقے کا گوشت اور مٹھائی وغیرہ لے کر گئے۔ مگر ان لوگوں نے مجھے اور والد صاحب کو بہت غصہ دکھایا اور کافی سخت باتیں سنائیں۔ ہم دونوں نے کوئی جھگڑے والی بات نہیں کی بلکہ میں نے تو ان لوگوں کو ٹھنڈا ہی کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ لوگ سارے خاندان کا نزلہ ہم دونوں پر اتارتے رہے۔ پھر جب ہم واپس ہوئے تو ہم کو مٹھائی اور گوشت بھی واپس کردیا۔ اس کے بعد سے والد صاحب اور والدہ تو سخت ناراض ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد جب میری اور والدہ کی حج پر روانگی ہونے والی تھی تو ہم نے ماموں کو فون کیا۔ میں نے ماموں سے معافی وغیرہ کے الفاظ کہہ دیئے جب والدہ سے میں نے بات کروائی تو ماموں والدہ سے کچھ ناراضگی اور جھگڑے کی بات کرنے لگے اور ان دونوں میں کچھ اچھی بات نہ ہوپائی۔ جب ہماری حج سے واپسی ہوئی تو میں والدین کو بتائے بغیر کھجور اور زم زم ماموں کے گھر دینے چلا گیا اور ان سے ملاقات کی اس وقت ان کے بیٹے گھر پر نہیں تھے ماموں اچھی طرح سے مجھ سے ملے۔ میں نے یہ بات والدہ کو نہیں بتائی۔ اس کے بعد سے ہمارے خاندان کے کچھ لوگوں نے ماموں اور ان کے گھروالوں کو آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے اور مصالحت وغیرہ کی کچھ کوشش کی۔ مگر ان لوگوں کی طرف سے کچھ زیادہ مثبت ردعمل نہیں ملا۔ کچھ اس طرح کی بات سامنے آئی کہ ان کے بیٹے ان کو (ماموں ، ممانی) کو ملنے نہیں دینا چاہتے ہیں ۔ ان کے بیٹوں نے ہمارے خاندان کے کچھ بڑے لوگوں کے ساتھ بھی کچھ بدتمیزی وغیرہ کی اور وہ کچھ جھگڑالو اور غصے والے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کی شادی ہوئی مگر ناچاقی کی وجہ سے ہمارے پورے خاندان میں سے کسی کو بھی دعوت نہیں آئی۔ میں نے بھی سستی کی وجہ سے مبارکباد کا کوئی فون یا ملاقات نہیں کی۔ اس طرح ماموں کے ہاں پوتے کی پیدائش ہوئی تو ہمیں اس کی خبر ملی مگر میں نے اس وقت بھی کوئی مبارکباد وغیرہ نہیں دی۔میری والدہ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو فکر تو رہتی ہے کہ ان لوگوں سے صلح صفائی ہوجائے مگر خود پہل کرنے کو تیار نہیں ہوتی تھیں۔ خانقاہ میں آپ کا صلہ رحمی پر بیان سننے کے بعد والدہ نے کہا ہے کہ عید پر ان کو فون کروں گی۔ مگر ابھی بھی ان کے گھر جانے کے لیے تیار نہیں۔ مجھے بھی جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔ مندرجہ بالا حالات میں کیا مجھے عید پر اور اس کے بعد بھی کبھی کبھار ان ماموں کے گھر جاتے آتے رہنا چاہیے (والدہ کو بتائے بغیر) جبکہ مجھے اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اگر والدین کو پتا چل گیا تووہ سخت ناراض ہوں گے کہ بتائے بغیر کیوں گئے اور ہماری مرضی کے بغیر ان سے مراسم کیوں رکھے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر میرے جانے پر ماموں اور ان کے بیٹوں نے جھگڑا اور غصہ وغیرہ کرنا شروع کیا تو مجھے اس سے بہت تشویش ہوتی ہے کیونکہ میں ایسی باتوں سے دور بھاگتا ہوں برائے مہربانی ہدایت فرمادیں۔

جواب: صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ اگر وہ حسن اخلاق سے پیش آئیں تو جواباً آپ بھی حسن اخلاق سے پیش آئیں بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ توڑیں اور تم جوڑو، وہ بداخلاقی کریں تم خوش اخلاقی سے پیش آﺅ البتہ سال میں ایک آدھ بار جانا صلہ رحمی کے لیے کافی ہے ہر موقع پر بار بار جانا ضروری نہیں اور کبھی کبھار فون پر خیریت معلوم کرلی والدین کو ادب سے صلہ رحمی کی تعریف اور اس کا انعام بتائیں لیکن پھر بھی اگر وہ نہ مانیں تو زیادہ اصرار کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں۔

حال: معاملہ نمبر ۳: میرے سسرالی رشتہ داروں کے طرف سے جیسے میرے سسر کی طرف سے یا اہلیہ کے ماموں کی طرف سے کبھی دعوتیں وغیرہ آتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری اہلیہ کو دعوت فون پر دے دی جاتی ہے اور وہ مجھے اس کے بارے میں بتادیتی ہیں۔ مگر میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ مرد ہونے کے ناطے اور اپنے اہل و عیال کا سرپرست ہونے کی وجہ سے دعوت براہ راست مجھے دی جانی چاہیے کیا میری یہ سوچ ٹھیک ہے اور کیا میں اپنی اہلیہ سے یہ کہہ دوں کہ آئندہ اگر ان کے والدین یا دوسرے رشتہ دار ان کو دعوت دیں تو وہ یہ کہہ دیں کہ مجھ سے بات کرکے مجھے براہ راست دعوت دیں یا یہ کہ اہلیہ کو دعوت کا پیغام مل جانا کافی ہے میرے لیے بھی؟

جواب: اپنے خاص رشتہ داروں میں ان تکلفات کا کرنا ضروری نہیں بشرطیکہ رشتہ داروں کی طرف سے عدم اکرام سے ایسا نہ کیا گیا ہو۔

……………………….

حال: اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کا سایہ تادیر صحت و عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔ حضرت صاحب مجھے آپ سے بیعت ہوئے چار یا پانچ سال ہوگئے ہیں یہ میرا آپ کی خدمت میں پہلا خط ہے خط کا سوچا تو کئی دفعہ تھا مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا لکھوں بس حضرت میں نے جوآپ سے تعلق کے سال ضائع کیے بہت افسوس ہے میں سوچتا تھا کہ خط لکھ کر کیوں اپنے مرشد کو تنگ کروں۔

جواب: اس میں تنگ کرنے کی کون سی بات ہے، مرشد اصلاح ہی کے لیے تو کیا جاتا ہے اپنے حالات نہیں بتاﺅ گے تو اصلاح کیسے ہوگی۔ تعجب ہے کہ بیعت ہوئے اتنا عرصہ ہوگیا اور اصلاح سے غافل ہو ایسی بیعت سے کیا فائدہ۔

حال: اور میں نے کون سے خلافت لینی ہے جو خط لکھوں بس ایسے ہی ٹھیک ہوں۔

جواب: اچھا اصلاحی خط و کتابت کیا خلافت کے لیے کی جاتی ہے یا اپنی اصلاح کے لیے؟ جو خلافت کے لیے خط و کتابت کرے گا اسے کچھ نہیں ملے گا۔

حال: اور آپ کے مواعظ پڑھ لیتا تھا اور آپ کی کیسٹ میں کبھی کبھی سنتا تھا اور کبھی آپ کی مجلس میں حاضری دیتا اور رسالہ الابرار میں تربیت عاشقان خدا پڑھتا تھا جو کہ مجھے حضرت …….. لاتے تھے کہ یہ پڑھا کرو اور حضرت مجھے مضمون سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھوں اس کا ذکر میں نے حضرت آپ کے خلیفہ حضرت …….. سے کیا تو انہوں نے کہا اپنی خیریت کا خط لکھ دو اور حضرت کی خیریت دریافت کرلو اور یہ بھی لکھ دو کہ مجھے کوئی مضمون سمجھ میں نہیں آرہا ہے اس بات کو بھی حضرت صاحب کافی عرصہ گزرگیا پیارے مرشدمیں آپ سے بہت شرمندہ ہوں اور معافی کا طلب گار ہوں۔ میں نے اپنے شیخ کی قدر نہ کی۔

جواب: سب معاف ہے۔

حال: حضرت صاحب خط لکھ کر بند کررہا تھا کہ عجیب وسوسہ دل میں آیا کہ یہ جو خط لکھ رہا ہوں سب جھوٹ ہے صرف الفاظ ہی ہیں اس میں کہیں صداقت نہیں ہے صرف اپنے شیخ کی توجہ پانے کے لیے ایسے شاعرانہ الفاظ لکھ دیئے ہیں تاکہ آپ کا شیخ آپ کوواقعی سچا سمجھے اور آپ کی طرف توجہ کرے، حضرت صاحب آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے تجربے اور نور بصیرت سے بتائیے گا کہ کیا واقعی یہ سب جھوٹ لگ رہا ہے۔

جواب: سب صحیح ہے مطمئن رہیں۔

……………………….

حال: ایک اس بات کی بھی وضاحت مطلوب تھی کہ ہمارے اکابرین میں دیگر حضرات بہت سے ہیں جو بیعت کرتے ہیں یہاں بھی آتے ہیں بیعت بھی کرتے ہیں اگر آپ کی بیعت توڑے بغیر کسی دوسرے سے بیعت کرلوں تو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا اگر چہ اس وقت تک کوئی ایسا مرشد نہیں ملا جس سے مناسبت ہو اور نہ کوئی تلاش کیا ہے اور نہ شوق ہے صرف محفل میں بیعت شروع ہوجاتی ہے اس وجہ سے پوچھنا پڑا۔

جواب: بیعت ایک شیخ سے کی جاتی ہے یہ نہیں کہ آج ایک سے بیعت کرلی کل دوسرے سے۔ اگر مناسبت نہیں ہے تو بیعت توڑ کر اس شیخ سے بیعت ہوجائے جس سے مناسبت ہو اور پھر اسی کا ہوجائے مختلف مشایخ کی مجالس میں نہ جائے اگرچہ سب کی عظمت دل میں رکھے جیسے جسمانی معالج ایک ہوتا ہے ایسے ہی روحانی مصلح بھی ایک ہوتا ہے۔

حال: شب قدر شب برات وغیرہ میں شوق ہوتا ہے کہ لوگ توبہ کریں اس کے لیے آپ نے روح کی بیماریاں اور ان کا علاج میں اصلاح نفس کا طریقہ بتادیا ہے اگر اس طریقہ سے لوگوں کو مراقبہ / مذاکرہ اور ذکر کروایا جائے تو اجازت ہے یا نہیں اور جس مدرسہ میں پڑھاتا ہوں بنات کا ہے اگر طالبات سے اس طریقہ سے پابندی کروائی جائے تو کیسا ہے۔

جواب: پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرو مراقبہ مذاکرہ اور ذکر کرانا آپ کا کام نہیں یہ مشایخ کا کام ہے۔ ہمارے بزرگوں نے طالبات کو پردہ سے بھی پڑھانے کو منع فرمایا ہے۔ فتنہ کا خطرہ ہے اس لیے کسی اور جگہ پڑھانے کا انتظام کریں اور خواتین کو پردہ سے بھی نہ پڑھائیں۔

……………………….

حال: حضرت مجھ سے کچھ لکھا نہیں جارہا اب کیا لکھنے کے لیے رہ گیا ہے ایسی گندی حالت ہے کہ کیا لکھوں ہمہ وقت ذہن میں حسینوں کے خیالات چھائے رہتے ہیں، حضرت آج کل آپ کا یہ غلام نفس کا غلام بن چکا ہے بارہا نفس و شیطان مجھے گراچکے ہیں آفس ہی ان کے حملوں کا مرکز ہے انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے ایسے خبیث مقامات دکھا چکا ہے کہ مجھے لگتا ہے میرا تقویٰ جو پہلے بھی کیا تھا اب تو اس کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے دل کی دنیا اندھیری ہوچکی ہے۔ حضرت جب میں نے آپ کے مشوروں کے خلاف اپنے نفس پر بھروسہ کیا ہمیشہ اس نے ذلیل و رسوا کیا پھر مجھے شرمندگی ہوئی۔ حضرت اس کا علاج فرمائیں میں گرجاتا ہوں پچھلے ہفتے بھی وہ ہوا وہی انٹرنیٹ کی بدمعاشی! آہ! حضرت یہ انٹرنیٹ میرے ایمان کا دشمن بن چکا ہے۔ اگرچہ اس میں کام کی چیزیں بھی ہیں اور نفس ان ہی کا بہانہ کرکے استعمال کرواتا ہے پھر رفتہ رفتہ انہی ننگی ویب سائٹ پر لے جاتا ہے! ہائے! حضرت ہمت اس کا علاج ہے حضرت یہی فرماتے ہیں لیکن جب بھی میں اس کے قریب ہوتا ہوں تو پھر وہی خباثت ہوتی ہے! حضرت زندگی بےکار معلوم ہوتی ہے دوسرے پیر بھائیوں کو دیکھتا ہوں کیسے اﷲ پرفدا کیسے حضرت کی تعلیمات پر جان دیتے ہیں حضرت میں چاہتا ہوں کہ اس انٹرنیٹ کو اپنے سے دور کردوں لیکن آفس میں تو یہ موجود ہے اور استعمال کرنا پڑتا ہے۔ استعمال نہیں کرتا تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ حضرت نفس و شیطان اسی سوراخ سے ڈس رہے ہیں۔ اگرچہ اب میں تصاویر وغیرہ نہیں ڈھونڈتا اور یہ آفس والوں کو بھی پتہ ہے لیکن حضرت اس کے باوجود میری کم ہمتی کی وجہ سے کئی بار نفس و شیطان گراچکے ہیں۔ اب حضرت مجھے اس انٹرنیٹ سے پھر کمپیوٹر سے گھن آتی ہے کہ یہی میرے قاتل ہیں۔ لیکن یہ جذبے چند دن تک رہتے ہیں پھر وہی رفتہ رفتہ کبھی تعلیمی ضرورت سے دفتری ضرورت سے انٹرنیٹ استعمال کرتا ہوں پھر آہستہ آہستہ وہی انجام ہوتا ہے تنہائی بھی مل جاتی ہے کبھی خود مغلوب ہوکر تنہائی پیدا بھی کرلیتا ہوں جن دنوں میں میں نے اس کا استعمال بالکل بند کردیا تھا زندگی بہت پرسکون ہوگئی تھی یوں لگتا تھا کہ بہار ہی بہار ہے لیکن اب یہ حالت ہے کہ خزاں ہی خزاں ہے! حضرت ایسا کب تک رہے گا آپ کا یہ غلام کب اﷲ والا بنے گا؟

جواب: ہر غلطی پر جرمانہ ادا کریں اس سے نفس ڈرے گا کہ سب تنخواہ اسی میں ختم ہوجائے گی۔ دوسرے نفس کو یہ ڈراﺅ کہ اگر اس حرکت سے باز نہ آیا تو شیخ مجمع کے سامنے یہ اعلان کروائیں گے کہ صاحبو میرے لیے دعا کرو کہ میری یہ عادت چھوٹ جائے اور اپنے کو ذلیل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

حال: میں نے حضرت ہی کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ جس کے ساتھ آدمی ایک دفعہ بھی ملوث ہوجائے اور حرام مزہ لے لے یا گندے خیالات بھی آنے لگیں تو ایسے کام کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اور اسباب گناہ کو اپنے سے دور کردینا چاہیے یا خود دور ہوجانا چاہیے۔ حضرت میں آفس سے انٹرنیٹ تو ختم نہیں کرسکتا لیکن خود تو دور ہوسکتا ہوں آفس والوں سے یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میرا تبادلہ ایسے دفتر میں کردیں جہاں انٹرنیٹ سرے سے ہو ہی نہ تو نفس کو گرانے کا موقع ہی نہ ملے گا اور کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ نوکری چھوڑ دوں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ نیک ماحول ہے دیندار لوگ ہیں خرابی تو میرے اندر ہے کہ میں اس سہولت کا غلط استعمال کررہا ہوں۔

جواب: تبادلہ کی درخواست ضرور کریں دونفل پڑھ کر دعا کرےں لیکن نوکری ابھی ہرگز نہ چھوڑیں۔

حال: حضرت معمولات بھی سست چل رہے ہیں تسبیحات پوری کرلیتا ہوں البتہ تلاوت اور مناجات مقبول میں سستی ہے۔ دل میں یہ آتا ہے اس بیماری کا شافی علاج حضرت والا کی مسلسل صحبت ہے۔ لیکن یہاں تو والدین کی طرف سے ہر طرح کی پابندیاں ہیں پھر بھی ارادہ کرتا ہوں اور دعا کی بھی درخواست کرتا ہوں کہ ۰۴ دن تو لگالوں تاکہ کچھ دن اﷲ والوں کے ماحول میں رہ کر اپنی بیماریوں کا علاج کروالوں حضرت یہ خط میرے لیے بہت اہمیت کا باعث ہے۔ ﷲ! حضرت والا علاج فرمائےے تاکہ اﷲ کے فضل و کرم سے احقر صحت یاب ہوجائے۔

جواب: معمولات پابندی سے کریں یہ گناہوں کے چھوڑنے میں معین ہے ایک رکوع تلاوت اور دو صفحات مناجات کے پڑھیں اور والدین سے اصرار کرکے اجازت لے لیں۔

……………………….

انہی صاحب کا دوسرا خط

حال:

میں دن رات رہتا ہوں جنت میں گویا

میرے باغ دل میں وہ گلکاریاں ہیں

الحمدﷲ ! حضرت والا کی صحبت کی برکت سے مجھے نئی زندگی عطا ہوئی۔ اس پر جتنا شکر کروں کم ہے!

تونے مجھے کو کیا سے کیا شوقِ فراوں کردیا

پہلے جان پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا

اس وقت حضرت والا میرے دل کی وہ کیفیت ہے کہ الفاظ نہیں ہیں اور جن سے احقر اپنے دل کی کیفیات اور احساس کا اظہار کرسکے۔ اس وقت حضرت کی صحبت میں انیسواں دن ہے اور اس میں پہلے ۰۲ دن مسلسل مجالس میں حاضری ہوتی رہی۔ حضرت واﷲ! اگر میں ساری دنیا کی دولت کا مالک بھی ہوتا اور یہ سب کچھ فدا کرکے بھی اس نفس پرستی اور شہوت کے بھوت سے جان چھڑانا چاہتا تو نہ چھڑواسکتا…. آہ! حضرت کو اﷲ تعالیٰ نے کیا عطا کیا ہے کیسا مسیحا بنایا ہے ان مجالس میں حضرت نے مشکل سے چند باتیں ارشاد فرمائی ہوں گی، زیادہ تر خاموش رہے لیکن واﷲ! احقر کو ایسا عظیم الشان فائدہ ہوا ہے کہ لگتا ہے کہ ہر وقت اﷲ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں ہر وقت دل کے خیالات پر بھی نظر رہتی ہے کہ کوئی غلط خیال تو نہیں آرہا! آہ! میرے شیخ آپ پر میرا سب کچھ قربان….دل مچلتا ہے دل چاہتا ہے کہ میں کیا کروں کہ اس احسان کا کچھ بدلہ چکا سکوں مگر میں کیا ایسا کر بھی سکتاہوں اب میری ہر دعاﺅں میں آنسوﺅں کے ساتھ حضرت کے ایک ایک مرید کے لےے دعا نکلتی ہے ۔ جب کسی کو خانقاہ میں آتا جاتا دیکھتا ہوں تو دل جھوم جاتا ہے دل میں فوراً آتا ہے کہ مجھ جیسا کمینہ، نفس پرست، غلیظ آدمی اور فرشتوں کی صحبت! حضرت والا کی نگاہیں تو لگتی ہیں کہ ہر وقت نظروں کے سامنے رہتی ہیں، ذرا آنکھ بند کیں حضرت کی مسکراہٹ بھرا، دلکش،دنیا میں سب سے بڑھ کر خوبصورت نورانی گلاب سا چہرہ نظروں میں سما جاتا ہے، دل فوراً نور سے بھر جاتا ہے

جو اٹھی تو صبح دوام ہے

جو جھکی تو شام ہی شام ہے

تیری چشم مست میں ساقیا

میری زندگی کا نظام ہے

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

پھر ان کا مجھے اک نظر دیکھ لینا

حضرت والا سے دعاﺅں کی درخواست ہے کہ استقامت رہے! اﷲ تعالیٰ کی دوستی رہے یہی اﷲ کا پیار ہے یہی دل میں حضرت کا جلوہ رہے، یہی آنکھیں رہیں مسکراہٹ بھری جن میں جمال بھی ہے اور جلال بھی ہے،آمین۔

جواب: آپ کے حالات سے بہت دل خوش ہوا اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے آپ کو نفع عطا فرمایا اﷲ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور گناہوں سے ہمیشہ بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین۔

حال: حضرت یوں ہی تقویٰ سے ساری زندگی جائے! ایک لمحہ بھی اﷲ تعالیٰ کو ناراض نہ کروں! جیسا کہ حضرت نے پہلے بھی فرمایا تھا کہ گناہوں کے اسباب سے مکمل دوری رہے، اب حضرت جب میں خانقاہ سے جاﺅں گا…. آہ ! سچ کہتا ہوں دل چاہتا ہے کہ یہی مروں یہیں رہ پڑوں آمین! تو حضرت آفس میں پھر اسباب گناہ موجود ہوں گے یعنی انٹرنیٹ! حضرت اس منحوس کا خیال بھی آتا ہے تو لگتا ہے کہ کسی نے گلا دبا دیا ہو کہ پھر آفس میں استعمال نہ کرنا پڑجائے تو اس سلسلے میں اگر کچھ ارشاد فرمادیں کہ اس کا استعمال کروں یا نہ کروں اور اگر کبھی کرنا پڑے تو اس کی حدود کیا ہیں، اول تو احقر اس کا پکا ارادہ کرچکا ہے کہ آفس میں انٹرنیٹ کے قریب بھی نہ جائے گا چاہے کوئی کچھ بھی کہے، اور آفس والوں کو جاتے ہی صاف کہہ دے گا کہ انٹرنیٹ کو میں استعمال نہ کروں گا اور نہ مجھے اس سے متعلق کوئی کام دیا جائے اور ویسے بھی ایک صاحب میرے معاون کے طور پر آچکے ہیں کہوں گا کہ ان سے کام لیں۔ اگر اپنے ذاتی کبھی استعمال کی ضرورت پیش آئی تو شہر میں جو انٹرنیٹ کیفے کھلے ہوئے ہیں ان میں استعمال کرکے فوراً فارغ ہوجاﺅں گا۔

جواب: صحیح ۔ ماشاءاﷲ ! دو نفل پڑھ کر خوب گڑگڑا کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرکے کہہ دیں اور حاکم کے سامنے دل دل میں یا سبوح یا قدوس یا غفور یا ودود کا ورد رکھیں۔

حال: دوسرے خود تو استعمال نہیں کرتا لیکن چونکہ آفس میں تو موجود ہے کسی بھی وقت نفس مغلوب کرسکتا ہے اس کے تدارک کی یہ صورتیں ذہن میں آئی ہیں جو پیش کرتا ہوں حضرت اصلاح فرمائیں۔(۱) سب سے بہتر اور محفوظ صورت تو یہ ہے کہ اس آفس میں منتقل ہوجاﺅں جہاں یہ خبیث موجود نہیں ہے۔ لیکن اس صورت کا پورا ہونا بظاہر مشکل ہے کہ صرف میرے لیے ایسا ہونا مشکل ہے۔ حضرت ارشاد فرمائیں کہ آیا اس قدم کو اٹھاﺅں اور یہ مطالبہ کروں اگرچہ اس میں بظاہر نفس یہی کہتا ہے بہت فساد ہوگا طرح طرح کی باتیں ہوں گی اور آفس والے نہ مانیں گے۔

جواب: دو نفل پڑھ کر دعا کرکے کہہ دیں بلکہ صاف صاف کہہ دیں مخلوق سے نہ ڈریں صاف کہہ دیں کہ میں بھی انسان ہوں مجھے بھی اپنے نفس پر بھروسہ نہیں، شیطان مجھے بھی بہکا سکتا ہے اور انٹرنیٹ پر ننگی فلمیں دکھا سکتا ہے لہٰذا میں انٹرنیٹ کے قریب بھی نہیں جانا چاہتا۔

حال: دوسری صورت یہ ہے کہ اسی آفس میں رہوں لیکن نہ انٹرنیٹ استعمال کروں اور نہ دیر تک رکوں بس جس وقت باقی ساتھی کام کررہے ہوں اس وقت تک رہوں اور ان کے ساتھ ہی چلا جاﺅں اور آفس میں تنہائی نہ ہونے پائے۔ یہاں یہ مشکل ہے کہ اگر آفس میں میرے علاوہ کوئی نہ ہو اور میں بھی نفس کی شرارت سے بچنے کے لیے فوراً باہر چلاجاﺅں تو آفس والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کام کا حرج ہوگا اور اگر دن میں ۰۱ بار ہوگا تو کیا آپ ۰۱بار باہر جائیں گے۔ اور ادھر حضرت مجھے اپنے نفس پر بالکل بھی بروسہ نہیں کم از کم دل تو میلاکر ہی دے گا کہ اچھا موقع ہے۔

جواب: وہی اوپر والی بات کہہ دیں کہ نفس کا بھروسہ نہیں شیطان بہکا سکتا ہے اس لیے نفس کے شر سے بچنے کے لیے آفس میں تنہا نہ رہوں گا اور دس بار باہر جانا پڑا تو جاﺅں گا کیونکہ امکان گناہ سے بھی بچنا ضروری ہے۔ جب آپ یہ بات کہہ دیں گے کہ نفس پر بھروسہ کرنا نہایت خطرناک ہے پھر ان شاءاﷲ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے کی ہمت نہ ہوگی کیونکہ دل کہے گا کہ اگر تنہا رہا تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ انٹرنیٹ پر ننگی فلمیں دیکھنے کے لیے رکا ہے۔ بلکہ یہ دوسری صورت زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے غرض دونوں صورت میں جو صورت آپ کو بہتر معلوم ہو اس پر عمل کریں۔

حال: تیسری صورت یہ ہے کہ میں اگرچہ انٹرنیٹ استعمال نہ کروں لیکن تنہائی کا خیال نہ کروں اور نہ دیر تک کام کرنے میںعار محسوس کروں بلکہ یوں کروں کہ آفس والوں کو بتاکر بہانہ بناکر ان کمپیوٹرز پر جن پر انٹرنیٹ ہے ان پر ایسا Lockیعنی ایسا کوڈ لگوادوں جس کا مجھے بھی پتا نہ ہو تاکہ اگر چاہوں بھی کہ انٹرنیٹ استعمال کرلوں تو نہ کرسکوں کہ مجھے Passwordہی معلوم نہیں۔ اور اپنے ITوالے صاحب کو کہوں کہ ان کے پاس مطلوبہ کمپیوٹر کو استعمال کرنے والے کو بتادیں تاکہ جب وہ آئیں تو ہی کمپیوٹر چل سکے اس کے بغیر نہیں! اس میں 2خرابیاں اور کمزوریاں ہیں جہاں سے نفس مجھے مارسکتا ہے: (۱) کہ جب تھوڑی دیر کے لیے وہ باہر جائیں گے تو کمپیوٹر کو لاک نہ کریں کہ ابھی تو آنا ہے اور اگر میں اٹھ کر دوں تو اس دوران نفس کو موقع مل سکتا ہے کہ چلو استعمال ہی کرلیں اور ان کو یہ بھی اعتراض ہوسکتا ہے کہ بار بار کیوں Passwordلگا دیتے ہو میں تو ابھی آرہا تھا اگرچہ میں اس کو ٹال سکتا ہوں کہ بھئی آپ کے کمپیوٹر حفاظت کے لیے ایسا کرتا ہوں، لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے منع کردیں کہ میرا فلاں کام چل رہا ہے تم Lockمت کرنا! (۲) دوسرے خطرے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ آتا ہے کہ کس طرح اگر کمپیوٹر بند بھی ہو تو انٹرنیٹ کو اپنے کمپیوٹر پر منتقل کرسکتے ہیں۔

جواب: جب ایسا ہے تو یہ صورت کچھ مفید نہیں۔

……………………….

انہی صاحب کا تیسرا خط

حال: پھر اﷲ تعالیٰ کا فضل عظیم ہوا اور حضرت والا کے پاس وقت لگانے کی توفیق ہوئی۔ وقت لگانے کے بعد الحمدﷲ جتنا احقر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور سجدے میں ہزار سال بھی پڑا رہے تو اس کا حق ادا نہیں ہوتا کہ نفس اور شیطانی وساوس جو گرادیتے تھے ان پر حضرت والا کی بابرکت صحبت سے ہمت نصیب ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ مزید بڑھائے اور ایسے اعمال سے بچائے جس سے یہ ہمت کمزور ہوجائے۔ پھر جب واپس دفتر واپسی کا ارادہ ہوا تو حضرت سے کچھ سوالات آفس میں انٹرنیٹ کے استعمال کی حدود کے بارے میں دریافت کئے۔ حضرت والا کی طرف سے الہامی جوابات عطا ہوئے جن کو صرف دیکھنے ہی سے ہمت عطا ہوتی تھی۔نفس کو سخت بار تھے۔ جب ان کو پڑھا جس میں حضرت نے فرمایا تھا کہ مخلوق سے مت ڈرو اﷲ سے ڈرو صاف کہہ دو کہ مجھے اپنے نفس پہ بھروسہ نہیں اور فرمایا کہ ایک منٹ بلکہ ایک لمحے کے لیے بھی آفس میں تنہائی میں مت رہیں کیونکہ امکان گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔ اس پر احقر نے ایک خط آفس انتظامیہ کے نام لکھا جس میں اس سلسلے میں گذارشات لکھیں جس میں لکھا (۱) میں ایک کمزور انسان ہوں مجھے اپنے نفس پر بھروسہ نہیں اور جب اسباب گناہ قریب ہوں تو پھسل سکتا ہوں…….. (۲) اور میں انٹرنیٹ کے قریب بھی نہیں جانا چاہتا اس لیے میں آفس میں تنہائی میں اس کا استعمال نہیں کرسکتا، مجھے ایمان زیادہ عزیز ہے۔ (۳) آفس میں دیر تک نہیں رک سکتا جب کہ انٹرنیٹ جیسی چیز قریب میں ہو لہٰذا جب ساتھی دفتر میں ہوں گے اس وقت کام کروں گا اور جب سب چلے جائیں گے میں بھی ان کے ساتھ ہی چلا جاﺅں گا اور جب آفس میں تنہائی ہوگی میں فوراً آفس سے باہر آجاﺅں گا چاہے ایسا مجھے دن میں کئی بار کرنا پڑے۔ یہ باتیں لکھ کر اپنے مسﺅل صاحب کو دے دیں جو انہوں نے پڑھ لیں اس دوران میں نے اس پابندی پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیا جیسے ہی کوئی آفس میں نہ ہوتا میں فوراً آفس سے باہر آکر بیٹھ جاتا اور کسی بھی بہانے سے کسی کو آفس میں لاکر اپنے ساتھ بیٹھاتا اور باتیں بھی کرتا رہا اور کام بھی شروع شروع میں بہت پریشانی ہوئی دل پر غم بھی آیا تقاضے بھی پیدا ہوئے مگر جب ایسا ہوتا حضرت والا کی صورت مبارک سامنے آجاتی اور پھر اﷲ تعالیٰ کا استحضار ہونے لگتا کہ اگرچہ شیخ یہاں نہیں لیکن جن کے لیے شیخ کا دامن پکڑا ہے وہ تو ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں الحمدﷲ اس سے بہت فائدہ ہوا نفس دب گیا جیسے مرگیا ہو اور مجھے نئی زندگی عطا ہوئی۔ اتنا اتنا زبردست فائدہ ہوا کہ ایسا لگا

ترے تصور میں جانِ عالم مجھے یہ راحت پہنچ رہی ہے

کہ جیسے مجھ تک نزول کرکے بہار جنت پہنچ رہی ہے

اب حضرت والا سے مزید دعاﺅں کا مستحق ہوگیا ہے کہ نہیں چاہتا کہ اس قرب کی دولت کو چھوڑ دوں! جب کبھی ماضی کا خیال آتا ہے تو دل ڈرنے لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو دوبارہ ایسا ہوجائے دل ڈرتا رہتا ہے اور میں پھر تصور میں حضرت والا کی انگلی پکڑ کر پھر سفرِ سلوک شروع کردیتا ہوں۔

جواب: الحمدﷲ تعالیٰ ۔ بہت دل خوش ہوا اﷲ تعالیٰ استقامت عطا فرمائیں۔ جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہمت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ کی مدد آجاتی ہے اللّٰہم لک الحمد ولک الشکر۔

……………………….

حال: حضرت والا رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے مگر مجھ پر ایسا لگتا ہے جیسے اک غفلت کی چادر ہے حضرت والا ہرمرتبہ پہلے کی نسبت تنزلی محسوس ہوتی ہے۔ قلب میں بے چینی پیچھے رہ جانے کی بے بسی طاری ہونے لگی ہے۔

جواب: جب سنت و شریعت پر چلنے کی توفیق اصلاح کی فکر گناہوں سے بچنے کا اہتمام ہے تو تنزلی کیسی۔ بارہا اس کو سمجھایا جاچکا ہے کہ یہ احساس شیطان کا دھوکہ ہے اس سے بچو۔ جو شیخ کی بات پر اعتماد نہیں کرتا پریشانی کا شکار ہوتا ہے ہوشیار ہوجاﺅ شیطان آپ کو مایوس کرکے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اپنے کو ناقص اور دوسروں کو مقابلہ میں پیچھے رہ جانے کی حسرت اس لحاظ سے تو صحیح ہے کہ دین میں آگے بڑھنے کی فکر پیدا ہو لیکن اگر یہ خیال مایوسی پیدا کرتا ہے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا حربہ ہے۔

حال: الحمدﷲ حضرت والا اپنے اختیار سے جھوٹ نہیں بولا، (۲) تجسس، ٹوہ لینا، کسی کا خط یا S.M.Sپڑھنا، الحمدﷲ ایک بار بھی غلطی نہیں ہوئی۔ (۳) حضرت والا ذہن میںاس وقت تو یہی آرہا ہے کہ پندرہ دن شاید کسی کو اپنے اختیار سے زبان سے تکلیف نہیں دی (واﷲ اعلم)

جواب: ماشاءاﷲ حالات مبارک ہیں۔

حال: مگر حضرت والا مجھ سے تنقید، طنز، تحقیر برداشت نہیں ہوتی، حضرت والا نے ارشاد فرمایا تھا کہ سوچا کرو کہ اگر میرے عیوب ان پر کھل جاتے تو اور برا بھلا کہتے حضرت والا شاید اس وقت میں سوچتی نہیں ہوں اسی لیے جی بُرا ہوتا ہے اور دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ حضرت والا میں چاہتی ہوں مجھ میں برداشت اور صبر آجائے مجھ پر رویے، طنز، تنقید اتنا اثر نہ ڈالے نہ چاہتے ہوئے بھی میں کھلے دل سے ان کو برداشت نہیں کرپاتی، تب پھر تنقید و طنز کرنے والے سے دل برا ہوتا ہے دوری محسوس ہوتی ہے چاہے وہ کتنا قریبی رشتہ ہو، حضرت والا میں اصلاح کی اور دعا کی محتاج ہوں کیونکہ حضرت اقدس اس قسم کی پوزیشن میں مجھے لگتا ہے جیسے دل کی دنیا بالکل برباد ہوگئی اور زندگی تلخ محسوس ہوتی ہے، بہت زیادہ دعاﺅں کی درخواست ہے۔

جواب: دوسروں کے بے جا طنز، تنقید و تحقیر سے دل کو تکلیف ہونا کوئی گناہ نہیں اور تکلیف پہنچانے والے سے دل برا ہونا اور دل کا اس سے پہلے جیسی قربت محسوس نہ ہونا بھی گناہ نہیں بس دل میں کینہ نہ ہو یعنی اس سے انتقام لینے کی فکر اور تدبیر نہ کریں۔ لوگوں کے رویہ پر صبر کریں اس سے بہت فائدہ ہوگا۔

حال: حضرت والا مرد حضرات آتے جاتے ہیں نام نہیں تو چہرہ تو آپ والا کو یاد رہتا ہوگا جب دعاکے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوں گے ان کا نام یا ان کا چہرہ سامنے آتا ہوگا مگر حضرت والا ہم خواتین کا تعلق تو خط یا بہت ہوا فون کے ذریعہ ہوتا ہے حضرت والا دل میں بار بار آتا ہے میرا تو کوئی ایسا کام نہیں کوئی عمل ایسا نہیں جس سے آپ والا کی خصوصی دعاﺅں میں میرابھی حصہ ہو، حضرت والا مردوں کے مزے ہیں کہ آپ والا کی دعائیں بھی لیتے ہیں، صحبت بھی اٹھاتے ہیں اور آپ والا کی مبارک نظر بھی ان پر پڑتی رہتی ہے۔

جواب: عورتوں پر جب نبی کی نظر نہیں پڑی اور ان میں ایسی صحابیات ہوئیں جو مردوں سے بھی آگے نکل گئیں اور بہت سی ولیہ ایسی ہوئیں جو مردوں سے بھی بازی لے گئیں پس جو مرد یا عورت زیادہ متبع سنت ہو اس کو خود بخود شیخ کا فیض پہنچتا ہے۔ ان کے چہرہ کا شیخ کے ذہن میں ہونا ضروری نہیں جو عورتیں زیادہ متبع سنت ہیں ان کے لیے مردوں سے بھی زیادہ دل سے دعا نکلتی ہے، ان کو وہ دعا حاصل ہے جو مردوں کو بھی حاصل نہیں۔

……………………….

اسی طالبہ کا دوسرا عریضہ

حال: حضرت والا کچھ دنوں سے مجھے خواہشات زیادہ ہونے لگی ہیں، جیسے حضرت والا ہمارے گھر میں کچھ تعمیراتی کام ہورہا ہے، تو حضرت مجھے بہت زیادہ خواہش ہوتی ہے کہ یہاں یہ ہوجائے، وہ ہوجائے، بعض کا ذکر کردیتی ہوں بعض کا نہیں، حضرت والا جب میں ان کا ذکر کرتی ہوں یا دل میں رکھتی ہوں تودل کے کسی گوشے میں ملامت محسوس ہوتی ہے کہ یہ کیا ٹھیک دنیا داروں جیسی سوچ…. اسی طرح حضرت والا کپڑوں کا معاملہ ہے، جیسے کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں والدہ سے کہوں کہ مجھے سوٹ سلوانا ہے یا کچھ اور…. تو بعض مرتبہ (بلکہ کچھ عرصے سے زیادہ تر) مجھے جھجک آتی ہے جس کی وجہ سے دل کپڑوں میں دوسری چیزوں میں بہت عرصے مشغول رہتا ہے، بار بار خیال آتا ہے دھیان اس طرف رہتا ہے، یہ کیفیت مجھے خود اچھی نہیں لگتی، مگر ایسا ہوتا ہے۔

جواب: دل چاہنا کچھ برا نہیں اگر ضرورت سے زیادہ ہے تو دل چاہنے پر عمل نہ کریں اور ضرورت سے زیادہ کپڑے نہ بنائیں آنے بار بار دھیان آنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ غیر اختیاری ہے لیکن اپنے اختیار سے اس میں مشغول نہ ہوں اور دنیا کی چیزوں کا غم نہ کھائیں کہ فانی غم ہے اس لیے بے ہودہ ہے سوچیں کہ نہ مکان اور دنیا کا سازو سامان رہے گا نہ میں رہوں گی۔

حال: حضرت والا اس بار جب مجھے ایسی کوئی خواہش ہوئی (ناجائز اور گناہ والی نہیں مگر ٹھیک دنیا والی) تو میں نے دعا بھی ایسے ہی مانگی کہ اﷲ تعالیٰ مجھے یہ چیزیں آپ سے بڑھ کر پیاری نہیں ہیں آپ مجھے یہ چیزیں اپنی ذات کے پیارکے ساتھ عطا فرما، اگر یہ چیزیں مجھے مل گئیں اور آپ نہ ملے تو ایسی لاکھوں ہزاروں چیزیں مجھے نہیں چاہیے(آمین)۔ پتا نہیں حضرت والا یہ دعا میں دل سے بھی مانگتی ہوں یا محض الفاظ ادا ہوتے ہیں۔

جواب: محض الفاظ ادا ہونا بھی کافی ہے اور یہی مطلوب ہے خواہ دل ساتھ نہ دے۔

حال: تعریف کا شوق: حضرت والا یہ مجھ میں بہت بڑا زہر ہے حضرت والا بار بار دل میں آتا ہے کہ میرے اس کام کی تعریف ہو اور حضرت والا جو تعریف کرتا ہے اس کی دل میں ناچاہتے ہوئے بھی قدر اوروں سے بھی زیادہ ہوتی ہے، حضرت والا دل یہی چاہتا ہے کہ تعریف ہو دین کے لحاظ سے مثلاً کہیں والدہ کے ساتھ گئی ہوں تو والدہ کسی اور کا تذکرہ کریں کہ وہ پردہ ایسے کرتی ہے یا غیر شرعی رسوم میں نہیں جاتی تو ناچاہتے ہوئے بھی دل میں بار بار آتا ہے کہ میرا بھی ذکر کریں جب ذکر ہوجاتا ہے تو ظاہر یہ کرتی ہوں کہ مجھے اچھا نہیں لگا جیسے بڑی تواضع والی ہوں مگر دل کے کسی گوشے میں خوشی محسوس ہوتی ہے حضرت والا علاج کی طلب گار ہوں۔

جواب: تعریف کرنے والے کو زبان سے منع کردیں کہ اس سے میرے باطن کو سخت نقصان پہنچتا ہے اس کا خاص اہتمام کریں اور نفس سے کہیں کہ اگر میرا فلاں فلاں عیب اس پر ظاہر ہوجائے تو پھر یہ تعریف کے کرنے والا کس قدر ذلیل اور حقیر سمجھے گا۔ پس غنیمت سمجھ کہ لوگ تحقیر نہیں کرتے ورنہ اگر اﷲ تعالیٰ پردہ پوشی نہ فرماتے تو بجائے تعریف کے لوگوں کی زبان پر نفرت و تحقیر کے تذکرے ہوتے۔
Flag Counter