Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

50 - 756
نمبر۱۔تو اب یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کے پاس سوائے نوٹ کے کچھ نقد نہیں ہے، اس کے اوپر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہئے۔
نمبر۲۔اسی طریقہ سے یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زکوٰۃ میں نقد روپیہ بذریعہ ڈاک روانہ کیا اور مرسل الیہ کو روپے کی عوض نوٹ ملے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی یا نہیں؟ 
نمبر۳۔بہشتی زیور میں یاد پڑتا ہے کہ جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ نوٹ کو کمی زیادتی میں نہیں بیچ سکتے ،جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نوٹ اور روپیہ ایک چیز ہے۔
نمبر۴۔تو اس صورت میں نوٹ زکوٰۃ میں بھی ادا ہوسکتا ہے اور زکوٰۃ بھی نوٹ پر واجب ہوسکتی ہے ؟
نمبر۵۔آجکل چونکہ رمضان میں زکوٰۃ دینے کا وقت آیا ہے اور یہاں لوگوں کے پاس اکثر نوٹ ہیں، نقد روپیہ نہیں ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
الجواب :
نمبر۱۔یہ شبہ غلط ہے، اس لئے کہ یہ نوٹ جس روپے کی سند ہے، وہ تو مال ہے جو بذمہ گورنمنٹ قرض ہے ،اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
نمبر۲۔جب وہ اس نوٹ کو نقد بنا کر قبضہ کرلے گا ،اس وقت زکوٰۃ ادا ہوگی۔
نمبر۳۔یہ معلوم ہونا غلط ہے ،کمی بیشی کے ناجائز ہو نے کی بنا یہ نہیں ہے کہ دونوں ایک حکم میں ہیں ،بلکہ اس کی بناء یہ ہے کہ یہ کمی بیشی حوالہ میں بھی درست نہیں اور نوٹ کا معاملہ حوالہ ہے۔
نمبر ۴۔یہ تفریع غلط ہے ،جیسا اوپر معلوم ہوا۔
نمبر۵۔یہ کرنا چاہئے کہ خود اگر دیں تو اوّل اس نوٹ کو نقد بنادیں اور وہ نقد مساکین کو دیں یا یہ کریں کہ اس نوٹ کا کپڑا یا غلہ خریدیں اور وہ کپڑایا غلہ زکوٰۃ میں دیںیا ایسا کریں کہ جس مسکین کو مثلا دس روپیہ کا نوٹ دینا چاہیں ،اس سے کہیں کہ تو کہیں سے دس روپیہ نقد لے آ، جب وہ لاوے تو اس سے کہیں کہ تو اس روپے کی عوض ہمارا یہ نوٹ خریدلے، جب اس خرید کی رو سے اس زکوٰۃ دینے والے کے پاس نقد روپیہ آجائے تو وہ نقدر وپیہ اس مسکین کو دے دیں ،پھر وہ اپنا قرض خواہ نوٹ سے ادا کردے، خواہ نقد سے ادا کردے، دوسرے شخص کے ذریعہ سے ادا کریں تو ایسے شخص کو وکیل بنا ویں جو ان طریقوں کو سمجھتا ہو اور ان کے ذریعہ سے ادا کردے ۔
(نوٹ)یہ میں نے بہت واضح کرکے لکھا ہے ،مگر میرا گمان یہ ہے، تا وقتیکہ آپ کسی عالم سے اس خط کو زبانی نہ سمجھ لیں، سمجھنے میں غلطی ہوگی۔۶رمضان ۱۳۳۷ھ
سینتیسواں غریبہ
 درحل اشکال زیدت انجذاب الی الشیخ بہ نسبت انجذاب الی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم 
Flag Counter