Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

468 - 756
میں بمعیار الضروری یتقدر بقدر الضرورۃ اس عارض کے سبب اسی قدر ان کی کشف کی اجاازت ہے پس یہ حکم عارض کے سبب ہے اور اصلی حکم وہی استتار ہے۔ پس استثناء کے یہ معنی ہیں نہ یہ کہ اصلی حکم بالقصد وجہ وکفین کا کشف ہو اور استتار کسی عارض سے ہو۔ اور اس کا احتمال کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مقام اپنے سیاق وسباق سے انسداد فتنہ کو مقصود بتلا رہا ہے۔ چنانچہ یغضضن اوریحفظن اورلا یحفظن اورلا یضربن اوربارجلھن سباس انسداد کی مقصودیت میں نص ہے۔ اور احادیث نے تو فتنہ کے اسباب بعیدہ تک کا انسداد کیا ہے تو ایسی حالت میں وجہ وکفین اور خصوص وجہ کا (جو کہ مبنی ہے تمام فتن کا اور اس کا انکار اجزاء آیت میں تعارض ہو جائے گا جو کہ ادنیٰ عاقل کے کلام میں بھی ممتنع ہے تو حکیم علی الاطلاق کے کلام میں کیسے جائز ہوگا اور یہ مسئلہ خود مستقل ہے کہ وجو استتار وجہ وکفین اور وجوب استتار بقیہ بدن یہ دونوں وجوب ایک نوع سے ہیں یا دو نوع سے مثل فرض علمی ومعلی کے جس کا مشہور عنوان یہ ہے کہ ان میں کون عضو عورت فی نفسہ ہے کون نہیں سو یہاں اس سے بحث نہیں۔ جو امر یہاں مقصود ہے یعنی مطلق وجوب استتار اس میں یہ سب برابر ہیں جیسے عورت غلیظہ وغیر عورت غلیظہ نفس وجوب ستر میں برابر جہیں مگر غلظ وعدم غلظ میں متفاوت ہیں اور چونکہ عادۃً ہاتھ سے کام کرنے میں اگر خاص طور پر خیال نہ رکھا جائے ۔ سر اور گلا کھل جاتا ہے اس لئے ولیضربن بخمرھن سے اس کا انتظام فرما دیا۔ پھر یہ حکم اصلی وجوب استتار وجہ کفین بناء بر اطلاق الفاظ آیت عام تھا شواب وعجائز کے لئے۔ آیت والقواعد من النساء الخ نے اس وجوب سے ئجائز کو مخصوص ومستثنیٰ کر دیا۔ گو استحباب ان کے لئے بھی ثابت ہے۔ لقولہ تعالیٰ وان یستعففن خیر لھن۔ باقی وجہ وکفین کے علاوہ بقیہ بدن کا وجوب استتار اب بھی عام ہے چنانچہ سروغیرہ کھولنا عجائز کے لئے بھی حرام اور آیت والقواعد الخ کو مخصص کہنے کا مبنی وہ اصولی قاعدہ ہے کہ جب خصوص کی دلیل کلام مستقل موصول ہو تو وہ دلیل عام کے لئے مخصص ہو جاتی ہے اور غیر معلوم التراخی حکم موصول میں ہے۔ پس بعد تخصیص حاصل حکم کا یہ ہوا کہ شواب کے لئے تو استتار وجہ وکفین بجز موقع حرج کے بحالہ واجب رہا اور عجائز کے لئے صرف مستحب ورنہ اگر شواب کے لئے وجہ وکفین بجز موقع حرج کے بحالہ واجب رہا اور عجائز کے لئے صرف مستحب ورنہ اگر شواب کے لئے وجہ وکفین کا کشف جائز ہوتا تو پھر آیت میں والقواعد کی تخصیص بیکار تھی اس تقریر سیاستدالل کا سقوط واضح ہوگیا اور یہ سب احکام اجانب کے اعتبار سے تھے اور محارم وامثالہم کا حکم دوسرے جملہ لا یبدین زینتھن الا لبعولتھن الخ میں مذکور ہوا ہے جس کی تقریر بیان القرآن میں ہے اس تقریر کے بعد بفضلہ تعالیٰ نہ کسی محقق پر کوئی اشکال واعضال رہا نہ کسی مبطل کے لئے مجال مقال کا احتمال رہا فقط۔ 
تنبیہ:
	 اور یہ سب تفصیل جواب یا عدم جواز انکشاف الاجانب یا للاقارب عورت کے فعل میں ہے باقی مرد کا جو فعل ہے نظر کرنا اس کا جدا حکم ہے یعنی جواز انکشاف جواز نظر کو مستلزم نہیں پس جس صورت میںعورت کو کسی عضو کا کھولنا جائز ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مرد کو اس کا دیکھنا بھی جائز ہو بلکہ وہ محل محترم میں یا احتمال شہوت میں بحالہ غض بصر کا مامور رہے گا۔ چانچہ خود آیت میں اس عدم استلزام کی دلیل موجود ہے یعنی مرد کا بدن بجز مابین السرہ والرکبہ جائز الانکشاف ہے مگر عورت کو پھر بھی حکم ہے یغضضن من ابصارھن خوب سمجھ لو فقط۔ ثانی ربیع الاول  ۱۳۴۷؁ھ
تقریر قولہ تعالیٰ لا یبدین زینتھن از مولوی حبیب احمد صاحب 
’’قال اللّٰہ تعالیٰ قل للمؤمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن 
Flag Counter