Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

465 - 756
آمنوا وجہ النھار واکفروا آخرہ لعلھم یرجعون ۔ ) نیز نہ اس میں ملت کا ہتک حرمت بھی ہے (من حجۃ اللہ البالغہ۔ )اس لئے اس کا تدارک صرف سیف سے تجویز کیا گیا اور مرتد چونکہ عادۃ ً محارب نہیں ہوتے صرف تذبذب وہتک کا ضرر اس کے حبس دائم سے دفع کر دیا گیا کہ عقوبت میں فطرۃ خاصہ زجر کا ہے ۔
	بہرحال قانون اسلام کا (مع رفع تمامی شبہات کے) اعتراض اشاعت اسلام بالسیف کے لئے دافع ہونا ظاہر ہوگیا جو کہ حقیقت شناسان اہلِ انصاف کی شفاء کے لئے کافی ہے مگر چونکہ اس وقت عام طور سے مادیت واخباریت کا اکثر طبائع پر رنگ غالب ہے اس لئے اسشبہ کے جواب میں سخت ضرورت اس کی بھی تھی کہ خود شارع علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے نائبان ذوی الاحترام یعنی ذمہ واعلان اسلام کے واقعات جزئیہ بھی ان اصول مذکورہ کی تائید وموافقت میں دکھلائے جائیں چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کر کے متعدد حضرات نے اس موضوع پر توجہ کی ہے لیکن علوم دینیہ میں مہارت نہ ہو نے کے سبب اکثر کے کلام میں خود وہ اصول وحدود جن کی تائید مقصود تھی متروک وفائت ہوگئے ہیں جس سے وہ تائید بالکل اس مثل کے مصداق ہوگئی یکے برسرِ شاخ بن می برید۔ تو اس طرح سے وہ ضرورت پھر باقی کی باقی رہی حق تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمادے مکرمی معظمی نبراس العلماء راس الفضلاء تاج الادباء سراج البلغاء حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب ناظم مدرسہ دار العلوم دیوبند دام ودامت بالفیوض والبرکات والمواہب کو جنہوں نے اپنے رسالہ اشاعتِ اسلام ملقب بہ ’’دنیا میں اس لام کیوںکر پھیلا‘‘ میں جس کے چند اجزاء اس وقتمیرے سامنے ہیں اس ضرورت کا حق بوجہ اکمل ادا فرمایا جس میں اولاً تمہید میں بقدر ضرورت اصول کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے اور ثانیاً واقعات صحیحہ کو ایسی خوبی کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ دلالت علی المقصود کے ساتھ انطباق علی الاصول کا پورا لحاظ رکھا ہے جس سے شائقان فروع وعاشقان اصول دونوں کو مستفید کرتا ہو اس شعر کا مصداق ہوگیا    ؎
بہار عالم حسنش دل وجان تازہ می دارد 

برنگ اصحاب صورت را ؟؟؟؟باب معنی را
	یہ تو اس کے معنوں اورمعانی کی کیفیت ہے پھر عنوان اور الفاظ میں سادگی اور حسن کو ایسے طور پر جمع کیا ہے کہ عبارت میں نہ فرسودہ قدامت ہے نہ مکلف آمودہ جدت جس سے وہ اس شعر کا مصداق ہوگیاہے ۔   ؎
دل فریبانِ نبائی ہمہ زیور بستند

دلبر ماست کہ باحسن خداداد آمد
	چونکہ میں ثناء سے زیادہ دعا کو اپنا وظیفہ سمجھتا ہوں اس لئے بجائے ثناء کے اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اے اللہ اس رسالہ کو نافع فرما اور شبہات کے لئے رافع فرما اسی وقت ختم پر مجھ کو یاد آیا کہ القاسم دور جدید کے کسی پرچہ میں مولانا اعزاز علی صاحب مدرس مدرسہ موصوفہ نے ایک مضمون شروع کیا تھا جس کا عنوان ’’اسلام سے لوگوں کو کس کس طرح روکا گیا‘‘ مناسبت تقابل کے سبب (جس کی مسلمہ خاصیت ۔ وبضدھا تتبین الاشیاء ) اس مقام پر اس کا ذکر کرنے کو بھی دل چاہا اس کو تلاش کر رہا تھا کہ القاسم بابت ماہ رمضان ۱۳۴۵؁ھ میں وہ بھی مل گیا اور اسی دوران میں القاسم ماہ ذیقعدہ  ۱۳۴۵؁ھ میں ایک اور مضمون مولانا ہی کا بعنوان ’’اشاعۃ اسلام کا تاریخی سلسلہ‘‘ ملا جس میں مضمون بالا یعنی مانعیت عن الاسلام کی تکمیل کا وعدہ اور ساتھ ہی دنیا میں اسلام کیوںکر پھیلا کی تتمیم کا وعدہ ذکر فرمایا ہے اس کے دیکھنے سے میرے سامنے تین نور جمع ہوگئے۔ یعنی مولاناالممدوح سابقاً کا اصل مضمون، مولانا الممدوح لاحقاً کا مضمون اشاعت جس کو اصل مضمون کا تتمہ کہنا مناسب ہے، ان ہی مولانا کا مضمون مانعیت جس کو اصل مضمون کا ضمیمہ کہنا مناسب ہے اور ہر نور نے ایک سرور پیدا کر کے یہ شعر صادق کر دیا۔    ؎
سرور فی سرور فی سرور

ونور فوق نور فوق نور

Flag Counter