Deobandi Books

ماہنامہ الابرار نومبر 2009

ہ رسالہ

8 - 12
نسبت مع اﷲ کے آثار و علامات
ایف جے،وائی(November 20, 2009)

شیخ العرب و العجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا یہ بیان

۱۰رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ مطابق ۹مئی۱۹۸۷ءبروز ہفتہ، ڈھالکا نگر ، ڈھاکہ میں ہوا۔(اداریہ)

اَلحَمدُ ِﷲِ وَ کَفٰی وَسَلاَ م عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعدُ

فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ

بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَن دَسّٰھَا

الہامِ فجور کے اسرار

جس اﷲ نے ہمارے نفس کو تخلیق فرماکر یہ ارشاد فرمایا اَلاَ یَعلَمُ مَن خَلَقَ وہ اللہ اپنی مخلوق کے حال کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ اُس نے ہمارے نفس میں اخلاقِ رذیلہ اور اخلاقِ حمیدہ دونوں چیزیں رکھ دیں فَاَلھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوٰھَا اﷲ تعالیٰ نے ہمارے اندر مادّہ فجور بھی رکھا اور مادّہ تقویٰ بھی رکھا۔ اب اگر کوئی کہے کہ اﷲ تعالیٰ مادّہ تقویٰ رکھتے اور مادّہ فجور نہ رکھتے تو سب لوگ بڑی آسانی سے متقی ہو جاتے، یہ غلط خیال نادانی و جہالت پر مبنی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ افعال میں اپنی عقل لڑا رہا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ بریانی پکاو مگر کوئلہ یا لکڑی وغیرہ کا ایندھن نہ ہو، آگ نہ ہو تو ایسے شخص کو آپ پاگل کہیں گے۔

تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مادّہ فجور یعنی نافرمانی اور شہوت کے گناہوں کے تقاضے نہ پیدا کرتا، صرف عبادت کے تقاضے پیدا کرتا تو اس سے بڑا جاہل کوئی نہیں ہے۔ مادّہ فجور پیدا کرنے کی دو حکمتیں ہیں، ایک یہ کہ اگر گناہوں کے تقاضے نہ ہوتے تو سب انسان فرشتے ہوجاتے پھر انسان کو پیدا کرنے کے کیا معنیٰ تھے اور نمبر دو یہ کہ تقویٰ کی بریانی ہی نہ پکتی، تقویٰ کی بریانی پکتی ہی مادّہ فجور کے ایندھن سے ہے بشرطیکہ اس ایندھن کو اﷲ کے خوف کے چولہے میں جلایا جائے، ایندھن کھایا تھوڑی جاتا ہے، جو گناہوں کے تقاضوں پر عمل کرلیتا ہے گویا اس نے وہ ایندھن کھا لیا جو اللہ تعالیٰ نے پکانے کے لیے دیا تھا۔

اگر کسی شخص کو کوئی کریم یہ کہہ دے کہ چاول لے لو، گھی لے لو، گوشت لے لو، لکڑی اور کوئلہ بھی لے لو اور بریانی پکا لو یعنی مادّہ بریانی بھی لے لو اور مادّہ ایندھن بھی لے لو تو کیا آپ اس کو یہ کہیں گے کہ کاش یہ چاول گوشت تو دے دیتا مگر لکڑی کوئلہ نہ دیتا یعنی آگ نہ دیتا لیکن آپ دونوں نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو مادّہ فجور کو آپ بھی نعمت بنا سکتے ہیں، مادّہ فجور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح ہے یعنی قبیح لنفسہ ہے مگر اسی قبیح لنفسہ کو آپ محمود لغیرہ بنا سکتے ہیں جیسے لکڑی کا ایندھن فی نفسہ کوئی چیز نہیں ہے لیکن اس کو چولہے میں ڈال کر اس سے بریانی پکا لیتے ہیں اور دوسری مثال سنیے۔ گوبر کتنا نجس ہے لیکن جب وہی گوبر خشک ہو کر اُپلا بن جاتا ہے تو اس کو چولہے میں ڈال کر اس پر کھا نا پکا لیتے ہیں، تو نجاستیں بھی کام آگئیں۔ اسی طرح مادّہ فجور تقویٰ کے چولہے میں ڈالنے کے لیے دیا گیا ہے کھانے کے لیے نہیں دیا گیا، اسی لیے فجور کو مقدم فرمایا کہ اگر مادّہ فجور کی آگ ہی نہیں جلے گی توتقویٰ کی بریانی کیسے پکے گی؟ موقوف علیہ پہلے پڑھایا جاتا ہے بخاری کادرس بعد میں دیا جاتا ہے، مادّہ فجور تقویٰ کا موقوف علیہ ہے اس لیے اس کو مقدم فرمایا کہ گناہ کے تقاضے پیدا ہوں اور ان کو روکو، ان پر عمل نہ کرو تو تقویٰ کا نور پید اہوگا، جب گناہ سے بچنے میں نفس کو تکلیف ہوگی تو روح میں فوراً نورِ تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ یہ حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے الفاظ ہیں۔

اور نور کیوں پیدا ہوتا ہے؟ کیونکہ یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے کہ گناہ سے بچنے میں نفس کے تقاضوں کو روکنے میں نفس کو بہت تکلیف ہوتی ہے، یہ بہت چلاّتا ہے، بہت شور مچاتا ہے کہ ملا عورتوں کو دیکھنے سے منع کررہا ہے، اب جینے میں کیا مزہ رہے گا، یہ کیسا راستہ ہے کہ تمام خواہشات پر عمل کرنے سے چھُڑایا جارہا ہے، یہ کون سی زندگی ہے جس میں ایک حرام خواہش بھی پوری نہ ہو۔

حرام خواہشات کے انہدام سے نسبت مع اﷲ کی تعمیر ہوتی ہے

لیکن دوستو! یہ بتائیے کہ اگر آپ کا ایک ٹوٹا ہوا جھونپڑا ہے جس میں لیٹرین بھی نہیں ہے، گندگی سے بھرا ہوا ہے اور کوئی کریم اور مہربان بادشاہ کہتا ہے کہ اگر تم اپنے اس مکان کو ڈھا دو تو ہم تمہیں ایک نئی شاندار عمارت بنا کردیں گے یاسعودی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم مسجدِ نبوی کے قریب کے مکانات ڈھانا چاہتے ہیں اور مسجدِ نبوی کی توسیع کرنا چاہتے ہیں اور اگر تمہارا مکان ایک لاکھ کا ہے تو ہم تم کو پچاس لاکھ دیں گے تو آپ لوگ تمنا کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کی توسیع کے لیے ہمارا مکان حکومت کی نظر میں آجائے تاکہ ایک لاکھ کے پچاس لاکھ ملیں تو اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہشات کے مکانوں کو گرانے کا جو حکم دیا ہے کہ جو بری بری خواہشات اور گندے گندے تقاضے ہیں مثلاً عورتوں کو دیکھنے کے، لڑکوں کو دیکھنے کے، عشقِ مجازی کے، جھوٹ بولنے کے، بے جا غصہ کے، ان خبیث مادّوں کو اگر تم گرا دو یعنی دل میں بری خواہشات کے مکان کو ڈھا دو تو اس سے کچھ دن کے لیے تو تمہیں ایسا محسوس ہوگا کہ دل ویران ہوگیا لیکن میں اس ویرانی میں اپنی محبت کا اور نسبت مع اللہ کا خزانہ رکھ دوں گا

یہ صحنِ چمن، یہ لالہ و گل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں

تخریبِ جنوں کے پردے میں تعمیر کے ساماں ہوتے ہیں

مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کی محبت میں اپنی خواہشات کو برباد کردو گے تو

گنج در ویرانی است اے میرِ من

اے دوستو! نسبت مع اللہ کا خزانہ دلِ ویران کو عطا ہوتا ہے، ذرا سوچو کہ گندی خواہشات کو اللہ کے تعلق سے کیا نسبت ہے، نسبت مع اللہ کے سامنے ان خواہشات کی کیا حقیقت ہے، ارے جیتے جی زندگی میں لوگ ان خواہشات سے دستبردار ہوجاتے ہیں، ریٹائر ہوجاتے ہیں، زیادہ بڈھے ہونے کے بعد آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں، آنکھوں پر اتنے گہرے چشمے لگتے ہیں کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھ نہیں سکتا ہے، پیر ہیں مگر لنگڑا کر چل رہا ہے، کان ہیں سنائی نہیں دیتا، جب بڑھاپا آجاتا ہے تو جیتے جی حواسِّ خمسہ باطل ہوجاتے ہیں اور پھر مرنے کے بعد روح نکلتے ہی دنیا بھر کے حسینوں کولے آو اور مردے سے کہو کہ ذرا کفن سے جھانک کر دیکھو، یہ وہی تو ہیں جن کو تم دیکھتے تھے، یہ وہی امرد ہیں جن کے لیے تم خبیث حرکتوں میں مبتلا تھے، جن کو دیکھ کر تم پاگل ہوجاتے تھے، جن کی وجہ سے تم بایزید بسطامی کی صورت میں ننگِ یزید حرکتیں کرتے تھے، اب دیکھو نا! لیکن مردہ بزبانِ حال اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھتا ہے

قضاءکے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبر

کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں

جب موت آجاتی ہے تو مردہ کی آنکھ کھول کر بیوی کہے کہ ہم کو ایک نظر دیکھ لو تو مردہ کی آنکھ کھلی ہوتی ہے مگر کچھ نظر نہیں آتا، بچے کہتے ہیں کہ ابا جان مجھے دیکھ لو مگر ابا جان اب انہیں دیکھ سکتے، منشی سیٹھ صاحب سے کہتا ہے کہ کاروبار میں بہت نفع ہوا ہے مگر سیٹھ صاحب اب نوٹوں کو نہیں دیکھ سکتا، اس کے لیے شامی کباب، کپڑے، گھڑی سب بے کار ہے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ مرکر ساری خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا لیکن اب اس پر کوئی اجر نہیں ہے کیونکہ یہ مجبوری کا چھوڑنا ہے لہٰذا جیتے جی ہم زندگی خدا پر فدا کردیں، جیتے جی بری خواہشات کو ترک کردیں اور اس کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کریں کیونکہ گناہ چھوڑنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں گناہ چھوڑنے کا اختیار نہیں ہے وہ غلط کہتے ہیں۔ اختیار تو ہے مگر گناہ چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرنا نہیں چاہتے، اگر تمہیں صحابہ جیسی روح عطاءہوجائے، تمہارے دِلوں میں شہداءکی روح داخل ہوجائے تو جان تک دینے کے لیے تیار ہوجاو گے اور کیا نظر بچانے سے آپ کی روح نکل جائے گی؟ مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں خدائے تعالیٰ سالکین کی صرف آدھی جان لیتے ہیں مگر آدھی جان لے کر اس پر صدہا جانیں برسادیتے ہیں

نیم جاں بستاند و صد جاں دہد

اُنچہ در وہمت نیاید آں دہد

(جامع عرض کرتا ہے کہ بیان کے دوران بعض لوگوں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں تو حضرت والا نے فرمایا کہ جو دورانِ بیان آنکھ بند کرکے دل کو حاضر کرتے ہیں یا یکسوئی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آنکھ بند کرنے سے چونکہ شکل سونے والوں کی بن جاتی ہے اور شکل بنانے سے حقیقت بھی اُتر سکتی ہے یعنی آپ حقیقت میں بھی سو سکتے ہیں لہٰذا بیان کے دوران آنکھیں کھلی رکھیں۔)

تو جن اولیاءاللہ نے مجاہدے کیے ہیں اور گناہ چھوڑے ہیں اور صاحبِ نسبت اور صاحبِ تقویٰ ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے خزانے سے مالا مال ہوئے ہیں، بادشاہوں نے ان کی جوتیاں اٹھائی ہیں اور گناہوں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے قلب میں اتنی بڑی دولت محسوس کی کہ وہ اﷲتعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ سور اور کتے کی زندگی سے آپ نے اولیاءاللہ اور اپنے دوستوں کی پاکیزہ حیات عطاءفرمائی۔

خواہشات کے ویرانے میں خزانہ تقویٰ کی مثال

حضرت جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے سلوک کو ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے، فرماتے ہیں کہ خواہشات کو ویران کرنا ایسا ہی ہے جیسے ویرانے میں لوگ خزانہ دفن کرتے ہیں، تو اﷲتعالیٰ نے خواہشات پیدا کیں، مادّہ فجور پیدا کیا پھر حکم دیا کہ اس پر عمل نہ کرو یعنی اس سے رکنے کا حکم دیا اور اس طرح خواہشات کو ویران کرکے اس میں تقویٰ کا خزانہ رکھ دیا، فجور اور نافرمانی کے حرام تقاضوں کو روکنے ہی سے تقوی پیدا ہوتا ہے۔

حرام خواہشات سے بچنے کا غم اُٹھانا ہی تقویٰ ہے

اب آپ تقوی کی تعریف سن لیجئے، تقوی کی تعریف ہے کَفُّ النَّفسِ عَنِ الھَوٰی جو اپنے ھَوٰی کو روکے اور ھَویٰ کسے کہتے ہیں؟ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہ ھَوٰی یَھوِی سے ہے یعنی گرجانا۔ تو جو نفس کی اتباع کرتا ہے وہ نفس کے غار میں گر جاتا ہے، ھَوٰی صاحبِ ھَوٰی کو ذلت کے غار میں گرا دیتی ہے لیکن جو شخص اپنی خواہشات کو روک لیتا ہے اور دل پر اس کا غم اُٹھاتا ہے تو اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ متقی ہوجاتاہے وَ اَمَّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جو لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں اور ڈرنے کی علامت کیا ہے؟ وَ نَھَی النَّفسَ عَنِ الھَوٰیاپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے روک لیتے ہیں اور نفس کو ناجائز خواہشات سے روک لینے کا نام ہی تقویٰ ہے، کَفُّ النَّفسِ عَنِ الھَوٰی یعنی بری خواہشات کو روکنا اور ان پر عمل نہ کرنا۔

جیسے اگر گیند میں ہوا نہ ہو تو آپ اس سے کھیل سکیں گے؟ اسی طرح تقویٰ کی گیند ہے جس میں ھَوٰی یعنی خواہشاتِ نفسانیہ کی ہوا بھری ہوئی ہے آپ اس کو جتنا پٹخیں گے اور ھَوٰی جتنی زیادہ ہوگی تقویٰ کی گیند اتنی ہی اوپر جائے گی تو جن کو نفس کے شدید تقاضے ہوتے ہیں، مزاج عاشقانہ ہوتا ہے، حسین صورتوں کو دیکھنے کے لیے دِل بے چین ہوتا ہے وہ ھَوٰی سے بھری تقویٰ کی اس گیند کو جتنی طاقت سے پٹخیں گے ان کا تقویٰ اتنا ہی اوپر جائے گا، اگر خواہشات نہ دی جائیں، تقویٰ کی گیند میں ھَوٰی نہ ہو تو اسے کیسے پٹخو گے لہٰذا تقوی کی بلندی کے لیے خواہشات کا ہونا ضروری ہے۔

میرے مرشدِ اوّل شاہ عبد الغنی رحمة اللہ علیہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کا قول نقل فرمایا کرتے تھے کہ جس میں خواہشات کم ہوں یا بالکل نہ رہیں تو اس کے تقوی میں بھی کمی آجائے گی اس لیے ہمارے بزرگوں نے نفس کو کمزور نہیں کیا، اچھی غذا کھائی اور حضرت فرماتے تھے کہ ہماری تین پشت نے طاقت کے لیے کشتہ بھی کھایا ہے، حضرت حاجی امداداللہ صاحب نے کھایا، مولانا تھانوی نے کھایا اور شاہ عبدالغنی صاحب نے کھایا کیونکہ قوتِ باہ روکنے سے ہی آہ پیدا ہوتی ہے، اگر باہ سے با ہٹا دو تو آہ بن جاتی ہے اور جب باہ ہی نہ ہوگی تو آہ کہاں سے نکلے گی، علت جب ہو گی جب اس میں دوسرے مادّے بھی ہوں اور اگر خالی حرفِ علت ہی ہے تو پھر کیا نکالو گے؟ اس میں کون سی تعلیل کرو گے؟ لہٰذا قوتِ باہ کے لیے اپنی صحت کی حفاظت بہت ضروری ہے یہاںتک کہ حکیم الامت نے علماءکو مشورہ دیا کہ جو حلال بیوی ہے اس کو بھی ضرورتِ شدیدہ پر استعمال کرو اور ضرورت کی تعریف ہے لَولاَ ہُ تَضَرَّرَ اگر وہ نہ ہوتو ضرر پہنچے، یہ نہیں کہ ضرورت نہیں ہے پھر بھی زبردستی خیالات پکا پکا کر بے ضرورت کو ضرورت بنایا جارہاہے۔

تو حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے علماءکو نصیحت فرمائی کہ دیکھو یہ ایک چھٹانک کا مادّہ منویہ بہت قیمتی سرمایہ ہے، اس کی حفاظت کرو لہٰذا میں طلبہ سے بھی کہتا ہوں اور علماءسے بھی کہتا ہوں کہ جہاں حلال ہے وہاں بھی یہ مادّہ کم استعمال کریں یعنی جن کی شادیاں ہوچکی ہیں وہ بھی اسے کم استعمال کریں، اس بھاپ کو اللہ کے ذکرمیں استعمال کریں، قوتِ شہوانیہ سے جذبات رہتے ہیں پھر جب اﷲ اﷲ کروگے تو محبت سے کروگے، اسی سے رونا بھی آتا ہے، اسی سے جوش و خروش بھی رہتا ہے اور جب بھاپ ہی ٹھنڈی کردوگے تو انجن پڑا شوں شوں کرتا رہے گا، جب کوئلہ، پانی، ایندھن نہ ہوگا تو ریل کیسے چلے گی؟ اسی لیے ہمارے اکابر نے صحت کی حفاظت کے لیے فرمایا ہے کہ جو لوگ ذکر کرتے ہیں وہ سر میں تیل کی مالش بھی کریں، حریرہ بھی کھائیں، مقویات بھی کھائیں اور باغوں میں بھی ٹہلیں اور کچھ دیر اپنے دوستوں سے مزاح بھی کرلیں، خوش طبعی بھی کرلیں، بعض اوقات ہر وقت تنہائی میں رہنے سے طبیعت میں تکبر پیدا ہوجاتاہے، اخلاق میں اعتدال قائم نہیں رہتا، انسانوں سے یکسو رہتے رہتے اس میں اخلاقِ وحشیانہ پیدا ہوجاتے ہیں اس لیے دوست احباب سے ملنا جلنا بھی ضروری ہے اور حکیم الامت فرماتے تھے کہ جب میرا کوئی مرید اپنے پیر بھائی سے ملتاہے اور محبت کرتاہے تومجھے بڑی خوشی ہوتی ہے یہ کہہ کر فرمایا کہ خواجہ صاحب میں اور مولانا عبدالغنی میں خوب محبت ہے۔ یہ بات حضرت پھولپوری رحمة اللہ علیہ نے مجھے خود سنائی۔ تو دیکھو حکیم الامت نے کیسی کیسی گُر کی باتیں بتائیں کہ جو حلال ہے وہاں بھی اس طاقت کو کم استعمال کرو تاکہ زیادہ دن تک قوت رہے ورنہ ایسے لوگ جلد بڈھے ہوجاتے ہیں، جلد کمر جھک جاتی ہے اور چہرے پر افسردگی طاری ہوجاتی ہے جیسے مرجھایا ہوا پھول اور جن کی قوت جتنی زیادہ ہوگی چہرہ چمکتا ہوا ہوگا۔

آیت وَ زِدنٰھُم ھُدٰی سے ایک مسئلہ سلوک کا استنباط

تو شاہ عبد الغنی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا کہ کوئی مخنث، ہیجڑا ولایتِ خاصہ نہیں حاصل کرسکتا اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِینَ اٰمَنُوا میں تو رہے گا لیکن وَ زِدنٰھُم ھُدٰی کا مقام نہیں پائے گا۔ وَ زِدنٰھُم کی تفسیر میں حکیم الامت نے فرمایا اِنَّھُم فِتیَة اٰمَنُوا بِرَبِّھِم سے معلوم ہوا کہ ایمان کی برکت سے ولایتِ عامہ تو ان نوجوانوں (اصحابِ کہف) کو حاصل تھی ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو مزید ہدایت دے کر مقامِ ولایتِ خاصہ تک پہنچادیا۔ تو ولایتِ خاصہ ہیجڑوں کو نہیں مل سکتی، وہ ولایتِ عامہ ہی تک رہیں گے اس لیے ان کو خلافت دینا درست نہیں ہے چونکہ مِن وَجہٍ وہ پورے مرد نہیں ہیں اور انبیاءہمیشہ مرد ہوتے ہیں اور خلفاءمشایخ ان کے نائب ہیں لہٰذا اگرمعلوم ہوجائے کہ کوئی بالکل ہی صفر ہے، مخنث ہے تو مشایخ کو ان سے احتیاط کرنی چاہئے۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ قوت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لہٰذا اس کی حفاظت کرو۔

تزکیہ نفس پر فلاح کا وعدہ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرایا تو آپ سب لوگ یہاں کس لیے آئے ہیں؟ اپنے نفس کے تزکیہ کے لیے اورنفس کے تزکیہ پر کیا انعام ملنے والا ہے؟ اَفلَحَ پر قَد داخل ہے یعنی یقینا فلاح پاگیااور فلاح کے معنیٰ ہیں جَمِیعُ خَیرِ الدِّینِ وَالدُّنیَا دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں۔ علامہ محی الدین ابو زکریا نووی رحمةاللہ علیہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ لَیسَ فِی کَلاَمِ العَرَبِ کَمِثلِ الفَلاَحِ فلاح جیسا جامع لفظ اہلِ عرب کے پاس نہیں تھا جو دین اور دنیا کی تمام بھلائیوں کو شامل ہو۔ اسی لیے علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے آیت وَ اذکُرُوا اﷲَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ یعنی کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاو کی تفسیر کی ہے اَی تَفُوزُونَ فِی الدُّنیَا وَ الاَخِرَةِ یعنی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجاو۔

لہٰذا جس کو فلاح یعنی دونوں جہان کی کامیابی چاہیے اس کو تزکیہ نفس یعنی نفس کی اصلاح کرانا ضروری ہے اور اگر اصلاح نہیں کرائی اور اللہ والوں کی نظروں سے بچ کر حرام مزے اُڑا لیے تو بھی اللہ تعالیٰ کی نظر سے تو چوری نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہیں، جو لوگ اپنے نفس کی شرارت اور معصیت کی لذت کے عاشق ہیں اور سوچتے ہیں کہ چلو رام رام بھی کرتے رہو اور اللہ اللہ بھی کرتے رہو، گناہ بھی نہ چھوڑو اور ذکر بھی کرتے رہو، سالک و صوفی بھی بنے رہو اور چھپ چھپ کر گناہ کا مزہ بھی اینٹھتے رہو ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَقَد خَابَ مَن دَسّٰھَا نامراد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے اخلاقِ رذیلہ کو چھپایا اور اصلاح کی فکر نہیں کی لہٰذا کیوں نامرادی کے راستے پر جاتے ہو؟ دیکھو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے وہ کامیابی کے راستے بتا رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کامیابی کے راستے کو چھوڑ کر اپنے نفس دشمن کی بات مت مانو۔ شاہ عبد الغنی صاحب رحمة اللہ علیہ ایسے موقع پر یہ شعر پڑھا کرتے تھے

بقول دشمن پیمانِ دوست بشکستی

ببیں کہ از کہ بُریدی و با کہ پیوستی

دشمن یعنی نفس وشیطان کے کہنے سے اللہ تعالیٰ کے عہدِ وفاءاور پیمانِ دوستی کو توڑتے ہو ، یہ تو دیکھو کہ کس سے توڑ رہے ہو اور کس سے جوڑ رہے ہو، ہم سب نے عالمِ ارواح میں اَلَستُ بِرَبِّکُم کے جواب میں قَالُوا بَلٰی کہا تھا کہ نہیں؟

دِل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے

تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے

اَلَستُ بِرَبِّکُم اﷲ تعالیٰ سے محبت کا عہد ہے

عالمِ ازل میں اَلَستُ بِرَبِّکُم فرما کر ہم سب کی روحوں میں اللہ نے اپنی محبت کی چوٹ لگا دی تھی، اپنی ربوبیت کی تجلی کا مشاہدہ کرا کے ہم سے اقرار لیا تھا، ہم نے قَالُوا بَلٰی کہا تھا کہ بے شک! آپ ہمارے رب ہیں اور یہاں اس عالم میں آکر بھی وہ چوٹ موجود ہے مگر اس چوٹ کو اُبھارنے کے لیے ایک مخصوص ہوا چاہیے جیسے پہلوان جب اَکھاڑے میں چوٹ کھاتا ہے تو ہر ہوا اس چوٹ کو نہیں اُبھار سکتی، پورب یعنی مشرق سے جو ہوا چلتی ہے جسے پوربی ہوا کہتے ہیں اس سے پرانی چوٹیں اُبھر آتی ہیں پھر پہلوان کہتا ہے اُف! اکھاڑے میں استاد نے گردن پر جو گھونسہ مارا تھا وہ آج درد کررہا ہے، آج پوربی ہوا چل رہی ہے، اسی طرح اللہ والوں کے قرب کی ہوائیں، اللہ والوں کی آغوشِ محبت کی ہوائیں ہماری روح کی اُس چوٹ کو اُبھار دیتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں لگائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحبتِ اہل اﷲ سے آدمی کے دل میں نور اور اللہ کی محبت کا درد بڑھتا جاتا ہے اور دنیا کی محبت گھٹتی جاتی ہے، دنیا اسے مردار نظر آنے لگتی ہے، دنیا کی صحیح حقیقت کھلنے لگتی ہے، آنکھوں کا پانی اور موتیا دور ہوتا جاتا ہے اور آنکھیں بنتی جاتی ہیں، آدمی روز بروز دِل کی بصیرت سے دیکھتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کہاں سے کہاں پہنچ رہا ہوں

وہ ان کا رفتہ رفتہ بندہ بے دام ہوتا ہے

محبت کے اسیروں کا یہی انجام ہوتاہے

صحبتِ اہل اﷲ روح کی کلیوں کے لیے نسیمِ سحری ہے

تو میرے دوستو! اللہ والوں کی صحبت سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کی پرانی چوٹ اُبھر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اعظم گڑھ کی شبلی منزل میں تقریر کا شرف بخشا۔ اُس وقت پرنسپل سٹی کالج اور سارے پروفیسر موجود تھے تو میں نے سوچا کہ شبلی کالج کے بانی علامہ شبلی نعمانی ہی کا شعر پیش کردوں لہٰذا میں نے کہا کہ آپ لوگ اس کالج کے پرنسپل اور پروفیسر ہیں، آپ کے کالج کے بانی علامہ شبلی نعمانی جو علامہ سید سلمان ندوی رحمة اللہ علیہ کے استاد تھے انہوں نے ایک شعر کہا تھا

بوئے گل سے یہ نسیمِ سحری کہتی ہے

حجرہ غنچہ میں کیا کرتی ہے آ سیر کو چل

یعنی کلیوں میں جو خوشبو پنہاں ہے تو نسیمِ سحری یعنی صبح کی ہوا ان کلیوں سے کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خوشبو بند ہے وہ کب تک بند رہے گی، اب تیار ہوجاو اور میرے جھونکوں کی آغوش میں آجاو جو تمہاری مہر توڑ دیں گے اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ سیر کو چلو، خود بھی مہکو اور سب کو مہکاو، ذاتی خوشبو کو متعدی کر لو۔ ہماری روح کی کلیوں میں اللہ کی محبت کی جو خوشبو پوشیدہ ہے، اللہ والوں کی صحبتوں کی نسیم سحری کے جھونکوں سے وہ مہر ٹوٹ جاتی ہے ورنہ لوگ اللہ کی محبت کی امانت کو لیے قبروں میں چلے جاتے اور وہ خوشبو اُجاگر نہیں ہوتی، دل کے اندر ہی اندر دفن ہو کر رہ جاتی ہے، نہ خود مہکتی ہے نہ دوسروں کو مہکاتی ہے۔ میں نے کہا کہ اس شعر میں سلوک کا بہت بڑا درس ہے لہٰذا آج میں اسی شعر پر تقریر کروں گا کہ

بوئے گل سے یہ نسیمِ سحری کہتی ہے

حجرہ غنچہ میں کیا کرتی ہے، آ سیر کو چل

اور کلی کی خوشبو سیر کو کب چلے گی؟ جب اس کی مہر ٹوٹ جائے گی اور روح کی کلیوں کی یہ مہر اللہ والے توڑتے ہیں۔ نسبتِ باطنی تدریجاً نہیں اچانک عطا ہوتی ہے اور اس کی مثال میں حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جس طرح بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتاہے اور پندرہ سال میں ایک دن اچانک بالغ ہوجاتاہے، بلوغ میں تدریج نہیں ہوتی کہ آج چار آنہ بالغ ہوا، کل دس آنہ بالغ ہوا، آہستہ آہستہ بلوغ کی طرف منزل طے کرتا ہے اور جب پندرہ سال کا ہوجاتا ہے تو اچانک ایک دن احتلام ہوجاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک دن ایک قطرہ نکلا، دوسرے دن تین قطرے نکلے اور آخیر میں ایک دم سے کامل ہوگیا۔

حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح جسمانی بلوغ اچانک عطا ہوتا ہے اسی طرح نسبتِ باطنی بھی جب عطاءہوتی ہے آنِ واحد میں اچانک عطاءہوتی ہے، اس میں تدریج نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ جس کو صاحبِ نسبت بناتے ہیں، جس بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ اپنی نسبتِ خاصہ اور تعلق مع اللہ علی سطح الولایة عطا فرماتے ہیں یعنی ولایتِ خاصہ کے اعتبار سے جن کو اولیاءصدیقین والا تعلق دیتے ہیں اور اس تعلق خاص سے اُس کے دل میں اپنی تجلی فرماتے ہیں تو اُس کے دل میں حق تعالیٰ کی ذات متجلی ہوتی ہے اور یہ تجلی تدریجاً نہیں ہوتی اچانک ہوتی ہے اور مکمل ہوتی ہے جیسے دنیاوی بادشاہ آپ کے کمرہ میں آنا چاہے تو ایسا نہیں کرتا کہ ایک قدم اندر رکھے ایک قدم باہر، مہمان کیسے آتا ہے؟ اچانک آتا ہے اسی لیے خواجہ صاحب نے نسبت کے القاءپر یہ شعر فرمایا

یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی

پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی

عطاءنسبت کی علامات مع تمثیلات

اور اس عطاءنسبت کی علامت کیا ہے؟ اُس دن ساری کائنات سورج و چاند، بادشاہ اور سلاطین کے تخت و تاج، اہلِ دولت کی دولت نگاہوں سے گر جاتی ہے، یہ علامت خواجہ صاحب اپنے شعر میں پیش کرتے ہیں

یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی

پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی

جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی ذات متجلی ہوتی ہے اس کی نگاہوں میں پوری کائنات کے چراغ بجھ جاتے ہیں، دھیمے پڑجاتے ہیں، جب سورج نکلتا ہے تو کیا ستارے نظر آتے ہیں؟ اللہ کا سورج جب دل میں نکلے گا تو دنیا کے چاند سورج پھیکے نہ پڑ جائیں گے؟ خواجہ صاحب فرماتے ہیں

جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے

وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا

ایک مرتبہ خواجہ صاحب نے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ جب کسی کو نسبت عطاءہوتی ہے تو کیا اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اپنی نسبت عطاءفرمادی؟ سوال کرنے والے خواجہ صاحب تھے اور جواب دینے والے حکیم الامت۔ حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ نے دوستوں سے پوچھا تھا کہ یارو! بتاو میں بالغ ہوا یا نہیں یا خود پتہ چل گیا تھا، پس حضرت خواجہ صاحب مسکرائے اور سر کو جھکالیا اور اسی بات میں سب کچھ پالیا۔

حضرت حکیم الامت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس کو نسبت عطاءفرماتے ہیں تو جس طرح دنیادی حمل میں نو مہینے کے بعد شدید درد اُٹھتا ہے جس کو دردِ زہ کہتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کو حاملِ درد کرتے ہیں، حاملِ نسبت کرتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی محبت میں بے چین رہتا ہے، وہ اپنے دردِ محبت کو چھپا نہیں سکتا، وہ ہر وقت اﷲ ہی کے گن گاتا ہے اور اس کو پتہ چل جاتاہے کہ مجھ کو نسبت عطا ہوگئی۔ دریا میں پانی بہے تو کیا دریا کو پتہ نہیں چلے گا؟ ایک دریا خاک اُڑا رہا ہے، اس میں پانی نہیں ہے، وہا ں سب علماءتقریر کررہے ہیں کہ اے دریا پانی کے یہ یہ فوائد ہیں تو دریا کہتا ہے کہ ہمیں تو خاک ہی اُڑانا نصیب ہے، تمہاری تقریروں سے ہمیں پانی تو نہیں مل رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بارش کردی اور دریا پانی سے بھر گیا پھر علماءپانی پر تقریر کرنے پہنچے تو اس نے کہا کہ اب تقریر کی ضرورت نہیں، میرے اندر لبالب پانی بہہ رہا ہے۔ اس پر مولانا رومی رحمة اللہ علیہ کا شعر ہے

باز آمد آبِ من در جوئے من

باز آمد شاہِ من در کوئے من

میرا پانی میرے دریا میں پھر آگیا اور میرا شاہ میری گلی میں پھر آگیا یعنی مجھے اﷲ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوگیا۔ اس شعر میں قبض کے بعد بسط کو تعبیر کیا ہے۔

حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ سے ایک مرتبہ خواجہ صاحب نے جونپور میں ایک سوال کیا کہ حضرت یہ جو صوفیاءکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھو اور صاحبِ نسبت کو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کا دھیان رہتا ہے تو کیا وہ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتے، ان کو ذہول نہیں ہوتا، جب ہر وقت ان کو اﷲ کا دھیان رہتا ہے تو پھر وہ دنیا کا کام کیسے کرتے ہیں، پھر وہ تیل کپڑا کیسے بیچیں گے، مُدَرِّس پڑھائیں گے کیسے اور شادی بیاہ کیسے ہوگا؟ حضرت تھانوی نے فرمایا کہ خواجہ صاحب دیکھو! وہ دو عورتیں پانی بھر رہی ہیں اور پانی کا ایک گھڑا ان کے سر پر ہے اور ایک بغل میں ہے تو بغل میں جو گھڑا ہے اس کو تو انہوں نے دبایا ہوا ہے لیکن سر پر جو گھڑا ہے اس کو پکڑا ہوا نہیں ہے اور بایاں ہاتھ ہلاتی ہوئی، گفتگو کرتی ہوئی، ہنستی بولتی جارہی ہیں اور دونوں کے سر پر جو گھڑے ہیں وہ ایسے ہی قائم ہیں وہ سر سے گرتے نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ خواجہ صاحب نے کہا کہ حضرت آپ ہی بتا دیجئے۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کے دل میں دھیان قائم ہے کہ میرے سر پر گھڑا ہے، اگر یہ دھیان ختم ہوجائے تو گھڑا زمین پر آجائے لہٰذا کتنا ہی ہنسیں، کتنی ہی گفتگو کریں لیکن دھیان لگا ہوا ہے کہ میرے سر پر گھڑا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے جو اولیاءہوتے ہیں ان کو جس حالت میں دیکھو چاہے ہنس رہے ہوں یا رو رہے ہوں ہر وقت ان کو اللہ کا دھیان قائم ہے، ہنسنے میں بھی ان کے دل کا دھیان اللہ کی طرف رہتاہے ۔

مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے مجھ سے یہ روایت فرمائی، میرے اور ان کے بیچ میں کوئی اور راوی نہیں ہے کہ جب میں حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے انتقال کے بعد تھانہ بھون حاضر ہوا تو خواجہ صاحب مولوی شبیر علی صاحب کے دفتر کے دروازہ کی چوکھٹ پکڑے رو رہے تھے، مجھ کو دیکھ کر اور روئے اور پھر یہ شعر پڑھا

چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا

نہ ہم نے شاخِ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا

مطلب یہ کہ ہم ایسے عاشق ہیں کہ ہم نے اپنا آشیاں نہیں چھوڑا، آج بھی اس کی چوکھٹ پکڑے کھڑے ہیں، چمن کا رنگ تو بدل گیا، حکیم الامت دنیا سے چلے گئے لیکن ہم اس آشیاں کو نہیں چھوڑ سکتے، پھول تو چلا گیا مگر شاخِ گل تو ہاتھ میں ہے، خانقاہ تھانہ بھون تو ہاتھ میں ہے۔ اسی لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ کو بنوا دے، جس طرح میرے شیخ شاہ ابرار الحق صاحب کی تمنا اور دعا سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے کرم سے کراچی کی خانقاہ بنوادی ہے۔ یہ آپ کی خانقاہ ہے، اختر کی نہیں ہے، یہ سارے سالکین کے لیے اللہ اللہ کرنے کی جگہ ہے جیسے آپ لوگ یہاں اللہ اللہ کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی تعمیر بھی کرادے تاکہ جب ہم لوگ دنیا میں نہ رہیں گے تو بعد میں بھی یہاں طلبہ سالکین آئیں گے اور اﷲ اﷲ کریں گے۔

خانقاہ تھانہ بھون کی اجمالی تاریخ

تھانہ بھون کی خانقاہ کس نے بنوائی تھی اور کس طرح بنوائی تھی؟ آج خانقاہ تھانہ بھون کی تاریخ بھی سن لیجئے! اصل میں یہ خانقاہ حاجی امداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے پیر میاں جی نور محمد رحمة اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ ایک زمیندار مقدمہ میں پھنسا ہوا تھا، اس کی ساری جائیداد داو پر لگ گئی تھی، وہ حضرت میاں جی نور محمد صاحب رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضرت میرے لیے دعا کردیں کہ میں مقدمہ میں جیت جاوں، اگر فیصلہ میرے خلاف ہوگیا تو میری ساری جائیداد ضبط ہوجائے گی، میں بالکل تباہ ہوجاوں گا۔ میاں جی نور محمد رحمة اللہ علیہ وہ شخصیت ہیں جن کے متعلق سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حاجی امداد اللہ صاحب کو خواب میں حکم دیا کہ جاو ان سے بیعت ہوجاو حالانکہ میاں جی ایک چھوٹی سی مسجد میں قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے لیکن واہ رے میاں جی

پیا جس کو چاہے سُہاگن وہی ہے

جس کو محب چاہے وہی اصلی محبوب ہے، کوئی عورت لاکھ خوبصورت ہو لیکن اگر شوہر اس کی طرف نظر نہیں کرتا تو اس کی ساری زندگی روتے ہوئے گذرتی ہے، اس کا سارا حسن بے کار ہوجاتاہے اور اگر عورت کالی کلوٹی ہے مگر شوہر اسے پیار کرتاہے تو حسین عورت نے اس کالی کلوٹی عورت سے کہا کہ میں تو اتنی حسین ہوں پھر بھی میرا شوہر مجھے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا اور تو کالی کلوٹی ہے مگر تیرا شوہر تجھ سے پیار کرتا ہے تو اس عورت نے کہا

پیا جس کو چاہے سُہاگن وہی ہے

لہٰذا بعض اوقات بڑے بڑے اِشراق و اوّابین پڑھنے والے کسی غلطی اور جرم کی وجہ سے اللہ کے یہاں مبغوض ہوتے ہیں اور بعض اوقات کم نفل پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی ادا کی وجہ سے محبوب ہوتے ہیں۔ لہٰذا اعمال پر نظر مت کرو، اعمال تو کیجئے مگر نظر رحمت پر ہو کہ کام اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہی سے بنے گا۔

خانقاہ کے معنیٰ

ایک مرتبہ ایک سائل نے مجھ سے پوچھا کہ آپ جو خانقاہیں بنوا رہے ہیں تو خانقاہ کے معنیٰ کیا ہیں؟ میں نے غیاث اللغات میں دیکھا تو اس میں خانقاہ کے معنیٰ لکھیں ہیں جائے بودنِ دُرویشاں یعنی فقیروں کے رہنے کی جگہ، جہاں چند فقیر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں چاہے وہ دریا کا کنارہ ہو یا جنگل ہو وہی خانقاہ ہے۔ حضرت شاہ عبدالغنی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک عورت نے ایک عورت سے پوچھا کہ بہن فوج کسے کہتے ہیں؟ اس نے ہنس کر کہا ارے تیرا مرد ہوا، میرا مرد ہوا، اِس کا مرد ہوا، اُس کامرد ہوا فوج بن گئی تو ایسے ہی خانقاہ ہے، ایک دُرویش گیا دوسرا دُرویش آگیا، کوئی سلہٹ سے آگیا کوئی برماسے آگیا، چند دُرویش بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے لگے اور بس خانقاہ تیار ہوگئی۔

تو حضرت میاں جی نے زمیندار سے فرمایا کہ تم اپیل دائر کردو میں دعا کرتا ہوں لیکن خانقاہ بنانے کا وعدہ کرو، حضرت میاں جی اپنے مرید کے لیے وعدہ لے رہے ہیں، بعض اوقات شیخ اپنے مرید پر فدا ہوتاہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ پاک کی اﷲ تعالیٰ تعریف فرمارہے ہیں حَرِیص عَلَیکُم اے صحابہ! میرا نبی تم پر حریص ہے اور حریص کی تفسیر علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں یہ کی ہے کہ حَرِیص عَلٰی اِیمَانِکُم وَصَلاَحِ شَانِکُم یعنی میرا نبی تمہارے ایمان پر اور تمہاری اصلاحِ حال پر حریص ہے۔

(جاری ہے)
Flag Counter