Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

475 - 756
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ما ظھر منھا سے مراد ہیں اور نہ یہ کہ ان کا شف للغیر جائز ہے پھر ترجیح کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جبکہ تعارض ہو اور ہم بتلا چکے ہیں کہ اقوال مختلفہ اس کی تفسیر میں بطور تمثیل کے واقع ہیں نہ کہ بطور حصر کے اور دخول وجہ وکفین ما ظہر میں بدلالت التزامی ہے نہ کہ بدلالۃ مطابقی ۔ پس نہ ان میں تعارض ہے اور نہ ترجیح کی ضرورت۔ گویہ بات بہت ظاہر ہے اگر ہم مزید قطع حجت کے لئے کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود کبھی زینت ظاہرہ کی تفسیر مطلق ثیاب سے کرتیہیں۔ اور کبھی اس کی تفسیر میں صرف رواء بیان کرتے ہیں اور ثیاب کے زینت میں داخل ہونے پر خذوا زینتکم عند کل مسجد سے استدلال کرتے ہیں اور عبد اللہ بن عباس کبھی اس کی تفسیر میں صرف الکحل والخاتم کہتے ہیں اور کبھی الکحل والخدان اور کبھی الخاتم والمسکۃ اور کبھی الوجہ وکحل العین وخضاب الکف والخاتم اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفاسیر بطور تمثیل کے ہیں نہ کہ بطور حصر کے۔ میں نے ابنِ جریر کے کلام کو نقل کر کے اس پر اس لئے کلام کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوجائے کہ مشہور تفاسیرۃ کا مبنی کیا ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے۔ 
(۱۱)
	وقال ابن المنیر فی حاشیۃ الکشاف قولہ تعالیٰ ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن فتحقق ان ابداء الزینۃ بعینہ مقصود بالنھی لانہ قد نھی عما ھو ذریعۃ الیہ خاصۃ اذا الضرب بالارجل لم یعلل النھی عنہ احد لعلم ان المرأۃ ذات زینۃ وان لم تظھر (ای الزینۃ) فضلا ً عن مواضعھا ۱ھ یہ صاف دلیل ہے  اس بات کی کہ لا یبدین زینتھن میں تفصیل عورۃ وغیر عورۃ مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود سد ذرائع زنا ہے اور زینت سے اس کے حقیق معنی مراد ہیں نہ کہ اس کے مواضع ۔ 
(۱۲)
	وقال فی الکشاف فان قلت لم لم یذخر اللہ تعالیٰ الاعمام والاخوال قلت سئل الشعبی عن ذلک فقال لئلا یصفھا العم عند ابنہ والخال کذالک ومعناہ ان سائر القرابات یشرک الاب والابن فی المحرمیۃ الا العم والخال وابناء ھما فاذا ارٰاھا الاب فربما وضعہا لابنہ ولیس بمحرم فیدانی تصورہ لھا بالوصف نظرۃ الیھا ۔ وھٰذا ایضا من الدلالات البلیغۃ علی وجوب الاحتیاط علیھن فی التستر۔ 
	اب مقامِ غور ہے کہ جو خدا پردہ کے با ب میں اس قدر دور کیاحتیاط سے کام لئے وہ عین اس احتیاط کے موقع پرعورتوں کو کیسے اجازت دے گا کہ وہ عام طور پر نا محرموں کے سامنے چہرہ کھولیں یہ بھی دلیل ہے اس بات کی کہ لا یبدین زینتھن الا ماظھر منھا میں ابتداء سے کشف للغیر مراد نہیں بلکہ کشف فی نفسہ مراد ہے اس تفصیل کے پڑھنے کے بعد ہر ذیفہم اور منصف مزاج شخص کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ قرآن صرف اسی ایک آیۃ میں عورتوں اور مردوں کو غض بصر کا حکم دیتا ہے پھر عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بطور خود بھی اخفاء زینت واعضاء کا اہتمام رکھیں اور اسی زینت اور عضو کو کھولئے رہیں۔ جس کی شدید ضرورت ہے پھر لا یبدین زینتھن الا لبعولتھن الخمیں حکم دیتا ہیکہ وہ نا محرموں کو اپنا چہرہ وغیرہ تو درکنار اپنا پلہ تک نہ دکھائین۔ کیونکہ لباس بھی زینت میں داخل ہے پھر اس پر بھی بس نہیں کرتا ۔ اور لا یضربن بارجلھن میں حکم دیتا ہے کہ پلہ تو درکنار وہ نامحرموں کو اپنے زیوروں کی جھنکار بھی نہ سنائیں۔ پس اگر مسلمان اس قدر اہتمام پربھی پردہ کی 
Flag Counter