Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

7 - 756
دسواں غریبہ
’’درتحقیق تسبب رفع صوت برائے حبط اعمال‘‘
سورئہ حجرات قولہ تعالیٰ: ’’یا ایہا الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم الی قولہ تعالیٰ ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون۔‘‘
احقر نے اپنی تفسیر میں اس مقام پر اولاً لکھا تھا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات رفع صوت الی قولہ گو اور معاصی موجب حبط نہیں ہوتے‘‘ لیکن یہ اس عام میں سے مخصوص ہے۔ ثم الی قولہ لاتشعرون کے یہی معنی ہیں اور اس تقریر پر جو شبہ ہوسکتا تھا کہ اس میں تو

معتزلہ و خوارج کے استدلال کی بھی گنجائش نہ رہی، الی قولہ غایت مافی الباب ایک معصیت کو بھی حابط اعمال کہنا پڑے گا سو اس موجبہ جزئیہ کی نقیض کوئی سالبہ کلیہ منصوص نہیں۔ ثم الی قولہ قائل ہونا ارجح ہے، یہ تھی تقریر مقام کی جو تفسیر میں اختیار کی گئی تھی، مگر بعد میں اس میں یہ جزو قلب میں کھٹکنے لگا کہ اہل سنت کے اس قاعدہ کو جو ظاہراً عام معلوم ہوتا ہے کہ معاصی حابط اعمال نہیں مخصوص کہنا پڑے گا، جس پر بجز ضرورت توجیہ قریب آیت کے اور کوئی دلیل نہیں اور چونکہ دوسری توجیہات بھی محتمل ہیں، اس لئے احتمال کے ہوتے ہوئے اس ظاہر کا دلیل بننا مشکل ہے اور بلادلیل تخصیص کا دعویٰ مشکل اس لئے ایسی توجیہ کی تلاش ہوئی جس میں تخصیص کا بھی قابل ہونا نہ پڑے اور آیت میں بھی کسی بعید تاویل کا ارتکاب کرنا نہ پڑے، پس متعدد تفاسیر میں بھی تلاش کیا گیا اور دوسرے احباب سے بھی مشورہ کیا گیا، مگر میرے قلب کو کسی توجیہ سے شفا نہ ہوئی آخر حضرت مولانا رومیؒ کے کلام سے جناب باری تعالیٰ میں دعا کرکے استداکی ان کے کلام میں کوئی ایسا مضمون ظاہر فرمادیجئے جو اس آیت کی تفسیر میں معین ہوجائے، یہ دعا کرکے جو مثنوی کھولی تو دوسرے اشعار مناسبہ کے ساتھ یہ شعر نکلا:
چوں دل آں شاہ زین ساں خوں بود
عصمت وانت فیہم چوں بود
جس میں بہت ہی تھوڑا تامل کرنے سے فوراً قلب میں تقریر ذیل وارد ہوئی وہ یہ کہ بے ادبی اور گستاخی سے جبکہ بقصد ایذا رسول نہ ہو صرف گناہ ہی ہوگا، مگر چونکہ یہ سبب ہوگا انبیاء و رسول کا :’’وینطبق علی قول میلانا زیں سان خوں بود‘‘ اور ایذا رسول حق تعالیٰ کے نزدیک اس قدر مبغوض ہے کہ بعض اوقات وہ سبب ہوجاتا ہے خذلان وعدم توفیق و عدم حفظ حق للعباد کا ’’وینطبق علی قول مولانا عصمت چوں بود‘‘ اور یہ خذلان سبب قریب ہوجاتا ہے وقوع فی الکفر الا اختیاری کا اور کفر کا حابط اعمال ہونا معلوم ہی، پس معنی یہ ہوئے کہ تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رفع صوت و جہر بالقول مت کرو، کبھی ایس انہ ہو کہ آپ کو تکلیف پہنچے جس سے تم مخذول ہوجائو اور اس خذلان کے سبب خدانخواستہ تم قصداً کفر کے اعمال کرنے لگو اور جس وقت تم رفع صوت و جہر بالقول کے مرتکب ہوئے تھے اس وقت تم کو اس تسبب رفع و جہر للکفر بواسطہ تا ذی رسول و خذلان حق کی خبر اور اس کا احتمال بھی نہ تھا کیونکہ اس کے ارتکاب کا کب احتمال ہوسکتا تھا۔
 پس میں نے جو کہا ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو الخ یہ حاصل ہے: ’’ان تحبط بتاویل مخافۃ ان تحبط‘‘ کا اور یہ جو کہا ہے اس وقت الی قولہ خبر اور اس کا احتمال بھی نہ تھا یہ حاصل ہے: ’’وانتم لاتشعرون‘‘ کا پس اس تقریر پر کسی معصیت کا حابط بلاواسطہ ہونا بھی لازم نہ آیا اور اسی حبط بلاواسطہ ہی کی اہل سنت نے نفی فرمائی ہے اور اس معصیت کا دوسرے معاصی سے اشد ہونا بھی جو کہ مفہوم عن المقام ہے، ثابت ہوگیا کہ دوسرے معاصی میں اس شان کی وعید نہیں آئی۔ الحمدللہ! اس تقریر سے سب غبار صاف ہوگئے اور لفظاً بھی کسی تکلف کا ارتکاب کرنا نہیں پڑا۔ وہذا من فضل اللہ تعالیٰ ثم من برکات مولانا ؒ۔ (۲۹؍محرم ۳۴)
نیز اشرف علی عارض ہے کہ تقریر بالا میں جملہ حالیہ ’’وانتم لاتشعرون‘‘ کی مقارنت عامل کے ساتھ حکمیہ ہوگی، اس کے بعد ایک تقریر اس حال کی مقارنت حقیقیہ کی ذہن میں آئی جس کو ہنوز ضبط نہ کرنے پایا تھا کہ مشفقی مولوی حبیب احمد صاحب نے مجھ کو لکھ کر دکھلائی چونکہ وہ بالکل وہی تقریر تھی جس کو میں لکھنا چاہتا تھا، اس لئے میں اس میں بالکلیہ متفق ہوا اور ذیل میں اس کو نقل کیا جاتا ہے۔ وہو ہذا چونکہ ’’وانتم لاتشعرون‘‘ حال ہے ’’ان تحبط اعمالکم‘‘ سے اس لئے مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے کہ عنوان بیان یہ ہو پس معنی یہ ہوئے کہ تم رفع صوت و جہر بالقول مت کرو مبادا اس کی شامت سے تمہارے اعمال حبط ہوجائیں (اس طرح کہ رفع صوت و جہر بالقول موجب ایذا ئے 
Flag Counter